• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

سابق سربراہ شعبہ ارضیات،جامعہ کراچی، سربراہ ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا

روزنامہ جنگ سے میرا تعلق دس برس کی عمر میں قائم ہوا، جب میں نے اس میں روزانہ شایع ہونے والی ٹارزن کی کہانی پڑھنا شروع کی تھی۔ پھر برسوں اسے پڑھتا رہا۔ اب عمر کی اڑسٹھ بہاریں دیکھ چکا ہوں ،اگرچہ دوسری صورت میں، لیکن جنگ سے تعلق اب بھی قائم ہے۔ بچپن میں روزانہ ٹارزن کی کہانی پڑھنے کے لیے جنگ کے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔پھر سِنِ شعورکو پہنچے تو محسوس کیا کہ پاکستان میں اکثر افراد اور خاندان میں ارد گرد لوگ اسی اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں۔

پھر کالج اور جامعہ کے دارالمطالعات میں بھی اسے ہی پڑھتے دیکھا ۔ 1965 اور1971 کی جنگوں کے دوران تازہ اور مصدقہ خبروں کے لیے لوگ روزنامہ جنگ ہی کو ترجیح دیتے تھے،کیوں اس جیسی خبریں کسی اور روزنامے میں پہلے ملتی تھیں اور نہ اب۔جامہ کراچی میں جو بھی سرگرمیاں ہوتی تھیں ان کی خبریں اس اخبار میں شایع ہوتی تھیں۔ میرے لیے اس کا دوسرا پہلو بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔1980 میں ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا قائم ہوا، میں 1982میں اس میں شامل ہوا۔ روزنامہ جنگ نے 1980سے ہر برس پچّیس صفر المرجب کو امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ کے یومِ وصال پر خصوصی رنگین صفحہ شایع کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ہم روزنامہ جنگ کی اس خدمت کے بارے میں کسی طالب علم سے ایم فِل کرانے کا سوچ رہے ہیں۔

عثمان خان نوری

سابق رکنِ قومی اسمبلی

روزنامہ جنگ پاکستان میں صحافت کاسب سے بڑا نام ،سب سے بڑا اخبار ہے۔سیاسی و سماجی حوالے سے اس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ادارہ جنگ اور اس سے وابستہ مختلف صحافیوں سے میر خلیل الرحمن مرحوم کے زمانے سے میرا تعلق ہے۔ زمانہ طالبِ علمی میں اور سیاسی حوالوں سےرابطہ رہا۔ آج بھی اسے شوق سے پڑھتا ہوں،خصوصا اس کا ادارتی صفحہ کیوں کہ اس صفحے پر مختلف الخیال کالم نگار وں کے تجزیے ہوتے ہیں ۔میں تمام کالمز شوق سے پڑھتا ہوں۔ روزنامہ جنگ کی اشاعت کے پچھہتّر برس ہونے پر میں ادارہ جنگ کے مالک اور عملے کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

محمودالحسن ایڈووکیٹ

سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن

یہ ملک کا واحد روزنامہ ہے جس کی جڑیں ملک کے ہر حصے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ہر جگہ اس کے نامہ نگار، نمائندے اور قارئین موجود ہیں ۔خبریں اور تجزیے بروقت، متوازن اور مستند ہوتے ہیں۔اس کے مالک اور اس سے وابستہ صحافی نڈر اور جرات مند ہیں۔کچھ عرصہ قبل اس کے مالک کی گرفتاری اور کئی ماہ طویل قید اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ روزنامہ جنگ سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت جو باتیں منوانا چاہتی تھی وہ اس نے نہیں مانیں۔

2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں جنگ اور جیو ٹی وی نے جو کردار اداکیا اور جس طرح اس تحریک کی حمایت کی اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنگ نے بار ایسوسی ایشنزکی جانب سے اٹھائے گئے جائز مسائل کی ہمیشہ حمایت کی اور انہیں اپنے صفحات پر جگہ دی۔ اس نے تحقیقی صحافت کو بہت فروغ دیا۔ ملک اور قوم کی خدمت کے ضمن میں دیگر اخبارات کے مقابلے میں اس کا کردار بہت اعلی ہے۔

اصلاح الدین

ہاکی کے سابق اولمپیئن

جب سے آنکھ کھولی ہے جنگ اخبارکودیکھتے اور پڑھتے آئے ہیں۔بچپن سے اب تک اردو کےایک سے زیادہ روزنامے اور انگریزی کا ایک اخبار ضرور پڑھنے کی عادت ہے۔ لیکن جب تک روزنامہ جنگ نہ پڑھ لوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نشہ ادھورا رہ گیا ہے۔ یہ ایک ایسا زبردست اخبارہے جو دنیا کی ہر طرح کی معلومات دہائیوں سے روزانہ گھر گھر پہنچاتا ہے۔ اس میں ہر عمر ، طبقے، شعبےاور ہر طرح کی دل چسپی رکھنےوالے افراد کے لیے مواد موجود ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جتنی ترقی اس اخبار نے کی شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔

اس کے بانی میر خلیل الرحمن نے دہلی سے کراچی تک اور پھر پورے پاکستان میں اسے پھیلانے ،لوگوں کا پسندیدہ اور معتبر روزنامہ بنانے کے لیے دن ،رات زبردست محنت کی۔یہ ان کی شبانہ روز محنت ،لگن، صلاحیتوں ، دور اندیشی اور قابلیت کا ثمر ہے کہ روزنامہ جنگ دنیا بھر میں اردو زبان کا سب سے بڑا روزنامہ مانا جاتا ہے۔ پھر ان کے صاحب زادوں نے اسے سنبھالا اور اس میں نت نئے رنگ بھرے۔ میں یہ بات اس لیے بہت وثوق اور فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس خاندان سے میرے گھریلو تعلقات ہیں۔

میر جاوید الرحمن مرحوم اسلامیہ کالج ، کراچی ، میں انٹر میڈیٹ میں میرے ہم جماعت تھے ۔ اب بھی اس خاندان سے میرا محبت کاگہرا رشتہ ہے ۔ روزنامہ جنگ کی بے مثال کام یابی کے بعد میر خلیل الرحمن مرحوم اور ان کے بچّوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے بہتر سے بہتر بنانے کا سفر جاری رکھااور ایک کے بعد دوسری کام یابی کے جھنڈے گاڑتے گئے۔ پھر ادارہ جنگ نے ہفت روزہ اخبار جہاں،شام کا انگریزی اخبار ڈیلی نیوز، صبح کا انگریزی اخبار دی نیوز، انگریزی کا ہفت روزہ میگ،شام کا اردو اخبار عوام وغیرہ جاری کیے اور انہیں بھی خوب کام یاب بنایا۔

پھر جنگ میڈیا گروپ کے تحت جیو ٹیلی ویژن کا آغاز کیا گیا اور جیو نیوز کو کام یابی کی بلندترین سیڑھی پر پہنچانے کے بعد جیو انٹرٹینمنٹ، جیو کا میوزک چینل آگ، جیو تیز اور جیو اسپورٹس چینل کا آغاز کیا گیا اور ان چینلز نے بھی اپنے اپنے شعبوں میں زبردست انداز میں کام یابیوں کے جھنڈے گاڑے۔

میری خاص دل چسپی چوں کہ کھیل ، بالخصوص ہاکی کے میدان سے رہی اور ہے، اس لیے یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنی خدمت روزنامہ جنگ نے ملک میں کھیلوں کی کی اتنی شاید ہی کسی اخبار نے کی ہو۔ جنگ نے ہمیشہ کھیلوں کی خبروں کو اہمیت دی ، باقاعدگی سے کھیلوں کا صفحہ شایع کیا اورخصوصی مواقعے پر کھیلوں کے خصوصی صفحات شایع کیے۔ 

کرکٹ ، ہاکی ، اسکواش ، کبڈّی، ملاکھڑا، فٹبال، ٹیبل ٹینس ، بلیئرڈ، غرض یہ کہ تمام کھیلوں کو اپنے صفحات پر نمایاں جگہ دی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ادارہ جنگ میں ہمیشہ بہترین اسپورٹس رپورٹر رہے اور ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ روزنامہ جنگ کا ایک اور بہت بڑا کمال یہ بھی ہے کہ پچھہتّر برسوں میں اس نے نہ صرف اپنا معیار برقرار رکھا اس میں اضافہ بھی کرتا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس گروپ کو مزید کام یابیاں اور ترقی عطا فرمائے۔

شکیل عادل زادہ

ممتاز ادیب اور ناشر

روزنامہ جنگ بلاشبہ اردو صحافت کا سب سے بڑا نام ہے۔ اس نے جو کارنامے انجام دیے وہ کسی اور اخبار کے حصّے میں نہیں آئے۔ میر خلیل الرحمن مرحوم سے میرے نیازمندانہ تعلقات تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ کس قدر عرق ریزی سے کام لیتے ،جنگ اخبار کی ترقی کے لیے کتنی محنت کرتے تھے اور کس طرح انہوں نے کام یابی کی منازل طے کیں۔ پھر ان کے بیٹوں نے مزید کمالات دکھائے اور بہت سی نئی چیزیں شروع کیں۔ پاکستان میں یہ اعزاز اس روزنامے کو حاصل ہے کہ پاکستان میں ریڈیو فوٹو کا استعمال سب سے پہلے اس نے شروع کیا ،پھر آفسٹ پرنٹنگ اور نوری نستعلیق کو اپنانا،جنگ لاہور کا پہلا شمارہ نوری نستعلیق ہی استعمال کرکے نکالا گیا۔

اس طرح کی کئی جِدّتیں پہلے پہل روزنامہ جنگ ہی کے حصّے میں آئیں۔ میر خلیل الرحمن مرحوم نے جنگ کے دیگر صفحات کی طرح ادارتی صفحے کو بھی خوب نکھارااوراس کے لیے بہت محنت کی۔ انہوں نے مقتدر لوگوں سے کالم لکھوانے کا سلسلہ شروع کیا، مثلا فیض احمد فیض ، جوش ملیح آبادی، نیاز فتح پوری، احمد ندیم قاسمی ، جمیل الدین عالی ، ابراہیم جلیس، نصراللہ خاں، سیّد محمد تقی ارشاد احمد حقّانی وغیرہ۔ ان کا یہ کمال تھا کہ وہ اپنے ادارے میں باکمال لوگوں کو جمع کردیتے تھے۔ 

ظاہر ہے کہ وہ ان باکمال شخصیات کو سب سے زیادہ معاوضہ بھی ادا کرتے ہوں گے۔ روزنامہ جنگ کا پیش کش کا انداز بھی منفرد رہا، بہت سے اخبارات نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کام یاب نہیں ہوسکے۔ میر خلیل الرحمن نے کراچی سے جنگ کا آغاز کیا تو اس کے مقابل بڑے اخبارات تھے، لیکن ان کی سخت محنت نے بالآخر ان سب کو پیچھے چھوڑدیا۔

رضوان صدّیقی

ممتازادبی اور سماجی شخصیت

روزنامہ جنگ بچپن سے ہمارا ساتھی ہے۔ میں بچّوں کے صفحے کےلیے لکھتا رہا۔شفیع عقیل مرحوم اس صفحے کے انچارج تھے اورہم سب بچّوں کے لیے ’’بھائی جان‘‘ تھے۔ میری ادبی اٹھان میں اس اخبار کا بنیادی کردار ہے۔ اس نے ہماری رجحان سازی کی ۔وقت گزرنے کے ساتھ جنگ کے ساتھ تعلق میں مزید اضافہ ہوا اور اس اخبار سے وابستہ بعض سینئر صحافیوں سے تعلق پیدا ہوا۔پھر وہ وقت آیا کہ میرا سفر نامہ ’’آستانے سے پیرس تک‘‘1980 کی دہائی میں ایک برس تک ہر ہفتے قسط وار شایع ہوتا رہا۔ پھر تسلسل کے ساتھ اس روزنامے کے لیے کچھ نہ کچھ لکھتا رہا۔

دراصل جنگ اورپاکستان ایک ساتھ چلنے والے دو نام ہیں۔ پاکستان کی سیاسی، سماجی،ادبی اور تجارتی ترقی میں جنگ کا بہت اہم کردار ہے۔ اس نے ملک کی آبادی کی اکثریت ، یعنی خواتین کو زندگی کے ہرشعبے میں آگے لانے کے عمل میں بہت نمایاں کردار ادا کیا اور ان کے مسائل اجاگر کیے۔ عام آدمی کی معلومات میں اضافہ کیا،نوجوانوں کو ادب کی جانب مائل کیا اور طالب علموں کو مہمیز دی۔

ان میں سے بہت سے بچوں اور نوجوانوں نے بعد میں بہت نام پیدا کیا۔ پہلے کی طرح آج بھی اس کی شہ سرخی اور چند اہم خبریں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے حکومت اور ملک کی کیا صورت حال ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ادارہ جنگ نے کئی میگزینز اور اخبارات کا اجرا کیا، لیکن ہر جگہ ایسا توازن برقرار رکھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں اردو زبان کی ترویج و ترقی بھی اس روزنامے کا ایک کارنامہ ہے۔

یہ دنیا بھر میں پاکستان کا سب سے بڑا سفیر ہے،کیوں کہ میری معلومات کے مطابق روزنامہ جنگ ،اخبار جہاں اور ادارے کی دیگر مطبوعات تقریبا پچاس ممالک میں جاتی ہیں۔ یہ خدمت ہمارے کسی اور روزنامے کے حصے میں نہیں آئی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے ضمن میں پاکستانی عوام کے جذبات کی موثر انداز میں ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ اس نے صفِ اوّل کے صحافی اور کالم نگار پیدا کیے۔ میری زندگی پر اس روزنامےنےبہت اہم اور اچھےاثرات مرتب کیے ہیں۔

عثمان دموہی

ممتاز محقق اور مصنف

میری نسل کے دیگر بہت سے افرادکی طرح روزنامہ جنگ میرابھی بچپن کا ساتھی ہےاور یہ تعلق آج بھی قائم ہے۔ بچپن سے میرے گھر میں آتا ہے۔’’بچّوں کا جنگ ‘‘ میں کہانیاں پڑھتا تھا ، قلمی دوستی کے سلسلے میں تصویر بھیجی جس کےچھپنے پر بے انتہا خوشی ہوئی تھی ۔ جنگ اخبار بہت سی نسلوں کی روایات کا ایک مستقل حصہ تھا اور آج بھی ہے ۔پاکستان کےکسی بھی حصے میں کسی بھی نسل کا کوئی ایسا خواندہ فرد ملنا مشکل ہے جو یہ کہہ سکےکہ اس نے کبھی روزنامہ جنگ کو زیر مطالعہ نہیں رکھا۔

یہ پاکستانیوں کی زندگی کےہرشعبےپر اثر انداز ہو ا ،سیاست ،معیشت، تجارت، سماج، مذ ہب، غرض یہ کہ ہر شعبے پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔ دیگر روزناموں پر اسےیہ فوقیت حاصل ہے اور یہ اس کا طرّہ امتیاز ہے۔اس نے عوام کو آگاہی دی، ان کی دل چسپی کے مواد پیش کیے، ان کی رائے لی،کبھی اپنے قارئین کو مایوس نہیں کیا ، خبروں اور تجزیوں کے ضمن میں اپنی پالیسی متوازن رکھی۔ یہ اور اپنی دیگر بہت سی خصوصیات کی وجہ سے روزنامہ جنگ ایک مکمل عوامی اخبار بنا۔

یہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔سات آٹھ دہائیوں میں بہت سے روزناموں کا اجرا ہواور بہت سے منظر سے غائب ہوگئے،لیکن کوئی بھی اس کے ہم پلّہ نہیں ہوسکا۔ کیا خبریں، کیا تجزیے،کیا کالم ، کیا انٹرویوز ،کیا اس سے وابستہ صحافی،سب ہی بہت عمدہ۔ مستند اور پختہ اخبار ، مستند ،نام ور، کہنہ مشق صحافی اورکالم نگار، کیاکچھ نہیں۔ تحریکِ پاکستان میں بھی اس کا حصہ۔اس نے سچ لکھنے کی پاداش میں وقتا فوقتا نقصانات بھی اٹھائے ،لیکن اپنی غیرجانب داری کی پالیسی ترک نہیں کی۔تحقیق اور تصنیف کے شعبے کے ایک ادنی طالب علم ہونے کے ناتے میرے لیے اس کا ایک بہت اہم پہلو یہ بھی ہےکہ یہ قیامِ پاکستان سے اب تک ہمارے ملک میں رونما ہونے والے ہر اہم واقعے کا دستاویزی اور تاریخی حوالہ ہے۔

حبیب الدین جنیدی

مزدوروں کے ممتاز اور سینئرراہ نما

میں روزنامہ جنگ کوپاکستان میں جدید صحافت کابانی سمجھتا ہوں۔اس نے صحافتی اصولوں کی پاس داری کرتے ہوئے سیاسی، سماجی،اقتصادی اور عوامی مسائل کےضمن میں متعلقہ شعبوں سے وابستہ افراد اور ماہرین کا نقطہ نظرہر دور میں جرات اور دلیری کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا۔ میر خلیل الرحمن مرحوم سے میری یاد اللہ تھی ، وہ مجھ پر مہربان تھے اور ہمیشہ مجھ سے بہت اچھی طرح پیش آیا کرتے۔ پہلے روزنامہ جنگ دو صفحات پر مشتمل ہوتا تھا، پھر وقت کے ساتھ اس کے صفحات میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور یہ تعدادآٹھ تک پہنچی۔ 

پھر وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھی اور بیس سے سے آگے تک کا سفر طے ہوا۔میر خلیل الرحمن مرحوم کی ابتدا ہی سے خواہش اور کوشش تھی کہ ان کے اخبار میں زندگی کے ہر شعبے کو نمائندگی ملے۔ انہوں نے جو بھی میگزینز یا صفحات شروع کیے یہ مقصد حاصل کرنےکے لیے ان میں جگہ مخصوص کی اور ہر شعبے کے چوٹی کے افرادسے مضامین لکھوائے اور ان کے انٹرویوز کرائے۔انہوں نے محنت کشوں کے جائز مطالبات اور ان کی تحاریک کی ہمیشہ مدد کی۔ روزنامہ جنگ میں محنت کشوں کی خبر لگنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ان کی آواز پورے ملک تک پہنچ گئی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ مارشل لا کے ادوار میں بھی جنگ نے محنت کشوں کی خبریں شایع کیں۔ ہم اس دور میں جنگ کی خبروں پر ہی تکیہ کرتےتھے۔روزنامہ جنگ نے کئی مواقعے پر مزدور تحریکوں کی خبریں شایع کرکے انہیں بڑھاوا دیا۔ اس کی پالیسی سے کسی نکتے پر کوئی اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر اس اخبار نے پاکستان اور محنت کشوں کی بہت خدمت کی ہے۔ آزاد صحافت کرکے روزنامہ جنگ نے ملک ،قوم اور جمہوریت کی جو خدمت کی ہے اس پر ادارہ جنگ بہ جا طورپر فخر کرسکتا ہے۔

ارشاد بخاری

صدر کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد

میں نے ملک میں جنگ جیسا کوئی دوسرا اخبار نہیں دیکھا۔ اڑتالیس برس سےٹرانسپورٹرز کا نمائندہ ہوں۔ اس دوران اس اخبار سے کافی تعلق رہا،لہذا اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ عوام کا نمائندہ اور متوازن پالیسی رکھنے والا اخبار ہےجسے ہر طبقے کے لوگ پڑھتے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ اس نے ہمیشہ غریبوں کا ساتھ دیا۔ ٹرانسپورٹرز نے جب بھی درپیش مسائل کی نشان دہی کی جنگ نے انہیں اہمیت دی جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے مسائل حل بھی ہوئے جس پر ہم میر خلیل الرحمن مرحوم سےمیرجاوید الرحمن، میرشکیل الرحمن تک اور تمام عملے کے مشکور ہیں۔

ڈاکٹر معصومہ حسن

چیئرمین، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز،صدر عورت فاؤنڈیشن پاکستان

میرے والد ، سرور حسن، دہلی میں قیامِ پاکستان سے پہلے، میر خلیل الرحمٰن کو اس وقت سے جانتے تھے جب جنگ اخبار محض ایک ہفتہ وار اشاعت تھا۔جب ہمارا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد اگست 1947میں ہجرت کر کے کراچی میں آن بسا تو روزنامہ جنگ ہمارے یہاں روز پڑھا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ روزنامہ جنگ سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے جس کی وجہ کوئی ایک نہیں۔ تاہم چند وجوہات جو فوری طور پر گنوائی جا سکتی ہیں ان میں اس کے کارکنوں کی شب و روز محنت، درست اور مصدقہ خبریں شائع کرنا، اچھے معیار کے کالم، مضامین، سیاسی و معاشی تجزیے اور عوام الناس کی دیگر دل چسپیوں کے مضامین شائع کرناہے، جن میں طبی مشورے، سماجی مسائل ،حتٰی کہ ستاروں کی چالیں بھی شامل ہیں۔ پھر یہ بہ یک وقت کئی شہروں سے شائع ہوتا ہے اور پاکستان کے ہر شہر میں با آسانی دست یاب ہے۔ 

جنگ اورادارہ جنگ کی دیگر پبلیکیشنز بیرونِ ملک ، جن میں لندن خاص طور پر شامل ہے،بہ طور خاص پڑھی جاتی ہیں۔ اپنے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرنے کی اس کی کاوش مزید پھیلتی جارہی ہیں اور اس کا دائرہ مزید وسیع ہوتا جارہا ہے جو ایک قابل تعریف اور لائقِ تحسین امر ہے۔جنگ میڈیا گروپ کا جیو چینل بھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں ہر فکروخیال کے تجزیہ نگار شامل ہیں جو مختلف نقطہ نظر میں ایک مناسب توازن قائم رکھتے ہیں۔

ایک اہم بات جس نے جنگ کے ادارے کو بہت معتبر بنا دیا ہے، یہ ہےکہ حکم رانوں، دیگر سیاست دانوں اور مختلف اداروں کے بارے میں اس کے نمائندے خبریں یا اندرونِ خانہ معلومات بریک کرتے ہیں۔ اور جب مذکورہ حضرات اور ادارے اخبار میں چھپنے والے حقائق درست نہ ہونے کی تردید یا اس سے انکار کرتے ہیں، تو متعلقہ نمائندے اپنی فراہم کردہ خبرو معلومات پر قائم رہتے ہیں کہ آپ اسے غلط ثابت کردیں تو جانیں۔ 

اگلے روز یا اِس کے بعد خبرو معلومات جھٹلانے والے قطعی خاموش رہتے ہیں، گویا وہ تردید کرنے میں ناکام رہے۔ یہ ایک بہت قابلِ تعریف بات ہے جو جنگ اخبار اور چینل کا ہی خاصہ ہے۔ لہٰذا جنگ نے نہ صرف اپنے بلکہ قومی صحافتی معیار کو بلند کیا ہے اور پورے صحافتی شعبے کو فروغ دیا ہے۔ اِسی نیٹ ورکنگ نے اخبارکو مقبول عام بنا دیا ہے۔ چوں کہ قارئین قومی و بین الاقوامی معاملات کے بارے میں ایک ہی اخبار پڑھ کر کافی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صحافت بہت مشکل ادوار سے گزری ہے، لیکن جنگ اخبار ہمیشہ ثابت قدم رہا۔

فاطمہ حسن

ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار

وہ میرا بچپن تھا۔پڑھنا کیا سیکھ لیا تھا جو کچھ ہاتھ لگ جاتا پڑھ ڈالتی۔والدین کی طرف سے پابندی تھی کہ زیادہ وقت کورس کی کتابوں پر صرف کروں، مگر کورس کی کتابیں تو روٹین میں شامل تھیں۔مجھے ہر لمحہ کسی نئی کی کھوج ہوتی۔یہ تلاش ہر اس کاغذ کو پڑھوالیتی جو ہاتھ لگ جاتا۔ان میں وہ لفافے اور پڑیائیں بھی شامل ہوتی تھیں جن میں سودا سلف آتا تھا۔اُس وقت پولی تھین کی تھیلیاں نہیں ہوتی تھیں، عموما پرانے اخباروں سے پڑیاں اور لفافے بنانے کا کام لیاجاتا تھا۔ان کاغذات کے علاوہ ایک اخبار جو باقاعدگی سے سے مکمل دست یاب ہوتا تھا وہ روزانہ آنے والا جنگ اخبارتھا۔

اس میں ابراہیم جلیس کا کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ کے عنوان سے چھپتا تھا۔سب سے پہلے یہ کالم پڑھتی اور کئی بار پڑھتی۔یہ میری جنگ اخبار سے وابستہ بچپن کی یادیں ہیں۔ میں یہ بھی بتادوں کہ میرا بچپن ڈھاکا میں گزرا ہےجو اُس وقت مشرقی پاکستان کا شہر تھا۔ وہاں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد محدود تھی، مگر پڑھے لکھے لوگ گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری ضرور رکھتے تھےاور اخبارات باقاعدگی سے آتے تھے ۔ مجھے بھی اپنے گھر کی کی اشیا میں جن سے اس وقت کے رہن سہن کا تصور ابھرتا ہے، ایک واضح تصویر جنگ اخبار کی نظر آتی ہے۔یہ اخبار ہماری روزانہ زندگی کا لازمی حصہ رہا ہے۔

پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اس روزانہ کے ساتھی اخبار کے ساتھ ان تمام بزرگوں کے چہرے بھی سامنے آجاتے ہیں جنہوں نے مجھے قلم اٹھانے کے قابل بنایا۔پھر وہ شناسا سا نام بھی مجسم ہوکر چشم تصور میں ابھرتے ہیں جنہیں ہم نے ان ہی کی تحریر سے پہچانا اور بعد میں ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ مثلا کالم نگار ابراہیم جلیس،نصراللہ خاں،انعام درانی،ابن انشا،احمد ندیم قاسمی ۔۔۔۔۔۔ اس اخبار کے بڑے بڑے قلم کار اپنی تحریر کا سرمایہ چھوڑگئے ہیں۔

جب میں خود صحافت کی تدریس سے وابستہ ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کالم کتنا بڑا اثاثہ ہیں جو ان بزرگوں نے ہمیں عطا کیا ہے۔ انہیں مرتب کیا جانا چاہیے اور صحافت کے نصاب میں ان کے نمونے شامل کیے جانے چاہییں۔ جنگ اخبار کی ایک اور تخصیص قطعات ہیں جو رئیس امروہوی لکھتے رہے اور اب انور شعور لکھتے ہیں۔

صحافت ابتدا سےادب سے وابستہ رہی ہے۔جنگ نے اس روایت کو قائم رکھا۔اس اخبار میں جمیل الدین عالی، عطا الحق قاسمی،مسعود اشعر،کشور ناہید، اصغر ندیم سید، وجاہت مسعود، جیسی شخصیات نےکالم لکھا اور لکھ رہی ہیں،البتہ ان میں سے بعض دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ جنگ اخبار نے کتابوں پر تبصرے کی روایت کو بھی برقرار رکھا ہے۔ شفیع عقیل کی وفات نے خلا پیدا کیا،لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔ جنگ اخبار کی 75سالہ روایت ادب اور صحافت کے امتزاج کی جن مستحکم بنیادوں پر ہیں انہیں قائم رہنا چاہیے۔میری نیک تمنائیں اور دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔

ڈاکٹر سید امجد علی ثاقب

ہمارے ہاں روزنامہ ’’انجام‘‘کے علاوہ ’’جنگ‘‘ کراچی بھی 1960سے پڑھا جاتا تھا۔ روزنامہ انجام 1936سے شایع ہونے والا کثیر الاشاعت اخبار تھا ، لیکن پندرہ اپریل 1967کو یہ بند ہوگیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ’’جنگ‘‘ نے اس وقت تک بہت مقبولیت حاصل کرلی تھی اور ’’انجام‘‘ ،جو پہلے نمبر پر تھا، دوسرے نمبر پر آچکا تھااور بہ تدریج مالی خسارہ بڑھنے کے باعث بالآخر بند ہوگیا تھا۔ یہ ’’جنگ‘‘ کی بڑی کام یابی تھی کہ ’’انجام‘‘ کے بیش تر قارئین بھی جنگ کے حصے میں آگئے تھے ۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ ’’جنگ‘‘ سے رشتہ گہرا ہوتا گیا اور وہ وقت بھی آیا جب ہم اس میں لکھنے والوں میں شامل ہوگئے۔1970میں طلبا کے صفحے پر ایک برس تک کالم بہ عنوان ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘لکھا۔ طالب علمی کا دور ختم ہونے کے بعد گاہے بہ گاہے ہمارے کالم اور مضامین جنگ میں شایع ہوتے رہے۔ جن دنوں ہم مذکورہ کالم تحریر کررہے تھے،ان ہی دنوں کی بات ہےکہ ایک روز میر خلیل الرحمن مرحوم نے ہمیں بلا بھیجا اور فرمایا :تم اچھا خاصا لکھ لیتے ہو،طالب علمی کا دور مکمل ہونے کے بعد صحافت کا شعبہ اختیار کرنا اور ادارہ جنگ میں شامل ہوجانا۔

جنگ نہ صرف مصدقہ خبروں کے معاملے میں بلکہ متوازن سیاسی،معاشی اور دفاعی تجزیے شایع کرنے میں بھی اپنی خاص شناخت رکھتاہے۔بلکہ دیگر بیش بہا معلوماتی مضامین، جن میں ہرقسم کی دل چسپی رکھنے والوں کے لیے مواد ہوتا ہے،شامل ہوتے ہیں۔ مثلا ادب،صحت، تعلیم، طب اور کھیل وغیرہ۔ اس ادارے نے نہ صرف پرنٹ میڈیا میں اپنا مقام بنایا بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی جیو جینلز کے ذریعے بےلاگ سیاسی، دفاعی اور سماجی تجزیوں سے اپنے آپ کو منوایا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارہ جنگ ،دی نیوز اور جیو چینلز سے اپنا منفرد مقام بناچکا ہے۔

جیوکے پروگرام بھی لوگ بڑی تعداد میں دیکھتے ہیں۔ جنگ اورجیو چینلز ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں اس کی پہنچ ہے،بڑے ذوق و شوق سے پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ جیو چینل کے نمائندے ہر خطرہ مول لے کر اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ان اداروں میں کام کرنے والے تمام صحافی اپنی بہترین صلاحیتیں بہ روئے کار لاتے ہیں۔

جنگ،اس حوالے سے کہ یہ خبروں کے علاوہ کثیر الجہتی علمی مواد شایع کرتاہے ،منفرد مقام رکھتا ہے۔ ہمارے حسن طلب کا یہ عالم ہے کہ جب کبھی لاہور ، ملتان یا اسلام آباد جانا ہوتا ہےتو دیگر اخبارات کے علاوہ جب تک ’’جنگ‘‘ نہیں دیکھ لیتے، تشنگی سی رہتی ہے۔

سعیدہ افضل

ممتاز صحافی اور ادیبہ

قلم کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز، اور زہرِہلاہل سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ بلاشبہ قلم سے معاشرے میں انقلاب لایا جاسکتاہے اور زمانے کی سوچ کا رخ موڑا جاسکتا ہے۔ایک معیاری جریدہ یا اخبار اورصاحبِ بصیرت صحافی کی مثبت سوچ ذہنوں کو صحیح سمت میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ دانش وروں کی مثبت سوچ سے ہی قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ جناب میرخلیل الرحمن،  کے اسی مثبت انداز فکر اور دوراندیشی کے سبب ’’روزنامہ جنگ‘‘ کا اجرا ممکن ہوا… اور ان کی فراست وبصیرت کی بہ دولت اس روزنامے نے دنیائے صحافت میں اعلیٰ مقام پایا۔ اس کی بہ دولت بہ تدریج پاکستانی قوم کے ذہنوں کی ترقی اور ترویج ہوتی رہی۔ اس پلیٹ فارم سے بے شمار گم نام اور نوآموز لکھنے والوں نے آگے چل کر معتبر مقام پایا وہ نام ور صحافی اور بلند پایہ مصنفوں اور ادیبوں کی صف میں شامل ہوئے۔

طالب علمی کے زمانےسے جو ’’ طلبہ وطالبات ، طالب علموں کےلیے مخصوص صفحےپرلکھتے رہے، انہوں نے بھی پہچان وشناخت پائی۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ زمانہ طالب علمی سے ہی میری خام تحریروں نے اسی اخبار سے جلا پائی۔ ’’جنگ اخبار‘‘ کے ہی معتبر حوالے سے میری ادب وصحافت کی دنیا سے شناسائی ہوئی ۔ مجھ پر معاشرے کے عیب وثواب کھلے، سدھار کے بارے میں آگہی حاصل ہوئی۔

میرے ذہنی ارتقا کے سفر کا آغاز، نودس برس کی عمر میں ان دنوں سے ہوا جب میں پرائمری اسکول کی طالبہ تھی۔ بڑے ذوق وشوق سے روزنامہ جنگ میں بچوں کاصفحہ ‘‘ پڑھتی تھی۔ اس مخصوص صفحے پر بڑی احتیاط سے ایسا مواد شامل ہوتا تھا کہ کم سنوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت ہوتی تھی۔بچوں کی تحریریں وکہانیاں شامل ہوتیں، تحریری مقابلے اور انعامات کااعلان ہوتا تھا جس سے نئی نسل کولکھنے کی ترغیب ملتی تھی۔ مقابلے کا صحت مند رحجان فروغ پاتا اورجن میں لکھنے کی خداداد صلاحیت موجود ہوتی وہ نکھر کرسامنے آجاتی تھی۔ میں نے بھی اسی صفحےسے اپنے لکھنے کا آغاز کیا۔

روزنامہ جنگ اوائل میں تحریک آزادی کا علم برار بنا، پاکستان وجود میں آنے کے بعد یہ عام قاری کےلیے شعور واگہی کاذریعہ بن گیا ۔نئے وطن میں رہنے،بسنے والوں کو ایک اور متحد ہوکر مضبوط قوم کے روپ میں ڈھلنے کی ضرورت تھی، یہ فریضہ بروقت روزنامہ جنگ نے سنبھال لیا۔

پاکستان وجود میں آیا تومیں تین برس کی تھی اور اسکول نہیں جاتی تھی۔جب اسکول جانےکے لائق ہوگئی توروزنامہ جنگ میں چھپنے والی بچوں کی کہانیاں امی سے سننے اور پھر خود پڑھنے لگی۔ اس میں افضل صدیقی صاحب نے بچوں کی بزمِ ادب تشکیل دی۔ اس بزم ادب سے طلبا کے صفحے تک، پھر اسکول کے زمانے سے کالج تک اور پھر یونی ورسٹی کے دور میں’’ شہر سے بارہ میل پر‘‘ کے کالم تک، اپنی تحریریں اور یونی ورسٹی میں منعقدہ فنکشنز کی رپورٹیں لکھ کر اسی روزنامے میں ارسال کیا کرتی تھی۔ 

ان دنوں شفیع عقیل مرحوم اور جناب نثار زبیری ان رودادوں کوشائع کیا کرتے تھے۔ ان دونوں حضرات نے میری ہی نہیںبے شمار نوآموز طلبہ وطالبات کی رہنمائی کی، ہمیں لکھنے کا حوصلہ ان ہی سے ملا… ان دنوں ہمارے ساتھ پڑھنے والوں کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔ ان ہم عصر طالب علموں نے آگے چل کر بڑا نام پیدا کیا۔

ان سب کو ذہنی تربیت اور لکھنے کی ترغیب، روزنامہ جنگ کے پلیٹ فارم سے میسر آئی۔ یہ گوہر نایاب سبھی ’’ جنگ‘‘ کے دامن سے آب دار ہوکر نکلے۔نسلِ نو کی جلاوتربیت میں مدد ملی اور نوآموز لکھنے والوں کو اس ادارے کی صورت میں پہلی درس گاہ میسر آگئی۔ یہ میر صاحب کا پاکستانی قوم پر بڑا احسان ہے۔

سلطانہ مہرنے ،جوخواتین کے صفحات کی انچارج تھیں، کئی مضامین صفحہ خواتین کے لیےمجھ سے لکھوائے، میں نےاپنا ناول’’جھوٹے سچے لوگ‘‘ بھی ان ہی کی تحریک پر لکھا جو روزنامہ جنگ میں سال بھر تک قسط وار ہر ہفتے شائع ہوتا تھا۔ اسی طرح نثار زبیری صاحب نے مجھ سے طالب علموں کے لیےناول تحریر کرایا اور اسے قسط وارشائع کیا۔ انہی نے مجھ سے ادارے کے لیے’’ جنگل کا پھول‘‘، ناول بھی لکھوایا۔ 

شفیع عقیل صاحب کے کہنےپر میں نے نظمیں اور گیت لکھے جوانہوں نے جنگ کے ادبی صفحے پرشائع کیے۔غرض یہ کہ ان سب حضرات نے میری لکھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھایا اور مجھے لکھنے والوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔میں ’’جنگ‘‘ اوران سب کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ بعد میں مجھے اخبار جہاں میں خواتین کے صفحات کا انچارج مقرر کیا گیا۔ بلاشبہ ادارہ جنگ ایک بڑا ادارہ ہی نہیں یہ نسل درنسل نوآموز لکھاریوں کی ایک قیمتی درس گاہ بھی ہے ۔

راو عبد المنان،’’جنگ‘‘ کے پرانے قاری

نواب شاہ

ہمارے والد ایک فوجی افسر تھے اور ان دنوں کوئٹہ چھائونی کی پائنیر روڈ کے ایک بنگلے میں رہتے تھے جو ڈیری فارم سے متصل تھا۔آج کل وہ سڑک سلطان محمود غزنوی روڈ کہلاتی ہے۔والد صاحب صرف انگریزی اخبار پڑھتے تھے۔ ہم کوئی اخبار نہیں پڑھتےتھے اور مشہور انگریزی رسالے ریڈرز ڈائجسٹ کی تصویروں سے ہی دل بہلا سکتے تھے کہ اس وقت تک اتنی انگریزی پڑھنا نہیں آتی تھی۔ پھر ہمارے گھر میں انقلاب آ گیا یعنی ’’جنگ‘‘ آ گیا۔ 

ہم اس وقت تک ’’جنگ‘‘ کے نام سے واقف نہ تھے البتہ کبھی کبھار تسنیم، امروز، یا زمیندار اخبار، وغیرہ کوئی مہمان لے آتا تھا۔ ہمارے گھر جنگ کی آمد کا سبب شوکت تھانوی مرحوم کا مشہور کالم وغیرہ وغیرہ بنا۔شوکت تھانوی ادیب اور شاعر توتھے ہی، لیکن انہیں زیادہ شہرت ان کے ریڈیو کے پروگرام ’’قاضی جی‘‘ سے ملی۔ ہمارے گھر میں بھی قاضی جی کو بڑے شوق سے سنا جاتاتھا۔ یوں قاضی جی کی برکت سے ہمیں جنگ پڑھنے کو ملا۔

جس دن جنگ ہمارے گھر میں پہلی مرتبہ آیا ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جنگ ہمیں یوں ملا جیسے دنوں کے پیاسے کو صحرا میں پانی مل جائے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے ،ہم نے اخبار کی ایک ایک سطر پڑھی، ایک ایک لفظ پر انگلی رکھ کر کہ کہیں کوئی لفظ پڑھنے سے نہ رہ جائے اور اس طرح دو مرتبہ پڑھا۔ ہماری یہ کیفیت کئی دن تک رہی۔ 

ان دنوں جنگ میں چھوٹے شہروں کی خبریں کم اور دنیا جہاں کی خبریں زیادہ شائع ہوتی تھیں۔ کانگو، کٹنگا، شو بے لو سمبھا جیسے ناموں سے ہم جنگ کے ذریعے ہی متعارف ہوئے۔ جنگ میں ٹارزن کی کہانی قسط وار شائع ہوتی تھی جس کے تراشے ہم جمع کرتے جاتے تھے۔ ان دنوں جنگ کی جسامت اور کتابت آج کے معیار کے مطابق تو نہ تھی لیکن جنگ ہمارے لیے معلومات کا خزانہ ثابت ہوا کہ ان دنوں پاکستان میں معلومات عامہ کے ذرائع بہت محدود تھے۔ پھر جنگ کے صفحات کی تعداد بڑھی اوریہ ٹائپ پر بھی شائع ہونا شروع ہوا۔

میر خلیل الرحمٰن صاحب نے اردو کے نام ورلکھنے والوں کی ایک کہکشاں جنگ میں سجا دی تھی۔ رئیس امروہوی،جمیل الدین عالی، شوکت تھانوی، حفیظ جالندھری ، فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی جنگ میں لکھ رہے تھے۔ جمیل الدین عالی کا مشہور سفر نامہ ’’دنیا مرے آگے‘‘ شائع ہونا شروع ہوا۔یہ سفر نامہ اور جین ڈوگر کے مہماتی مضامین ہمارے لیےانتہائی دل چسپی کا باعث تھے۔ دورِ ایوبی میں زور دیا جانے لگا کہ اردو رومن حروف میں لکھنی چاہیےترکی کی طرح، لیکن شوکت تھانوی کے ایک ہی مزاحیہ مضمون سے اس غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ انہوں نے دیگر باتوںکے علاوہ لکھا تھا کہ اگر کوئی رومن میں لکھے کہ شوکت تھانوی اجمیر گئے توا سے یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ شوکت تھانوی آج مر گئے۔

جنگ باقاعدگی سے پڑھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جب ہم اسلامیہ کالج لاہور پڑھنے کےلیے گئے تو معلوم ہوا کہ لاہورکے رہنے والے طلبا معلومات عامہ میں ہم سے آگے نہیں، حالاں کہ ان کے حساب سے تو ہمیں ایک ’’پینڈو‘‘ ہی ہونا چاہیے تھا کہ شہری زندگی سے کٹے رہے تھے۔ 1956میں بہ حیثیت قاری ’’جنگ‘‘ سے قائم ہونے والا تعلق آج تک برقرار رہے۔