• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنتے آئے ہیں، جہاں گیا بھوکا، وہاں پڑا سوکھا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ مہنگائی کا سونامی انگلستان پہنچ گیا ہے۔وہ جو گیس کا ماہانہ بل ساٹھ پاؤنڈآتا تھا، تازہ نوٹس آیا ہے کہ یکم اپریل سے وہی بل ایک سو چالیس ٖپاؤنڈ کا ہوگا۔یہی حال بجلی کا ہے،یہی پانی کا۔ اورہر علاقے اور محلے کے جو اپنے ٹیکس ہوتے ہیں، وہ بھی دوگنا ہورہے ہیں اور روزمرہ استعمال کی ہرشے کو گویا آگ لگ گئی ہے۔ یہ سب اچانک یا چوری چھپے نہیں ہوا۔ بہت دنوں سے خبر گرم تھی کہ یہ بلا نازل ہونے والی ہے۔ اور جب واقعی سرکاری رقعہ موصول ہوا تو میں نے ٹیلی وژن پر خانہ دار خواتین کو روتے ہوئے دیکھاحالانکہ اِس طرف لوگ کم ہی روتے ہیں۔

اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے خیال سے ایک خلقت نے ترکِ وطن کیا اور مغرب میں پڑاؤ ڈالا۔ بس یہ ضرور ہے کہ جومفلسی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں انہیں حکومت مدد دے گی مگر معاشرے پر نازل ہونے والی ہر مشکل وقت کی چھلنی میں چھنتی ہوئی نیچے تک پہنچتی ضرور ہے۔اس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔اس گرانی کا اثر ہندوستان اور پاکستان تک بھی پہنچے گا اور جس ترسیلِ زر کا ذکر ز ور شور سے سننے میں آتا ہے، اس میں خسارے کی نقب لگے گی اور خیرات اور امداد کے نام پر جو رقم غریبوں اور ناداروں کو بھیجی جاتی ہے اس میں کمی واقع ہوگی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں برطانیہ میںہو ں اور برطانیہ ہی کا حال کہہ رہا ہوں لیکن گرانی کی اس وبا نے ساری دنیا ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کون سا علاقہ اور کون سا خطہ اس سے محفوظ ہے؟جیساعذاب سری لنکا پر ٹوٹا ہے، خدا سب کو محفوظ رکھے۔اس ذرا سے جزیرے پر اتنی بڑی آفت آئی ہے کہ ڈر ہے کہیں لوگ فاقوں اور بیماریوں اور وباؤں سے مرنے نہ لگیں۔ سارا ملک سڑکوں پر نکل آیا ہے اور کُل الزام ملک کے صدر اور ان کی حکومت پر لگا رہا ہے جو کہنے کو عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر آئے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ ان کے سارے حواری اور اہل خانہ پیسے کمانے میں لگ گئے اور ملک میں گیس، بجلی، پٹرول اور روز مرہ استعمال کی قریب قریب ہر شے عنقا ہونے لگی اور سب سے زیادہ قیامت دواؤں اور علاج معالجے کے سازو سامان پر ٹوٹی کہ لگتا ہے پورے ملک میں صحت کا نظام کسی بھی روز منہدم ہورہے گا۔بوکھلائی ہوئی حکومت طرح طر ح کے حربے استعمال کر رہی ہے، کبھی ایمرجنسی لگاتی ہے اور کبھی کرفیو۔ مگر حالت یہ ہے کہ لوگ کرفیو کو ٹھوکروں میں اُڑا رہے ہیں اور دیدہ دلیری سے کرفیو کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔تا دمِ تحریر، صدر اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان کے وفا دار وزیر بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن اقتصادی بحران اتنا شدید ہے کہ تقریریں کسی پر اثر انداز نہیں ہوں گی اور گھروں میں فاقے ہوئے تو حالات بدہیبت شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

اس معاملے میں سری لنکا تنہا نہیں۔ ایسے یا اس سے ملتے جلتے بحران کہیں بھی آسکتے ہیں۔ بحران محلے کے ڈاکٹر کے اس مکسچر کی مانند ہوتے ہیں جوروز مرہ بیماریوں میں گھول کے دے دئیے جاتے ہیں۔ ان میں ذرا سا فرق ہوتا ہے ورنہ در حقیقت وہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگردیکھیں تو اکثر بحران روپے پیسے سے شروع ہوتے ہیں، پہلے گرانی آتی ہے، پھر قلّت شرو ع ہوتی ہے۔اس کے بعد اقتدار میں شراکت داری کے معاملات شرو ع ہوتے ہیںجو اقربا پروری کی شکل اختیار کرتے ہیںاور نالائق لوگ اوپر آجاتے ہیں۔ یا اس سے بدتر شکل وہ ہوتی ہے جب موروثی حکمرانی قوم کے کندھوں پر سوار ہو کر اس کی گردن کے گرد اپنی ٹانگوں کا آنکڑا ڈال دیتی ہے۔ آخر میں آنکھوں پر دبیز پردے پڑ جاتے ہیں اورحکمرانوں کودن اور رات میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مجھے رہ رہ کر خیال ہوتا ہے کہ اگر دنیا سکڑکر ایک گاؤں بن گئی ہے تو اس کا چوہدری کون ہے۔کیا وہ جو سب سے طاقت ور اور مال دار ہے ؟اس گاؤں میں کس کا حکم چلے گا۔ کس کی مرضی اور خوشنودی کا خیال رکھنا ہوگا۔ کس کے اشاروں پر نگاہ رکھنی پڑے گی۔کس طرف جھکنا ہوگا۔ کس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ کوئی ناراض ہوگیا تو کیا وہ اپنے مہرے چل کر ساری بساط الٹ دے گا۔ کیا رجیم چینج ہوجائے گی اور آپ دیکھتے رہ جائیں گے؟

یہ ہے بحران کا نسخہ جس پربدخط ڈاکٹر کی تحریرہے۔ ایسی تحریر جسے کوئی نہیں پڑھ سکتا۔

تازہ ترین