پاکستانی فلمی صنعت جس کو لالی وڈ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اس کے آغاز سے لے کر اب تک کی داستان نہایت دل چسپ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ داستان پاکستانیوں کے تخلیقی جذبے کو بیان کرتی ہے تو بالکل دُرست ہو گا۔ لا لی وڈ کواپنے پچھتر برس کے سفر کے دوران درجنوں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور بیسیوں واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے فنون لطیفہ کی اس نگری کا وجود خطرے سے دوچار کر دیا، لیکن ہر مرتبہ لالی وڈ سے وابستہ تخلیق کاروں نے اپنی ہمت باندھی رکھی اور وہ فلمی صنعت کو بحرانوں سے نکالنے میں کام یاب رہے۔ لالی وڈ کی کہانی کو بیان کرنے کے کئی انداز ہو سکتے ہیں۔
زیر مطالعہ تحریر میں اس تاریخ کو لالی وڈ کے 1947سے شروع ہونے والے سفر کو ہر گزرتی دہائی کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔ فلمی صنعت کی اس کہانی کو پاکستان کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ نے جس انداز سے پچھلے پچھتر برس میں قارئین تک پہنچایا ہے ، اس سے پاکستان کے فنون لطیفہ، ثقافت اور سماج کو جاننے اور سمجھنے کا بہترین موقع میسر آیا۔ راقم بھی پاکستانی ثقافت کے اس سفر میں ایک مسافر کی طرح تمام تر معلومات اور جزئیات کو اپنے قارئین تک صحافت کی اقدار کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل لاہور، ممبئی، مدراس، کلکتہ اور پُونا فلموں کی تیاری کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔آزادی کے بعد لاہور کے فلم نگر کو آباد کرنے کے لیے جن تخلیق کاروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان میں لقمان، ملکہ ترنم نور جہاں، نذر، دائود چاند ، تنویر نقوی، آغا جی اے گل، نزیر، سورن لتا، انور کمال پاشا، حکیم احمد شجاع، باب عالم سیاہ پوش، استاد دامن ، دلجیت مرزا،لقمان ، شوکت حسین رضوی اور علائو دین شامل تھے۔
پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ تھی،اس کے ہدایت کاردائود چاند اور پروڈیوسر دیوان سرداری لال تھے۔ 1947 سے لالی وڈ کے جس فنی سفر کا آغاز ہوا، اس میں درجنوں مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔ فلمی صنعت کو ہر شعبہ میں تربیت یافتہ ہنر مندوں ، تخلیق کاروں اور اداکاروں کی ضرورت تھی۔
نئی مملکت میں فلمی صنعت کا ڈھانچہ کس نہج پر استوار کرنا ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال تھا۔ اس وقت جب پاکستان کے سرکردہ سیاسی اور سماجی افراد مہاجرین کی آباد کاری، آئین سازی، مالی مشکلات سے نجات اور نئی ریاست کی بنیادیں مستحکم کرنے میں مصروف تھے، فلمی صنعت سے منسلک تخلیق کار ریاست کی فنی اساس کو پروان چڑھا رہے تھے۔ یہ تمام افراد جن کا تذ کرہ کیا گیا ہے، انہوں نے پاکستان میں فنون لطیفہ کے لیے ایک نئی نرسری تیار کی۔
یہی وجوہ تھیں کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں لالی وڈ ایک طاقت ور ثقافتی آواز کے طور پر سامنے آیا۔ اداکاری کے شعبہ میں صبیحہ خانم، مسرت نزیر، سدھیر، سنتوش کمار ، درپن، کمال، نئیر سلطانہ، اعجاز درانی، شمیم آراء، نیلو، اسلم پرویز، الیاس کشمیری، آغا طالش، حبیب، بہار اور ان جیسے کئی لیجنڈز نے فن کی دُنیا میں اپنے سینئیرز کے ساتھ نئی پہچان قائم کی۔
پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ہیروئنز نہ صرف حَسین اور اپنے فن میں ماہر تھیں، بلکہ وہ معاشرتی اقدار کو بھی اپنی نجی اور پرو فیشنل زندگیوں میں ساتھ لے کر چلتی رہیں۔ صبیحہ خانم ، نئیر سلطانہ ، نیلو اور شمیم آراء نے فلموں میں ایسے یادگار کردار پرفارم کیے ، جو آج تک شائقین کو یاد ہیں۔ ان اداکارائوں نے اپنی پرفارمنس سے پاکستانی عورت کو درپیش مسائل اور مشکلات کا نہ صرف اظہار کیا، بلکہ ان کے حل کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔
پچاس کی دہائی کی فلموں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستانی فلمی صنعت کی اپنی ایک پہچان ہے اور ملک میں موجود تخلیقی ٹیلنٹ اس پلیٹ فارم کو استعمال کر کے اپنی صلاحیتوں کو دُنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ فلمی ہیروئنز کے ساتھ لالی وڈ کے ہیروز بھی شائقین میں بہت مقبول ہوئے۔ صبیحہ خانم ، سنتوش کمار، شمیم آراء ، اعجاز رانی، سدھیر اور نیلو کی فلمی جوڑیاں باکس آفس پر کام یابی کی ضمانت قرار پانے لگیں۔ چن وے، ڈوپٹہ، آواز، مجرم، پاٹے خان، طوفان ، نوکر، انتظار، دُلا بھٹی، یکے والی، سات لاکھ، چُھو منتر اور ناگن وہ فلمیں ہیں، جنھوں نے لالی وڈ میں فلم سازی کے نئے رجحانات کو جنم دیا۔ پچاس کی دہائی میں اردو فلموں کے ساتھ پنجابی سینما بھی اپنی مکمل شناخت کے ساتھ سامنے آیا۔
ساٹھ کی دہا ئی لالی وڈ کے لیے کام یابیوں کی نئی نوید لے کر آئی۔ فلموں کے موضوعات، ہدایت کاری کے انداز، کہانی کا سماج کے ساتھ ربط، اداکاری کاآہنگ اور موسیقی کا فن، اپنی نئی بلندیوں کو چُھونے لگا۔ اس دہائی کی کام یاب ترین فلموں میں گلفام، اولاد ، شہید، دامن، تیس مار خان، ڈاچی، فرنگی، آگ کا دریا، دل دا جانی، چن مکھناں ، بہن بھائی، دِیا اور طوفان، سالگرہ، مرزاجٹ، لاکھوں میں ایک، عندلیب ، زرقا، تیرے عشق نچایا، ہیر رانجھا، انجمن، رنگیلا اور انسان اور آدمی، وہ شاہ کار ہیں، جو سینماٹک کرافٹ کو ڈیفائن کرتے ہیں۔
لالی وڈ کو اپنے اس عروج میں جو نئے سٹارز میسر آئے، ان میں زیبا بیگم، محمد علی، وحید مراد، رانی، رحمان،شبنم، منور ظریف، عالیہ، ندیم اور ننھا شامل رہے۔ یہ فلمی دہائی صحیح معنوں میں اسٹارز کی دہائی تھی۔ ان ہیروز اور ہیروئنز کا سحر آج بھی طاری ہے۔ وحید مراد، ندیم اور محمد علی نے پاکستان میں فلمی ہیرو کی نئی پہچان متعارف کروائی۔ یہ ہیرو اداکاری کے فن کے تمام رموز پر مکمل طور پر عبور رکھتے تھے۔ ادکاری کی تمام اصناف کو جس انداز اور اسکیل پر ان ہیروز نے اپنے دوسرے ساتھی فن کاروں کے ساتھ پرفارم کیا، وہ فلمی کردار نگاری کا ایک نیا اور الگ باب ہے۔
فن کی خدمت کے ساتھ یہ تمام فن کار اپنی سماجی ذمے دارریوں کو احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ ان داکاروں نے لالی وڈ کی پاکستانی معاشرے میں نفوذ پزیری میں اہم کرادرادا کیا۔اب لالی وڈ ایک سماجی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ ان کام یابیوں میں شباب کیرانوی، ڈبلیو زید احمد، شریف نئیر، اے حمید، اقبال کشمیری، حسن طارق، جمیل مرزا، نذر الاسلام ، ریاض شاہد، قدیر غوری ، ایس سلیمان، حیدر چوہدری، پرویز ملک، اقبال یوسف، وحیدڈار، فرید احمداور نذر شباب، جیسے تخلیق کاروں کا ساتھ بھی حاصل تھا۔
ستر کی دہائی میں بھی لالی وڈ نے اپنی کام یابیوں کا سلسہ جاری رکھا۔ اگر چہ سقوط ڈھاکا کے فلم باکس آفس پر اثرات کافی گہرے تھے ، لیکن ممتاز، نِشو، بابرا شریف، چکوری، شاہد، ہمایوں قریشی، سلطان راہی، رانی، رنگیلا، محمد علی، زیبا، ندیم ، شمیم آراء، شبنم ، منور ظریف، سنگیتا، ننھا، مصطفٰی قریشی ،علی اعجاز، اور آسیہ نے اردو اور پنجابی فلموں کی کام یابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دہائی میں موضوعات کا بھی نیا پن نظر آیا۔
پنجابی سینما جس کو ’’ہیر رانجھا‘‘ کی کام یابی نے ایک نئی جہت دکھائی تھی، اب مزید ترقی کرنے لگا۔ بابرا شریف کی فلمی دنیا میں آمد اور اس کی بے ساختہ اداکاری نے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ وحید مراد کا اسٹارڈم مزید نکھر کر سامنے آیا۔ اگرچہ لالی وڈ کو انڈین فلمی صنعت سے اور ٹیکنالوجی کے نئے رجحانات کے باعث نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، لیکن منجھے ہوئے ہدایت کاروں کے سات نئے تخلیق کاروں نے بھی کمال مہارت کا مظاہرہ کیا۔ لالی وڈ کی داستان نو رجہان، مہدی حسن، مالا، رونا لیلٰی، احمد رشدی، اخلاق احمد، خواجہ خور شید انور، خواجہ پرویز، قتیل شفائی، رشید عطرے، طافو، روبن گھوش، مہناز، ریاض الرحمان ساگراور درجنوں دوسرے گلوکاروں ، موسیقاروں اور شعرا ء کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
اسی کی دہائی میں لالی وڈ میں پنجابی فلموں کے راج کا آغاز ہوا، جو نوے کی دہائی کے آخر تک جاری رہا۔ سلطان راہی، انجمن، مصطفٰی قریشی، رنگیلا، آسیہ، علی اعجاز، ممتاز ، غلام محی ا لدین، ،الیاس کشمیری اور دوسرے کئی فن کاروں کی فلموں ، کرداروں اور پرفارمنسز نے لالی وڈ کے فلمی رجحانات کو تبدیل کر دیا۔ سلطان راہی اور انجمن کی جوڑی فلموں کی کام یابی کی ضمانت بننے لگی۔
ان پنجابی فلموں میں معاشرتی ناانصافی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پنجابی سینما کے ساتھ اردو سینما میں شمیم آرا ء اور جاوید فاضل کی تخلیق کردہ فلموں نے ایک نیا تخلیقی آہنگ متعارف کروایا۔ 1990 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’بلندی‘‘ نے لالی وڈ کو ریما خان اور شان شاہد کی صورت میں دو نئے سپر اسٹارز دیے۔ اس دہائی میں صائمہ، مدیحہ شاہ، افضل خان ریمبو، میرا، صاحبہ، معمر رانا، ریشم ،سعود، نرگس اور بابر علی بھی فلمی دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کام
یاب رہے۔ فلمی ہدایت کاروں میں سنگیتا، سید نور، اقبال کشمیری، الطاف حسین، شہزاد رفیق اور مسعود بٹ نے باکس آفس پر کام یابیاں سمیٹیں۔ نوے کی دہائی کے آخر سے لالی وڈ پر زوال کے سائے نمودار ہونے شروع ہو گے۔ 2000سے 2007 تک لالی وڈ شدید ترین بحرانی کیفیات سے دوچار رہا۔ اس کی وجوہ کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلمی صنعت سے وابستہ افراد اس آرٹ کو بدلتے معاشرتی رجحانات کے مطابق برقرار نہ رکھ سکے اور گلوبلائزیشن ، ٹیکنالوجی ،سنیماٹک تجربہ کی تبدیل ہوتی نوعیت اور پاکستان میں وقوع پزیر ہوتی سماجی اور معاشی تبدیلیاں اس بحران کی ذمے دار تھیں، تو دُرست ہو گا۔
2007 میں ریلیز ہونے والی جیو اور ہدایت کار شعیب منصور کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ اور پھر 2011 میں فلم ’’بول‘‘ نے ایک بار پھر سے لالی وڈ کو ترقی کی جانب دھکیلا۔ اس وقت پاکستان میں لالی وڈ کی بحالی اور ترقی کا سفر جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں ریلیز ہونے والی قابل ذکر فلموں میں پنجاب نہیں جائو ں گی، جوانی پھر نہیں آنی، طیفا ان ٹربل، لال کبوتر، ڈونکی کنگ ، لوڈ ویڈنگ، نا معلوم افراد،وار، ایکٹر ان لاء، رانگ نمبر، منٹو، مور، جلیبی، سپر اسٹار اور ہومن جہاں وغیرہ شامل ہیں۔
اداکاروں اور تخلیق کاروں کی نئی کھیپ میں ہمایوں سعید، مایا علی، احمد علی اکبر، ماہرہ خان، فواد خان، علی ظفر، مہوش حیات، فہد مصطفٰی،نبیل قریشی، فضا علی، ندیم بیگ، بلال لاشاری، عاصم رضا، عزیز جندانی اور اظفر جعفری شامل ہیں۔ پاکستان میں اینیمیٹد فلموں کی تیاری، ملٹی پلکس سینما گھروں کی تعمیر اور فلم میکنگ کی ٹیکنالوجی کا استعمال وہ رجحانات ہیں، جو اب لالی وڈ کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔