• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائدِ اعظم کا پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعدسلور جوبلی سے پہلے دولخت ہوکر قوم کو ایک عظیم صدمے سے دو چار کر گیا۔آج اس المیے کو تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ پاکستان توڑنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حالات کی سنگینی کو اس نہج پر پہنچانے میں غیر ملکی طاقتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے بھارت کے ساتھ متحد ہوکر بنگالی عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان اور غیر بنگالیوں کے لیے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں کھلی بغاوت پر آمادہ کیا۔ کسی نے حقوق کی جنگ لڑی تو کسی نے مفادات کی، کوئی آزادی کا علمبردار بنا تو کوئی غداری کا مرتکب ہوا۔ کوئی منظر پر رہا توکسی نے پسِ منظر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ 

سچ تو یہ ہے اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی اورذلت آمیزشکست وریخت میں ان تمام کرداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔مسلم بنگال سے پاکستان پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ؟ ان حقائق کو سمجھنے کے لیے ہمیں ملکی سیاسی تاریخ کے ان گوشوں پر نظر ڈالنا ہوگی جو بنگالی عوام کے دلوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کا موجب بنے اور بالاخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بنگالیوں نے غیر ملکی حمایت سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے خواجہ ناظم الدین کو اپنا لیڈر چُنا لیکن ان کی حکومت جلد ہی مشکلات کا شکار ہو گئی۔11ستمبر 1948ءکو قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد وزیراعلیٰ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بن گئے اور مشرقی پاکستان کی وزارت اعلیٰ نور الامین کے سپرد کر دی گئی۔ اسی اثنا میں طلبہ رہنمائوں اور مقامی لیڈروں نے عوام کو یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ مرکزی حکومت مشرقی پاکستان کو اپنی نو آبادی قرار دینی ہے اور تمام وسائل مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب کی ترقی کے لئے بروئے کار لائے جا رہے ہیں، شکوک و شبہات کی اس فضاء میں عوامی لیگ سمیت دیگر پارٹیوں کا اتحاد وجود میں آیا جس کا نام ’’جگنو فرنٹ‘‘ رکھا گیا۔ بعد میں اس نئے سیاسی اتحاد نے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو تاریخی شکست سے دوچار کیا خود وزیراعلیٰ نور الامین کو ایک طالب علم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مولوی فضل الحق نےجو کہ اتحاد کے سربراہ بھی تھے، اپنے تین ساتھیوں سمیت وزارت کا حلف اٹھایا اور خود وزیراعلیٰ بنے،جس کے بعد ہنگامے شروع ہو گئے ۔ صورت حال سے نمٹنے کے لئے گورنر جنرل غلام محمد نے تمام جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کو معطل کرکے آئین کی دفعہ 93 (الف) کے تحت مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ چوہدری خلیق الزماں کی جگہ سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا گورنر مشرقی پاکستان ہوئے۔ 

وزیراعلیٰ فضل الحق غدار قرار پائے۔ بنگالی رہنمائوں کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ اس حد تک دراز ہوا کہ انہیں غیر محب وطن قرار دیا جانے لگا، حالانکہ یہی غدار اور غیر محب وطن کچھ عرصہ بعد ہی محب وطن اور وفا دار کہلائے۔ فضل الحق کو بھی دوبارہ مرکزی کابینہ میں لیا گیا۔وہ بنگال کے گورنر بھی بنے۔ یہی حال مغربی پاکستان میں بھی جاری رہا آج کے محب وطن کل کے غدار اور کل کے غدار آج کے محب وطن بنتے رہے یہ سلسلہ جاری و ساری تھا کہ 1958ء کا سال آپہنچا اور پورے ملک پر آمریت مسلط کر دی گئی۔ روزنامہ جنگ اس صورت حال پر مسلسل اداریئے، قطعات اور کالم شائع کرتا رہا۔ اخبار جنگ نے حتی المقدور کوشش کی کہ سیاست دان باہمی چپقلش چھوڑ کر قومی مفاد میں رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔

صدر ایوب خان نے 1962ء کا آئین نافذ کرکے سیاست پر سے پابندی ہٹالی تو جلد ہی نوابزادہ نصر اللہ خان نے سیاسی جماعتوں کو ایک پروگرام پر متفق کرلیا اور ایک نیا اتحاد قومی جمہوری محاذ تشکیل دےدیا گیا۔ اس محاذ میں حسین شہید سہرودی بھی شامل تھے جنہیں قبل ازیں ایبڈو کے قانون کے تحت نااہل قرار دیا جا چکا تھا۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے کے باوجود غدار کہلائے گئے ۔ این ڈی ایف کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پاکستان کے اہم شہروں کے دورے شروع کئے جو صدر ایوب اور ان کی کنونشن مسلم لیگ کے لئے پریشانی کا باعث تھے۔ 

موچی دروازہ لاہور اور گجرانوالہ میں ان کے جلسوں میں کنونشن لیگ نے ہلڑ بازی شروع کردی اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے آئے بنگالی کارکنوں نے اس صورتحال کو دیکھ کر اعلان کر دیا کہ اگر مغربی پاکستان والے ہمیں سننا نہیں چاہتے تو ہم بھی ان کی کچھ سننے کو تیار نہیں اور وہ واپس چلے گئے۔ یہ واقعہ ابھی ذہنوں سے محو بھی نہیں ہوا تھا کہ سہروردی جو ایوب حکومت کے زیر عتاب رہنے کی وجہ سے بیمار ہو کر بیرون ملک چلے گئے تھے، 5دسمبر 1963ء کو بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ مشرقی پاکستان میں اعلان کیا گیا کہ سہروردی کی موت غیر فطری تھی تو مشرقی پاکستان کے عوامی حلقوں نے فوراً یقین کرلیا۔

ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں عدم تحفظ کا احساس عام ہو چکا تھا۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے ہی کیا جائے گا، تاہم مشرقی بنگال میں عوامی لیگ کے علاوہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی سے وابستہ عوام بھی عدم تحفظ کے احساس سے دوچار تھے۔1966ء کے اوائل میں لاہور میں ایک آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمن نے پہلی مرتبہ اپنے 6 نکات پیش گئے، ان میں سے دو نکات این ڈی ایف نے اپنے نئے انتخابی منشور میں شامل کرلئے جو وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کو علاقائی بنیاد پر خود مختاری دینے سے متعلق تھے۔ لیکن این ڈی ایف کی ان تجاویز کو مغربی پاکستان میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی، جبکہ دسمبر 1970ء میں بالغ رائے دہی اور فی فرد، فی ووٹ کی بنیاد پر پہلی بار ہونے والے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے اسی چھ نکاتی منشور کے تحت حصہ لیا اور مشرقی پاکستان میں بھر پور کامیابی حاصل کی۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دسمبر 1970ء میں ہوئے۔ قومی اسمبلی کے نتائج سے دو بڑی پارٹیاں ابھریں، ایک عوامی لیگ اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی لیکن ان دونوں پارٹیوں کی حیثیت علاقائی تھی۔ عوامی لیگ صرف مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی مغربی پاکستان تک محدود رہی۔ انتخابات کی تکمیل کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی سیاسی جماعتوں میں آئین سازی پر مفاہمت ہو جائے گی کیونکہ عوامی لیگ بارہا کہتی رہی تھی کہ 6 نکات میں رد و بدل ہو سکتا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں کی جائے گی جو متحدہ پاکستان کے خلاف ہو، بعد ازاںصدر جنرل یحیٰی خان نے اپنی نشری تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن نے باور کرایا ہے کہ 6 نکات کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔

پاکستان کے مفاد کے خلاف تمام نکات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن انتخابی نتائج کا سرکاری اعلان ہوتے ہی عوامی لیگ کا انداز بدل گیا۔ 7جنوری 91ء کو شیخ مجیب الرحمن کا جنگ اخبار سمیت متعدد اخبارات میں یہ اعلان شائع ہوا کہ میری پارٹی کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے، اگر مغربی پاکستان نے میرے 6نکات قبول نہ کئے تو میں تنہا قدم اٹھائوں گا اور ہم اپنا آئین خود تیار کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام سیاسی لیڈر بشمول خان عبدالولی خان، خان قیوم، میاں ممتاز دولتانہ، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، شیخ مجیب الرحمن سے بات چیت کے لئے ڈھاکہ گئے اور خود صدر یحیٰی نے مغربی پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں سے بات چیت اور مفاہمت کے لئے شیخ مجیب الرحمن سے متعدد بار ملاقاتیں کیں اور انہیں مغربی پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن شیخ مجیب نے 6 نکات پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اب یہ عوام کی ملکیت ہیں جس میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

13فروری 1971ء کو جب یہ اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 3مارچ کو ڈھاکہ میں ہوگا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹو نے کہہ دیا کہ میری پارٹی اس وقت تک اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوگی جب تک ہمیں یہ یقین نہ دلایا جائے کہ عوامی لیگ ہم خیالی پر آمادہ ہے یا نہیں؟ لیکن اگر ہمیں اس لئے ڈھاکہ جانے کو کہا جائے کہ ہم صرف اس آئین کی توثیق کریں جو عوامی لیگ پہلے سے تیار کر چکی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں کی جا سکتی تو آپ ہمیں ڈھاکہ میں نہیں پائیں گے ۔فروری کو شیخ مجیب الرحمن نےکہاکہ ہمارا موقف بالکل واضح ہے آئین 6 نکات کی بنیاد پر ہی بنے گا۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان آئینی تعطل سے یہ امکان پیدا ہوگیا تھا کہ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی آئین نہیں بنا سکے گی او راسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ اس سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوتیں اور ساتھ ہی اقتدار کی منتقلی کا جو منصوبہ بڑی احتیاط سے تیار کیا گیا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ یکم مارچ 71ء کو صدر یحیٰی نے ایک بیان جاری کیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈروں کی کشمکش سے پوری قوم پر مایوسی طاری ہو گئی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی بڑی اور اس کے ساتھ بعض دوسری پارٹیوں نے بھی 3 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی پیدا کردہ کشیدگی کی عام فضاء سے صورت حال مزید الجھ گئی ہے۔ اس لئے میں نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے ہی حالات سازگار ہوں گے اجلاس بلایا جائے گا۔ اقتدار کی منتقلی کی منزل اب بھی سب سے مقدم ہے۔

التواء کے اس اعلان کا شیخ مجیب کی طرف سے یہ ردعمل ہوا کہ انہوں نے عام ہڑتال کی اپیل کردی۔ 2مارچ کو اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اس نازک گھڑی میں ہر بنگالی پر جس میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام دشمن طاقتوں سے تعاون نہ کریں، اس کے بجائے بنگلہ دیش کے خلاف سازش کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ عوامی لیگ کی عام ہڑتال اور خوف و ہراس پھیلانے کی مہم سے پورے صوبے میں زندگی مفلوج ہو گئی اور امن و امان کی صورتحال تیزی سے خراب ہونے لگی۔ مشرقی پاکستان میں لاقانویت زور پکڑتی گئی جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہونے لگا۔ 

شیخ مجیب نے تشدد اور عدم تعاون کی تحریک پر عملدرآمد کے احکامات جاری کرنے شروع کر دیئے۔ ٹیکس اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہ کرنے کی ہدایت نے سول نافرمانی اور سول وار کی صورت اختیار کرلی۔ فروری اور مارچ میں مشرقی پاکستان کی صورت حال کے بارے میں ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئیں ان سے اس وقت کے واقعات کی واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ خاص طور پر لندن ٹائمز اور لیورپول ٹیلی پوسٹ نے صاف لفظوں میں لکھا کہ، شیخ مجیب الرحمن نےجنہیں متحدہ پاکستان کا آئندہ وزیراعظم سمجھا جاتا ہے انتخابات جیتنے کے بعد سے اپنے بیانوں اور خطابات میں پاکستان کا نام لینے سے گریز شروع کر دیا ہے اب وہ بنگلہ قوم اور مشرقی بنگال کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ 

یہاں قصر شاہی میں یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان دوٹکڑے ہو جائے گا اور مشرقی پاکستان ایک آزاد بنگال مسلم جمہوریہ ہونے کا اعلان کردے گا۔ عوامی لیگ کے لیڈر اور شیخ مجیب الرحمن اب مشرقی پاکستان کا نام نہیں لیتے بلکہ بنگالی جمہوریہ کہنے لگے ہیں۔ قصر شاہی میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت کو شدید خدشہ ہے کہ کہیں دولت مشترکہ کے اس رکن ملک کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔ 3مارچ کے واشنگٹن پوسٹ، 9مارچ کے ڈیلی ٹیلی گراف اور 13مارچ کے لندن اکنامسٹ کے نامہ نگاروں نے ڈھاکہ سے اپنے مکتوبات میں لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا ہے جس پر مطالبوں کا باریک پردہ پڑا ہوا ہے، عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب نے اپنی سیاسی تحریک کو ’’آزادی کی تحریک‘‘ میں بدل دیا ہے اور قصداً ایسی شرطیں لگائی ہیں، جن کو صدر یحیٰی تسلیم نہیں کرسکتے۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنے اداریئے میں لکھا جو غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے 21مارچ کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کہ، سننے میں آ رہا ہے کہ علیحدہ ریاست کا نام مشرقی پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش رکھا جائے گا۔ اس کا پرچم بھی تیار کر لیا گیا ہے۔

13مارچ 71ء کو لندن اکنامسٹ اور 15مارچ کو امریکی رسالہ ٹائم نے لکھا کہ، آئین ساز اسمبلی کے 25مارچ کے اجلاس میں شرکت کے صدارتی دعوت نامہ کے جواب میں شیخ مجیب الرحمن نے جو چار شرائط رکھی ہیں وہ کسی کےلئے قابل قبول نہیں۔ صدر یحیٰی جلد ڈھاکہ آنے والے ہیں اور یہ شاید شیخ مجیب سے ان کی آخری ملاقات ہو۔ رسالہ ٹائم نے نیویارک سے اطلاع دی کہ بظاہر تو شیخ مجیب الرحمن مرکزی حکومت سے آئینی بحران پر بات چیت کر رہے ہیں لیکن پاکستان تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ شیخ مجیب نےگزشتہ ڈھاکہ میں ٹائم کے نامہ نگار سے کہا تھا ’’پاکستان اب موجود شکل میں باقی نہیں رہا نہ ہی تصفیئے کی کوئی امید ہے۔ 

انہوں نے زور دیا ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان کو دو الگ الگ آئین اختیار کرنا چاہئے کیونکہ ان کے پیروکار مرکزی حکومت کو جو مغربی پاکستان میں ہے کسی بھی قسم کا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ٹائم کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس اب جلد ہی وہ بنگلہ دیش کے نام سے آزادی کا کھلم کھلا اعلان کرنے والے ہیں۔ دو دن پہلے مشرقی پاکستان کے لیڈر نے مغربی پاکستان کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ میں انہیں سیدھا کر دوں گا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دوں گا۔ رسالہ ٹائم کے مطابق اس قسم کے خیالات اور اعلانات کے بعد آزادی کا کھلا کھلا اعلان کر دینا کوئی ڈرامائی بات نہیں ہوگی۔

اسی دوران لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے مقیم کلکتہ کا ایک مراسلہ 9مارچ 71ء کو شائع ہوا جن میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا تھا کہ اکتوبر 70ء کو نئی دہلی میں نام نہاد بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور بھارت کے درمیان ایک خفیہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے سات نکات حسب ذیل تھے۔

(1) بنگلہ دیش کے قیام کے بعد تحریک آزادی میں حصہ لینے والے بنگالی افسران اپنے انتظامی عہدوں پر برقرار رہیں گے، غیر بنگالیوں کی خالی کردہ آسامیوں پر بھارتی افسران تعینات کئے جائیں گے۔

(2) بنگلہ دیش کے قیام کے بعد خاص تعداد میں بھارتی فوجی بنگلہ دیش میں موجود رہیں گے۔ معاہدے میں تعداد اور مدت کا تعین نہیں تھا۔

(3) بنگلہ دیش ایک خاص مدت تک باقاعدہ اور رسمی فوج نہیں رکھے گا۔

(4) داخلی سلامتی اور امن و امان کے لئے فریڈم فائٹرز (مکتی باہنی) پر مشتمل ملیشیا قائم کی جائےگی۔

(5) پاکستان سے ممکنہ جنگ کی صورت میں بھارتی مسلم افواج کی نگرانی میں مکتی باہنی اندرونی دفاعی حصار توڑنے کا کام کرے گی۔

(6) بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تجارتی لین دین آزادانہ اور کھلے طورپر ہوگی البتہ کرنسی پونڈ اسٹرلنگ میں ہوگی۔

(7) بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ بھارتی وزارت خارجہ سے رابطے میں رہ کر اس کے زیرنگرانی کام کرے گی۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہ کیا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہےکہ 1965ء کی جنگ ستمبر کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی سفارت کاروں کے ساتھ باقاعدہ خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ انٹلیجنس بیورو اس کی اطلاعات مشرقی پاکستان کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کو دیتی رہتی تھی، مگر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اگرتلہ کے مقام پر اسے بھارتی حکام سے ربط ضبط کے الزام میں رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے اگرتلا سازش کیس کے نام سے مقدمہ چلایا گیا جس کے باعث شیخ مجیب کی بنگالیوں میں مقبولیت بڑھی اور وہ جی ایم سید اور غفار خان سے زیادہ قوم پرست لیڈر کے طور پر ابھرے۔ 25مارچ 71ء کی نصف شب کو فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جنوری 1972ء میں بھٹو کے حکم پر رہا ہونے والے غداری کے ملزم شیخ مجیب الرحمن کو بھی بالاخر اس کے ان ہی ساتھیوں نے خاندان کے تمام مرد افراد کے ساتھ قتل کر دیا جو اس کے حکم پر پاکستان کے سینے میں گولی اتارنے کے مرتکب ہوئے تھے۔

جنگ جاری رہے گی

18؍دسمبر1971ء کوشائع جنگ کا اداریہ

صد ر پاکستان جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے قوم کے نام اپنے نشری پیغام میں اس عزم صمیم کا اظہار کیا کہ، ’’بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی بھرپور جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ہم اس دشمن کو اپنی پاک سرزمین سے نکالنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو جاتے جو عرصہ دراز سے پاکستان کی آزادی خود مختاری اور سالمیت کو تباہ و برباد کرنے کی مسلسل سازشیں کرنے کے بعد اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہوا ہے۔ جنگ کے ایک محاذ پر انتہائی نامساعد حالات کی وجہ سے ہماری کوششوں میں جوخلل پڑا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ دشمن کے خلاف ہماری جدوجہد ختم ہو گئی ہے ملک کے بقاء اور سالمیت کی جنگ جاری رہے گی اور آخری فتح ہماری ہوگی۔‘‘

صدر مملکت کے اس بیان سے کوئی محب وطن اور حقیقت پسند پاکستانی اختلاف نہیں کر سکتا۔ کون نہیں جانتا کہ مشرقی پاکستان میں دشمن اپنی تعداد اور اپنے وسائل کے اعتبار سے چھ گنا سے زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ لیکن پاکستان کی جری اور شیردل افواج نے سرفروشی اور جانبازی کا جو تاریخی مظاہرہ کیا، اس نے قرونِ اولیٰ کے مجاہدین اسلام کی روایات کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں ہماری مٹھی بھر فوج کے خلاف روس اور برطانیہ سے ملے ہوئے تمام جدید ترین اسلحہ جھونک دئیے جب کہ پاکستان کی فوج کے رسد اور کمک کے تمام بری، بحری اور فضائی راستے کٹ کر رہ گئے۔ لیکن ان انتہائی نامساعد حالات کے باوجود افواج پاکستان نے جوکارنامہ سرانجام دیا ملتِ پاکستان اور تاریخ اسلام ان پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ صدر مملکت نے اپنی تقریر میں دوست ملکوں کی اعانت کا شکریہ ا دا کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ حسب ِ پروگرام پاکستان کے دستور کا اعلان 20دسمبر کو کردیا جائے گا۔

صدر نے اپنی تقریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔’’ یہ ایسی جنگ ہے جو کھیتوں کارخانوں ، گھروں اور جنگ کے محاذوں پر یکساں شدت سے لڑی جائے گی۔ ہم اللہ کا نام لے کر آگے بڑھتے رہیں گے۔ ہمارے قلوب نعرئہ تکبیر کی آواز پر مسلسل اللہ اکبر کہتے رہیں گے ہمارے ایمان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے۔آپ اپنی پوری طاقت ،معینہ مقاصد کے لئے وقف کر دیں ۔ آخری فتح انشاء اللہ ہماری ہو گی۔‘‘

ہمیں یقین ہے پاکستان کا ہر شہری صدر کے ان الفاظ پرلبیک کہے گا۔ پاکستان کو عالمی سطح پر جن نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکنے کی سازش میں روس نے ایک گھنائونا مرکزی کردارادا کیا ۔

بہرحال اس دور کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک ممبر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش ایک بڑی طاقت کی امداد اور پشت پناہی سے روبعمل لائی گئی۔ پاکستان نے جب سلامتی کونسل میں آواز بلند کی، اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا اوران سے اپنا فرض ادا کرنے کی اپیل کی تو اس کی فریاد صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔

جنگ جاری رہے گی

19؍دسمبر1971ء کوشائع جنگ کا اداریہ

بھارت نے روس کی پشت پناہی اور دھاندلی سے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے کے بعد یہ ضروری سمجھا کہ مغربی محاذ پر لڑائی بند ہوجائے چنانچہ ڈھاکا میں بھارتی فوجوں کے داخل ہونے اور وہاں غاصبانہ قبضہ جمانے کے فوراً بعد اندرا گاندھی نے پاکستان کو یہ پیشکش کردی کہ بھارت نے اپنی فوجوں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ 16؍دسمبر کی رات کو 8؍بجے کے بعد سے مغربی محاذ پر لڑائی بند کردیں چنانچہ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے بھی مغربی پاکستان میں جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے۔ صدر یحییٰ خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان تو شروع ہی سے جھگڑے کے پرامن تصفیہ کی کوشش کرتا رہا ہے، اسی لئے ہم نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی ہر اس تجویز کو قبول کیا جو پرامن تصفیہ کیلئے مددگار ثابت ہوسکتی تھی لیکن بھارت نے سلامتی کونسل میں پیش ہونے کی تینوں قراردادیں مسترد کردیں اور 24؍ووٹوں سے منظور کی جانے والی جنرل اسمبلی کی تجویز کو بھی ٹھکرا دیا۔ اگر بھارت عالمی رائے عامہ کو مان لیتا تو اس قدر خون خرابہ نہ ہوتا۔ صدر نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ اگر بھارت جنگ بندی کے بارے میں نیک نیت ہے تو اقوام متحدہ کے ذریعے اسے پوری طرح باضابطہ بنانے کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔ صدر نے کہا کہ میں نے اس کی خاطر مہلت کی پیشکش کے جواب میں جنگ بندی کا حکم دیا ہے۔

صدر کے اس اعلان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہم جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔جنگ کا آغاز بھی ہم نے نہیں کیا تھا، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، ہمیں زبردستی میدان جنگ میں گھسیٹا گیا تھا۔ ہماری مشرقی سرحدوں پر مسلسل کئی ماہ تک بھارتی توپوں کے دہانے کھلے رہے، بھارت مسلح تخریب کاروں کو ہماری سرحدوں پر بھیجتا رہا۔ ان ساری جارحانہ کارروائیوں کے جواب میں ہم نے صرف اپنا دفاع کیا اور سیاسی و بین الاقوامی سطح پر ہر اس تجویز کو ہم ہنس کر قبول کرتے رہے جو پرامن تصفیئے کا ذریعہ بن سکتی تھی لیکن بھارت تنازع کو ر صرف جنگ کے ذریعے حل کرنے پر تل گیا۔ وہ روسی ٹینکوں اور روسی توپوں کو لے کر ہم پر چڑھ دوڑا اور ہم ایک دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور ہوگئے جس میں ہماری بہادر افواج نے بے مثال شجاعت اور فداکاری کے ساتھ وطن عزیز کے ایک ایک جپے کا دفاع کیا ۔

بھارت نے اس پر بھی بس نہیں کیا، اس نے جنگ کے دائرے کو مغربی سرحدوں پر بھی پھیلایا اور ہم مغربی پاکستان میں بھی اپنے دفاع کیلئے میدان میں اترنے پر مجبور ہوگئے۔ بھارت نے دنیا کی ایک بڑی طاقت روس کی مدد سے مشرقی پاکستان پر قبضہ جمانے کے بعد اب مغربی پاکستان میں جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ بھارت کی اس پیشکش کے جواب میں ہمارے لئے دو ہی راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ ہم جنگ جاری رکھتے اور اس وقت تک جاری رکھتے جب تک کہ مشرقی پاکستان کو دوبارہ دشمن کے ناپاک قبضے سے نہ نکال لیتے اور اس فیصلے کے جو بھی اچھے یا برے نتائج رونما ہوتے، ہم اس کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوجاتے۔

دوسرا راستہ جنگ بندی کا تھا، بالآخر صدر پاکستان نے اس دوسرے راستے کو اختیار کیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے وطن کی مقدس سرزمین کو دشمن کے چنگل سے چھڑانے کا مقصد ہم نے ترک کردیا ہے نہیں! اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں! اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم نے صرف محاذ تبدیل کردیا ہے۔ اب ہم یہ لڑائی میدان جنگ میں نہیں بلکہ سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر لڑیں گے۔

اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پرامن سیاسی تصفیئے کے حق میں ہے۔ ہم امن پسند اقوام خصوصاً امریکا اور چین کو پوری طرح یہ موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور اس جارحیت کے آثار کو مٹائیں جو روس کی سرپرستی میں رونما ہوئے ہیں۔