• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
13 اپریل سن 41ء قبل از ولادتِ مسیح مصر کی خاتون حکمران قلوپطرہ نے ایک شاہی حکم نامہ جاری کیا۔ جو یہ تھا” سیلاب کے بعد آنے والے قحط کے نتیجے میں کھیتی باڑی کرنے والے کارکنوں کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ اور اب ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا“۔ شاعری اور افسانوں میں قلوپطرہ نسوانی خوبصورتی کا سمبل ہے، لیکن قدیم و جدید تاریخ میں اس کی اصل پہچان غریب ہاریوں یا زرعی کارکنوں کی تاریخ کا رخ بدلنے والی ملکہ مصر کے طور پر ہے۔جارج برنارڈ شا ء نے اٹھارویں صدی میں سیزر اور قلوپطرہ کے درمیان یہ ڈائیلاگ لکھا۔ سیزر نے کہا کہ دنیا کے فاتحین کا چیف بزنس ٹیکس لگانا ہے۔ جس کے جواب میں بیوہ قلوپطرہ نے گڈ گورننس کا یہ فارمولا بتایا۔ ملک کے عوام اور سرزمینِ وطن کا خیال رکھنا میرا” چیف بزنس“ ہے۔ یہ زمانہ جہالت کی باتیں ہیں۔ جب حکمران غر یب عوام کا ساتھ دیتے اور وقت پڑنے پر یہ غریب عوام اپنی جان کا نذرانہ دے دیتے تھے۔ اب تو غریب غریبوں کا بھی ساتھ نہیں دیتے ۔ جبکہ سرمایہ دار سرمایہ داروں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اب ترقی یافتہ لیڈر عوام کو طاقت کا سرچشمہ یا غریب عوام کہنا آوٹ آف فیشن سمجھتے ہیں۔کسی زمانے میں اپوزیشن حکومت کو عوام کی طاقت سے ڈرایا کرتی تھی۔ آج کی اپوزیشن کتنی برخوردار۔ کس درجہ تابعدار اور پیر نصیر الدین نصیرگولڑوی کے بقول” زیاں کار“ ہے۔ یہ سمجھنے کیلئے مرحوم پیرنصیر صاحب نے شہید بی بی کیلئے جو رثائیہ نظم کہی اس کے مقطع میں زیاں کا ر کااستعما ل پڑھ لیں :۔
نصیر اُن سا زیاں کار کوئی کیا ہو گا؟
جو آپ اپنے مسیحا کو مار دیتے ہیں
عوام کیلئے مغرور اور خواص کے سامنے مجبور اپوزیشن پانچ سالہ آئینی دور کو جبری مشقت میں پکڑے گئے مزدور کی طرح قدم بڑھانے کا کہہ کر عوام کو اولی الامر کی تابعداری کا فتویٰ دیتی ہے۔ ویسے بھی آج کل رخصتی اور فتوے کا سیزن ہے۔ شاہ زیب کیس کے بعد ہر جیب سے فتویٰ نکل رہا ہے۔ فساد فی الارض کی تشریح تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 میں کی گئی ہے۔ جس کے تحت راضی نامے کے ذریعے سزائے موت یا عمر قید کی سزا معاف کرنے کا اختیار مقتول کے ولی کے پاس ہے۔ فساد فی الارض کے جرم میں زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم از کم دس سال کی سزا تعزیر کے طور پر دی جا سکتی ہے۔ اسی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 310 میں قتلِ عمد کے مقدمے میں قصاص کے حق کو بدلِ صلح کے ذریعے راضی نامہ قبول کرنے کا شرعی قانون موجود ہے۔ جبکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 309 میں قتلِ عمد ہی کے مقدمے میں عَفوکے اصول کے تحت بھی خون کے وارث خون معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن آج کل بعض ٹی وی اسٹیشنوں، کالموں، خبروں اور تبصروں کے ذریعے قصاص اور دیت کے قانون پر فتوے بازوں کے لشکر حملہ آور ہیں۔ تاریخ کے عظیم ترین انسانی چارٹر کا اعلان فرماتے وقت خطبہ حجتہ الوداع میں محسنِ انسانیت ﷺ نے خو ن معاف کرنے کے قانون کا اعلان فرمایا تھا۔اس لئے یاد رہے کہ قصا ص و دیت کا قانون کسی انسان کی نہیں اللہ کی حدود کے ذریعے وضع کیا گیا ہے۔ 1990ء میں فوجداری قوانین کی دوسری ترمیم کے آرڈیننس سے یہ قانون بنا۔ پھر فوجداری قوانین کی پانچویں ترمیم ، 1992 ء میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 299 تا338 تک اسے مستقل قانون کی حیثیت مل گئی۔حوالے کے لئے PLD1993(مرکزی قوانین) صفحہ نمبر 70 ملاحظہ ہو۔ پاکستان کے جیالے عوام، نہ تو حزبِ اختلاف کا قومی ، ملکی، علاقائی، بین الاقوامی، عوامی اور قانونی معاملات میں ”حق اختلاف“ سے مذاق پسند کرتے ہیں۔ نہ ہی میں اللہ اور اسکے رسول کی طے کردہ حدود سے تجاوز کرنے والی کسی قانونی موشگافی یا دنیاوی دلیل کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور نہ ہی ایسے کسی معاملے میں ہم تمھارے ساتھ ہیں کے نعرے کی تائید کروں گا۔ نہ ہی ایسی کاروباری مفاہمت کو محنت کش عوام کبھی مانیں گے۔ جس کے ذریعے غریب عوام کی محنت کش اکثریت اور کچلے ہوئے طبقے کو استعماری سرمایہ داروں کا غلام بنانے کی سودے بازی کی جائے۔ ہاں البتہ سودے باز جمہوریت کے کچھ کارنامے ایسے ہیں جن پر کارنامہ وار ہم تمھارے ساتھ ہیں کا نعرہ لگانے کو بے اختیار جی چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر بنگالی بابا کے تعویز کی طرح صرف سو دنوں میں سو گنڈے۔ سو ڈنڈے اور سو لِتّر کی برانڈڈ جمہوریت نے غریب عوام کی جو سہ رخی خدمت کی ہے اس پر مل کر کہو قدم بڑھاؤ مفاہمت ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ صرف سو دنوں میں547 ارب روپے کا اندرون ملک بینکوں سے قرضہ لے کر جس طرح معصوم کشکول کی بے حرمتی کی گئی ہے اس پر مل کر نعرہ لگائیں۔ قدم بڑھاؤ جمہوریت ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ 547 ارب روپے کا قرض صرف سو دن میں لینے کا مطلب ہے ایک سو کروڑ سے زائد کا قرض روزانہ۔ مارگلہ کا شاہیں بتاتا ہے یہ سارے قرضے جمہوریت نواز طبقے کی عین منشاء کے مطابق دوستوں کے بینکوں سے لئے گئے ہیں۔ 547 ارب کے قرضے خرچ کہاں ہوئے …؟ یہ اسٹیٹ بینک بتائے یا وزارتِ خزانہ ۔ اگر یہ دونوں نہ بھی بتائیں تب بھی مل کر نعرہ مستانہ لگایا جا سکتا ہے۔” ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان یاسین انور نے مہنگائی میں اضافہ گیارہ سے بارہ فیصد بتایا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام سے کوئی پوچھے، سستی روٹی کتنے میں ملتی ہے…؟ تڑکادال کی پلیٹ کا ریٹ کیا ہے…؟ اپنے کھیت کے گنے کی بنی ہوئی چینی اور اپنے وطن کی مٹی سے نکلنے والا مٹی کا تیل کتنے میں ملتا ہے…؟ موبائل فون کا مشہورِ زمانہ ایزی لوڈ کہاں پہنچ گیا ہے…؟ ویگن میں بیٹھنا سستا ہے یا رکشے پر چڑھنا…؟ موٹر سائیکل کا پانی ملا پیٹرول کس پمپ سے اور چھوٹی گاڑیوں کی گیس کس اسٹیشن سے کتنے بجے ملتی ہے…؟ آپ یہ سروے ملک کے کسی بھی حصے میں خود کر لیں۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ عوام کو کس ریٹ پر ذلیل کیا جا رہا ہے…؟ مگر امریکی ڈالر ایک سو پانچ روپے تک پہنچانے والوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک روزانہ کہتے ہیں۔” ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔امرتا پریتم نے کہا تھا:۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں،کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا، کوئی اگلا ورقہ پھول
اج سبھے کیدو بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لبھ کے ، وارث شاہ اک ہور
سود کی شرح ریکارڈ توڑ بن چکی ہے۔ نئی مالیاتی پالیسی اس کی تصدیق کرتی ہے مگر وفاقی شرعی عدالت کے پاس سود کے مقدمے کا آخری فیصلہ کب ہو گا…؟ ملک میں بے کاروں کی شامت اور بینک کاروں کا راج ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید مہنگائی کی خوش خبری سنا دی ہے۔ ہمار ے سینیٹ اور قومی اسمبلی کاروائی چلانے کے لئے پارلیمانی بزنس تلاش کر رہے ہیں۔ قدم بڑھاو یا رقم بڑھاو مفاہمت “غم …تمہارے ساتھ ہیں۔“
تازہ ترین