• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

11فروری 2022۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا کہ جمعہ کے مبارک روز سندھ اسمبلی میں سرکاری اور اپوزیشن ارکان، سب نے متفقہ طور پر 38 سال بعد درس گاہوں میں طلبہ یونینیں بحال کرنے کا قانون منظور کرلیا جو سندھ اسٹوڈنٹس یونین بل 2019کہلائے گا۔

1984 میں جنرل ضیاء الحق نے دوسری سفاکیوں کے ساتھ اس شقی القلبی کی بنیاد بھی رکھی کہ درس گاہوں میں طلبا یونینیں غیر قانونی قرار دے دیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں قیادت کی نرسریاں اجاڑ دی گئیں۔ ان کی جگہ لسانی، نسلی،فرقہ وارانہ،سیاسی بنیادوں پر قائم طلبا تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ سیاست داں، ذرایع ابلاغ اس پر شور مچاتے رہے۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی نے ملک بھر کی درس گاہوں کے سروے کے بعد طلبا یونینوں کی بحالی کی سفارش کی۔ لیکن 1988 سے آنے والی جمہوری حکومتوں میں سے کسی نے اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کے لیے باقاعدہ قانون سازی نہیں کی۔

سندھ اسمبلی کے قانون کے مطابق اسٹوڈنٹس یونین طلبہ کی ایک ایسی تنظیم ہوگی جسے کسی بھی درس گاہ میں کوئی بھی نام دیا جائے، لیکن اس کا نصب العین اپنے ارکان اور طلبا کی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کرنا ہوگا۔ طلبا کے جو بھی امور ہوں گے، ان کا خیال رکھنا اس کی ذمے داری ہوگی۔ یہ تنظیم سات تا گیارہ ارکان پر مشتمل ہوگی جنہیں طلبا ہر سال باقاعدہ منتخب کریں گے۔ہر طلبایونین کا ایک نام زد رکن درس گاہ کی سنڈیکیٹ، سینیٹ یا بورڈ میں رکن بھی ہوگا۔ قانون کے نفاذ کے دو ماہ کے اندر ہر درس گاہ یونین کے قیام کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرے گی۔ ہر درس گاہ میں ایک کمیٹی طالب علموں کی ہراسانی روکنے کے لیے قائم ہوگی جس میں دونوں صنفوں کی نمائندگی ہوگی۔

اس قانون کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غیر جانب دار، غیر سیاسی، غیر لسانی، غیر نسلی، غیر فرقہ وارانہ طلبایونین کا قیام ہر سیاسی مکتبِ فکر کی تمنّا ہے۔ اور یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ طلبا یونین کے قیام کے بعد کالجوں، یونیورسٹیوں میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں،لسانی اور نسلی فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم آرگنائزیشنیں طلبا یونین کے اختیارات،اقدامات اور لائحہ عمل پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔

اب سنجیدہ اور دانش مند حلقے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا طلبا اتحاد کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے گی؟ کیا طالب علم پھر ایک قوت بن سکیں گے؟ ان کو 1960 کی دہائی کے آخر میں جس طرح تقسیم در تقسیم کیا گیا، کیا ان سازشوں کا خاتمہ ہوسکے گا؟ طلبا یونین کی بحالی کے بعد کیا طالب علم تعلیمی بہبود کے لیے اپنی سرگرمیاں محدود کرسکیں گے؟ کیا طلبا تنظیمیں اب امتحانات میں نقل کی سرپرستی نہیں کریں گی؟ کیا بعض طاقت ور تنظیمیں اپنے ارکان اور حامیوں کو امتحان دیے بغیر کام یاب کرواسکیں گی؟ کیا امتحان میں وہ دوسروں کو بٹھاکر پرچے حل کروانا چھوڑدیں گی۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ 75 سال بعد بھی ہم اس بنیادی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں طالب علم ہمیشہ سیاسی، فکری،جمہوری جدو جہد کا ہر اول دستہ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے لیے بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پورے بر صغیر،اب (جنوبی ایشیا) کے طالب علموں نے بھرپور حصّہ لیا اور ایک الگ وطن کے حصول کے لیے اپنے بزرگوں کے شانہ بہ شانہ جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے رہے۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا تحریک پاکستان کی کام یابی میں نمایاں کردار ہے۔

پاکستان کا خواب حقیقت میں تو بدلا لیکن بہ قول فیض، جس سحر کی جستجو میں نکلے تھے یہ وہ سحر تو نہیں۔ جمہوریت اور عوامی حکمرانی کے قیام، جاگیرداروں، زمیں داروں، سرمایہ داروں کی مطلق العنانیت کے خلاف طلبا ہی سڑکوں پر نکلے۔ اس وقت ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ موبائل فون،انٹرنیٹ نہ ای میل۔ پرانے ٹیلی فون سے ہی رابطے ہوتے تھے۔ لیکن کوئی بھی حادثہ، سانحہ یا مطالبہ ہوتا تو کراچی سے کوئٹہ، خیبر واہگے تک، ادھر ڈھاکا سے چٹاگانگ تک تمام طلباسڑکوں پر آجاتے تھے۔ ان میں اتحاد تھا۔ دائیں بائیں کی، لسانی، نسلی تقسیم نہیں تھی۔

مجھے 1961 کی یاد آرہی ہے۔ جب بھارت کے شہر جبل پور میں مسلم کش فسادات ہوئے ۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، لوٹ مار ہوئی،بے شُمار مسلمان قتل کردیے گئے۔ اس قتل عام کے خلاف مغربی اور مشرقی پاکستان میں طلبا نے ہر شہر میں بھرپور مظاہرے کیے۔ تمام شہری بھی ان جلوسوں کا حصّہ بنتے رہے۔ اس وقت حکم انوں اور حکم راںطبقات کو طلباکی طاقت سے خوف پیدا ہوا۔ اس کے بعد ہی یہ طاقت تقسیم کرنے کی سازشیں بڑے پیمانے پر مسلسل ہوتی رہیں۔

جنوری 1953کا دوسرا ہفتہ پاکستان کی تاریخ میں حقیقی جمہوری انقلابی جدو جہد کانقطۂ آغاز کہا جاسکتا ہے جب ریاست نے طلبا پر اپنی بربریت کا مظاہرہ کیا۔ سیاسی جماعتوں کی نسبت طلبا میں جمہوری شعور زیادہ موجزن تھا۔ اسکولوں کے طلبا پر آنسو گیس برسائی گئی اور فائرنگ کی گئی۔یہاں وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی کار کو بھی آگ لگائی گئی۔

روزنامہ جنگ کی اس دن کی رپورٹ کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کہانی ’’سورج پر کمند‘‘ کی جلد دوم میں نمایاں طورپر دہرایا گیا ہے۔ مجھے اس وقت کے ایڈیٹرز اور رپورٹرز پر فخر محسوس ہورہا ہے کہ اخبار کی خبریں، اداریے تاریخ کا حوالہ بن رہے ہیں۔

8جنوری 1953 سے طلبا کی قربانیوں کا آغاز ہوتا ہے۔یہی واقعات پہلے ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بعد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام کی بنیاد بنتے ہیں۔ طلبا کی طاقت کوموثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس وقت پاکستان کے دارُالحکومت کراچی کے طلبا نے ہی کوششیں شروع کیں۔ 25دسمبر1953کو کٹرک ہال میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے طلبا کا نمائندہ اجتماع منعقد ہوا۔ 

یہیں حکومتی مداخلت کاروں نے ہنگامہ برپا کیا۔ انٹرکالیجیٹ باڈی(آئی سی بی) نے انتہائی منظّم طریقے سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں طلبا اور شہریوں کے مسائل کےلیے جدو جہد کی۔ یہیں کراچی کے وہ 12طالب علم رہنما بھی یاد آتے ہیں جنہیں کراچی بدر طلبا کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ کراچی سے یہ بارہ طلباجس شہر میں بھی پہنچتے وہاں سے بھی ڈپٹی کمشنر کے حکم پر شہر بدر کردیے جاتے تھے۔

میں ان دنوں گورنمنٹ کالج جھنگ میں بی اے کا طالب علم تھا۔ یہ سہ سالہ ڈگری کورس ہم پر ہی لاگو کیا گیا۔ پھر ملک بھر میں طویل احتجاج کے بعد ہم پر ہی ختم ہوگیا۔ ان کراچی بدر طلبا میں سے معراج محمد خان اور آغا جعفر جھنگ بھی پہنچے۔ ایک جلوس ان کی قیادت میں نکلا۔ پھر یہ دونوں جھنگ بدر بھی کردیے گئے۔

صدر جنرل محمد ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک بھی طلبا نے ہی شروع کی تھی۔ ان کی طاقت سے ہی مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت کو مقبولیت ملی۔ راول پنڈی میں ایک طالب علم، عبدالحمید کی شہادت بھٹو صاحب کی کام یاب تحریک کا نقطۂ آغاز بنی۔

کراچی بدر طلبا میں خرم مرزا،جوہر حسین، حسین نقی، امیر حیدر کاظمی، نواز بٹ، عبدالاحد بشیر، علی مختار رضوی، آغا جعفر، فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، نفیس صدیقی اور سعید حسن شامل تھےجو بعد میں پاکستان کے سیاسی افق پر ستاروں کی طرح تابندہ رہے۔ ان طلبا کی جدو جہد میں خلوص، دیانت داری اور بلند عزمی کے بارے میں کسی نے کبھی شکایت نہیں کی ہے۔1970کی طویل انتخابی مہم میں طلباکی طاقت دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم ہوکرکم زور ہوئی اور اس میں شدت پسندی کا عنصر بھی غالب آیا۔ بہت سے انتخابی جلسوں میں دائیں اور بائیں بازو کے طلبا، مزدوروں اور محنت کشوں میں باقاعدہ تصادم بھی کرائے گئے۔

بائیں بازو کے طلبا ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اورنیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے علم تلے آمریت، جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے خلاف صف آراء رہے۔ جان تک کے نذرانے پیش کیے گئے۔ حسن ناصر شہید تو پاکستان کے نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بن چکے ہیں۔ سیاسی شعور رکھنے والے ہر طالب علم کے ذہن میں روشنی حسن ناصر شہید کے دم سے ہے۔

’’سورج پر کمند‘‘ میں ذوالفقار علی بھٹو سے ایک تاریخی جملہ منسوب کیا گیا ہے:

’’ دنیا کے فیصلے واشنگٹن اور ماسکو میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کے فیصلے ڈائو میڈیکل کالج میں ہوتے ہیں۔‘‘

جمہوری منتخب حکومتوں کی بھی طلباکی قیادت اور طلبا کی تحریکوں سے مخاصمت رہتی تھی۔ کسی بھی حکومت نے طلباکی قیادت سے رابطہ کرکے ان سے مشاورت نہیں کی۔

1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد مشرقی پاکستان کے طلبا سے مغربی پاکستان کے طلبا کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس سے بھی طلبا کی قیادت کی طاقت میں بہت کمی آئی ۔

دائیں بازو کی پُر زور نمائندگی اسلامی جمعیت طلبہ، اسلامی جمعیت طالبات کرتی رہی ہیں۔ یہ بائیں بازو کے رہنما اور طالب علم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی یہ ذیلی تنظیم اپنے نظم و ضبط کے اعتبار سے بہت مضبوط ہے۔ اس کی کاروائیوں میں کبھی تعطل نہیں آتا۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں تو انہیں ریاستی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ درس گاہوں میں تصادم کے واقعات میں اسلامی جمعیت طلبہ ایک مرکزی فریق رہی ہے۔ میں بھی کراچی یونیورسٹی میں 5جنوری 1978 کو اس تنظیم کے تشدد کا نشانہ بن چکا ہوں۔اس کے باوجود میں ان کے اپنے نظریات اور حکمت عملی سے خلوص اور وابستگی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

1970 کے انتخابات پھر 1977میں جنرل ضیاء کے مارشل لا کی سفاکیوں کے بعد طلبا کی طاقت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی ہے۔1960کی دہائی میں ان کی جدو جہد جتنی آفاقی تھی اور قومی معیار رکھتی تھی، اب دائیں، بائیں، لسانی بنیادوں پر طلبا تنظیموں کے باعث علاقائی اور مقامی مسائل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اب انتہائی بڑے قومی،بین الاقوامی اور عالمی مسائل پر بھی کبھی طلبا متحد ہوکر باہر نہیں نکلتے ۔ فلسطین اور کشمیر کے شہدا کے لیے بھی الگ الگ جلوس نکالے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین انہیں اپنی ذاتی قیادت کی سربلندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

طلبا کی تنظیموں کی باہمی لڑائیوں میں دونوں طرف کے نوجوان خون میں نہلائے گئے ہیں۔ ان کی مائیں، بہنیں بین کرتی رہی ہیں۔ لیکن ہماری ریاست حکومتوں یامعاشرے نے کبھی اس ہلاکت خیز منظر نامے کو ختم کرنے کی حکمت عملی نہیں مرتب کی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں تعلیم کا معیار پست سے پست ہورہا ہے۔ جس طلبا تنظیم کا بھی سیاسی زور رہا ہے اس نے اپنے سرگرم کارکنوں کو امتحان دیے بغیر پاس کرایا ہے۔ 

جامعات میں اساتذہ کی تقرری میں بھی حکم راں پارٹی کی ذیلی تنظیم اپنا اثر و رسوخ بہ روئے کار لاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین، اسلامی جمعیت طلبا کے ہمیشہ شکر گزار رہے ہیں کہ اگر جمعیت و الےاے پی ایم ایس او پر کراچی یونیورسٹی میں دھاوا نہیں بولتے، تشدد نہیں کرتے تو ہم یونیورسٹی سے باہر نکل کر ایم کیو ایم نہیں بناپاتے۔

بائیں بازو کے طلباکے لیڈروں میں صبغت اللہ قادری، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، رشید حسن خان، یونس شرر، ڈاکٹر سرور، مسز ذکیہ سرور،انیتا غلام علی،لالہ رُخ انصاری،بیگم شمیم زین الدین، حمرہ واحد، مہناز رحمن، زلیخا واحد، حسام الحق، ڈاکٹر سجاد حسین،عبدالباری خان،جام ساقی،عابد حسن منٹو،ڈاکٹر رحمن علی ہاشمی،ڈاکٹر اختر احتشام،ڈاکٹر شیر شاہ،ڈاکٹر غفور کانسی،ڈاکٹر مرزا علی اظہر، سلیم عاصمی،عبدالحمید چھاپرا،احفاظ الرحمن، انجم رشید، خالد حمید فاروقی، زاہد حسین،راجہ انور،جہانگیر بدر، افرا سیاب خٹک، رازق بگٹی، حبیب جالب بلوچ، میاں رضا ربانی، سردار رحیم،خورشید حسنین،قیصر بنگالی، مصطفین کاظمی، مسرور احسن،پرویز رشید،شائستہ بیزار،ڈاکٹر عبدالمالک قابل ذکر رہے ہیں۔

دائیں بازو کے طالب علموں میں سید منور حسن، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر اسرار احمد،قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ،جاوید ہاشمی،شفیع نقی جامعی،اعجاز شفیع گیلانی ، شیخ محمد رشید، عبدالمالک مجاہد،احمد بلال محبوب، حافظ تقی، ظہور الحسن بھوپالی، دوست محمد فیضی، خوش بخت شجاعت شامل ہیں۔ یہ سب خواتین و حضرات ہمارے لیے لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے زندگی کا قیمتی حصّہ ایسی جدو جہد کی نذر کیاجو اپنے وطن اور معاشرے کی سر بلندی، ترقی، اپنے نظریات اور آدرش کے مطابق تھی۔

اس وقت مجھے تنظیموں کے جو نام یاد آرہے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔اس وقت یقینا اسلامی جمعیت طلبا اپنے کام، تنظیم اور حلقۂ اثر کے اعتبار سے سر فہرست ہے۔پھر حکم راںجماعت کی ذیلی تنظیم انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن،پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن،انجمن طلبائے اسلام، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن،ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن،پاکستان اسلامک اسٹوڈنٹس فیڈریشن،پاکستان یوتھ موومنٹ،یوتھ ایسوسی ایشن آف پاکستان،پاکستان یوتھ کونسل،یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان، کراچی یوتھ فیڈریشن قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جدو جہد نے مثالی کردار ادا کیا۔

یقینا بہت سے نام رہ گئے ہوں گے۔ اس کے لیے پیشگی معذرت۔ بعض علاقوں میں مقامی سطح پر بھی طلبا کسی نہ کسی نام سے جدو جہد کررہے ہیں۔ مقامی طور پر کام یابیاں بھی حاصل کررہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب طالب علم 1950-1940 اور 1960 کی دہائیوں کی طرح متحدہ طاقت نہیں رہے ہیں۔ اس لیے حکومت یا ریاست ان سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوتی۔

طلبا تنظیموں کی جدو جہد کو ’’جنگ‘‘ نے ہمیشہ بہت نمایاں مقام دیا۔ دائیں، بائیں یا لسانی نسلی تفاوت کو پیش نظر نہیں رکھا۔ بعض تنظیموں کے یوم تاسیس پر ہمیشہ خصوصی صفحات بھی شائع کیے۔

آخر میں طالب علموں سے اقبال کی زبان میں یہی کہوں گا:

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اس ہفتہ طلبا کا پروگرام

طلباکے صفحےپر شایع ہونے والےایک دل چسپ سلسلے سے اقتباس

جنگ کے جس طرح دیگر صفحات کو پذیرائی ملی، اُسی طرح نوجوانوں کے صفحہ طلبا سے بھی بہت سے لکھاری مقبول ہوئے۔ اس صفحے پر طلبا کے مضامین، نظمیں اور تعلیمی اداروں کی رنگا رنگ رپورٹیں شایع ہوتی تھیں۔ نوجوان اپنی تحریر کے ساتھ کالج، یونی ورسٹی کا نام ضرور تحریر کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں کے مسائل اور نظامِ تعلیم کے حوالے سے بہت سے طلبانے اپنی تحریروںسے خوب نام کمایا، جن میں ممتاز شاعر نقاش کاظمی ، پروین شاکر ، احمد ظفر قریشی، دوست محمد فیضی، طاہرہ جلیل وغیرہ کے نام نمایاں رہے۔ 

طلبا کے صفحے پر تعلیمی اداروں میں منعقدہ تقریبات کی رپورٹیں بھی ہر ہفتےشائع ہوتی تھیں۔نثار احمد زبیری کے مطابق ’’ جنگ‘‘ میں شفیع عقیل کے ساتھ بہ حثیت اسسٹنٹ کے اور طلبا کے صفحے کے انچارج کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ طلبا کا صفحہ ’’جنگ کی بڑی اشاعت کے باعث طالبِ علموں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے لگا اور ڈھیروں اس کی ڈاک آنے لگی تھیں، اس کی روز افزوں اشاعت اور طلبا کی دلچسپی کی وجہ سے یہ صفحہ ان کی آواز بن گیا۔ اسی صفحے پر ایک کالم ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘بھی شائع ہوتا تھاجو دوست محمد فیضی، نثار احمد زبیری وغیرہ لکھتے تھے۔

ریڈیو پاکستان سے طلبا کا فی البدیہہ تقریری مقابلے ہوتے تھے۔ جنگ میں صفحہ’’ طالبِ علم‘‘ پر اس پروگرام کی بھر پور کوریج ہوتی تھی ، اس سے طلبہ نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ وہ جنگ میں اپنی تحریریں بھی بھیجتے تھے۔ ان ہی طلبا میں ظہور الحسن بھوپالی، دوست محمد فیضی، خوش بخت شجاعت بھی شامل تھیں جو بعد میں بہت مشہور مقرر ثابت ہوئے۔

پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیےذیل میں 1996میں طالب علموں کے صفحے پر شائع نثار احمد زبیری ک کی ریڈیو سے نشر ایک فی البدیہہ تقریری مقابلے کی مختصر رپورٹ ملاحظہ کریں۔

یہ ایک فی البدیہہ مباحثہ تھا ،جس میں ہر مقرر سے صرف چند منٹ پہلے موضوع کی ایک پرچی اٹھوائی جاتی تھی اور پھر اسے دس منٹ تک تقریر کرنی ہوتی تھی۔ دراصل مقابلہ صرف اچھا بولنے کا نہیں بلکہ جلد اور تیز رفتاری کے ساتھ سوچنے کا بھی تھا۔

این ای ڈی کالج کے شبیہ احمد ایک پرچی ہاتھ میں لئے ہوئے آئے۔ ان کی تقریر کا عنوان تھا ’’نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ تقریر کے دوران انہوں نے کئی بار جج حضرات کی طرف دیکھا کہ شاید تقدیر بدل جائے۔ بہرحال وہ اچھے مقرر ہیں ان کی تقریران کی آوازکی طرح اچھی تھی۔ اسلامیہ سائنس کالج کے، دوست محمد فیضی کی تقریر کا عنوان تھا ’’صبرکا پھل میٹھا ہوتاہے۔‘‘ انہوں نے بہت اچھے انداز میں قرارداد کی مخالفت کی لیکن صبر کرنے پر مجبور ہوئے۔ 

تیسری تقریر سراج الدولہ کالج کے ولی احمد رضوی کی تھی انہوں نے ’’سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ترقی بھی ضروری ہے‘‘ کے عنوان سےاظہارِ خیال کیا۔ جامعہ کے طالب علم جنید فاروقی نے ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘‘ کے عنوان سے بہت عمدہ تقریر کی، بلا شبہ وہ جنید اچھی زبان بولنے کے لحاظ سے نمایاں مقرر ہیں۔ جامعہ کی کشور غنی نے ’’تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کر دہراتی ہے‘‘ کے عنوان سے مختصراً جامع اور مربوط تقریر کی وہ دیکھنے میں بھی مائیک کے ہرے رنگ کا ایک حصہ نظر آتی تھیں۔

ان کے بعد جناح کالج کے خواجہ قمرالحسن نے ’’قومی یکجہتی ایٹم سے بڑی طاقت ‘‘ کے عنوان سے بہت عمدہ تقریر کی۔ اس کے بعد جامعہ کے طالب علم ظہور الحسن بھوپالی نے ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘‘ پر تقریر کی ۔ لیکن وہ بہت ضدی نکلے اور ایک اور تقریر، جدید طرز حیات ہمارے قومی شعور کے مثال ہے، کے عنوان سے جھاڑ گئے۔ ان کے بارے میں کیا عرض کریں۔ بس اتنا ہے کہ ،بول لیتے ہیں۔ میڈیکل کالج کے شاہجہاں بیگ نے ’’بچے کی اہمیت بوڑھے سے زیادہ ہے‘‘ کے عنوان پر تقریر کی ان کی اردو میں انگریزی کے الفاظ کا جوڑ سب ہی کو بارگزرا۔

مقابلہ ختم ہوا تو ایک مصنف سید محمد تقی صاحب نے معیار پر اظہار اطمینان و مسرت کیا اور طلبا کو نئے انداز سے سوچنے کی تلقین کی۔ مختار زمن صاحب نے نتایج کا اعلان کیا کہ ظہور بھوپالی اوّل، منور غنی دوم اور کشورغنی سوم ہے۔ مقابلے سے قبل اعلان کردیا گیا تھا کہ انعام میں کچھ ملے گا نہیں۔ لہٰذا ظہور صاحب صبر کرتے ہوئے باہر آگئے۔

آخر میں جنگ طلبا کے صفحہ کے انچارج نے ایک نوٹ لکھا کہ، ہر ہفتہ طلبا کی کے صفحہ کی اتنی ڈاک موصول ہوتی ہے کہ پوری پڑھنے کا موقعہ نہیں ملتا اور دوسرا ہفتہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ صرف مختصر رپورٹ ہے، جو پڑھ کر اُن طلبا کو ضرور ماضی یاد آجائے گا، جو حیات ہیں۔