میری خوش قسمتی کہیے کہ بچپن ہی سے ہمارے گھرروزنامہ جنگ آیا کرتا تھا اور اس اخبار میں ہفتے وار بچوں کا صفحہ بھی شائع ہوتا تھا،جس پر نئے اور پرانے لکھنے والوں کی کہانیاں، مضامین اور نظمیں شائع ہوتی تھیں، چھوٹے بچوں کی تصاویر، کارٹون اور رنگ بھریئے کے عنوان سے کوئی تصویر بھی اس صفحے کا حصہ ہوتا تھا، ابتداء میں صفحہ بلیک اینڈ وائٹ شائع ہوتا تھا لیکن بعد میں صفحے کو اہمیت ملتی گئی اور اس کے پڑھنے والے بچوں میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، جس کے باعث اس صفحے کو بھی اخبار نے چار رنگوں میں خوبصورت لے آئوٹ کے ساتھ شائع کرنا شروع کردیا، بچے اپنےصفحے کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ بعض مرتبہ دوسرے ایڈیشن بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر شائع نہیں ہوتے لیکن بچوں کا صفحے کا کسی صورت بھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔
ہاں یہ ضرور تھا کہ بچوں کی دلچسپی اور ان کی اسکول سے چھٹی کے دنوں کے حساب سے بچوں کے جنگ کے صفحے کے دن تبدیل ہوتے رہے، ایک زمانے میں بچوں کا صفحہ جمعہ کے روز شائع ہوتا تھا پھر اتوار کے روز شائع ہونے لگا اور اس کے بعد ہفتے کا دن مخصوص کردیا گیا، 2010 ء سے 2014 ء تک یہ صفحہ مڈویک میگزین میں شائع ہوتا رہا اور ایک صفحے کے بجائے دو صفحے بچوں کے لئے مخصوص کئے گئے۔مجھے اس صفحے کا ہر ہفتے بے چینی سے انتظار رہتا ، اسی روز اس صفحے کی تمام کہانیاں، مضامین اور نظمیں پڑھ لیتا لیکن ایک تشنگی برقرار رہتی اور دوسرے ہی دن سے آئندہ شائع ہونے والے صفحے کا انتظار شروع ہوجاتا۔
لاتعداد ادیب اور شاعر پیدا کئے جو نامور ہوئے
یہ 1978 ء کی بات ہے جب میں نے صفحہ پڑھتے پڑھتے خود ایک مضمون لکھ کر انچارج صفحہ بچوں کے نام پوسٹ کردیا، کچھ دن انتظار کرنے کے بعد یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ مضمون اخبار کی زینت نہیں بن سکے گا اور لکھنے کا ارادہ بھی ترک کردیا، کچھ دن یونہی گزرے کہ ایک روز ہاکر اخبار دے کر گیا تو میں نے ’’بچوں کا جنگ‘‘ کے مطالعے کی غرض سے جونہی صفحہ کھولا اس میں میرا مضمون شامل تھا، اسےدیکھ کر نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ اپنے گھر کے ایک ایک فرد کو دکھایا، تاکہ سب کو پتہ چلے کہ میرا مضمون بھی اخبار میں شائع ہوگیا ہے، اس زمانے میں کئی معروف قلم کار اس صفحے پر لکھا کرتے تھے جنہیں میں انتہائی توجہ سے پڑھتا تھا۔
ان قلم کاروں میں ابن حسن نگار، حسینہ معین، پروفیسر عنایت علی خان، شبیہ فاروقی، مسرور انور، تنویر پھول، وقار محسن، حنیف سحر، مصطفی چاند، محمد عمر احمد خان، محبوب الٰہی مخمور، ادیب سمیع چمن اکبر آبادی، یار محمد خان، جمال صدیقی، یاسمین حفیظ، فرزانہ روحی اسلم، محمد فاروق دانش اور دیگر شامل تھے ،جبکہ ماضی کے معروف ادیبوں اور شاعروں علامہ اقبال، اسماعیل میرٹھی، شفیع الدین نیئر، صوفی تبسم، حنیف جالندھری، غلام عباس، ڈاکٹر شان الحق حقی، چراغ حسن حسرت، سعید لخت، نظر زیدی، مرزا ادیب، اے حمید، کمال احمد رضوی کی تحریروں سے انتخاب بھی بچوں کے صفحے پر شائع ہوتا۔صوفی تبسم کی معروف نظم ’’ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ ‘‘ میں نے پہلی مرتبہ بچوں کے جنگ میں ہی پڑھی تھی۔روزنامہ جنگ نے ہی کارٹون شائع کرنا اور کارٹون کہانیاں شروع جسے بچوں کےساتھ بڑے بھی شوق سے پڑھتے تھے ، خاص طور پر ٹارزن کے کارنامے اور دیگر سلسلے بے انتہا ء مقبول تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کہانی سنانے اور سننے کا شوق انسان کی عین فطرت رہا ہے، قدیم دور میں جب لکھنے ، پڑھنے کا رواج نہیں تھا لوگ ایک جگہ بیٹھ کر روزمرہ کے واقعات کا اظہار نہایت دلکش انداز میں کیا کرتے تھے، ایسا کرنے میں انہیں خوشی حاصل ہوتی تھی، پروفیسر وقار عظیم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’اس پیکار اور کشمکش میں اسے سختی کی جن منزلوں سے گزر کر فتح اور ظفر کا روئے تاباں دیکھنے کی مسرت حاصل ہوتی تھی اس کی روداد میں اس کے لئے قند مکر کی چاشنی تھی، کام و دھن کو اس چاشنی سے آشنا کرنے کی خواہش نے اسے آب بیتی دھرانے کا عادی بنا دیا۔دادی اماں، نانی اماں اور امی جان کی بچوں کو سلاتے ہوئے کہانی سنانے کا سلسلہ ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، کہانی سنانے کی یہ روایت محلات سے لے کر جھونپڑیوں تک ایک جیسی ہی نظر آتی ہے ، یہ سلسلہ چلتا رہا، بچے اسے سنتے اور اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے رہے۔‘‘
بڑے ہونے پر یاد کی ہوئی کہانیاں اپنے بچوں کو سنایا کرتے، اس طرح ماضی کی گراں مایہ میراث سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر بچوں کو مستفیض کرتی رہیں، بچوں کے صفحات کا آغاز دراصل انہی عوامی کہانیوں کے پس منظر میں ہوتا ہے ، یہ صحیح ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لئے مخصوص نہ تھیں، ان کا موضوع اور مقصد بچے نہ تھے، ان کا معیار بھی بچوں کی ذہنی سطح سے ہم آہنگ نہ تھا، اس کے باوجود بچوں کے ادب کا ان سے گہرا ربط و لگائو رہا،آج بھی دونوں کے درمیان بڑا ہی قدیم رشتہ ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ بچے آج کے جدید دور میں بھی جب انہیں ٹیلی ویژن، موبائل، انٹرنیٹ ، واٹس ایپ اور دیگر برقی سہولیات میسر ہیں، کہانی سننا اور کہانی پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ آج بھی بچوں کو جنوں، پریوں اور تجسس سے بھرپور کہانیاں پسند آتی ہیں جب بچہ کہانی سنتا ہے اور ہیرو کے شاندار کارنامے بیان کئے جاتے ہیں تو مارے خوشی کے اچھل اچھل پڑتا ہے۔
بچوں کا ادب ایک زمانے تک بچوں کی کہانیوں کی آغوش میں پرورش پاتا رہا جن میں تخیل کے سواکسی دوسرے کا گزر نہیں ہوسکتا، کہیں زمین آسمان سونے کے بن جاتے ہیں، کہیں انسان جانور کا روپ اختیار کرلیتا ہے، کہیں معجزات ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جن، پری،بھوت، پریت کے ہاتھوں آن کی آن میں دنیا زیر و زبر ہوجاتی ہے۔ مختصر یہ کہ عوامی قصے اور پریوں کی کہانیوں کی سرحدیں عبور کرکے بچوں کا ادب آج ’’بچوں کےجنگ‘‘ پر منتقل ہوگیا ہے اور ایک ایسی منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں نت نئے موضوعات سمٹ آئے ہیں جہاں بچوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہے انہیں اپنی پسند کی ہر چیز پڑھنے کو میسر ہے۔