پاکستان کی تشکیل ’’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ‘‘ کی عملی تفسیر تھی ۔ 1857 میں شروع ہونے والی جدو جہدِ آزادی اگست 1947ء کو فاتحانہ انداز سے انجام پذیر ہوئی، مگر اس سفر میں لاکھوں انسانوں کو نئی مسلم مملکت تک پہنچنے کے لیے آگ وخون کا ہولناک دریا عبور کرنا پڑا۔ایک نئی صبح، نئی سحر ،نئی روشنی سے فیض یاب ہونے ، غلامی کے درد بھرے ماضی کو بھلانے، ترقی، خوش حالی، بلندی کی نئی راہوںکے حصول کی خواہشوں، امیدوں اور آدرشوں کے ساتھ منزل پر پہنچنے کےپُر صعوبت، اذیت ناک، تکلیف دہ اور طویل سفر میں جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے بانی میر صحافت ، میر خلیل الر حمٰن بھی اس ہر اول دستے میں شامل تھے۔
جس نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے محاذپر مورچہ سنبھالنے کا عزم کیا ۔ دہلی کے گرم سیاسی ماحول میں ایک پیسے کے اخبار سے اپنی کامیابی کی بنیاد رکھی اور جنگ اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ میر صحافت نے جنگ اخبار کے ذریعے ایک طرف تحریک ِ پاکستان کو آگے بڑھایا، اسے کامیابی سے ہم کنار ہونے میں مدد دی اور دوسری طرف ان مقاصد کو عزیز رکھا جس کی بنیاد پہ ملک وجود میں آیا۔
قیامِ پاکستان کی عٖظیم جدوجہد کی لمحہ بہ لمحہ داستان کے وہ ناقابلِ فراموش باب جس میں قلم سے جہدِ مسلسل سنہری حروف میں رقم ہیں،میر صاحب کے قابلِ ستائش کردار سے پُر ہیں۔ وہ صحافت کے مسلمہ قائد کی حثیت سے جہاں تازہ آباد کرتے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے بڑی صحافی ایمپائر بنا ڈالی۔
آج ’’جنگ‘‘ایسے لمبے چوڑے پاٹ کا دریا بن چکا ہےجو ذہنوں کو سیراب کر رہا ہے۔ اگرچہ میر صحافت نے ایسے پر آشوب دور میں صحافت کی دہلیز پر قدم رکھا جب دوسری جنگ ِعظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطّوں میں آزادی کی تحریکیں اُبھرنے لگی تھیں لیکن ان کے تخلیقی ذہن اور صلاحیتوں نے انہیں نئی راہیں دکھائی۔ البتہ عالمی سیاست کے تناظر میں جب برِ صغیر میں مسلمانوں کی آزادی کی تحریک فیصلہ کُن مرحلے کی جانب بڑھ رہی تھی تو بانیٔ جنگ نے اس تحریک کے دوران تن تنہا دہلی سے ’’روز نامہ جنگ‘‘کا اجراء کیا یہ ایک ایسے دورمیں ہوا تھا جس میں کسی اخبار کو زندہ رہنے کے لئے کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونا ضروری تھا۔ میر خلیل الرحمن کو جنگ کی ادارتی پالیسی کے متعلق کسی شش و پنج میں پڑنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ یہ بالکل واضح تھا کہ جنگ صرف اور صرف آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ہوگا اور ایک نئے وطن کے حصول کی جنگ میں اسلامیان برصغیر کے ہراوّل دستے کا کردارادا کرے گا۔
اس دور کے چند شماروں کے اداریوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ نے اپنی یہ جنگ بڑی کامیابی سے لڑی۔ ان اداریوں میں جہاں بعض میں مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کو بیان کیاگیا ہے وہیں بعض میں کانگریس اور دیگر ہندو اور مسلم لیگ کی مخالف مسلم سیاسی جماعتوں اور حکومت برطانیہ کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ جنگ مکمل طور پر تحریک پاکستان کاحامی اور مسلم لیگ کا ترجمان تھا۔
آہستہ آہستہ جنگ کا شمار مسلمانوں کے انتہا پسنداردو اخباروں میں ہونے لگا۔ 1941ء کے دوران دہلی سے شائع ہونے والے’’انتہا پسند‘‘ اخبارات کی جو سہ ماہی رپورٹ جاری ہوئی۔ اس میں سولہویں نمبر پر روزنامہ جنگ کا نام درج تھا۔روزنامہ جنگ دہلی کی صورت میں میر خلیل الرحمن نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں برطانیہ اور کانگریس کے خلاف جو محاذ سنبھالا تھا وہ اس پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے تھے کہ سیاسی حالات نے کروٹ بدلی اور برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے۔
اس زمانے کا مسلم پریس کمزور تھا لیکن اس نے کمزور ہونے کے باوجود تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میر خلیل الرحمن اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے تحریک میں پورے جذبے ،خلوص اور اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کیا اور کسی قسم کی قربانی سے گریز نہیں کیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلم پریس خصوصاً دہلی سے نکلنے والے اخبارات و رسائل نے مسلمانوں میں تحریک پاکستان کا جذبہ پیدا کر نے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ پیش پیش تھا۔ چونکہ ’’جنگ‘‘ دہلی ہندوستان بھرکے مسلمانوں کی آواز، مسلم لیگ اور پاکستان کا حامی تھا۔
اس لئے ’’جنگ‘‘ دہلی بھارتی حکومت کے عتاب کا خاص نشانہ تھا۔ یہ ’’جنگ‘‘ دہلی کی زندگی کا بدترین دور تھا۔ ادھر میرخلیل الرحمن نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ پاکستان اور قائداعظم کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں گےبعد ازاں قیامِ پاکستان کے بعد ’’ روزنامہ جنگ‘‘ ایک نئے ملک کی تعمیر اور استحکام کے ملی جذبے سے سر شارایک تحریک بن کر اُبھری۔ یہ عہد ساز اور تاریخی سفر آسان نہیں تھا۔ غلامی ،آزادی ، جمہوریت، آزمائش اور مسلسل آزمائش کے مختلف مراحل پر جس طرح ’’جنگ‘‘ کا نام اور کام آگے بڑھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
’’جنگ‘‘ کے 75 سال پر ایک نظر ڈالیں تو قارئین کو بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے میر صاحب ،صحافت کے مسلمہ قائد کی حثیت سے ایک کے بعد دوسرا پڑاؤ ڈالتے اوراک جہانِ تازہ آباد کرتے رہے۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو صحافت کی تاریخ میں کم لوگوں کے حصّے میں آیا اور ایسے لوگ پوری دنیا میں انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جو کسی بھی زبان میں اخبار نکالیں اور اسے دنیا یا اپنے ملک کا سب سے بڑا اخبار بنا دیں۔
میر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو صحافت کی سب سے بڑی صحافیانہ ایمپائر قائم اور اسےمستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے جو اردو صحافت اور جمہوری جدو جہد کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا ، جو یقیناََ ہمالیہ کی خطرناک وادیوں سے بار بار گزرتے رہنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ وہ صحافت کی بھٹی میں تپنے کے بعد کندن بنے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنم لینے والا ’’جنگ‘‘ جوانی کی دہلیز عبور کر کے صحافت کے عالمی آسمان پر دمک رہا ہے۔
آئیےایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں، جنگ کراچی سے پنڈی، لاہور، کوئٹہ، ملتان اور جنگ انٹر نیشنل تک، آج اس کے بطن سے جنم لینے والے ایڈیشن اور میگزین وغیرہ پر ۔
تحریک پاکستان کے دوران ہی میر صاحب نے ’’جنگ‘‘ کراچی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔14 اکتوبر1947کو شام کے روزنامہ کے طور پر ’’جنگ کا اجراء عمل میں آیا ، ان دنوں اخبارات میں ایک دن آگے کی تاریخ ڈالنے کا رجحان تھا۔ ا س لیے اس پر 15اکتوبر کی تاریخ ڈالی گئی تھی ۔پہلا شمارہ 20ضرب30 انچ کے نصف سائز کے چار صفحات پر مشتعمل تھا، ہر صفحے پر چھ کالم تھے۔ قیمت فی پرچہ ایک آنہ تھی۔ مدیران میں میر خلیل الرحمٰن اور غازی انعام پردیسی کے نام شامل تھے۔
اخبار کی لوح بالائی حصّے کے درمیان میں شائع کی گئی تھی رفتہ رفتہ ’’ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور 10فروری1948 کو اسے، صبح کا روزنامہ کر دیا گیا،ساتھ ہی اس کی لوح بدل گئی اور صفحات کی تعداد بھی چار سے بڑھا کر چھ کردی گئی ۔ میر خلیل الرحمٰن جنگ کے منیجنگ ایڈیٹر ، یوسف صدیقی نیوز ایڈیٹر تھے، جب کہ اداریہ تحریر میں غازی انعام پردیسی اور رئیس امروہوی کا نام شامل تھا۔
اُن دنوں اخبارات کی اتوار کو ہفتہ وار تعطیل ہوتی تھی، پیر کو قارئین اخبارت سے محروم رہتے تھے، چناں چہ جنگ کی انتظامیہ نے ہر پیر کو ہفتہ وار ایڈیشن شائع کرنے کا فیصلہ کیا ، جس میں سیاسی مضامین،علمی اور ادبی مقابلے، کارٹون اور رنگین تصاویر کے علاوہ خبروں کا ضمیمہ بھی شامل تھے۔آٹھ صفحات پر مشتعمل اس ایڈیشن کی قیمت دو آنہ مقرر کی گئی۔ یہ ایڈیشن قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔ 1950 میں شفع عقیل نے ’’جنگ‘‘ میں شمولیت اختیار کی ، جس کے بعد سنڈے ایڈیشن کی روایت کا آغاز ہوا، بعد ازاں ایڈیشن کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار میگزین بھی جنگ کا حصّہ بن گئے۔قومی اور مذہبی تہواروں پر اخبار کے خاص ایڈیشن نکلے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
1952میں روزنامہ’’ جنگ ‘‘نے پاکستان میں پہلی مرتبہ آفسٹ طرز ِ طباعت کو رواج دیا،جس کی وجہ سے کتابت کا انداز بھی بدلا اور جنگ کی اشاعت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔اس سال ’’جنگ‘‘نے پورے ایشیا میں’موٹو فلم لیٹرکو روشناس کرایا۔ ان دنوں کئی اخبارات اپنی اپنی اشاعتوں کے دعوے دار تھے ، جن میں سرِ فہرست کراچی سے شائع ہونے والا اردو روزنامہ ’’انجام‘‘ تھا، جس کے پاس سب سے زیادہ اشاعت کا سر ٹیفکٹ بھی تھا۔ 1955میں اخباری کاغذکی درآمد کے لیے لائسنس جاری کرنے کے غرض سے اخبارات کی تعداد اشاعت معلوم کرنی ضروری تھی،اس غرض سے محکمہ صنعت نے اخبار چھپنے کے وقت تمام اخبارات کے پریسوں پر بیک وقت چھاپے مارے تو پتا چلا، سب سے زیادہ اخبار ’’جنگ‘‘ چھپتا ہے، جس کی اشاعت’’21700‘‘ ہے، جب کہ انجام کی ’’12000‘‘ ہے۔
چناں چہ حاصل شدہ اعداد وشمار کی روشنی میں آڈٹ بیورو آف سر کولیشن نےروزنامہ ’’انجام‘‘ کا سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اخبار کا سر ٹیفکٹ منسوخ کردیا اور ’’جنگ‘‘ کو سب سے زیادہ اشاعت کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا،جس کے بعد 3ستمبر1956 سے روزنامہ جنگ کی پیشانی پر ’’ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ چھپنے والا اردو روزنامہ‘‘ شائع ہونے لگا۔ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ نے بعض اہم سلسلوں کا آغاز کیا، جس میں سرفہرست ٹارزن کی کہانی، طلبا خواتین اور بچوں کے صفحات شامل تھے، ان صفحات نے میگزین کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا، کم و بیش پورے ہفتے رنگین صفحات شائع ہوتے تھے۔
جنگ راولپنڈی کا اجراء
دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا اعلان ہوا تو میر خلیل الرحمٰن نے فوراََ راولپنڈی سے جنگ ‘‘ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔13نومبر1959 کو راولپنڈی ’’جنگ ‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔
اخبار جہاں کا اجراء
یکم جنوری 1967ء کو اردو کا سب سے کثیر الاشاعت جریدے ہفتہ روزہ اخبار جہاں کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا۔ ادارہ جنگ کے زیرِ اہتمام جاری ہونے والے ہفتہ روزہ اخبار جہاں کے پہلے منیجنگ ایڈیٹر میر خلیل الرحمٰن، پہلے ایڈیٹر میر حبیب الرحمٰن اور اسسٹنٹ ایڈیٹر نذیر احمد ناجی تھے۔ اس شمارے میں احمد ندیم قاسمی، ابن انشا اور شفیع عقیل کا کالم اور انور شعور ، شریف الدین پیرزادہ اور منیر احمد منیر ، رسول احمد کلیمی، نوشابہ صدیقی، سلطانہ مہر، سعیدہ افضل ، صغیر ادیب، مشفق خواجہ اور احفاظ الرحمن کے مضامین شامل تھے۔
یہ شمارہ 56صفحات پر مشتمل تھا جن میں 8صفحات 4رنگوں میں اوردیگر صفحات دو رنگوں میں تھے۔ اس شمارے کی قیمت 60پیسے تھی۔ اس میں اخبار جہاں کا جو تعارفی اشتہار شائع ہوا تھا، اس میں درج تھا کہ ’’جو کچھ جہاں میں ہے ، اخبار جہاں میں ہے‘‘ اور یہ کہ ’’نئے سلیقے اور نئی طرز پر ترتیب دیا ہوا ایک مصور و مکمل ہفتہ روزہ جس میں ہر ذوق تسکین کا خیال رکھا گیا ہے‘‘۔
جنگ لندن کا اجراء
15مارچ 1971ءکو روزنامہ جنگ کراچی انٹر نیشنل ایڈیشن لندن سے شائع ہونا شروع ہوا۔ جنگ لندن کے ادارتی فرائض جناب انعام عزیز کو سونپے گئے اس کے اجرا کی رات بی بی سی لندن نے اپنی اردو نشریات میں جنگ لندن کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ نشرکی جس میں روزنامہ جنگ کا تعارف اور جناب انعام عزیز کا انٹرویو شامل تھا۔
جنگ انٹرونیشنل ایڈیشن میں پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کی خبریں اور تارکین وطن کے مسائل کے بارے میں مضامین خصوصی طور پر شامل کیے گئے۔ جنگ لندن آج بھی اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہے اور برصغیر پاک و ہند سے باہر دنیا کا سب سے بڑا اردو روزنامہ ہے۔
روزنامہ جنگ لاہور کا اجراء
یکم اکتوبر 1981ء وہ یاد گار دن تھا جب روز نامہ جنگ نے لاہور سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ یہ دنیا کا پہلا اردو اخبار تھا جو کمپیوٹر پر کمپوز ہو کر شائع ہوا تھا۔ اس جدت نے طباعت کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور رفتہ رفتہ اردو کے سب ہی اخبارات ، رسالے اور کتابیں کمپیوٹر ہی پر کمپوز ہونے لگے۔
دی نیوز کا اجراء
11؍فروری 1991ءکو جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام راولپنڈی، لندن اور نیو یارک سے بیک وقت انگریزی روزنامے ’’دی نیوز‘‘ کا اجراء عمل میں آیا جس کے مدیر اعلیٰ میر شکیل الرحمٰن ، مدیر غازی صلاح الدین اور نیوز ایڈیٹر عمران اسلم تھے۔ اس روزنامے نے پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ صحافت کی بنیاد ڈالی ۔ خواتین، بچوں، نوجوانوں اور کھیلوں کے موضوعات پر مختلف میگزین جاری کیے جو اس اخبار کے ساتھ تقسیم ہوا کرتے تھے۔ روزنامہ دی نیوز پاکستان کا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ جس نے بیک وقت نہ صرف پاکستان کے تین شہروں بلکہ لندن اور نیو یارک سے بھی اپنی اشاعت کا آغاز کیا اوردیکھتے ہی دیکھتے قارئین کے ایک وسیع حلقے میں بے حد مقبول ہو گیا۔
مڈویک اور سن ڈے میگزین کااجراء
2؍جون 1982ء وہ تاریخ تھی جب اخبار نے صوری اعتبار سے ایک بڑی تبدیلی کی جانب قدم اٹھایا اور گاہے گاہے شائع ہونے والے مختلف نوعیت کے مضامین کی یکجائی کے کیلئے ایک رنگین ہفتہ وار رسالے کا اجراء کیا جس کی الگ سے کوئی قیمت نہیں تھی بلکہ یہ اخبار کے ساتھ منسلک کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جانے لگا۔ اس ہفتہ وار پرچے کا نام ’’مڈویک میگزین‘‘ تجویز کیا گیا۔ قارئین کی بڑی تعداد کو یہ تبدیلی اس وجہ سے بھائی کہ انہیں مستقل بنیادوں پر ایک دلکش اور ہفتہ وار پرچہ میسر آیا جس میں ہر عمر اور ذوق کے افراد کی پسند کے مضامین شامل تھے۔
یہی نہیں بلکہ ’’مڈویک میگزین‘‘ کے کامیاب تجربے کو دیکھتے ہوئے اخبار کی انتظامیہ نے 6؍ستمبر 1998ء کو ایک اور ہفتہ وار پرچہ جاری کیا جس کا نام ’’سنڈے میگزین‘‘ تجویز کیا گیا۔ مذکورہ پرچہ بھی اپنی اجراء کی تاریخ سے مسلسل اور متواتر شائع ہورہا ہے۔
جنگ کوئٹہ کا اجراء 31مارچ 1972ء جبکہ عوام کا اجراء1994ء،آواز لاہور 17اپریل 1998ء، جنگ ملتان 7 اکتوبر 2002ء اور انقلاب لاہور بھی شائع ہوا۔
جیو ٹی وی کا آغاز
یکم اکتوبر 2002ء کو پاکستان کے مقبول ترین جیو ٹی وی نے اپنی نشریات کا آغاز کیا، اس چینل کا قیام جنگ گروپ کے اہتمام مئی 2002ء میں عمل میں آیا تھا، اس نے اپنی تجرباتی نشریات کا آغاز 14اگست 2002ء سے کیا۔
رضیہ فرید
گھڑی کی ٹک ٹک سے قطرہ قطرہ سرکنے والے لمحے گھڑیوں کی مسافت طے کر کے دِن، ہفتے، مہینے اورپھر سال بدلتے چلے آئے ہیں۔ ان ہی بیتے ماہ و سال میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے تین چوتھائی صدی کا طوفان خیز سفر مکمل کر لیا، پُرجوش، غیریقینی، بعض اوقات دِل شکن، خوش کن سفر اپنے نازک پروں پر بھاری بھاری خواب رکھے محو پرواز رہا۔
اس سفر میں کتنے انقلاب آئے، کتنی حکومتیں بدلیں، کتنے اقتدار چھینے گئے، کتنے تخت اُچھالے گئے، کتنے ملک دُشمن غدّار کے خطاب سے نوازے گئے اور ان ہی کھیل تماشوں، اُکھاڑ پچھاڑ میں ’’جنگ گروپ آف نیوز پیپرز‘‘ کو کتنی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، کتنے حادثے دُکھ کا باعث بنے، کتنی ’’اَن ہونیاں‘‘ ہوئیں۔ اسیری کی اذیتوں سے لے کر معاشی قتل، تک کیا کچھ جھیلا۔ سود و زیاں کے یہ قصّے اور داستانیں بہت طویل ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر جنگ کا سماں ہونے کے باوجود ’’جنگ‘‘ نے اپنے زخموں کا اشتہار دیئے بغیر پون صدی کا سفر صبر و تحمل سے طے کر لیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مشکلات، دھونس، دھمکیاں، دبائو اور خطرات مول لے کر بھی منظم انداز میں صحافتی میدان میں ڈٹے رہنا، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا، حق و صداقت کا علم بلند رکھنا آسان نہیں۔ ایسے میں 75 سال کا سفر جس اعتماد اورجس سچائی سے طے ہوا، اس حوالے سے اخبار کا اتنا اثاثہ ہی اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے، جو اپنے عہد کی زندہ آوازوں میں منفرد بھی ہے اور جدید تر بھی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ خاموش لہجوں کو یہ مت سمجھو کہ اندر سے خالی ہیں، ان میں باتوں کی گہرائی سمندوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، بس ضبط کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ ضبط بھی امتحان ہوتا ہے ، جو سُرخرو ہو گیا، وہ اَمر ہوگیا، ’’جنگ‘‘ نے دُوسرے اعزازات کے ساتھ یہ اعزاز بھی اپنے نام کر لیا۔
کسی بھی اخبار کا تین چوتھائی صدی کا سفر وہ بھی قدم قدم پر مشکلات کے ساتھ مکمل کرنا نہ صرف اس اخبار کے لیے باعث فخر ہے بلکہ اس کا اپنے قارئین کے ساتھ مضبوط تعلق اور رشتے کا بھی مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی لیے ’’جنگ‘‘ کی 75 سال پہلے کی کچی خوش بوئیں جو دُھوپ میں جل کر پھول بنیں، اب مشرق سے مغرب تک مہک رہی ہیں۔ ان ماہ و سال کے اَوراق تلاشتے ایسا لگا جیسے جگنو کی طرح چمکتے لمحات گرفت میں آ گئے۔ اندازہ ہوا کہ میر صحافت اپنےدِل و دماغ میں جو بھاری بھاری خواب سجا کر محو پرواز ہوئے تھے، ان کے ہر حوصلے کی اُڑان، آندھیوں میں بھی مشعل جلاتی رہی۔
باوجود اس کے کہ جنگ پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں، مقدمے بنتے رہے، پیشیوں پر پیشیاں ہوتی رہیں، تاریخوں پر تاریخیں ملتی رہیں لیکن ’’جنگ‘‘ تاریخ بناتا رہا۔ اور ایک ایسی تاریخ رقم ہوگئی جو کاغذوں پر ہی نہیں ذہنوں پر بھی نقش ہوگئی۔75 برس کے سفر میں آنے والے تمام موڑ، تمام چوراہے اورہر سنگ میل کو’’جنگ‘‘ نے جس طرح عبور کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ لاکھ دھمکیوں، بندشوں کے باوجود ’’سچ کا سفر‘‘ جاری ہے۔
عزیز قارئین! آج جنگ کا پون صدی کے سفر کا خصوصی ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے سے قبل خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیجئے کہ ایک غیرمعمولی اور طویل داستان کی مختصر جھلکیاں آپ کو بار بار اُس دَور میں لے جائیں گی جب آپ میں سے بہت سوں نے زندگی کی پہلی سانس بھی نہیں لی ہوگی اور وہ قارئین بھی ہوں گے جنہوں نے بچپن سے جوانی تک کا دَور جنگ پڑھتے ہی نہیں گزارا ہوگا، اس سے اُردو لکھنی پڑھنی بھی سیکھی ہوگی۔ یقیناً تجربوں کو تحریر کرتے وقت سچائی اور جذبات میں توازن قائم کرنا اور قلم کو بے قابو نہ ہونے دینا کوئی مذاق نہیں۔
گرچہ آئینہ گزرے ہوئے لمحے نہیں دکھاتا لیکن ’’80‘‘ صفحات کے خصوصی ایڈیشن میں عکس دَر عکس ’’جنگ‘‘ کے تمام خد و خال اس آئینے میں جھلک رہے ہیں، سرِورق پربہ ظاہر کچھ نہیں لیکن سمجھنے کو بہت کچھ ہے لیکن اندر جھانکیں گے تو اس سے بھی زیادہ ہے، صفحے پلٹتے جائیں، ماضی کی تصاویر ذہن میں لاتے جائیں اور سوچیں کہ ’’جنگ‘‘ نے ماضی کاخزانہ آپ کو دے دیا ۔ تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان تک کی جانے والی جدوجہد میں جنگ اخبار کے صحافتی کردار کا اندازہ بھی کرتے جائیں۔ سنگلاخ چٹانوں پر ’’جنگ‘‘ کا سفر کیسے آگے بڑھتا رہا، جنگ کا خاندان کیسے پھلتا پھولتا رہا، قلم اور دِلوں کا رشتہ پروان چڑھتا رہا۔
طلبا، نوجوان، خواتین اور بچّے ہی نہیں سیاست داں بھی اس کے سحر میں کیسے گرفتار ہوتے رہے۔ ظالموں کی گرمئی گفتار کے ساتھ ’’جنگ‘‘ کے لہجے کی مٹھاس آپ کو سچ اور جھوٹ کا پتا دیتی رہے گی۔ ساتھ اس کا بھی اندازہ ہوگا کہ ’’جنگ‘‘ نے ’’پہچان‘‘ کے استعاروں اور علامتوں میں اپنی پہچان بھی رکھی ، توازن بھی اور معیار بھی، یہی اس کی کام یابی کی دلیل ہے۔ ہمارے مختصر کو بہت جانیے، خصوصی ایڈیشن کا ورق ورق بہت کچھ بتا رہا ہے۔ اس کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا لگے گا جیسے کوئی کیمرہ گھوم گھوم کر اپنے گرد و پیش کی تصاویر اُتار رہا ہو۔ یقیناََ آپ بھی ان تصاویر کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ اللہ حافظ
نگرانِ ترتیب و تیاری:رضیہ فرید…
ادارتی تعاون:رضوان احمد طارق،ندا سکینہ صدیقی، مسرت راشدی، سلیم احمد، انچارج ریفرنس سیکشن…
پیج ڈیزائنر: شاہد بلوچ، نوید رشید، اسرار علی