روزنامہ ’’جنگ ‘‘نے مرد وعورت میں تفریق کیے بغیر ہمیشہ خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے جن خواتین نے کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی، ان کو ہر طر ح سے سراہا ہے نہ صرف ان کو بالکل جن خواتین پر تشدد کیا گیا ، غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ، ناانصافی کی گئی ان کے لیے بھی آواز اُٹھا ئی ہے ۔ان کو انصاف دلوانے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔مختلف شعبوں میں اپنا نام کرنے والی ،اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھا کر دنیا پھر میں ملک کا نام روشن کرنے والی چند خواتین کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے ۔؎
…محترمہ فاطمہ جناح…
محترمہ فاطمہ جناح31 جولائی 1893 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں ،وہ بانی پاکستان قائد اعظم کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں۔ان کو مادر ملت یعنی قوم کی ماں کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا ۔پیشے کے اعتبار سے فاطمہ جناح دانتوں کی سرجن تھیں اور ان کا شمار پاکستان کے معروف بانیوں میں ہوتاتھا۔انہیں پاکستان کی سب سے بڑی خواتین شخصیت سمجھا جاتا تھا ۔محترمہ فاطمہ جناح ایک عہد ساز شخصیت تھیں جنہوں نے پہلی مرتبہ بیسویں صدی کی خواتین کے لئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ ان کے قوم پر اس قدراحسانات ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا، بظاہر ایک خاموش طبع خاتون ،مگر بہادر ایسی کہ قائد اعظم کے تمام حوصلے اور سیاسی طاقت ان ہی کی مرہون منت تھی اور دور اندیش ایسی کہ قائد اعظم نے خود اعتراف کیا کہ میں کوئی بھی سیاسی حتمی فیصلہ اپنی بہن فاطمہ جناح کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا ۔قائد اعظم نے خود فرمایافاطمہ جناح میرے لئے حوصلے کا ذریعہ ہے۔
…بیگم رعنا لیاقت علی خان…
بیگم رعنا لیاقت علی لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں 1912ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم نینی تال کے ایک زنانہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات اور عمرانیات کیا۔ کچھ عرصہ ٹیچر رہیں۔ پاکستان بننے سے قبل آپ نے عورتوں کی ایک تنظیم ’’آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا)‘‘قائم کی۔ قیام پاکستان کے بعد ایمپلائمنٹ ایکسچینج اوراغوا شدہ لڑکیوں کی تلاش اور شادی بیاہ کے محکمے ان کے حوالے کیے گئے۔1947 ء سے 1951 ء تک پاکستان کی خاتون اول ،تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر رہیں۔
ان کا شمار پاکستان کی صف اول کی خواتین میں ہوتا تھا۔ پاکستان موومنٹ کمیٹی کی ذِمّہ دار رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔1952 ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ 1954ء میں ہالینڈ اور بعد ازاں اٹلی میں سفیراور سندھ کی گورنر بھی رہیں۔1954 ء میں ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر کاعہدہ بھی سنبھالا ۔یہ پہلی خاتون تھیں جنہیں سفیر کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا ۔
……شائستہ اکرام اللہ ……
شائستہ اکرام اللہ 22 جولائی 1915 ء میں کلکتہ ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔1932 ء میں ان کی شادی مشہور سفارت کار محمد اکرام اللہ سے ہوئی۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ شادی سے پہلے ہی شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانہ لکھا کرتی تھیں اور ان کے افسانے اس زمانے کے اہم ادبی جرائد ہمایوں، ادبی دنیا، تہذیب نسواں اور عالمگیر وغیرہ میں شائع ہوتے تھے۔ 1940ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی، وہ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔تحریک پاکستان کے دنوں میں جدوجہد آزادی میں حصہ لیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مراکش میں سفارتی خدمات انجام دیں ۔ قائد اعظم کے کہنے پر وہ سیاست میں شامل ہوئیں۔ اکرام اللہ مسلم ویمن اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم لیگ ویمن ذیلی کمیٹی کی لیڈر تھیں ۔ 1945 ءمیں انہوںنے محمد علی جناح کے کہنے پر حکومت ہند کی پیسفک ریلیشن کانفرنس میں شرکت کی آفر ٹھکرا دی۔وہ 1946 کی آئین ساز اسمبلی میں منتخب ہوئیں ،مگر مسلم لیگ کی وجہ سے شامل نہ ہوئیں ۔ 1947 میں وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی دو خواتین اراکین میں سے ایک تھیں ۔ اقوام متحدہ میں مندوب کی حیثیت سے وقت گزارا اور انسانی حقوق کے عالمی مسودے اور نسل کشی کے خلاف کنونشن پر کام کیا ۔ وہ مراکو میں 1964 سے 1967 تک پاکستان کی سفیر رہیں ۔انہوں نے اپنی خدمات کی بناء پر حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز بھی حاصل کیا ۔
……سلمٰی تصدق حسین……
سلمیٰ تصدق حسین نہ صرف تحریک پاکستان کی نامور لیڈر تھیں بلکہ اردو زبان کی بلند پایہ شاعرہ اور نثر نگار بھی تھیں۔وہ 11 اگست 1908ء میں راولپنڈی کے ایک معروف علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ قائداعظم کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔ انہی کی شخصی کشش کی بدولت سلمیٰ تصدق حسین نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ قائداعظم محمد علی جناح کی بزرگانہ صحبت میں گزارا ۔انہوں نے بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ خواتین کی رہنمائی کی اور انگریز سا مراج پر ثابت کر دیا کہ مسلمان مردوں کے ساتھ مسلمان خواتین بھی مضبوط عزم وحوصلے کی حامل ہیں اور ہر صورت اپنا آزاد وطن حاصل کر کے رہیں گئی۔
آپ کو قید وبند کی مشقتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن بجائے گھبرانے اور کمزور پڑنے کے آپ نے دورانِ قید لاہور کی سینٹرل جیل میں قید خواتین کے ساتھ مل کر دوپٹوں کی مدد سے پاکستانی پرچم تیار کر کے جیل پر لہرا یا۔تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں 1977 میں تمغہ قائداعظم دیا گیا۔ آپ 1940سے 1958 تک پنجاب مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کی سیکرٹری رہیں اور اس دوران صوبائی مسلم لیگ کی مجلس عاملہ اور میونسپل کارپوریشن کی رکن منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 1952 اور 1954 میں آپ نے پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کی۔1958 میں آپ مغربی پاکستان کی نائب وزیر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔
……لیڈی ہارون ……
لیڈی ہارون 1886 ء میں ایران میں پیدا ہوئیں ۔ وہ سندھ میں عورت تنظیم انجمنِ خواتین کی بانی تھیں۔ اس تنظیم کا اہم مقصد سندھ کے خواتین کی خراب اقتصادی اور سماجی حالت کو درست کرنا تھا۔ وہ عورتوں کی تعلیم کی بہت بڑی حامی تھیں اوراپنے گھر میں اسکول قائم کرکے اپنے علاقے کی عورتوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی تھیں۔ان کا سیاسی کیریئر 1919 میں اس وقت شروع ہوا جب وہ سندھ میں خلافت تحریک کی سخت پیروکار بن گئیں۔ 1938 میں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی سینٹرل سب کمیٹی میں نامزد کیا گیا اور سندھ میں خواتین کی سب کمیٹی کی صدر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے بینرتلے لانے کے لئے دن اور رات کام کیا۔ لیڈی نصرت عبداللہ ہارون مسلم لیگ خواتین کی پہلی صدر تھیں۔انہوں نے مسلم گرلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ویمن نیشنل گارڈ جیسی تنظیموں کی بنیادبھی رکھی تھی۔
……بیگم اصفہانی……
بیگم اصفہانی اپنے شوہر کی قائد اعظم سے قربت کا سیاسی فائدہ اُٹھاتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو کرشوہر کے حوالے سے عہدے حاصل کر لیتیں لیکن انہوںنے ایسا نہیں کیا بلکہ سیاست کی بجائے سماجی خدمات کا شعبہ اختیار کیا۔لاوارث بچوں کا شانہ اطفال قائم کیا اور آخری لمحے تک وہاں باقاعدگی سے فرائض انجام دیتی رہیں۔ انہیں خدمات کے عوض ستارہ ٔ امتیاز سے نوازا گیا۔ تین سال تک مجلس شوریٰ کی رکن بھی رہیں۔بچوں کی خدمات کے حوالے سے وہ پاکستان چائلڈ ویلفیئر کونسل کی صدر بنیں ۔2005 ء میں انہیں ’’اس سال کی خاتون ‘‘ کا لقب بھی ملا اور 2006 ء میں اٹلی کی حکومت نے انہیں جرأت و بہادری کا اعزاز دیا ۔
……نصرت بھٹو ……
نصرت بھٹو 23 مارچ 1929 ء میں ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں وہ ایک ایرانی کرد نژاد پاکستانی شخصیت تھیں۔ انہوں نے 1971 ء سے 1977ء کی بغاوت کے درمیان وزیر اعظم پاکستان کی شر یک حیات اور 1988ء سے 1990 ء کے درمیان وفاقی کا بینہ کی سینئر رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوجانے کے بعد پیپلزپارٹی کی سر براہ بھی رہیں ۔ان کی صلاحیتوں، عزم واستقلال اور ہمت وجرأت کے مظاہر اس وقت کھل کر سامنے آئے جب جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ کر ان کے شوہر (ذوالفقار علی بھٹو ) کو جیل میں ڈال دیا۔
ایسے میں محترمہ نصرت بھٹو میدانِ عمل میں اتریں اور انھوں نے ایک طرف گھر اور بچوں کو سنبھالا اور دوسری طرف عزم و حوصلہ کے ساتھ پارٹی کی قیادت سنبھال کر اسے بکھرنے سے بچایا۔ 1977ء سے 1979ء تک محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ایک طرف شوہر کی زندگی بچانے کے لیے وکلا کے ساتھ مشاورت اور سفارتی سطح پر روابط کر رہی تھیں، دوسری طرف پارٹی کے معاملات چلاتے ہوئے اسے طاغوتی قوتوں کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ اس دوران وہ کئی بار گرفتار ہوئیں اور مختلف جیلوں میں رہیں۔ انہوں نے اس دور ابتلا کو اپنی بصیرت، ہمت اور استقلال سے گزارا اور ان کے حوصلہ اور ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔حدود آرڈیننس کے خلاف جب خواتین نے لاہور میں جلوس نکالا تو اس واقعے میں پولیس کی لاٹھی چارج کا شکار بھی ہوئیں ۔
……محترمہ بے نظیر بھٹو ……
بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 ء کو سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں ۔بے نظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد حالات کی خرابی کی بنا پر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل ضیاءالحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی نظر بند کر دیا گیا۔ 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔
ملک سے مارشل لا ہٹانےکے بعد 1986ء میں جب بے نظیر وطن واپس آئیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجُہد کا دامن نہیں چھوڑا۔ 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ اور بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست، 1990ء میں بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔1993 ء میں عام انتخابات ہوئے ،جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں۔
……عاصمہ جہانگیر……
عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952 ء میں لاہور میں انسانی حقوق کے علمبر دار ملک جیلانی کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے بے باک اور انتھک جدوجہد آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے ۔ وہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف سینہ سپر اور عدلیہ بحالی تحریک میں پیش پیش رہیں۔ ان کی تمام تر زندگی آئین کی حکمرانی ،جمہوریت کے قیام اور انسانیت کے فروغ میں گزری۔ سپریم کورٹ کی صدر بننے کے بعد انہوں نے ملک میں مرد وخواتین کے حقوق کے تحفظ ،آزادی رائے ،جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف بے مثال کردار ادا کیا۔
ان کا نام ملکی سیاست کی اُفق پر اُس وقت اُبھرا جب انہوں نے اپنے والد ملک غلام جیلانی کی رہائی کے لیے عدالت سے رجوع کیا ۔1980 ء میں اپنی بہن اور دیگر خواتین کے ساتھ مل کر خواتین کے تحفظ کے لیے خواتین کی وکالت کے پہلے ادارے کی بنیاد رکھی ۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء میں عاصمہ جہانگیر نے بھرپور احتجاج کیا، 1983میں مال روڈ پر حدود قوانین کیخلاف ان کا احتجاج ملک کے تاریخی احتجاج میں سے ایک ہے۔ عاصمہ جہانگیر کو آمریت کیخلاف جدوجہد کرنے پرغداری جیسے الزام کا بھی سامنا رہا، ان کے گھر پر بھی کئی حملے کیے گئے، آمریت کیخلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ جیل بھی جانا پڑا لیکن وہ چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔
……بیگم نسیم ولی ……
بیگم نسیم ولی خان عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )کی پارلیمانی لیڈر تھیں۔ وہ صوبے کی پہلی خاتون تھیں جو جنرل کی نشست پر منتخب ہوئیں ۔وہ جنوری 1936 ء میں مردان پار ہوتی میں پیدا ہوئیں ۔یہ اے این پی کے بانی خان عبدالولی خان کی بیوی تھیں۔ انہوں نے 1975 ء میں پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا ۔انہوں نے ایسے وقت میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالا جب ان کی جماعت پر پابندی لگائی گئی۔ انہیں خیبر پختون خوا کی پہلی منتخب رکن پارلیمنٹ کا اعزاز بھی حاصل تھا۔1977 ءمیں چارسدہ اور مردان کے قومی اسمبلی (این اے 4 اور این اے 8) کے حلقوں پر بیک وقت رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا، کیوںکہ اس وقت این ڈی پی کی تحریک زوروں پر تھی اور مارشل لاء نافذ کیا گیا تھا۔
1994ء میں وہ پہلی بار عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کی صدر منتخب ہوئیں، 1998ء میں ایک بار پھر صوبائی صدر منتخب کردی گئیں۔ پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار 1988ء ،دوسری بار 1990ء میں چارسدہ پی ایف 13 سےاور تیسری بار پی ایف 15سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔1997 ء میں پی ایف 15 چار سدہ سے خیبر پختون خوا اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ۔وہ چار مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی پارلیمانی لیڈر بھی رہیں۔
بیگم نسیم ولی خان1997 ء سے 1990 کے دوران صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہیں۔
……کلثوم نواز……
کلثوم نواز یکم نومبر 1990 ءمیں اس وقت خاتون اول بنیں جب نوازشریف پہلی مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کا یہ دور حکومت جولائی 1993 ءتک جاری رہا۔ میاں نوازشریف 1997 میں جب دوبارہ برسراقتدار آئے تو کلثوم نواز دوسری مرتبہ خاتون اول بن گئیں،1999 میں فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کی قید و بند اور جلاوطنی کے دوران وہ 1999 سے 2002 تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدر بھی رہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کو بھی سنبھالا۔ تیسری اور آخری مرتبہ وہ 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی جیت کے بعد خاتون اول بنیں۔کلثوم نواز نے 2017 میں پہلی مرتبہ لاہور کے حلقہ این اے 120 سے ضمنی انتخاب جیت کر قومی اسمبلی کی رکن بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔بیگم کلثوم نواز نے خاتون اول اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے انتہائی فعال کردار ادا کیا۔
مریم نواز
مریم نواز 1973ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ابتدائی طور پر 2012ء میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیا ۔پاکستان مسلم لیگ نے پاکستان کے عام انتخابات 2013 ء کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا ۔ 2013ء میں ہی وہ وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی کرسی نشین مقرر ہوئیں ، تاہم عدالت عالیہ لاہور میں اس فیصلے پر درخواست کے بعد مریم نواز نے 13 نومبر 2014ء کو استعفی دے دیا۔
6 جولائی 2018ء کو پاکستانی عدالت نے جعلی دستاویزات پیش کرنے اور جرم میں معاونت کے الزام میں 7قید اور 2ملین پونڈ جرمانے کی سزا سنائی۔ سیاست میں آنے سے پیشتر، مریم نواز خاندان کی رفاہی تنظیم کے انتظام میں شامل رہیں اور شریف وقف ، شریف میڈیکل سٹی اور شریف تعلیمی اداروں کی سربراہ رہیں۔2012ء میںمریم سیاست کی طرف آئیں اور 2013ء کے پاکستان کے عام انتخابت میں پاکستان مسلم لیگ( ن) کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
……ڈاکٹر رؤ تھ فائو……
ڈاکٹر رؤتھ فائوایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کردی تھی۔ 1996ء میں پاکستان نے کوڑھ کے مرض میں کا فی حدتک قابو پالیا تھا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر روتھ کو ایک مشنری تنظیم ’’دختران قلب مریم ‘‘تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا۔
…بیگم ترئین فریدی…
بیگم تزئین فریدی 1920ء کو بھارت میں پیدا ہوئیں۔1940 ء میں مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی رکنیت اختیار کی۔ بعدازاں مسلم لیگ کونسل کی رکن منتخب ہوئیں ۔کراچی آنے کے بعد سماجی وفلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔کئی عر صے تک لیاری سدھار کے لیے کام کیا ۔1956 ء سے اپوا کی سیکرٹری جنرل اوربعد میں صدر منتخب ہوئیں ۔
……پروفیسر انیتا غلام علی ……
پاکستان کی ممتاز ماہر تعلیم ،انتیا غلام علی 1934 میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز 1961 ء میں مسلم سائنس کالج میں درس و تدریس سے کیا۔1961ء سے 1983ء تک پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن سے سر گرم کارکن ،نائب صدر اور صدر کی حیثیت سے منسلک رہیں۔ وہ کالجز کو قومیائے جانے کی تحریک کا حصہ بھی رہیں ۔وہ 1980 ء میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میںپاکستانی وفد کی ڈپٹی لیڈر بھی تھیں ۔
یونیسکو کے لیے تعلیم کی سفیر بنیں اور دنیا کی واحد خاتون تھیں جو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسکو کی جوائنٹ کمیٹی آف ایکسپرٹس کے ساتھ رکن اور صدر کی حیثیت سے منسلک رہیں۔1983ء میں سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر بنیں۔ 1990ء میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن قائم ہوا تو انیتا غلام علی اس کی منیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئیں۔ انہوں نے اپنی انتھک محبت سے سندھ کے مضافات میں عوامی اور نجی سیکٹر کے اشتراک سے تیرہ سو سے زائد اسکول کھلوائے حتی کہ منچھر جھیل کی کشتیوں میں بھی تعلیم کا سلسلہ رواں ہوا۔ تعلیم کے لیے ان کی خدمات نا قابلِ فراموش ہیں ۔انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ ِحسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور بے نظیر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
……فہمیدہ ریاض ……
فہمیدہ ریاض پاکستانی ترقی پسند ادیبہ، شاعرہ، سماجی کارکن برائے حقوق انسانی و حقوق نسواں تھیں۔ انہوں نے 15 ادبی کتابیں لکھیں ۔ اُن کی پوری زندگی تنازعات سے گھری رہی۔ انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کا سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔ فہمیدہ ریاض نے ضیاء الحق کے دور آمریت سے تنگ آ کر پاکستان سے بھارت میں پناہ لی جہاں انہوں نے زندگی کے کئی برس گزارے۔کچھ عر صہ وہ ریڈیو پاکستان کا حصہ بھی رہیں ۔انہوں نے اپنا ایک مجلہ بھی جاری کیا تھا ،جس کا انداز کچھ سیاسی اور لبرل تھا۔لیکن وہ تھوڑے عر صے چلا نے کے بعد بند ہوگیا۔
جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ پاکستان کی تاریخ میں عدالت عظمٰی کی پہلی خاتون جج ہیں ۔وہ 1966ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم پیرس اور نیویارک سے حاصل کی۔ پاکستان کالج آف لا سے قانون کی تعلیم حاصل کی ،ہارورڈ لااسکول کیمبرج میسا چیوسٹیس امریکا سے ایل ایل بی کیا ،وہاں پر انہیں 1998-1999 میں لندن ایچ گیمن کی فیلو نامزد کیا گیا ۔ انہوں نےلاہور ہائی کورٹ میں جج تعینات ہونے تک رضوی، عیسیٰ، آفریدی اور اینگل لا فرم کے ساتھ پہلے سینئر ایسوسی ایٹ اور پھر فرم کے لاہور دفتر میں انچارج کے طور پر کام کیا۔بعدازاں 2012 ءمیں لاہور ہائی کورٹ کی جج تعینات ہوئیں اور اس وقت وہ چوتھی سینئر ترین جج کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انہیں بینکنگ، این جی اوز، مائیکرو فنانس اور اسکلز ٹریننگ پروگرامز کی ماہر وکیل تصور کیا جاتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر خان پاک فوج میں ایک تین ستارہ جنرل ہیں۔ وہ ضلع صوابی کے ایک گاؤں پنج پیر میں ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم 1978ء میں پریزنٹیشن کانونٹ گرلز ہائی اسکول، راولپنڈی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے 1981ء میں آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور 1985ء میں گریجویشن مکمل کی۔ وہ پاک فوج کی تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچی ہیں۔ اور تیسری خاتون ہیں جو میجر جنرل کے عہدے تک پہنچی ہیں۔ وہ آرمی میڈیکل کور سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر آرمی میڈیکل کور کی کرنل کمانڈنٹ بننے والی پہلی خاتون افسر ہیں۔
……پروین شاکر ……
پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے۔وہ 24 نومبر 1952 ء کوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی تھیں۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے بھی وابستہ رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔
……بانو قدسیہ ……
اردو اور پنجابی زبان کی مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ ایک ممتاز علمی وا دبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، جس نے تحریک ِپاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ ان کوابتدا سے ہی ادب میں گہری دل چسپی تھی ۔1950 ء میں ان کا پہلا افسانہ واماندگی شوق شائع ہوا ۔بعدازاں انہوں نےکئی ناول لکھے، جن میں سب سے زیادہ مقبول ہونے والا ناول راجہ گدھ ہے ،اس ناول نے بانو قدسیہ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا تھا ۔
انہوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت ڈرامے بھی لکھے ۔ اُن کا ڈرامہ آدھی بات کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے ۔ان کے تحریر کردہ ڈرامے سماجی مسائل پر صحت مندانہ انداز میں نظر ڈالتے اور قدروں کی اہمیت بڑی خوبی سے اُجاگر کرتے تھے۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے متعدد اعزازت سے بھی نوازا گیا۔
……فاطمہ ثریا بجیا……
شائستہ گفتگو، لب و لہجہ، عاجزی و انکساری اور پہناوے سے برصغیر کی مسلم تہذیب کا سراپا نظر آنے والی فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق تہذیب کے داعی اور تعلیم یافتہ ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کے لکھے گئے ناولز اور ڈرامے تھے ۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا ۔انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن 2007 ء میں ان کی تحریروں کی وجہ سے عبداللہ دادا بھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری دی۔
علاوہ ازیں انہوں نے سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی کام کیا۔انہوں نے متعدد ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ ز بھی حاصل کیے۔وہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی مشیر بھی رہیں، آرٹس کونسل پاکستان کی انتظامی کمیٹی کی رکن بھی تھیں۔بجیا کے پی ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈرامے زیادہ مشہور ہوئے ۔وہ پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن سے بھی کئی سال وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں ۔
……حسینہ معین……
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز مصنفہ ،مکالمہ نگار اور ڈرامہ نویس حسینہ معین نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے پاکستان اور بیرون پاکستان بہت سے ڈرامے لکھے۔ وہ پاکستان کی بہترین ڈرامہ نگار سمجھی جا تی تھیں۔انہوں نے ایک بھارتی فلم کے مکالمات بھی لکھے۔1987 ء میں انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کار کردگی بھی دیا گیا ۔2008 میں حسینہ معین نے پاکستان میں تعلیم اور فلاح و بہبود کے فروغ کے لیے جیو ٹی وی کے ذریعہ چلائی گئی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
……مہتاب اکبر راشدی ……
مہتاب اکبر راشدی نے اپنے کیرئیر کا آغاز اداکارہ کی حیثیت سے کیا ،انہوں نےمتعدد ڈراموں میںکام کیا۔وہ معروف ٹی وی میزبان ،سابق سیکرٹری تعلیم واطلاعات ،سرکاری افسر اور مسلم لیگ فنکشنل کی رکن سندھ اسمبلی کی ممبر بھی رہیں ۔1981 ء میں بیوروکریٹ ،اکبر راشدی سے شادی کرنے کے بعد خود بھی بیورو کریسی میں شامل ہوگئیں ۔وہ سندھ یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی کی ڈائریکٹر ، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ریجنل آفس کی ڈائریکٹر اورسندھ گورنمنٹ میں ڈائریکٹر لیاقت لائبریری، سیکریٹری کلچر اینڈ ٹورزم اور سکریٹری یو تھ افئیرزاینڈ اسپورٹس کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کی میزبانی کی۔پی ٹی وی میں تا دیر کام کیا ۔ 14 اگست 2004 ء کوصدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی ملا ۔گزشتہ سال مہتاب اکبر راشدی اور ان کے شوہر نے مسلم لیگ فنکشنل چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
……یاسمین لاری ……
پاکستان کی پہلی خاتون ماہر تعمیرات، یاسمین لاری ڈیرہ غازی خان کے ایک قصبہ میں 1941 ء میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والدظفر الاحسن ہندوستانی سول افسر تھے جو لاہور اور دوسرے شہروں میں بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرتے تھے ۔یاسمین لاری کو اپنے والد سے ہی فن تعمیر میں دل چسپی پیدا ہوئی ۔انہوں نے دوسال لندن میں فن نقش نگاری کی تعلیم حاصل کی ،بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسکول برائے تعمیرات میں داخلہ لیا۔1964 ء میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آگئیں اور کراچی میں لاری ایسوسی ایٹس کے نام سے ادارہ قائم کیا۔
1969ء میں لاری ریبا کی ممبر منتخب ہو ئیں۔ لاری 2000ء میں تعمیراتی کام سے سبکدوش ہوگئیں،تاہم وہ یونیسکو کے منصوبہ جاتی کی مشیر کے طور پر اپنے تاریخی اثاثہ کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں، انہوں اپنے شوہر کی معیت میں تنظیم اثاثہ(The Heritage Foundation) کے نام سے نے ایک غیر منافع بخش تنظیم بنائی اور کاروان تہمیدات (Karvan Initiatives) کی صدر نشین ہیں۔2010ء سے انہوںنےزلزلوں اور سیلابوں سے متاثر پاکستانیوں کے لیے 36000 سے زیادہ گھر تعمیر کیے۔ وہ اپنی خدمات کی بناء پر کئی اعزات بھی حاصل کرچکی ہیں۔
……فوزیہ وہاب……
فوزیہ وہاب پاکستان پیپلز پارٹی سےتعلق رکھنے والی سیاست دان تھیں ۔1993 ء میں پیپلز پارٹی کی جانب سے قائم کردہ انسانی حقوق سیل کی کوآرڈیٹیٹر مقرر ہوئیں ۔ وہ انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیاسے رابطے میں رہیں اور اپنی جماعت کا بھر پور دفاع کیا۔اسی پس منظر کے تحت وہ حدودآرڈیننس اور توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے سر گرم رہیں ۔ 2008ء کے انتخابات میں وہ دوسری بار خواتین کے لیے مخصوص نشست پر کامیاب ہوئیں۔
بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی کی شعبۂ خواتین کی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئیں اور جب 1996ء میں ان کی حکومت ختم ہو گئی تو 1997ء کے انتخابات میں انہوں نے حلقہ این اے 193 سے رکن ایوان زیریں کے امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔ وفات کے وقت وہ پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز تھیں۔
…… جسٹس (ر)ماجدہ رضوی ……
جسٹس(ر) ماجدہ رضوی پاکستان ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج ہیں۔ انہوں نے بحیثیت جج عملی طور پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خدمات انجام دیں جب کہ بحیثیت معلم ہمدرد اسکول آف لا میں قانون کی تعلیم بھی دی ۔ وہ سندھ ہائی کورٹ سے جج کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئیں ۔ اور خواتین کے قومی تشخص کے قومی کمیشن کی چئیر پرسن کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں ۔
……ملالہ یوسف زئی……
سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی امن کا نوبیل انعام جیتنے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت خواتین کی تعلیم کے لیے سرگرم پاکستانی سماجی کارکن اور اقوامِ متحدہ کی سفیر براِئے امن ہیں۔ وہ 11 برس کی عمر سے خواتین کو تعلیم کے حصول کا حق دینے کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔
ملالہ نے اپنے ایکٹوازم کا آغاز بی بی سی اردو کے لیے بلاگ لکھنے سے کیا، جس کا موضوع پاکستان میں طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں خواتین کے حصولِ تعلیم پر پابندیاں تھی ۔ ان کے اس کام کی وجہ سے اکتوبر 2012 ءمیں ان پر سوات میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ان کو کسی بھی شعبے میں نوبیل انعام حاصل کرنے والی کم سن فرد اوردوسری پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ان کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے۔
……شرمین عبید چنائے……
شرمین عبید چنائے 1978ء کو کراچی میں پیدا ہونے والی ایک صحافی اور فلمساز ہیں۔ وہ ایمی ایوارڈ اور آسکر اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی فلم سیونگ فیس (saving face) ہے۔گزشتہ سال انہوں نےایک اور اعزاز حاصل کیا ہے۔ ان کی متعدد دستاویزی فلموں کو عالمی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔
……ڈاکٹر شمشاد اختر……
ڈاکٹرشمشاد اختر ایک پاکستانی ترقیاتی ماہر اقتصادیات سفارت کار اور دانشور ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1980 ء میں پلاننگ کمیشن سے کیا لیکن چند ماہ بعد وہ پاکستان میں ورلڈ بینک کے رہائشی مشن کے ساتھ مل کر ایک ماہر معاشیات کی حیثیت سے کام کرنے لگیں ۔ ابھی پاکستان کی نگران مالیات کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ قبل ازیں انہوں نےاسٹیٹ بینک آف پاکستان کے 14 ویں گورنر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ۔ان کو اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کے زیریں ممالک ، ایشا اور بحرالکاہل کے مالیاتی اور سماجی کمیشن کی 10 ویں چیف سیکرٹری کے طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے منتخب کیا گیا۔
……مریم مختار……
پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ مریم مختار ،یکم جنوری 1993ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کا شمار لڑاکا طیارے کی ان پانچ خواتین پائلٹس میں ہوتا تھا جنہیں محاذِ جنگ تک جانے کی اجازت تھی۔24 نومبر 2015ء کو میانوالی کے قریب ایک ایئرکرافٹ کریش میں شہید ہوئی۔وہ پاک فضائیہ کی پہلی خاتون جنگجو پائلٹ تھیں۔
……ادکارہ میرا ……
پاکستانی اداکارہ میرا 1977میں پیدا ہوئیں، انہوں نے اپنے کیر کئیر کا آغاز 1995 ء سے کیا اور متعدد اردو اور پنجاپی فلموں میں کام کیا ۔اس کے علاوہ انہوں نے ایک بھارتی فلم میں بھی کام کیا ۔ فلمی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’نگارایوارڈ ‘‘ بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔ فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئ ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھائیں ہیں۔ کچھ عر صے قبل میرا نے ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔
……شکریہ خانم ……
شکریہ خانم 1934ء میں پیدا ہوئیں۔ انہیں پاکستان کی پہلی لائسنس یافتہ کمرشل پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے 12جولائی 1959 ء میں سی پی ایل یعنی کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے کے قوانین خواتین کو کمرشل پروازیں آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، اس لیے انھیں لائسنس یافتہ ہونے کے باوجود گراؤنڈ انسٹرکٹر کے طور پر ملازمت دی گئی، جہاں وہ زیرِ تربیت کیڈٹس کو پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیتی تھیں۔