’’ہماری پارٹی اقتدار میں کب آئے گی۔‘‘ عمران خان نے یہ معصومانہ سوال اپنے روحانی استاد میاں بشیر سے کیا تو انہوں نے پانچ منٹ کے لئے آنکھیں بند کرلیں اور پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’جب تم ذمہ داری لینے کے قابل ہو جائو گے۔‘‘ (کتاب: عمران خان پاکستان)
یہ بات کئی سال پرانی ہے، مگر تحریک انصاف کو بنے 10سال ہو چکے تھے۔ خیر 1997کے الیکشن میں تو پارٹی بننے کے چند ماہ بعد ہی حصہ لینے کا فیصلہ ہی غلط تھا اور خان صاحب کو خود بھی کراچی، لاہور اور غالباً ان کے آبائی حلقے میانوالی سے بھی شکست ہوئی۔ مگر 2002میں انہیں امید تھی کہ وہ زیادہ نشستیں جیتیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ جب انہوں نے ڈاکٹر عارف علوی کے گھر مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا کیا خیال ہے، ہمیں کتنی سیٹیں ملیں گی‘‘، تو میں نے کہا تھا: ’’آپ نے بڑے جلسے اور ریلی کی ہیں، مگر سیٹیں ایک دو سے زیادہ نہیں ملیں گی‘‘۔ ان کے چہرے پر ناگواری تو نہیں آئی لیکن کہا: ’’ہم زیادہ جیتیں گے، میرے جلسے بہت بڑے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے کہا کہ عمران، لوگ اپنے کرکٹ کےہیرو کو دیکھنے آتے ہیں، شاید ووٹ ابھی نہ دیں تھوڑا وقت لگے گا‘‘۔ خان صاحب اپنی نشست جیت گئے اور یوں پارلیمانی سیاست میں داخل ہوگئے۔
اخبارات اور میڈیا کوریج کبھی بھی ان کا مسئلہ نہیں رہی اور اسی لئے مجھے تعجب ہوتا ہے جب وہ میڈیا سے ناراض ہوتے ہیں۔ شاید موجودہ سیاست دانوں میں وہ واحد شخص ہیں جو پچاس سال تک کسی نہ کسی حوالے سے میڈیا پر فرنٹ پیچ پر نظر آئے، صرف پاکستان میں نہیں بلکہ جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے وہاں بھی۔ یہ خبریں مثبت بھی ہوتی تھیں اور کبھی کبھی برطانیہ کے اخبارات میں خاص طورپر اسکینڈل کے طورپر بھی شایع ہوتی تھیں۔ ایک وقت میں عمران خان کو دنیائے کرکٹ کے سب سے زیادہ پرکشش کرکٹر کا مقام بھی حاصل رہا۔
عمران خان جب اپنے کرکٹ کے کیرئیر کے عروج پر تھے تب بھی ان کو سیاست میں آنے کی پیش کش ہوئی تھی جنرل ضیاء الحق کی طرف سے، مگر انہوں نے معذرت کرلی۔ 1992کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فتح کی وجہ سے جہاں پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت عروج پر نظر آئی وہیں یہ عمران خان کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی کا موجب بنی۔ اس وقت اگر ہم فائنل ہارجاتے تو وہی لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں ٹیم کا ایئرپورٹ پر استقبال کرنے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے آئے تھے ،گھروں پر پتھر پھینک رہے ہوتے، کچھ نے اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیئے ہوتے تو کچھ خبریں خودکشی کی بھی آتیں، کیونکہ یہی مزاج ہےخاص طور پر پاکستان اور بھارت میں بسنے والے لوگوں کا،ہیروسے زیرو بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔
بہر حال قسمت نے عمران خان کا ساتھ دیا۔ اس جیت نےان کی آگے کی منزلیں آسان کردیں،یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم کینسر اسپتال کا مشن۔ وہ جہاں بھی گئے لوگوں نے آنکھیں بند کر کےعطیات دیے۔ مگر یہ سب ممکن نہ تھااخبارات یا میڈیا کے بغیر اور یہاں بھی خان کو مایوسی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کئی بار خود بھی میڈیا، خاص طور پر جنگ اور جیو کا شکریہ ادا کیا۔ کئی ’’چیریٹی شوز‘‘ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شوکت خانم اسپتال ایک حقیقت بن گیا۔
یہ 1993 کی بات ہے جب مزار قائد سے ایک ریلی غالباً 14اگست کی مناسبت سے نکالی گئی تھی۔ اس میں پاکستان کےکئی نام ور ہیروز کو دعوت دی گئی، جن میں عبدالستار ایدھی، ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین اور عمران خان شامل تھے۔ ایک بار ایدھی سینٹر کے ہی سینئر رکن ،انور کاظمی مرحوم نے انکشاف کیا کہ اس ریلی میں شرکت کےلیے ایدھی صاحب پر خاصا دبائو ڈالا گیا۔ ’’اس وقت تو بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی، مگر بعد میں جب اس کے سیاسی مقاصد سامنے آئے تو سمجھ میں آیا کہ دبائو کیوں ڈالا جا رہا تھا۔‘‘
عمران کو اس ریلی کا تو یاد نہیں البتہ یہ بات ایک بار انہوںنے مجھے بتائی کہ جنرل حمید گل مرحوم نے انہیں ایک گروپ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔ ’’ایک زمانے میں ان سے متاثر تھا، مگر ان کی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا اسی لئے پیچھے ہٹ گیا‘‘۔ ایدھی صاحب تو لندن چلے گئے وہاں سے ایک سخت بیان بھی جاری کیا، یہاں تک کہ ایک وصیت بھی لکھ ڈالی: ’’اگر مجھے قتل کر دیا جائے‘‘۔ خیر، وہ پورا آئیڈیا ہی فلاپ ہو گیا جس کی کئی وجوہات تھیں۔
تیسرے متبادل کی تلاش جاری رہی،کیوں کہ’’میاں صاحب‘‘ سے وہ لوگ مایوس ہوناشروع ہو گئے تھےجو انہیں پی پی پی یا بےنظیر بھٹو کے متبادل کے طور پر سیاست میں لائے تھے۔ سیاست میں مقبول رہنما یا جماعتیں ایک سیاسی عمل سے ہی ختم ہوتی ہیں یا مقبولیت کھوتی ہیں، ’’زور زبردستی‘‘ سے نہیں۔ بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی اور وہ دوبارہ منتخب ہو جاتےتو ایک عمل سے ہی دوسرا آجاتا۔ ایک ’’عدالتی قتل‘‘ نے انہیں مر کر بھی زندہ رکھا۔ اب تو خیر ان کی پارٹی نے ہی انہیں سیاسی طور پر ختم کر دیاہے یا یوں کہیں سندھ تک محدود کردیا ہے۔ اس پر پھر کبھی…
عمران خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ 1995 میں کیا جب انہیں ایک بارپی ٹی وی پر شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے عطیات جمع کرنے کے سلسلے میں شو کی اجازت نہیں ملی اور کہا گیا کہ پہلے وزیراعظم سےاین اور سی لائیں۔ عمران کہتے ہیں: ’’ میں وہاں گیا تو وزیراعظم بےنظیر بھٹو مصروف تھیں۔ مجھ سے کہا گیا کہ انتظار کریں۔ اتنے میں آصف زرداری اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ آئے۔ بڑی گرم جوشی سے ملے۔ میں نے انہیں پی ٹی وی پر شو کے حوالے سے بتایا تو کہنے لگے کیوں نہیں، بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ حکومت کے پلیٹ فارم سے کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے مجھے پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی۔ آہستہ آہستہ باتیں میری سمجھ میں آ رہی تھیں، لہذا میں وہاں سے اٹھ کر آگیا‘‘۔
بعد میں دوستوں نے عمران کو مشورہ دیا کہ سیاسی جماعت بنانے اور سیاست کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لفظ’ ’تبدیلی‘‘ بھی اس دوران استعمال ہوا اور جماعت بنانے کا ٹاسک کچھ دوستوں کو دے دیا گیا۔ کوئی ایک سال تک اس پر کام کرنے کے بعد لاہور میں نئی جماعت ’’انصاف پارٹی‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آئی جس میں زیادہ تر لوگوں کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں پہلی پریس کانفرنس مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔چوں کہ عمران خان کی شخصیت سے سب واقف تھے لہذا میڈیا کوریج میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
البتہ اب عمران اخبارات کے کھیلوں کے صفحہ سے نکل کر سیاست کے صفحات پر آگئے۔ میری عمران خان سے پہلی ملاقات کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ اس وقت میں کلب کا سیکرٹری تھا اور بہت برسوں بعد بھارت کی کرکٹ ٹیم سری کانت کی کپتانی میں پاکستان کا دورہ کر رہی تھی۔ کلب نے دونوں ٹیموں کے اعزاز میں تقریب منعقد کی اور دونوں کے نام ور کھلاڑیوں کو اعزازی ممبر شپ بھی دی گئی جن میں عمران، جاوید میاںداد، سری کانت اور کپل دیو بھی شامل تھے۔
عمران سیاست میں آئے تو شروع شروع میں نعیم الحق مرحوم اکثر عمران کو لے کرپریس کلب آتے تھے ۔ مگر ہم سیاست کے بجائے کرکٹ پر زیادہ بات کرتے تھے۔ ایک بار نعیم الحق نے مجھ سےاور اویس توحید سے کہا: ’’یار اس سے سیاست پر بات کیا کرو‘‘۔ ہم ان کی بات سن کر مسکرا دیتے۔ اس وقت کراچی میں نعیم الحق کے علاوہ جن لوگوں سے ان کی جماعت کے بارے میں واقفیت تھی ان میں ناظم ایف حاجی، جو سی پی ایل سی کے سابق صدر تھے، ڈاکٹر عارف علوی اور کچھ اور دوست شامل تھے۔ بعد میں معراج محمد خان مرحوم نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور سیکریٹری جنرل بنے تو عمران خاں کی نظریاتی سیاست کے حوالے سے واقفیت بڑھی۔
یہ وہ وقت تھا جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں سیاسی جنگ عروج پر تھی ۔ایسے میں عمران خان نے اپنے آپ کو تیسرے آپشن کے طور پر پیش کیا۔ بی بی اور میاں صاحب ،دونوں نے اس وقت انہیں سنجیدہ نہیں لیا۔ میں نے ذاتی طور پر کئی بار بی بی سے عمران خان کے حوالے سے ردعمل لینے کی کوشش کی تو ان کا وہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے: ’’مظہر کیا تم واقعی اسے سیریس لے رہے ہو‘‘۔ میں نے صرف اتنا کہا: ’’یہی رائے آپ کی پہلے میاں صاحب کے بارے میں تھی اور آج وہ آپ کے مقابل ہیں۔ کبھی کبھی غیر سیاسی لوگ خاصے سیاسی ہو جاتے ہیں۔‘‘
1997 میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کو بنے 9ماہ ہوئے تھے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ الیکشن لڑنا چاہیے۔ غالباً وہ الیکشن لڑنے کاکچھ تجربہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عمران خان نے اپنا پہلا الیکشن کراچی سے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں برنس روڈ سے لڑا تو ضمانت نہ بچا سکے، ایسا ہی پی ٹی آئی کے دیگر امیدواروں کے ساتھ بھی ہوا، مگر انہیں الیکشن کے معاملات سمجھ میں آگئے، ورنہ تو پولنگ ایجنٹ کا بھی پتانہیں تھا۔
بہرحال عمران خان کے بیانات کو اخبارات میں نمایاں جگہ ملنا شروع ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ (ن) کے پاس دو تہائی اکثریت تھی اور پی پی پی کے پاس قومی اسمبلی کی سترہ نشستیں تھیں۔ سندھ میں بھی ان کی حکومت نہیں تھی۔ اپنے پیروں پر خود ہی زخم لگانا ہم نے میاں صاحب سے ہی سیکھا ہے۔ اقتدار کا ویسے بھی اپنا نشہ ہوتا ہے، اترتے اترتے بھی بڑا نقصان کرجاتا ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایسا نہیں کہ سارا قصور میاں صاحب کا تھا۔
مثلاً 58-2(B) کی تلوار کو ختم کرنا درست فیصلہ تھا، کیوں کہ اس سے اس وقت کے آمر کے ہاتھوں اور ان کے بعد آنے والے صدورکے ہاتھوں تین حکومتوں کا خاتمہ ہوا۔ مگر جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ، سپریم کورٹ پر حملہ اور پھر امیر المومنین بننے کی خواہش نے میاں صاحب کے لئے مسائل کھڑے کر دیے اور پھر 12اکتوبر1999کو ان کی حکومت کا خاتمہ ایک غیر آئینی اقدام سے کیا گیا۔
میاں صاحب کے مخالفین، بہ شمول بےنظیر بھٹو اور عمران خان ،نے اس کی حمایت اپنے اپنے انداز میں کی۔ بی بی نے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا اور عمران خان نے ’’کرپٹ سیاست دانوں‘‘ کے خلاف احتساب کی بات کی۔ جنرل مشرف نے اپنی پہلی ہی تقریر میں اپنا سات نکاتی ایجنڈا بتا دیا جس میں الیکشن کا دور دور تک ذکر نہ تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تیاری پہلے سے تھی۔
بہ ہرکیف عمران خان کو مشرف اپنے ایجنڈے سے قریب تر نظر آئے۔ معراج محمد خان نے کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ حمایت میں بہت آگے نہ جائیں۔ چوں کہ وہ بہ راہ راست مارشل لا نہ تھا تو شریف الدین پیرزادہ مرحوم نے ’’Chief Executive‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور بعد میں ماشاء اللہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے ظفر علی شاہ کیس میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت نہ صرف حکومت کو جائز قرار دیا، بلکہ آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے ڈالا۔ ججز ہوں تو ایسے، عدلیہ ہو تو ایسی۔ اس کام کے لیے پہلے پی سی او لانا پڑا۔
2001 میں جنرل مشرف کو جنرل ضیاء کی طرح اپنی مقبولیت کے لیے ریفرنڈم کا مشورہ بھی دربایوں نے دیا۔ عمران خان حمایت کرنے والوں میں نمایاں تھے، کیوں کہ اس وقت تک متحدہ قومی موومنٹ نے مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
عمران خان کی سیاست کا یہ اہم موڑ تھا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ان کی اور مشرف کے مقاصد ایک ہیں اور وہ نواز شریف اور بےنظیر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنی پارٹی کے لیڈرز کو اعتماد میں لیا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے دن قریب ہیں۔ 2000میں جب میاں صاحب، مشرف سے یہ ڈیل کرکے اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے کہ وہ 10سال تک سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تو عمران خان کو اپنےلیے جگہ بنتی نظر آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب بےنظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے دن دبئی میں گزار رہی تھیں۔ اب یہ بات یقینی تھی کہ 2002 کے الیکشن میں یہ دونوں نہیں ہوں گے۔
یہ ساری خبریں عمران کےلیے راستہ بنا رہی تھیں ۔اسی دوران انہیں جنرل مشرف کی طرف سے میٹنگ کا دعوت نامہ ملا۔ وہ معراج محمد خان کے ساتھ گئے۔ بہ قول معراج صاحب :’’عمران خان کو اتنا خوش دیکھ کر میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جاتے ہی کوئی بڑا فیصلہ نہ کرنا،بےجا حمایت کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا: خان صاحب آپ کا انقلاب آیا نہیں، میرا قریب ہے۔‘‘ مگر جب وہ اجلاس میں پہنچے تو وہاں چوہدری شجاعت حسین اور مسلم لیگ کے کچھ رہنماپہلے سے ہی موجود تھے۔ یہ عمران خان کےلیے کسی سیاسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔
بات آگے بڑھی تو اندازہ ہو گیا کہ مشرف صاحب نے میاں صاحب کے توڑ کے طور پر چوہدریوں پرہاتھ رکھ دیا ہے۔ یہی نہیں’ ’احتساب‘‘ کا عمل بھی سست روی کا شکار ہوگیا۔ مشرف نے عمران خان کو وزارت کی آفر بھی کی اور چوہدریوں کے ساتھ مل کر چلنے کا مشورہ بھی دیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو توڑ کر اس میں سے (ق) لیگ اور پی پی پی پیٹریاٹ معرض وجود میں لائی گئیں۔ اجلاس کے بعد واپس جاتے ہوئے بہ قول معراج صاحب کپتان نے کہا: ’’خان صاحب آپ ٹھیک کہتے تھے ،سب چور ڈاکو اکٹھا کرلیے ہیں۔‘‘
9/11 نے اگر کسی سیاست دان کو سیاسی فائدہ پہنچایا تو وہ عمران خان ہیں۔ وہ اب زیادہ کھل کر مشرف کے خلاف ہو گئے۔ ان کی بات نہ صرف سنی جانے لگی بلکہ میڈیا میں کوریج بھی بڑھ گئی۔ 2002 کے بعد نجی ٹی وی چینل جس میں جیو پہلا چینل تھا، چینلزآنے کی وجہ سے سیاست کوایک نیا رخ ملا۔
مجھے آج بھی یاد ہے جب 2002کی الیکشن مہم کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کی رہائش گاہ پر عمران نے وہی سوال کیا جو میں شروع میں تحریر کر چکا ہوں:’’کیا خیال ہے تمہارا، ہمیں کتنی نشستیں ملیں گی؟‘‘ اور میں نےجواب دیا تھا: ’’ایک دو‘‘۔ اس بار انہوں نے قدرے مایوسی سے کہا: ’’کیوں، ہمارے جلسے تو بڑے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’جی ہاں آپ کی پارٹی نے اچھی مہم چلائی ہے۔ آپ کی تقریریں بھی زور دار تھیں، مگر کیا ووٹر نکلے گا آپ کے لیے، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا‘‘۔ کافی عرصے بعد ایک نشست میں کہا: تمیہں کیسے اندازہ ہوا کہ ہم 2002 کا الیکشن نہیں جیت سکتے‘‘۔ میں نے کہا: جب آپ فاسٹ بولنگ کراتے تھے تو ہم فاسٹ رپورٹنگ کرتے تھے، زمینی حقائق سے بھی واقفیت ہو گئی اور ’’اندر‘‘ کی خبریں بھی ملتی رہیں۔
2007 میں عمران نے وکلا کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اس وقت ایک ایسے سیاسی اتحاد کا بھی حصہ رہے جس میں میاں نواز شریف بھی تھے اور قاضی حسین مرحوم بھی۔ سب کا فیصلہ تھا کہ مشرف کے تحت ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ2004میں متحدہ مجلس عمل نے مشرف کے ساتھ 17ویں ترمیم پر سمجھوتا کیا جس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائےاسلام (ف) شامل تھیں اورلیگل فریم ورک آرڈر کے تحت مشرف کے اقدامات کو تحفظ دے دیاگیا۔ یہی ہمارے سیاسی لوگوں کی کم زوریاں رہی ہیں۔ اگر ایم ایم اے نےوردی اتارنے کی خاطر یہ کیا تو بےنظیر نے الیکشن میں اپنی واپسی کے لیے این آر او لیا جس کا نقصان صرف سیاست اور جمہوریت کو ہوا۔
27دسمبر2007کو بےنظیر کی شہادت نے پاکستان سمیت دنیا کو ہلادیا۔ عمران خان اور بےنظیر کلاس فیلو تو نہیں تھے، البتہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ساتھ ضرور تھے ۔ عمران نے تمام ترسیاسی اختلاف کے باوجود ان کی شہادت کو پاکستان کی سیاست کا بڑا نقصان قرار دیا۔
2008 کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ تو نواز، عمران اور قاضی حسین احمد نے کیا تھا، مگر پھر میاں صاحب کی سعودی عرب سے واپسی ہوئی تو انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے اتحاد کا فاعدہ عمران کو سب سے زیادہ ہوا اور وہ واحد اپوزیشن لیڈر کے طورپر ابھرے۔30اکتوبر2011کو پاکستان تحریک انصاف ایک تناور درخت کی مانند ابھر کرسامنے آچکی تھی۔ میں خود مینار پاکستان پرموجود تھا۔وہاں پرانے سیاسی لوگوں سے تو ملاقات ہوئی، مگر ایک نئی سیاسی نسل بھی نظر آئی جو عمران خان کی دیوانی تھی۔
اس دن جو لوگ اسٹیج پر بیٹھے ان میں وہ بہت کم تھے جو دوسری جماعتوں سے آئےتھے۔2013کے الیکشن نے پہلی بار عمران خان کو اقتدار سے قریب کر دیا۔ ان کی جماعت خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کام یاب ہوئی، مگر انہیں لگا کہ انہیں زبردستی مرکز سے دور رکھا گیا ہے۔ اسی دوران الیکشن مہم میں وہ ایک بڑے حادثہ سے بچے جب اسٹیج سے گر پڑے۔ اس دوران میاں صاحب نے اپنی الیکشن مہم بھی ملتوی کر دی اور اسپتال میں ان کی خیریت بھی دریافت کی۔
عمران خان کا مطالبہ تھا کہ چار حلقوں میں بدترین دھاندلی کی شکایات ہیں، وہ حلقہ کھولے جائیں۔ مگر میاں صاحب اور ان کے لوگوں نے شاید اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ ہم چوں کہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، میاں صاحب بھی ضدکرنے لگے،جس نے تحریک کی شکل اختیار کرلی ورنہ 1977 میں بھٹو صاحب فوراً الیکشن کرا دیتے تو اس وقت کی اپوزیشن شاید زیادہ نشستیں ہار جاتی۔ 9اپریل 1977 کولاہور میں گولی چلی تو بھٹو کم زور پڑ گئے۔ یہاں ماڈل ٹائون میں علامہ طاہر القادری کے حمایتیوں پر گولی چلا کر تحریک میں جان ڈال دی گئی۔
126 دن کا دھرنا، اس دوران ایمپائر کی انٓگلی کا انتظار، سب کو ایک طرف رکھیں، مگر 2016 میں پاناما لیکس نے عمران کے لئے مزید آسانیاں پیدا کردیں۔ میاں صاحب 2017 میں نااہل قرار پائے۔2018 میں الیکشن نے ایک بار پھر عمران کے لیے راستہ ہم وار کیا۔ مگر اس دھرنے سے الیکشن تک عمران نے غیر ضروری طور پر میڈیا سے تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ خاص طور پر جیو اور جنگ گروپ کے ساتھ، جس کے ایک زمانے میں خان صاحب گن گاتے نہیں تھکتے تھے۔ ان کے حمایتیوں نے حملے بھی کیے اور تو پھوڑ بھی، پھر بھی ان کی کوریج میں کمی نہیں آئی، البتہ دوسرروں کو بھی جگہ ملی اور تنقید بھی ہوئی۔
عمران خان خود ان وعدوں پر غور کریں جو انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے تھے۔ میڈیا کو چھوڑیں، ہم سے تو لوگ ناراض رہتے ہی ہیں ایک عمران کیا خان کیا۔
عمران کے وعدے اوردعوے۔ اینٹی اسٹیٹس کُو سیاست، لوٹوں کی نہیں سنو گا۔ پولیس ریفارمز، سول سروس ریفارمز، میڈیا کی آزادی، پی ٹی وی کو آزاد اور خود مختار ادارہ بنانا، آئی ایم ایف کے پان نہ جانے کا وعدہ، قرضوں سے نجات، عدلیہ میں اصلاحات اور یہ بھی کہا کہ سب کے لیے روڈ میپ تیار ہے۔ یہ بھی وعدہ تھاکہ بلاامتیاز احتساب ہوگا، احتساب گھر سے شروع ہوگا۔
ایسا نہیں کہ کچھ کام نہیں ہوئے۔ کچھ نئی اسکیمز آئیں۔ انصاف کارڈ، صحت کارڈ، کسان کارڈ، مگر بار بار کے یوٹرن، اہم وزارتوں میں بار تبدیلیوں نے حکومت کی ساکھ خراب کر دی۔ میڈیا کو آزادی کیا دیتے،رہی سہی آزادی بھی چھین لی۔ ایسے قوانین لائے جا رہے ہیں جو آمرانہ دور کی یاد دلاتے ہیں۔
کپتان، میڈیا نے تو بڑے ادوار دیکھے اور آگے بھی دیکھ لیں گے، مگر یہ اقدامات شاید آپ کو اس وقت ناگوار گزریں جب آپ اپوزیشن میں ہوں۔
میری دعا ہےکہ کپتان کی حکومت اپنی مدت پوری کرے اور تاریخ رقم کرے پہلے وزیراعظم کی ،جس نے اپنی میعاد پوری کی۔ شاید آپ اقتدار کے لیے تیار نہیں تھے2018میں،مگر اقتدار چاہتے تھے جس طرح کچھ لوگ میاں صاحب کو ہٹانا چاہتے تھے۔ابھی آپ کے پاس کچھ وقت ہے، اپنی توپوں کو آرام دیں۔ کچھ بنیادی ریفارمز کر جائیں تاکہ تاریخ اور لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔