خاور نعیم ہاشمی
پاکستان کا سب سے بڑا اخبار، روزنامہ جنگ صحافت کی تاریخ میں ایک برانڈ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر پاکستان میں جنگ اخبار نہ ہوتا تو اخباری صنعت آج اس مقام پر نہ ہوتی جہاں آج دکھائی دے رہی ہے۔ وہ کون سا شعبہ ہے جس کی ترقی و ترویج میں جنگ اخبار کا حصہ نہیں ہے۔ مجموعی ملکی ترقی میں جنگ نے ہمیشہ اپنا حصہ ڈالا۔ عمومی طور پر اسے ایک لبرل اخبار تصور کیا جاتا ہے، مگر میں نے اسے ہمیشہ ایک ترقی پسند اخبار کےطور پر جانچا ہے۔ اس ملک میں آج جیسی بھی جمہوریت ہے وہ ’’جنگ‘‘ ہی کی مرہون منت ہے ۔ ’’جنگ‘‘ طاغوتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا بھی اک استعارہ ہے۔یہ محض جذباتیت نہیں، میرا عملی مشاہدہ ہے کیونکہ میں تسلسل کے ساتھ بیس سال تک اس کے ادارتی عملے کا نمایاں حصہ رہا ہوں۔
وہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی پر آشوب دور تھا، ضیاٗ الحق کا مارشل لاٗ نافذ تھا، آزادیوں کا تصور تک ناپید تھا، ہر طرف خوف کے پہرے تھے ۔ایسے میں جواں سال میر شکیل الرحمان کراچی سے اس بڑے عزم کے ساتھ لاہور آئے تھے کہ وہ صحافت کی تاریخ میں ایک بڑا دھماکا کریں گے۔ روزنامہ جنگ، کراچی، لاہور اور پنجاب کےدیگر شہروں میں پہلے ہی بہت مقبول تھا۔اندرون شہر کی تمام مارکیٹوں کی ہر ہر دکان پر شام کے وقت جنگ کراچی موجود ہوتا تھا۔ایک ایک اخبار کو بیک وقت کئی کئی لوگ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتےتھے۔ میں خود جنگ اخبار پڑھنے کے لیے طویل پیدل سفر کرکے اندرون شہر کسی نہ کسی مارکیٹ میں جایا کرتا تھا۔
لاہور سے ’’جنگ‘‘ کی باقاعدہ اشاعت یکم اکتوبر 1981 کوشروع ہو چکی تھی، اس سے پہلے مشرق لاہور کا سب سے بڑا اخبار گردانا جاتا تھا۔، سیاسی حالات کی وجہ سے ان دنوں لوگ مساوات بھی پڑھا کرتے تھے، مگر جنگ نے سب کو مات دے دی، صرف لاہور شہر میں اس کی سرکولیشن ساڑھے تین لاکھ روزانہ سے بھی بڑھ گئی تھی۔ اس کی پالیسی اتنی متوازن تھی کہ پیپلز پارٹی والے اسے اپنا اور پیپلز پارٹی کے مخالف دھڑے والے اسے اپنا ترجمان اخبار تصور کیا کرتےتھے۔ میر شکیل الرحمان نے انتہائی جدید آئیڈیاز متعارف کرائے، اخبارکے صفحات بہت زیادہ ہوا کرتے تھے۔
آدھا اخبار رنگین چھپتا تھا۔ خبر کو اشتہار پر ترجیح دی جاتی تھی۔ زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں کی نمائندگی کی جاتی تھی، فلم ایکٹرز سے مذہبی حلقوں تک کی ایک ایک خبر کا دھیان رکھا جاتا تھا۔اخبار کے اندر احتساب کا عمل بہت سخت تھا، سزا اور جزا کا نظام انتہائی مربوط تھا، پالیسی یہ تھی کہ کسی ایک شہری کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہیے اور کوئی بھی خبر غائب نہیں ہونی چاہیے۔
میں نے جنگ اخبار جوائن کیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ مجھے جلدیا بدیر نکال دیا جائے گا، کیونکہ میں اخبار کی اشاعت شروع ہونے سے پہلے پی ایف یو جے کی تحریک آزادی صحافت میں شریک ہونے کے جرم میں کوڑے کھا چکا تھا۔جنگ اخبار کے لاہور آنے سے پہلے پنجاب اور سندھ کی سات جیلوں میں سزائیں کاٹ چکا تھا، لوگوں کا خیال تھاکہ اس شخص کا اس اخبار میں کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پھر ایک دن عجیب حادثہ ہوا، مشرقی پنجاب میں خالصتان تحریک زور پکڑ رہی تھی، سکھوں کے لیڈر سردار بھنڈرانوالا کے خطابات پوری دنیا میں مقبول ہو رہے تھے، بھنڈرانوالا کی کیسٹوں کی مانگ لتا منگیشکر کے گانوں سے بھی ہزار گنا بڑھ گئی تھی۔پاکستانی عوام بھی سکھوں کی تحریک آزادی میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔مجھے جنگ کی اعلی انتظامیہ کی جانب سے سردار بھنڈرانوالا کے خطابات کی ایک درجن کے قریب کیسٹیں دی گئیں کہ میں انہیں ٹرانسکرائب کروں تاکہ جنگ اخبار میں بھنڈرانوالا کی تقریریں پنجابی زبان میں ہی شائع کی جائیں۔
میں یہ کیسٹیں گھر لے گیا تاکہ انہیں سکون سے سن کر قلم بند کرتا رہوں۔ ابھی مجھے گھر واپس پہنچے ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ کئی ایجنسیوں کے لوگ، کئی تھانوں کی پولیس کے ساتھ دیواریں پھلانگ کر میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔رات کو لاہور کے تھانہ پرانی انار کلی میں رکھا گیا، صبح فوجی عدالت سے ریمانڈ لے کر شاہی قلعہ کی بدنام زمانہ جیل میں منتقل کردیا گیا۔ میرے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کا عنوان تھا:’’ریاست اور مملکت کے خلاف سب سے بڑی سازش کا ملزم‘‘۔ میرے خلاف یہ اقدام بھنڈرانوالا کی کیسٹوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ میرے مارشل لا مخالف نظریات کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا۔
مجھے چھ ماہ تک شاہی قلعہ میں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا، جب ساری ایجنسیاں مل کر بھی مجھ سے کچھ اگلوا نہ سکیں تو مزید سخت سزا کے لیے وارث روڈ پر واقع لال قلعہ کے تہہ خانہ کے ڈربہ نما آہنی کمرے میں بند کر دیا گیا۔ ایک ماہ بعد دوبارہ شاہی قلعہ پہنچا کر پھر تشدد کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے۔اسی دوران ایک دن پتہ چلا کہ لاہور ہائی کورٹ نے میری ضمانت منظور کرلی ہے۔ ضمانت کی درخواست بیرسٹر اعتزاز احسن نے دائر کی تھی۔ شاہی قلعہ سے رہائی کے اگلے ہی دن میں جنگ کے آفس پہنچ گیا۔ایڈیٹر انچیف ،میر شکیل الرحمان آفس میں موجود تھے، انہوں نے مجھ سے میری گرفتاری سے متعلق کوئی سوال نہ کیا، صرف اتنا کہا:’’آپ بہت کم زور ہو گئے ہیں، پندرہ دن مسلسل گھر میں آرام کریں ، پرانے اخبارات کا مطالعہ کریں اور پھر ڈیوٹی پر آ جائیں۔ سولہویں دن جب میں آفس میں گیا تو میری ترقی ہو چکی تھی، مجھے سب ایڈیٹر سے شفٹ انچارج بنا دیاگیا تھا۔ پھر میں نے زندگی جنگ اخبار کےلیے وقف کر دی، نیوز ایڈیٹر، چیف نیوز ایڈیٹر بنا، جنگ لندن میں CNE بنا کر بھجوایا گیا، یکم مئی 2002 کو جب مجھے جیو نیوز ٹرانسفر کیا گیا تو اس وقت میں جنگ لاہور کا ایڈیٹر تھا۔
کس کس دور حکومت میں جنگ پر کیا گزرتی رہی؟ ، کب کب اسے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایاگیا، کون کون سی سول حکومتوں میں بھی اسے ’’جمہوری سنسر شپ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا؟ کتنی بار جنگ کو بند کرنے کی کوششیں کی گئیں جو آج تک جاری ہیں، کتنی بار اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا اور کتنی بار جنگ کے کارکنوں نے تحفظ روزگار اور تحریک آزادی صحافت کی کامیاب تحریکیں چلائیں؟ میر شکیل الرحمان نے اپنی حالیہ گرفتاری سے پہلے بھی کتنی قربانیاں دیں، یہ تاریخ کا سنہری باب ہے جو کبھی بند نہیں ہوگا۔ میر شکیل الرحمان اور ان کے اداروں کے خلاف باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی اپنوں نے کیا کیا سازشیں کیں اس حوالے سے بھی میں ’’ کئی منصوبوں‘‘کا شاہد ہوں۔
اب ہو جائے ذکر بانیِ جنگ اور محسن اردو صحافت ،میر خلیل الرحمان کا۔ ایک با اصول اور صاحب کردارصحافی کا۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ بڑے میر صاحب کا بھی صحافتی آزادیوں کے لیے کردار نمایاں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے یہاں میں ایک واقعہ ضرور بیان کرنا چاہوں گا۔ ضیاٗ الحق کے زمانے میں تحریک آزادی صحافت کا دوسرا مرحلہ کراچی میں شروع کیا گیا تھا۔یہ غالباً 1979.80 کا زمانہ تھا ، کراچی کے تمام اخبارات کے مقابلے میں جنگ ورکرز یونین سب سے مضبوط یونین تصور کی جاتی تھی۔
جنگ کراچی کے کئی صحافی اور کارکن بھی ہمارے ساتھ جیل یاترا پر گئے تھے۔اخبار کی انتظامیہ کی جانب سے ان پر کسی قسم کا دباو نہیں تھا۔ایک دن جنگ ورکرز یونین نے منہاج برنا،نثار عثمانی،حفیظ راقب ،حفاظ الرحمان اور دیگر ساتھیوں کے اعزاز میں جنگ کے دفتر میں تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں بھی شریک ہوا تھا۔ وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر میری حیرانی کی انتہا ہوگئی کہ میر صحافت جناب میر خلیل الرحمان پی ایف یو جے کے قائدین کے استقبال کے لیے خود موجود تھے اور انہوں نے جلسہ نما اس تقریب کا اہتمام اپنے کمرے کے سامنے ہی کرایا تھا۔
یوں تو بڑے میر صاحب خوبیوں کا مجموعہ تھے، لیکن میں ان کی صرف ایک خوبی یہاں بیان کروں گا۔ میر خلیل الرحمان نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری کو سنبھالا دینے کےلیے بھی بہت خدمات انجام دیں۔ وہ دامے، درمے، سخنے فلم سازوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ فلم انڈسٹری کے ابتدائی دنوں میں میر صاحب نے کئی فلموں کےلیےسرمایہ بھی فراہم کیا۔ وہ اعتدال پسند صحافت کے قائل تھے اور میری جارحانہ صحافت کے سخت مخالف۔
میں نے اپنی غلطیوں پر ان سے کتنی بار معافی مانگی مجھے یاد نہیں، کیونکہ وہ کبھی کسی کی غلطی کو دہرایا نہیں کرتے تھے۔ لوگوں نے میر خلیل الرحمان کے مقابلے میں بڑے بت تراشنے کی کوشش کی جنہیں وقت اور تاریخ کا دھارا مسمار کرتا رہا۔آج صرف جنگ یا جیونیوزپر ہی نہیں ،پوری صحافت اور صحافیوںپرجو کڑا وقت ہے، میرے خیال میں یہ مارشل لاوں کے ادوار کو بھی مات دے رہاہے،لیکن مزاحمت بھی سخت ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جدوجہد کے میدان میں صحافتی برادری کو کبھی مات نہیں ہوئی۔ آج پی ایف یو جے کا سیکریٹری ناصر زیدی، وہی نوجوان ہے جس نے بیماری کی حالت میں بھی میرے ساتھ آزادی صحافت کےلیے کوڑے کھائے تھے۔