• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا بدقسمتی ہے ہماری کہ ایک ایسے ملک میں جس کے بانی محمد علی جناح ساری زندگی آزادیِ صحافت اور قانون کی حکم رانی کے لیےلڑے وہاں 75سالوں میں صحافت کم وبیش سارے ادوار میں پابندِ سلاسل ہی رہی۔ کبھی کالے قوانین کی زد میں تو کبھی غیر ریاستی عناصر، سیاسی ، لسانی اور مذہبی جماعتوں کے حملوں کی زد میں ۔ میڈیا ہاوسز پر حملے بھی ہوئے اور صحافی شہید بھی ہوئے۔ جتنا بڑا اخبار اتنا زیادہ دباو۔کم ازکم چالیس سالہ صحافت اور صحافتی ٹریڈ یونین رہنما کے طور پر بہت سے واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ دور آمرانہ ہو یا جمہوری، تنقید کسی کو برداشت نہیں، مگر اس پر ردعمل کے اپنے طریقے رہے۔

’’جنگ‘‘ اخبار بلاشبہ پاکستان کا نمبرون اخبار رہا ہے اور اگر میں یہ کہوں کے لوگوں کی عادت بن گیا تو غلط نہیں ہوگا۔ میں جب ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا تب سے اسے پڑھنے کا شوق رہا جو آج تک موجود ہے۔ تمام اخبارات پڑھ لیں تب بھی اگر آپ نے جنگ نہیں دیکھا ہوتو لگتا ہی نہیں ہے کہ ’’آج‘‘ کا اخبار دیکھ لیاہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہ اخبار ہر دور میں دباو میں رہا، مگر پھر بھی اپنی’ ’خبرنہ مِس ہو‘‘ والی روایت برقرار رکھی۔ کون سی خبر کس جگہ لگی ہے،یہ دیکھ کر لوگ اندازہ کرلیتےکہ آگے کا منظر نامہ کیابننے جارہا ہے۔

’’جنگ‘‘ دراصل پاکستان کی تاریخ کا ’’ رف ڈرافٹ‘ ‘ ہے۔ میں اکثر جب دا نیوزکی سیڑھیاں چڑھ رہا ہوتا ہوں تو دیواروں پر لگی ’’جنگ‘‘ کی پہلی اشاعت سے مختلف ادوار تک کی بڑی بڑی نمایاں سرخیاں یا فرنٹ پیج تھوڑی دیر کے لیے رُک کر ضرور پڑھتا ہوں۔ کئی سال پہلے میں نے ایک کتاب ’FRONT PAGE STORIES‘میں 1900-1984کے فرنٹ پیج پڑھے جس میں غالباً برطانیہ کے ڈیلی میل کی15اگست،1947کی ایک سرخی تھی تصاویر کے ساتھ BIRTH OF TWO NATIONS۔میری تجویزہے کہ جنگ کی انتظامیہ اس طرح کی کتاب لاسکتی ہے جو نوجوان صحافیوں کے لیے بہت کارآمد ہوگی۔

بات ہورہی تھی دباو کی۔ کالے قوانین کا اطلاق تو قیام پاکستان کے کچھ عرصےبعدسے ہی شروع ہوگیا تھا کیوں کہ انگریزوں کے زیر تربیت رہنے والی نوکرشاہی نے قائد اعظم کی رحلت کے بعد ایسے قوانین لاگو کرنے شروع کردیے تھے جس کے خلاف جناح نے آواز اٹھائی تھی۔ مثلاً وہ سینسر شپ کے اتنے خلاف تھے کہ جب بمبئی کرانیکل، سینسر ہونے لگا تو انہوں نے اخبارنکالنےسے انکار کردیا کہ سینسرکیاگیااخبار بیچنےسےبہترہےکہ اسے نہ شایع کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ اپنی اہلیہ، رتی جناح کے ساتھ آزادی صحافت کے لیے جلوس بھی نکالے ۔کبھی میں سوچتا ہوں کے آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے قائدین نے اس زمانے میں ایسے قوانین کے نفاذ کے خلاف مزاحمت نہیں کی تھی۔جناح صاحب کی تو بے شمار تقاریر موجود ہیں کہ آزادی صحافت اس لیے ضروری ہے تاکہ حکومتوں کا احتساب ہوتا رہے۔

بہ ہرحال قیام پاکستان کے پہلے تیس سال اخبارات ریاستی جبر کا شکار رہے۔جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمان مرحوم نے انتہائی مشکل وقت میں اسے نکالا جس کی وجہ سے اتنے سالوں بعد بھی یہ اخباردوسرے اخبارات سے بہت آگے نظر آتا ہے۔ اخبار سے یا اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کے صحافت میں نمبرون رہنے پر کوئی دورائے نہیں۔ ریاستی اور غیر ریاستی دباو کی بھی یہی وجہ رہی ۔

اخبارات پرحملوں، صحافیوں کو دباو میں لانے کے واقعات میں اضافہ 1980 کی دہائی کے بعد زیادہ ہوا، جب دیکھتے ہی دیکھتے سیاست نظریات سے نکل کر برادریوں اور لسانی اور فرقہ وارانہ گروہوں میں بٹ گئی اور ہتھیار اپنے خیالات مسلط کرنے کا ایک ذریعہ بن گئے۔ اس سےپہلے ایوب خان اور پھر ذولفقار علی بھٹو کے ادوار میں اخبارات پر پابندیاں بھی لگیں اور صحافی، مدیر، مالک جیلوں میں بھی گئے ۔

جنرل ضیاالحق کا مارشل لا پاکستان میں آزادی صحافت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے بدترین دور رہا ہے۔ اس دوران صحافیوں کی لازوال تحریک میں، جس کی قیادت PFUJاور APNECکے سابق صدر، نثار عثمانی مرحوم اور منہاج برنا محروم کررہے تھے،جنگ اخبارکے بھی درجنوں صحافیوں نے گرفتاریاں دیں،صحافیوں کو ملٹری کو رٹ سے سزائیں ہوئیں۔مارشل لاکی انتظامیہ، خصوصااس وقت کے سیکریٹری اطلاعات، جنرل مجیب الرحمان مرحوم کا خاص طور پر دباو رہتاتھا، اشتہارات بھی روکے گئے اور یہ بھی دباو رہا کہ ان صحافیوں کوفارغ کیا جائے جواس تحریک کا حصہ ہیں۔

سندھ کے دوشہروں حیدرآباد اور خیرپورمیں 1989میں یکے بعد دیگرے چند دنوں میں تین صحافیوں کے قتل نے پورے ملک کی صحافی برادری میں غم وغصّےکو جنم دیا اور اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شہید صحافیوں میں روزنامہ جنگ کے خیرپور کے نمائندے راحت کاظمی بھی شامل تھے۔ دیگر دوصحافیوں کا تعلق بھی قوی اخبارات سے تھا۔ کچھ دوستوں نے اسے لسانی رنگ دینے کی بھی کوشش کی مگر کراچی یونین آف جرنلٹس(کے یو جے) نے واضح کردیا کے یہ آزادی صحافت کا مسئلہ ہے اور جنہیں شہید کیا گیا ان کا تعلق کسی جماعت یا گروہ سے نہیں تھا۔ میں اس وقت پہلی بار کراچی پریس کلب کا سیکریٹری منتخب ہواتھا اور صدیق بلوچ مرحوم کے یوجےکے صدر تھے۔ اس مسئلے پر سب متفق تھے کہ بھرپور احتجاج ہونا چاہیےAPNS APNEC, KUJ, CPNE, پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھی بنی جس نے ایک دن کی ہڑتال کا اعلان کیا اور مشترکہ جلسہ بھی ہوا۔

ان ساتھیوں کے قتل نے خاص طور پر سندھ میں نئے سوالات کو جنم دیا ۔ صاف نظر آرہاتھا کہ اب صحافت اور صحافیوں کو نئے چیلنجز کاسامنا کرنے کے تیار رہنا ہوگا اور جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ خاص طور پر سندھ میں، جہاں لسانی سیاست نے ایک نیا روپ لیا جب اردو بولنے والوں کی اکثریت نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پر اعتماد کیا اور پہلے1987میں بلدیاتی الیکشن میں اور پھر 1988میں عام انتخابات میں اسے مثال کام یابی حاصل ہوئی۔ شروع میں یہ سیاست عوامی سطح تک گئی۔ لوگوں نے آنکھیں بند کرکے ووٹ دیا،چاہے وہ حق پرست کے نام پرہو یا ایم کیو ایم کے نام پر۔ بدقسمتی سے وہ اس طاقت کو مثبت انداز میںآگے لے جانے کے بجائے کسی اور جانب ہی نکل گئے اور علاقوں کو ’’کنٹرول‘‘کرنے والی سیاست آڑے آگئی۔ اس کا سب سے حیران کن پہلو اُن کا میڈیا کوکنٹرول کرنے کی پالیسی تھی۔ جنگ اخبار اور اس میں کام کرنے والے اس پالیسی کا خاص نشانہ رہے۔

پاکستان کی صحافتی وسیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت نے اخبار کے بائیکاٹ کے لیے جلسے کیے ہوں، جلوس نکالے ہوں۔ غالباً یہ اخبار کو قابو میں کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ بات تب شروع ہوئی تھی جب پہلی بار جماعت کے بانی امریکا سے پاکستان آئے۔ وہ ایم کیو ایم کی طلبا تنظیم APMSO کا ابتدائی وقت تھا۔ ایم کیو ایم بنانے کا سوچاجارہا تھا ۔ تنظیم کو شکایت تھی کہ میڈیا ان کی نمایاں کوریج نہیں کررہا ۔ بعد میں جب جماعت نے زور پکڑا توکوریج بھی بڑھ گئی۔ مگر اب زور زبردستی شروع ہوگئی۔ڈاکٹر فاروق ستار، پہلی بار میئر کراچی منتخب ہوئے، ان کی شادی کی تصویر دوکالم میں فرنٹ پیج پرلگی۔ مگر جماعت کویہ اعتراض تھا کے اس سے زیادہ بڑی کیوں نہیں چھپی۔

’’جنگ کا بائیکاٹ‘‘ کے بینر کراچی، حیدرآباد ، میر پور خاص اور سکھر میں آویزواں کردیے گئے۔ جلسوں میں اس وقت سخت زبان کا استعمال ہوا ۔ پیغام بڑا واضح تھا اور اخبار کی انتظامیہ اور میر صاحب کو ایک مشکل کاسامنا تھا۔ اخبارکےبنڈل کےبنڈل جلادیے گئے۔ ہاکرزنے اخباراٹھانےسے انکار کردیا۔جنگ میں کام کرنے والے صحافیوں میں بھی ایک خوف تھا کیوں کہ بیش تر کارکنان ان علاقوں سے آتے تھے جہاں ایم کیوایم کا زور تھا ۔ پس پردہ، ظاہر ہے جماعت زیادہ کوریج چاہتی تھی۔ معاملہ کئی دنوں اور ہفتوں بعد بات چیت سے حل ہوا۔ دباوبہ ہرحال کم نہیں ہوا اور ایسا وقت بھی آیا جب ’’90‘‘ سے آئی ہوئی پریس ریلیز’’اسٹاف رپورٹر‘‘ کے ساتھ جاتی تھی بعد میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا بلوچستان کے اخبارات کوبھی کرنا پڑا۔وہاں فرقہ وارانہ تنظیموں اور قوم پرستوں سے اسی طرح کی پالیسی اپنائی اورکچھ گروپس تو ہیڈ لائن بھی تجویز کرتے تھے۔

ان سالوں میں مجموعی طور پر صحافت سب سے زیادہ زیرِعتاب کراچی میں رہی۔ ایم کیو ایم پر تنقیداس کے لیے قابلِ برداشت نہیں تھی۔ایک بار اس صورت حال کا سامنا شام کے اخبار’’قومی اخبار‘‘ کو بھی کرنا پڑا اور14 روز تک شایع نہ ہو سکا جب تک اس کے مالکوں نے پارٹی کے مرکز جاکر معافی نہیں مانگی۔ اعتراض PSF کے سابق صدر نجیب احمد کے قتل کی خبر کو ہیڈ لائن بناکر پیش کرنے اور اسپیشل سپلیمنٹ نکالنے پر تھا ۔وہ چاہتےتھے کہ خبردینے والے رپورٹر رفیق پٹیل کو ان کے حوالے کیا جائے۔ کم ازکم چودہ روز تک اخبار کی اشاعت بند رہی اور رفیق پٹیل کوزیرِ زمین رہنا پڑا۔

جنگ اخبار کے کئی ساتھی دہشت گردی کا شکار ہوئے جن میں سے ایک واقعہ اخبار کے ایک سینئر ساتھی منظر امکانی کا ان کے گھر پرقتل تھا۔ تحقیقات کے نتیجے میں پولیس نے کڑیاں لسانی سیاست سے جوڑدیں اور ایم کیو ایم کے مبینہ طورپر ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ وہ پہلے صحافی تھے جن کو گھر کے قریب مارا گیا ۔صحافتی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ،مگر یہ سلسلہ نہ رک سکا۔ اس دوران ماہنامہ نیوز لائن کی خواتین کو بھرے جلسے میں دھمکیاں دی گئیں اور مغرب زدہ خواتین کہا گیا ۔یہ الگ بات ہے کہ جب ایم کیو ایم کیخلاف1992میں آپریشن شروع ہوا تو یہی رسالہ تھا اور خواتین تھیں جنہوں نے اس آپریشن اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کی اور کور اسٹوری شایع کی۔

جنگ گروپ کے ہی ہفتہ روزہ اخبار جہاں میں ایک آرٹیکل بلوچستان کے ایک قوم پرست رہنما کے قتل پر چھپا جس کی ہیڈ لائن غالباً ان کے گروپ کو پسند نہیں آئی۔ مضمون لکھنے والے ڈاکٹر چشتی مجاہدتھے جو فری لانسر تھے ۔جب انہیں دھمکی ملی تو انہوں نے گروپ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہیڈ لائن ان کی نہیں ہے۔ مگر تسلی نہیں ہوئی اور ایک روز خبر آئی کہ نامعلوم افراد نے انہیں بھی گھر کے قریب فائرنگ کرکے شہید کردیا۔

گوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ریکارڈ اخبارات پر حملوں کے حوالے سے زیادہ بُرا نہیں اور اس میں زیادہ برداشت پائی جاتی ہے، مگر کچھ واقعات ایسے ہیں جن سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ البتہ خود بھٹو صاحب کے دور میں ریاستی سطح پر بہت زیادتیاں کی گئیں۔ ان میں برداشت نہیں تھی۔اس کے مقابلے میں محترمہ بے نظیر بھٹو میں تحمل زیادہ تھا۔ بھٹو نے تو خیر اپنے سیاسی مخالفین، خود پارٹی کےرہنماؤں کو بھی نہیں بخشا،حالاں کہ ان کواس سب کی ضرورت نہیں تھی، مگر شاید جاگیردرانہ سوچ حاوی آگئی۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں ایک بار خبر میں ایک لفظ پر ، جس کے بلوچی زبان میں معنی قابل اعتراض تھے، شدید ردعمل سامنے آیا ۔ کراچی میںPSFکے لڑکوں نے نجیب احمد اور مسرور احسن کی سربراہی میں جنگ کے دفتر پرقبضہ کرلیا۔ سارے لڑکے نیوز روم میں داخل ہوگئے اور گوکہ وہاں موجود بہت سے سینئر ساتھیوں سے ان کے اچھے تعلقات رہے ہیں، مگر انہوں نے انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا اور دھمکیاں بھی دیں کہ اخبار نہ صرف معذرت کرے بلکہ معافی بھی مانگے۔ میں اس وقت کےیوجےکا صدر اور کراچی پریس کلب میں تھا۔

مجھے جنگ لاہور سے وہاں کے ساتھی انجم رشید کا فون آیا۔ میں ساتھیوں کو لے کر جنگ کے دفتر پہنچا تو صورت حال خاصی خراب تھی، کس کو باہر سے اندر اور اندر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔بہ ہر حال میں نےمسرور احسن سے بات کی اور فوری طور پر قبضہ ختم کرنے کا کہا ۔ ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام کے یو جے یونٹ اپنےدفاترکے سامنے پی پی پی کے خلاف احتجاج کریں گے۔ مسرور احسن کی سمجھ میں ہماری بات آئی اور کچھ دیر بعد لڑکوں کو باہر جانے کاحکم مل گیا۔ چوں کہ ایک لفظ پر سارا ہنگامہ ہوا تھا، لہذا اخبار نے دوسرے روز معذرت کرلی۔

اسی طرح1996میں جب میں دوسری بار کراچی پریس کلب کا سیکریٹری تھا تو سندھ میں پی پی پی کی حکومت نے شام سے تعلق رکھنے والے چھ اخبارات پر پابندی لگادی تھی۔ اس وقت موجودہ وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے والد عبداللہ شاہ مرحوم وزیر اعلیٰ تھے۔ حکومت کو اعتراض تھا کہ یہ اخبارات ماورائے عدالت مارے جانے والوں کی تصاویر نمایاں کرکے شائع کررہے ہیں۔ جن اخبارات پر پابندی لگی ان میں جنگ گروپ کاشام کا اخبار عوام، قومی اخبار ، ایوننگ اسپیشل، پبلک، مارننگ اسپیشل اور آغازشامل تھا۔ 

شام کے انگریزی اخبارات اس سے محفوظ رہے۔ان پابندیوں کے خلاف تمام اخبارات کی تنظیموں، بہ شمولAPNEC PFUJ, CPNE, APNSاور اخبار فروش فیڈریشن کی تنظیم نے بھی بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا۔کراچی پریس کلب میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں میرجاوید الرحمان مرحوم،حمید ہارون، مجیب الرحمان، شامی، عارف نظامی مرحوم، عبدل حمید چھاپرہ مرحوم، ریحانہ حکیم، زاہد حسین، عبدالقدوس مرحوم، شفیع الدین اشرف مرحوم، جنگ،جاوید پریس کی اور دیگر یونینوں نے شرکت کی۔ 

اجلاس میں ایک بار پھر جوائنٹ ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی اور مجھے متفقہ طور پر کنوینر بنایا گیا۔ اجلاس میں متاثرہ اخبارات کے مدیران بھی شریک تھے۔ پابندی غالباً یکم جولائی 1996 کو لگی اور اس کے خلاف ہڑتال کے لیے پانچ جولائی کی تاریخ مقرر ہوئی۔یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اجلاس کے دوسرے روز، یعنی3جولائی کو پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاوس تک ’’لانگ مارچ‘‘ہو گا۔

یہ غالباً پہلا موقع تھا جب تمام صحافتی تنظیموں کے صف اول کے رہنماوں اور خاص طور پر مالکان اخبارات ، مدیران اور صحافیوں نے ایک ساتھ مارچ کیا۔ یہ ایک مثالی اتحاد تھا۔ جب ہم وزیر اعلیٰ ہاوس یادداشت جمع کرانے پہنچے تو وزیر اعلیٰ نے اندر بلالیا اورفوری طور پر پابندی اٹھانے کا اعلان کیا۔ ایک مشترکہ کمیٹی بھی بنی مسائل حل کرنے کے لیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور میں جنگ گروپ کو خاصی مشکلات کاسامنا رہا،خاص طورپر احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان کے ہاتھوں ۔ جنگ اور دی نیوز اخبار کے مدیران اور سینئر صٖحافیوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور دھمکیاں دینے کا مقصد میاں صاحب اور حکومت کے خلاف خبریں رکوانا تھا۔مالکان پر یہ بھی دباو تھا کہ چند صحافیوں اور مدیروں کوفارغ کیا جائے۔

اسی دوران ایک واقعہ نے سب کو ہلا کررکھ دیا۔ دی نیوز اور جنگ کے مایہ ناز رپورٹر کامران خان پر، جواس زمانے میں حکومت کی کرپشن اور سندھ میں اس وقت کےمشیر داخلہ اور سی آئی اے سینٹر کے حوالےسے خبریں دے رہے تھے، دفتر کے نیچے نامعلوم شخص نے حملہ کردیا۔ انہیں زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیاگیا ۔اس واقعے کے خلاف شدید احتجاج ہوا اور جلوس نکالا گیا۔

مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے ان اقدامات اور خاص طور پر سیف الرحمان کی دھمکیوں اور اس پر میاں صاحب کی پر اسرار خاموشی پر غم وغصہ پایا جاتا تھا۔ ملک بھر سے صحافیوں نے اسلام آباد میں اجلاس بلایا اور مظاہروں کا فیصلہ ہوا۔کراچی میں جنگ اخبار کے دفتر سے جلوس نکلا تو بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی شرکت کی۔ سیف الرحمان کی برطرفی کامطالبہ ہوا۔ اس دور میں ریاستی سطح پر ہراساں کیا گیا اور ایجنسیوں کے ذریعے صحافیوں کی نگرانی کی گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کا دورحکومت، جو ابھی جاری ہے، میڈیا کے حوالے سے انتہائی مشکل دور ہے۔ جنگ اور جیو، جس نے عمران خان کو، ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو نمایاں کوریج دی،ان سے تعلقات 2013 سے خراب ہونے شروع ہوئے۔ جب خان صاحب کو جنگ اور جیو سے یہ شکایت ہوئی کہ انہوں نے مسلم لیگ کی جیت کا اعلان کیسے کردیا۔ ’’اعتراض‘‘ اپنی جگہ، مگر کیا کوئی اخبار یا چینل کسی کی جیت کا اعلان کردے تو وہ جیت سکتا ہے جب تک الیکشن کمیشن اعلان نہ کردے؟ ورنہ اس سے پہلے وہ باقاعدہ طور پر جیو پر آتےتھے اور جنگ کو انٹرویو بھی دیتے تھے۔

انتخابی نتائج کے بعد جب انہوں نے تحریک کا اعلان کیا توان کی تقاریر میں جنگ اور جیو خاصہ نشانہ ہوتے تھے اور جس طرح کی زبان وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کرتے تھے اس سے دوقدم آگے بڑھ کر وہ میر شکیل الرحمان کے لیے استعمال کرتے۔ اس سب کے باوجود ان کی کوریج میں کوئی کمی نہیں آئی حالاں کہ اس پوری مہم کے دوران جیو اور جنگ کے صحافی اور کارکنوں پرحملے تک ہوئے جن میں وہ خواتین صحافی بھی شامل تھیں جو ان کے جلسوں اور ریلیوں کوکورکررہی تھیں۔

ان میں خاص طور پر ثنا مرزا کو ایک جگہ، جب وہ جیو کی وین پر سوار تھیں، گھیر لیاگیا۔ کراچی میں خود میں بھی نرسری کے پاس اس کی لپیٹ میں آگیا ۔مگر اس روزشام کو عمران خان کا مجھے فون آیا اور انہوں نےمعذرت کی۔ میں نے کہا: عمران، میں نے اس طرح کے واقعات بہت دیکھے ہیں، مگر یہ آپ اور آپ کی جماعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا‘‘۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔مگر اسی دوران جب پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اسلام آباد ڈی چوک پہنچا توایک روز جیو اور جنگ کے دفتر پرحملہ کردیا گیا۔ اسی دوران ڈی چوک پرصحافیوں کو ہراساں کیاگیا۔ اس طرح کے کئی واقعات نے اس طرز سیاست کے بارے میں کئی سوالات پیدا کردیے۔

جنگ اور جیو نے خبریں دینے اور بریک کرنے کی روایت قائم رکھی ۔اس دوران ان میں کام کرنے والوں کو شدید مشکلات اور حملوں کا سامنا رہا ۔نام ور کالم نویس اورجیو کے صف اول کے اینکر حامد میر کی کہانی ایک پورے ناول سے کم نہیں۔ ہمارے یہاں اختلاف رائے ،نفرتوں اور دشمنیوں میں بدل گیا ہے۔ حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ اس کی انتہا تھا۔ میں نے اسے زندگی اور موت کی کشمکش میں دیکھا ہے، مگر کیا کریں ’’حسد‘‘ اپنے عروج پر ہوتو حملے کو بھی لوگ جعلی قرار دے دیتے ہیں۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کسی نہ کسی حوالے سے آج تک برقرار ہے۔

عمران خان حکومت میں آئے توان کے پیش نظر جہاں سیاسی مخالفین کونشانہ بناتھا، وہاں جنگ اور جیو بھی ان کے رڈرا پررہے اور ایک طرف ان کے تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ،احمد نورانی، اعزاز سید، فہیم صدیقی، فخر درانی اور دیگر نشانےپررہے تودوسری طرف انہوں نے اپنےتئیں میر شکیل الرحمن پر اپنا غصہ اس طرح نکالاکہ انہیں گرفتار کرکے چھ ماہ قید میں رکھا گیا۔ اس طرح شاید وزیر اعظم کوکسی طرح کی تسکین ہوئی ہو ،مگر کیس میں کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ البتہ اس دوران ان کےگھر میں دوبڑی ٹریجڈیز ہوئیں، ان کے بھائی اور والدہ کا انتقال۔

حکومت کو ساڑھے تین سال ہوگئے ہیں، مگر اب بھی وزیر اعظم کی زبان پر ’’جنگ‘ ‘ چڑھا ہوا ہے۔ قوم سے حالیہ خطاب میں بھی وہ اس کو نہیں بھولے، مگر وہ اس بات کو آج تک نہیں سمجھے کہ اگر رپورٹر اپنی خبر پرقائم ہے تو یا تو آپ معذرت کریں یا اسے غلط ثابت کریں۔

یادرکھیں، آپ کو کبھی کوریج سے شکایت نہیں ہوگی ۔ تنقید ہمارا کام ہے۔اسی کا نام صحافت ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کے ان75سالوں میں جنگ اخبارپاکستان کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والے اخبار رہا۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ’’جیو‘‘ تمام تر مشکلات کے باوجود پہلے نمبر پر رہا۔ پالیسی پر اختلاف ہوسکتا ہے، خبروں پر اعتراض ہوسکتا ہے، تجزیوں اور تبصروں پرتنقید ہوسکتی ہے، عدالتوں کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے، مگر یاد رکھیں گرفتاریاں، حملے اور ہراساں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اطلاعات تک رسائی لوگوں کا حق ہے۔ پاکستان میں ریاستی سطح پر، حکومتی طور طریقوں سے، کالے قوانین کے ذریعے اوردیگر حربوں سے سچائی کا راستہ روکنے کی کوششیں کی گئیں اور آج بھی یہ عمل جاری ہے، مگر سچ بھی کبھی چھپتا ہے؟

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

یہ جدوجہد جاری ہے، البتہ اس سفر میں لڑتے لڑتے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کہیں غلطیاں ہم سے بھی سرزد ہوئی ہیں۔ اخباری صنعت کوجن مشکلات کاسامنا ہے اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادی صحافت کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کی معاشی مشکلات کا خیال رکھا جائے۔ کیوں کہ کوئی بھی جنگ مضبوط فوج کے بغیر نہیں لڑی یا جیتی جاسکتی ۔ اس لیے کہ آگے بہت سے چیلنجز ہیں۔

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی