• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کرکٹ کے حلقوں میں یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ جیت جنگ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دراصل یہ بات اس لئے کی جاتی ہے کہ جنگ سالہا سال سےکھلاڑیوں کے حق اور انصاف کی آواز بلند کرنے والا پلیٹ فارم ہے۔پاکستان کے کئی بڑے کھلاڑی اکثر یہ کہتے ہیں کہ جب میری خبر پہلی بار جنگ میں شائع ہوئی ناس کے بعد میں سلیکٹرز کی نظروں میں آگیا۔اسی طرح کئی کھلاڑی انصاف کے حصول کے لئے جنگ کا رخ کرتے ہیں۔یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے اردو اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو آج بھی مستند سمجھا جاتا ہے۔کرکٹ ہاکی،اسکواش اور دیگر کھیلوں کے منتظمین یہ بات بر ملا کہتے ہیں کہ ہمیں اس مقام پر پہنچانے میں روزنامہ جنگ نے اہم کردار ادا کیا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دُنیا کے سب سے بڑے اُردو اخبار جنگ کے بانی اور میر صحافت میر خلیل الرحمٰن کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے اور کرکٹ سے جنون کی حد تک لگائو رکھتے تھے۔ پاکستان میں اُردو کمنٹری کے بانی اور مبصّر منیر حسین مرحوم کے مطابق میر صاحب کا کرکٹ کےشوق کی وجہ سے جنگ کلب کی داغ بیل ڈالی گئی اور میر صاحب کی سرپرستی میں چلنے والے کلب کی جانب سے پاکستان کے اسٹار کھلاڑی شرکت کرتے تھے۔ کراچی میں ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی موجود تھا۔ ایک دور تھا جب باغ قائد اعظم میں جنگ کلب کا نیٹ روازنہ لگتا تھا۔ ہر کھلاڑی کے لئے یہ بات باعث فخرہوتی تھی کہ وہ جنگ کلب کی نمائندگی کریں۔ 

باقاعدگی سے روزانہ نیٹ پریکٹس میں کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو پالش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حنیف محمد، وقار حسن، وسیم باری اوربہت سارے کرکٹرز اس کلب کی نمائندگی کرچکے تھے۔ وسیم باری کو عالمی شہرت یافتہ کرکٹر بنانے میں جنگ کلب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میر صاحب کا کرکٹ کا شوق ہی تھا کہ انہوں نے ملک کے سب سے بڑے روزنامے میں کھیلوں کی خبروں، مسائل اور کھلاڑیوں کی ناانصافیوں پر صدائے احتجاج کو شہ سرخیوں سے جگہ دی۔ 

ہرمظلوم کھلاڑی اور آرگنائزر دادرسی کے لئے جنگ کے دفتر کا رُخ کرتا۔ میر صاحب کا لگایا ہوا پودا آج تناور درخت بن چکا ہے اور اس کے سائے میں کھلاڑیوں کے لئے آواز بلند کی جاتی ہے اور انہیں انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔میر صاحب کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ان کے بیٹے میر جاوید رحمن اور میر شکیل الرحمن بھی کرکٹ کی خبروں میں ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ان کی دی ہوئی پالیسی کی وجہ سے آج بھی جنگ میں کھیلوں کی خبروں کو شہ سرخیوں میں جگہ دی جاتی ہے۔

جنگ ایک اخبار کا نام ضرور ہے لیکن اس نام کے پس پردہ سوچ ہےجس نے اس اخبار کو پاکستان کو نمبر ایک اخبار بنایا۔ اس اخبار کے ذریعے کرکٹرز کی بریکنگ نیوز، کھلاڑیوں کی زندگی کے نت نئے پہلو اور سب سے بڑھ کر کھیلوں کو درپیش مسائل کو اُجاگر کیا گیا اور آج بھی اکثر کھلاڑی اور آرگنائزر اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لئے اسی مؤقر جاخبارکا سہارا لیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1994ء میں جب جاوید میاں داد نے کراچی پریس کلب میں روتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ 

اس کے اگلے دن جنگ فورم کے ہال میں سیکڑوں کرکٹ مداحوں کے سامنے جاوید میاں داد نے اپنی ریٹائرمنٹ کی اندرونی کہانی بیان کی جنگ فورم کی وجہ سے حکومت پر دباو بڑھا اور چند دن بعد اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے جاوید میاں داد کو بلا کر ریٹائرمنٹ واپس لینے کے لئے کہا بعد ازاں میان داد نے ریکارڈ ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 

جنگ ایک مشن کا نام ہے۔ دُنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کے دِلوں کی ترجمانی کرنے والا یہ اخبارملک کے سب سے مقبول کھیل کے مسائل اور کھلاڑیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو اپنے قارئین تک پہنچانے میں ایک قدم آگے رہتاہے۔ جنگ نے کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کی اور کرکٹرز کے لئے آواز بھی بلند کرنے میں پیش پیش رہا۔ کرکٹ بورڈ کے ایوانوں میں ہونے والی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا اورغریب کھلاڑیوں کو پاکستان ٹیم میں جگہ دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ کرکٹ گرائونڈز پر قبضہ ہو یا کرکٹ ٹیم کی سلیکشن ہر جگہ یہ اخبار دیگر ہم عصروں سے چار قدم آگے رہا اور75سال گذرنے کے بعد آج بھی جنگ دیگر اخبارات سے بازی لئے ہوئے ہے۔

مجھے کرکٹ کوریج کے لئے دُنیا بھر میں جانے کا موقع ملا ہے۔ بھارت، امریکا، کینیڈا، انگلینڈ ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقا، زمبابوے سری لنکا،متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش ہر جگہ جنگ کے چرچے سُنائی دیتے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں ہونے والی سیاست نے پاکستانی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن جنگ نے 75 سالوں میں اپنے قارئین کو مایوس نہیں کیا۔روزنامہ جنگ نے اپنی اشاعت کے آغاز سے آج تک ہر شعبہ ہائے زندگی کے حقوق کے لئے آواز بلند کی، لیکن ملک کے سب سے مقبول کھیل کرکٹ کی ترقّی میں بھی یہ اخبار پیش پیش رہا۔ 

اخبارات کا کام ہی خبروں کی اشاعت ہے لیکن جنگ نے کھلاڑیوں کے لئے کرکٹ ٹورنامنٹ کرائے۔ اسکول اور کالجوں کے لڑکے لڑکیوں کے لئے کوئز مقابلے اور اُبھرتے ہوئے کمنٹیٹرز کے لئے کمنٹری کے مقابلے کرائے۔ ان مقابلوں کے ذریعے کئی بڑے کمنٹیٹرز سامنے آئے جو آج بھی پاکستان میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ دُنیا بھرمیں ہونے والی انٹرنیشنل میچوں کی کوریج کو اپنے انداز میں شائع کر کے جنگ ہم عصروں سے ہمیشہ کی طرح آگے رہا۔

پاکستان کے بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ کے لئے اسپورٹس کے صفحات پرکالم تحریر کئے۔پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق کے جنگ میں چھپنے والے معرکتہ آراکالمز کو شائقین میں زبردست پذیرائی ملی۔ خبروں اور مسائل سے آگے جنگ نے اپنے اداریوں میں بھی کئی مسائل کو اُجاگر کیا اور کئی کھلاڑیوں کی دِلوں کی آواز کو آگے پہنچایا۔ انضمام کے علاوہ کئی بڑے کھلاڑیوں کی تحریں جنگ کی صفحات کی زینت بن چکی ہیں۔

پاکستان کے سب سے مقبول اخبار کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے 26 برس کا طویل عرصہ ہوا ہے۔ یہ ایک اعزاز ہی تھا کہ جنگ نے کوریج کے لئے پوری دُنیا میں بھیجا اور نئے نئے ملکوں سے نت نئی کہانیاں اور خبریں اپنے قارئین کو دیں۔ آج میں دعوے سے کہتا ہوں کہ غیرجانبدار ایڈیٹوریل پالیسی کی وجہ سے جنگ کی انتظامیہ نے نہ میری کسی خبر کو اشاعت سے روکا اور نہ کسی بیرونی دبائو میں آ کر کوئی ڈکٹیشن دی گئی نہ کبھی خبر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ 

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ اور ملک کے سپراسٹارز کھلاڑی اکثر جنگ میں حقائق پر مبنی خبروں اور تبصروں کی وجہ سے ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار انتظامیہ سے کیا لیکن انتظامیہ نے اپنے اُصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ کسی کے دبائو میں آ کر اپنے رپورٹر کو خبر نہ دینے کی ہدایت کی۔ یہ اسی اخبار کی قابل اور غیر جانب دار انتظامیہ تھی جس نے کسی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے تاہم دُوسری جانب اپنے اسٹاف کو یہ پیغام دیا کہ وہ جانب داری پر مبنی رپورٹنگ سے گریز کریں۔اور کسی کی کردار کشی سے گریز کیا جائے۔

26 مارچ 1992ء کو جب پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں انگلینڈ کو ہرا کر ورلڈکپ جیتا تو جنگ کی لیڈ اسٹوری تھی۔ پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا ملک بھر میں جشن، جنگ کے صفحہ اوّل پر پاکستان کی جیت کی خبریں تھیں۔ ستمبر میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کا دورہ ختم کرکے واپس گئی تو جنگ نے اسے لیڈ کے طور پر چھاپا۔ قبل کراچی میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو جنگ ہی تھا جس نے یہ خبر صفحہ اول پر بریک کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ سیریز ملتوی ہوسکتی ہے اگلے دن جنگ ہم عصروں پر برتری لے گیا اور سیریز ختم کردی گئی۔ 

جنگ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے اپنے قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر شعبے کی طرح کھیلوں کو بھی اہمیت دی۔ 28جولائی 1952ء کو پاکستان نے بھارت کو لکھنؤ ٹیسٹ میں شکست دے کر پہلا ٹیسٹ جیتا تو اس وقت بھی جنگ بازی لے گیا۔ صفحہ اوّل پر فضل محمود اور کپتان عبدالحفیظ کاردار کی تصاویر کے ساتھ نمایاں خبر شائع کی گئی۔ پاکستان کو ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے کا واقعہ ہو یا تاریخی فتوحات کی کہانی جنگ ہمیشہ فرنٹ فٹ پر رہا۔ 29 ستمبر کو جنگ کا وہ اداریہ پورے ملک میں موضوع بحث رہا جس میں عمران خان کی ریٹائرمنٹ پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ اداریے کا عنوان عمران خان پاکستان کا مایہ ناز فرزند تھا۔ 11جولائی 1992ء کو جنگ کے ایک اور اداریے کو بھرپور پذیرائی ملی۔’’ جانب دارانہ امپائرنگ کا شاخسانہ‘‘ کے عنوان سے اداریے میں انگلش امپائروں کی جانبدارانہ امپائرنگ سے پردہ اُٹھایا گیا تھا۔

اپریل 1993ء میں پاکستانی کھلاڑیوں پر منشیات کا مقدمہ واپس لینے کی خبر بھی فرنٹ پیج اسٹوری تھی۔ 29 مئی 1993ء کو وسیم اکرم کا برطانوی اخبار کو انٹرویو بھی پورے ملک میں دلچسپی اور حیرت سے پڑھا گیا جس میں انہوں نے گرنیڈا کے ساحل پر وقار یونس اور مشتاق کے ساتھ منشیات کے استعمال کا اعتراف کیا تھا۔ اخبار نے سچ بولنے پر وسیم اکرم اور وقار یونس کو 17 ہزار سات سو پائونڈ ادا کئے تھے۔ جون 2009ء میں لارڈز میں پاکستان نے سری لنکا کو شکست دے کر آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا تو اس وقت بھی جنگ نے لیڈ اسٹوری شائع کی اور مجھے لارڈز میں فائنل کی کوریج کرنے کا اعزاز ملا۔2017میں اوول میں سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستانی نے آئی سی سی چیمپنز ٹرافی جیتی تو میں وہاں بھی موجود تھا۔

بھارت کو بھارت میں شکست دینے کی کوریج اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرانے کی کوریج بھی جنگ کا اعزاز ہے، سب سے بڑا اعزاز 2010میں اسپاٹ فکسنگ کے بدنام زمانہ اسکینڈل کی خبر بریک کرنے پر ملا۔برطانوی اخبار نیوزآف دی ورلڈ سے ایک ماہ قبل میں نے یہ خبر جنگ میں دی کہ پاکستان کے کچھ کھلاڑی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اس خبر کی اشاعت کے ایک ماہ بعد محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف اس اسکینڈل کے مرکزی کردار نکلے۔کئی خبروں پر دہمکیاں بھی ملیں لیکن جنگ کی انتظامیہ ہر موقع پر ہمارے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔

کئی دہائیوں کے بعدملک کا سب سے بڑا اخبار کھیلوں کی ترقّی میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ روزانہ دُنیا بھر میں ہونے والی خبروں کی کوریج کے علاوہ اسکینڈلز ہوں یا آف دی فیلڈ کہانیاں بریک کرنے میں جنگ سب سے آگے رہا ہے۔ ہر ہفتے جنگ اسپورٹس میگزین میں دُنیا کے بڑے بڑے لکھاری اور کھلاڑیوں کی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ 75 سال کا یہ سفر آج بھی پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کرکٹ کے میدانوں سے کرکٹ بورڈ کے ایوانوں تک جنگ اپنے قارئین کو ہر خبر سے باخبر رکھے ہوئے ہے اور آج بھی اپنے ہم عصروں سے آگے ہے اور بلکہ بہت آگے ہے،کوئی مقابل نہیں دور تک بلکہ بہت دور تک۔۔۔

’’کرکٹ بہت کھیل لی، اب دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘

منیر حسن اورشمس الزماں سے بات چیت

قومی کر کٹ ٹیم کے سب سے زیادہ خوش قسمت کپتان موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے کھیل کے دور میں مختلف مواقعوں پر جنگ کو خصوصی انٹرویوز دئیے جس میں جس میں ان کی گئی گفتگو کے اقتباسات پیش خدمت ہے چار نومبر 1987 کو ورلڈ کپ کر کٹ ٹور نامنٹ کے موقع پر اس وقت کے کپتان عمران خان نے جنگ سے بات چیت میں کہاہے کہ میرے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا تعلق ٹیم کی ہار جیت سے نہیں ہے اگر خدانخواستہ ہماری ٹیم سیمی فائنل یا فائنل میں ہارجاتی ہے تو اس صورت میں بھی میری ریٹائرمنٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا، ورلڈکپ کے حصول میں اگر کوئی انیس بیس ہوئی تو کیا آپ ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر قائم رہیں گے دنیا کے اس عظیم آل راؤنڈرنے کہاہے کہ میں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر کیا ہے اور یہ فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب میرا کھیل پورے عروج پر ہے اور میں اس وقت بھی دنیا کا تیز ترین بولر ہوں۔ 

عمران نے کہا کہ اگر ویسٹ انڈیزکادورہ ورلڈکپ کے فوراً بعد ہوتا تو البتہ میں ٹیم کے ساتھ ضرورجاتا اور ریٹائرمنٹ نہیں لیتا کیونکہ میں اس وقت پورے فارم میں ہوتا ۔انہوں نے کہاکہ ٹیم مارچ میں ویسٹ انڈیز کادورہ کرے گی۔ اور ورلڈکپ اور ویسٹ انڈیز کے دورے کے دوران بہت بڑا" گیپ" ہے اور اس عرصہ میں" میں اپنے آپ کو فٹ نہیں رکھ سکتا"۔ جاوید میاں داد کپتانی کے لیے موزوں ہیں اور انہیں کپتانی کا تجربہ ہے وہ پہلے بھی پاکستانی ٹیم کی قیادت کرچکے ہیں، لیڈرشپ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن اس بات کا انحصار جاوید میاں داد پر ہوگا کہ وہ ٹیم کو ایک ہوکر کھلاتے ہیں یا نہیں ہماری ٹیم اب تک ایک ہوکر کھیلی ہے جس کے نتیجے میں ہم نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 

عمران کہتے ہیں کہ کسی کو بھی اپنی شادی کے بارے میں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی شادی کب اور کس لڑکی سے ہوگی۔پاکستان کی موجودہ ٹیم کے بارے میں عمران خان نے کہاہے کہ ایک سال پہلے یہ ٹیم نہیں بنی تھی لیکن اب ہمارے کھلاڑی تیار ہوچکے ہیں ٹیم کافی متوازن ہے ہمارے پاس ورلڈکلاس کے اسپنرز ہیں لیگ اسپنرعبدالقادر کا اس وقت دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے اس کھلاڑی نے پاکستان کی بیشتر کامیابیوں میں نمایاں حصہ لیا ہے،پاکستانی ٹیم پر منشیات کی اسمگلنگ اور ان پر (عمران) منشیات استعمال کرنے کےا لزامات کے بارے میں عمران نے کہاکہ قاسم عمر اور یونس احمد نے صرف پیسہ بنانے کے لیے اپنی " اسٹوری گھٹیااخبارات کو بیچی تھیں لیکن انگلینڈ کے بڑے اخبارات نے ان اسٹوریز کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ 

یونس احمد بھارت کے دورے کے بعد انگلینڈ کا دورہ کرنے کے لیے خواہشمند تھے لیکن جب انہیں انگلینڈ کے دورے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تو گند اچھالنے کے لیے یہ جھوٹی اسٹوری فروخت کی۔ کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے میچ کے اختتام پر عمران خان نے کہاکہ انہیں جس طرح شاندار انداز میں کراچی کے عوام نے تالیوں کی گونج میں الوداع کہاہے اسے وہ مدتوں یاد رکھیں گے۔ چار جنوری 1988 کو ممتاز مبصر منیر حسین سے بات چیت میں عمران خان نے کہا کہ اس لئے کہ میں 32سال کاہو چکا ہوں میرا خیال ہے میرے جیسے فاسٹ بولر کے لئے ریٹائرمنٹ کی یہ عمر مناسب ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے میری دوخواہشیں بھارت کو بھارت میں اور انگلستان کو انگلستان میں شکست دینا پوری کردیں۔ 

میری طبیعت میں چیلنج قبول کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میرے کچھ اصول بھی ہیں جن پر میں سختی سے عمل کرتا ہوں ،قومی تقاضے سیاست میں ہوتے ہیں کھیل میں نہیں، دیکھئے دکھی انسانیت کی خدمت ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو لوگ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں وہ اس معاشرے کیلئے عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ میںاب کرکٹ کھیلتے کھیلتے تھک چکاہوں۔ چاہتا ہوں کہ کچھ کام معاشرہ کے لئے کروں۔ میری خواہش ہے کہ مریضوں کو بہتر اور فوری علاج میسر ہو۔ میں اس ملک کے مخیر حضرات کے تعاون سے چھوٹے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ڈسپنسریاں قائم کرنا چاہتا ہوں یا اگر کوئی اسپتال اپنے لئے کسی مخصوص شعبے میں وسعت کرنا چاہتا ہوں یا زیادہ بستر مریضوں کو فراہم کرنا چاہتا ہے تو میں اس سلسلے میں ان کے لئے گائوں گائوں، شہر شہر او رگھرگھر جا کر عطیات جمع کرنے کیلئے تیار ہوں۔1992کے ورلڈ کپ میں جیت کے بعد جنگ سے بات چیت میں عمران خان نے کہا کہ والدہ سے موسوم شوکت خانم اسپتال کی تکمیل کے بعد موقع ملا تو ملک اور عوام کی قسمت بدلنے کے لئے سیاست میں قدم رکھوں گا۔