دم مست قلندر مست مست، آجا تینوں اَنکھیاں اُڈیک دیاں، سانوں اِک پل چین نہ آوے، کسے دا یار نہ وچھڑے اور آفرین آفرین، جیسے لازوال گیتوں اور قوالیوں کے خالق بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار موسیقار اور قوال استاد نصرت فتح علی خاں اگرچہ ہم میں نہیں، مگر ان کے شان دار گیتوں، بے مثال دھنوں اور جدید طرز کی قوالیوں کی گونج برسوں تک ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی۔ استاد نصرت فتح علی خاں بلاشہ دنیائے موسیقی کے لیجنڈ تھے۔
انہوں نے مشرقی اور مغربی موسیقی کے ملاپ کے ذریعے ایک نئی طرز کی اختراع کی، جس کے باعث وہ مشرق اور مغرب میں موسیقی کی دنیا میں بے پناہ شہرت اور عزت کے حق دار قراردیئے گئے، جب کہ وہ موسیقی میں مزید نِت نئے تجربات بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبولیت اوراہمیت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تھا۔ استاد نصرت فتح علی خاں موسیقی کی دنیا میں بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور بین الاقوامی سطح پر ’’میوزک اکیڈمی‘‘ کا قیام ان کا بہت بڑا خواب تھا، جب کہ وہ پاکستان میں ذاتی فلم بنانے کے بھی خواہاں تھے۔ وہ خاص طور پر بھارت کے ساتھ ثقافتی سطح پر قریبی تعلقات کے شدید طرف داروں میں تھے۔
اسی لیے وہ آخری وقت تک پاکستان اور بھارت کے مابین ثقافتی رشتوں اور تعلقات کو استوار کرنے کے لیے عملی کام کرتے رہے۔ اپنی ناوقت رحلت سے کچھ عرصہ قبل وہ کراچی میں کچھ گیت ریکارڈکروانے آئے، تو ہم نے ان سے کسی نہ کسی طرح تھوڑا بہت وقت حاصل کر ہی لیا۔ ان سے کی گئی گفتگو قارئین جنگ کی دل چسپی کے لیے حاضرِ خدمت ہے اور اس انٹرویو کے ذریعے ایک بڑے فن کار کو خراج عقیدت بھی پیش کرنے کی ادنیٰ سی کاوش کی جارہی ہے۔
سوال: خاں صاحب ! آپ پڑوسی ملک سے ثقافتی تعلقات بڑھانے کے حق میں ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، جب کہ پاکستان کے بعض حلقوں میں آپ کے اس مؤقف کی مخالفت کی جا رہی ہے؟
جواب: مخالفت، ایسی کوئی خاص نہیں کی جا رہی، کچھ تنگ نظری یہاں ہے، کچھ تنگ نظری وہاں ہے۔ زیادہ تر لوگ اس بات کے حق میں ہیں کہ دونوں ممالک کے فن کارجلد روک ٹوک کے بغیر اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں، تاکہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔ ہم آرٹ کے ذریعہ ہی باہمی تعلقات آسانی کے ساتھ بڑھا سکتے ہیں۔
بھارت میں بھی ہم سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یک طرفہ ٹریفک کیوں؟ جب ہم پاکستانی فن کاروں کی پزیرائی کرتے ہیں، تو ہمارے فن کاروں پر پاکستان میں پابندی کیوں ہے؟ میں نے وہاں بھی یہی کہا تھا کہ اب بھی میرا مؤقف یہی ہے کہ فن کی کوئی زبان نہیں ہوتی، فن کی کوئی سرحدنہیں ہوتی اور فن کار کی پزیرائی بھی رنگ و نسل کے بغیر کی جانی چاہیے۔ فن ایک خوشبو کی مانند ہے، جسے پھیلنا چاہیے۔
سوال: کیا آپ ثقافتی طائفوں کے تبادلے مشترکہ فلم سازی کے حق میں ہیں، جب کہ ہمارے کلچر اور ان کے کلچر میں اب واضح فرق آچکا ہے؟
جواب: جب دیگر ممالک سے مشترکہ فلم سازی ہو سکتی ہے، تو بھارت سے کیوں نہیں؟ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ ہمیں اپنے فن کاروں پر اعتماد ہے، اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ ہمیں کسی سے خوف زدہ ہونے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اب ہماری اپنی ثقافت ہے ، مگر قیامِ پاکستان سے قبل ان کی اور ہماری ثقافت بھی ایک ہی تھی۔ ہاں مذہبی طور پر یقینا ہم پر کچھ پابندیاں ہیں، جو اس وقت بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔
اسلامی اقدار کا تحفظ ہمارے کلچر کا حصہ ہے، جب کہ فحاشی، بے راہ روی اور بے حیائی کو ہر مذہب میں بُرا تصور کیا جاتا ہے، ویسے بھی دُنیا کا کوئی مذہب ایسی اقدار کی ترغیب نہیں دیتا۔ بُرائی جس معاشرے میں بھی کی جائے گی یا دکھائی جائے گی، اسے کلچر کا حصہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ اچھی اقدار اور اچھی باتوں کے ساتھ مشترکہ فلم سازی سے پاکستانی فن کاروں کو بھی اپنے ٹیلنٹ آزمانے کے مواقع ملیں گے۔
ثقافتی طائفوں کے تبادلے سے دونوں ممالک کے فن کاروں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ بھارت میں سرکاری سطح کے پروگراموں میں ہمیں بُلایا گیا ہے، ہماری پزیرائی کی گئی، مگر ہماری شناخت اور پہچان پاکستان ہے۔ اسی حوالے سے ہر جگہ ہمارا تعارف کرایا جاتا ہے اور ہم نے بھی بیرونی ممالک میں اپنے وطن کے ناموس کی حفاظت کی ہے، جس سے ہمارے پاکستان کا نام روشن ہوا ہے۔
سوال: آپ نے پڑوسی ملک کی کئی فلموں کی موسیقی دی ہے، جب کہ پاکستان میں صرف ایک فلم کی موسیقی دی،آخر ایسا کیوں ہے؟
جواب: میں نے پہلے کبھی کئی بار کہا ہے اور اب ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میں پاکستان میں بھی فلموں کی موسیقی دینا چاہتا ہوں، مگر ذہنی ہم آہنگی کی کمی کے باعث ابھی تک ایسا نہ ہو سکا۔ ہدایت کار شمیم آراء کی فلم ’’پل دو پل‘‘کا میوزک اور گانے مکمل کراچکا ہُوں ، جب کہ پڑوسی ملک میں ’’آئو پیار کریں‘‘،’’کچے دھاگے‘‘اور کارتوس و دیگر فلموں میں میوزک دے چکا ہوں۔
سوال: آفرین آفرین کو بھارت میں بڑے بولڈ انداز میں پکچرائز کیا گیا ہے؟ اس بارے میں آپ کیاکہتے ہیں؟
جواب: مجھے بھی دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، مگر اب انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم نے تو انہیں آڈیو تیار کرکے دیا تھا ،ویڈیو انہوں نے خود بنایا ہے۔ اور ویڈیو میں انہوں نے کمرشل پہلو کو مدنظر رکھا، جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اب انہوں نے مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ ویڈیو بناتے ہوئے، وہ ہمیں بھی اعتماد میں لیں گے۔
سوال: پاکستان میں موسیقی کی اکیڈمی کے قیام میں آپ کی کوششیں کہاں تک پہنچی ہیں؟
جواب: پاکستان میں موسیقی کی اکیڈمی وقت کا تقاضا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد انٹرنیشنل سطح کی میوزک اکیڈمی قائم ہو اور حکومت اس سلسلے میں تعاون کرے، کیوں کہ اس کے بغیر میوزک اکیڈمی کا قیام مشکل ہے۔ ہم اس کی پلاننگ کر رہے ہیں۔
حکومت کو تجویز پیش کریں گے اورکوشش بھی کریں گے ، تاکہ ہمارے ملک میں موسیقی کی باقاعدہ تربیت کا کام جلد شروع ہو جائے، یہاں میں ایک خبر کی سختی کے ساتھ تردید کرنا چاہتا ہوں کہ اداکارہ ریشم مجھ سے گانا سیکھ رہی ہے۔ ریشم، فیصل آباد کی ضرور ہے اور اس سے اس حوالے سے شناسائی بھی ہے، مگر موسیقی سیکھنے والی بات بالکل غلط ہے۔
سوال: سُنا ہے کہ آپ کو امریکی شہریت مل گئی ہے اور آپ پاکستان چھوڑ رہے ہیں؟
جواب: میری شناخت میری پہچان پاکستان ہے ، میں پاکستانی شہریت کو دنیا کی تمام شہریت سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ امریکا میں مجھے گرین کارڈ ضرور ملاہے، مگر میں نے کبھی بھی وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں نے دوسال امریکا میں لوگوں کو موسیقی کی تربیت دی ہے اور وہاں بھی میرے کئی شاگرد موجود ہیں، مگر میری اصل شناخت اپنے وطن کے ذریعے ہی ہے۔
سوال: غلام فرید صابری برادران نے فنِ قوالی کو ایک نیا انداز دیا۔ آپ نے اس فن کو آگے بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
جواب: برصغیر میں قوالی ایک زمانے تک صرف کاموں تک محدود تھی اور قوالیاں صرف عرس کے موقع پر ہی پیش کی جاتی تھیں، یا سُنی جاتی تھیں۔ اب وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور لوگوں نے اسے جدید رنگ دیا۔ اس وقت میڈیا اتنا پاور فل نہیں تھا، مگر رفتہ رفتہ قوالی عام فہم ہوتی گئی۔ قوالیوں کو مقبول کرانے میں فلموں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔
ہر دور میں معروف قوالوں نے اپنی محنت اور لگن سے قوالیوں کے ذریعہ لوگوں کو گرویدہ بنایا اور جس نے جتنی محنت کی اس نے اتنا ہی نام کمایا۔ غلام فرید صابری برادران نے بھی اس کو بام ِعروج تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہر ایک کی گائیکی کا انداز جدا ہوتا ہے۔ مجھے صُوفیانہ کلام سے عشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے صوفیانہ کلام کو بڑی عقیدت اور دل کے ساتھ پیش کرتا ہوں ۔
سوال: آپ کی دُھنیں اکثر چوری کرلی جاتی ہیں، اس سلسلے میں آپ کیا پیش رفت کر رہے ہیں ؟
جواب: ہمارے ہاں جب تک کاپی رائٹ کا قانون عملاً نافذ نہیں ہوگا، چوری ہوتی رہے گی۔ بھارت میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ میری دُھنیں چوری کی گئی ہیں اور سب سے زیادہ انوملک نے چوری کی ہیں، جب کہ ندیم شیروان نے بھی میری دُھنوں کی نقل تیار کی ہیں، جب کہ ملاقات میں انہوں نے اس بات کی معذرت بھی گوارا نہیں کی۔
سوال: پاکستان میں فلمی صنعت نے وہ ترقی نہیں کی، جتنی بھارت نے کی ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جواب: ہماری فلمی صنعت میں پڑھے لکھے افراد کی کمی ہے، جس دن بھی پڑھی لکھی فیملیز نے آنا شروع کردیا۔ انڈسٹری ترقی کے گی، جب کہ کچھ تیکنیکی سہولتوں کا فقدان ہے، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ البتہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس کے صحیح استعمال کی ہے۔
سوال: فرصت کے اوقات میں آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب: اوّل توکام بہت ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی موقع ملتاہے، تو کسی نئی کمپوزیشن کی تیاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ویسے فرصت ملے تو میں کرکٹ میچ شوق سے دیکھتا ہوں اور اچھے شعراء کی کتابیں پڑھتا ہوں، کیوں کہ اچھی کتاب اچھا دوست ہوتی ہے۔ (یہ انٹرویویکم ستمبر ۱۹۹۷کو جنگ میں شائع ہوا)