چھ کروڑ روپے کےبڑے بجٹ سے منعقد ہونے والی سندھ کی سب سے بڑی اور تاریخی پریمئرفٹ بال لیگ کا اختتام لاڑکانہ کی جیت پر ہوا۔ بینظیر فٹ بال اسٹیڈیم لیاری میں کھیلی جانے والی لیگ کے فائنل میں لاڑکانہ نے لیاری فائٹر کو شکست دیکر ٹائٹل حاصل کرلیا۔ لاڑکانہ کے احسان علی نے فیصلہ کن گول اسکور کرکےاپنی ٹیم (جس میں لاڑکانہ کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں تھا) کو سندھ کی تاریخی لیگ کا فاتح بنوایا۔ لیاری فائٹر کو فائنل میچ میں ایک صفر کی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فاتح لاڑکانہ کو پندرہ لاکھ روپے اور ٹرافی جبکہ لیاری فائٹر کو دس لاکھ اور ٹرافی دی گئی۔
حیدرآباد کی ٹیم کو تیسری پوزیشن حاصل کرنے پر ٹرافی اور پانچ لاکھ روپے کی انعامی رقم دی گئی۔ لیاری فائٹر کے محمد عمر کو ٹورنامنٹ کا بہترین گول کیپر قرار دیا گیا اور ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم دی گئی۔ سکھر کے افضل کو ٹاپ اسکورر قرار دیا گیا انہیں بھی ایک لاکھ روپے کی انعامی رقم دی گئی۔ فائنل کے مہمان خصوصی سیکرٹری اسپورٹس حکومت سندھ اختر عنایت بھرگڑی، سابق سینیٹر یوسف بلوچ، پیپلز پارٹی سائوتھ صدر خلیل ہوت تھے۔ انہوں نے کھلاڑیوں اور ٹیموں میں انعامات تقسیم کئے۔
اس موقع پر غلام محمد خان، ٹورنامنٹ آرگنائزر کلیم اللہ، رحیم بخش بلوچ، شاہجہان بلوچ، شعبان بلوچ اور دیگر موجود تھے۔ لیگ میں حصہ لینے والی دس ٹیموں میں ملیر بازیگر، لیاری فائٹر، سکھر ڈولفن، لاڑکانہ لیوپرڈ، کورنگی چیلنجر، کراچی رائل، میرپورخاص ایگل، شہید بے نظیر آباد لائن، یونائیٹڈ ویسٹ، حیدرآباد ٹائیگر شامل تھیں۔
چیمپئن شپ کے فائنل میں لاڑکانہ اور لیاری فائٹر کے درمیان سنسنی خیز مقابلہ رہا۔ میچ کا پہلا ہاف بغیر کی گول کے برابر رہا۔ دوسرے ہاف میں دونوں ٹیموں نے فتح حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے گول پر حملے کئے کھیل کے اختتام سے چند منٹ قبل لاڑکانہ کے احسان علی مخالف گول کیپر اور ڈیفنڈر کی غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوبصورت فیصلہ کن گول کیا۔ جواب میں لیاری کے کھلاڑیوں نے میچ میں واپس آنے کیلئے لاڑکانہ کے گول پر کئی حملے کئے لیکن اس کے گول کیپر سلمان الحق کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے کامیابی نہ ملی۔
لیگ ابتداء سے ہی تنازعات کا شکار رہی اور فائنل والے روز تقریب کے موقع پر ناکافی انتظامات کے باعث جو طوفان بدتمیزی اور ہڈبونگ ہوسکتی تھی ہوئی۔ فائنل تقریب کیلئے تیس لاکھ روپے کی رقم رکھی گئی تھی لیکن جو انتظامات کئے گئے اس حساب سے پانچ لاکھ روپے کی رقم بھی کافی تھی۔ لیگ کی چیمپئن لاڑکانہ کے آفیشلز علی بہار بروہی پر سندھ سپر لیگ کے اختتام تک شدید تنقید رہی۔ بھٹو خاندان کے نام سے پہچانے جانے والے سندھ کے شہر لاڑکانہ کے فٹ بال آرگنائزرز نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، سینیٹر نثار کھوڑو، پیپلز پارٹی کے رہنما جمیل سومرو، وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے کھیل ارباب لطف اللہ اور سیکرٹری اسپورٹس حکومت سندھ اختر عنایت بھرگڑی سے مطالبہ کیا ہے کہ علی بہار بروہی کی لیگ میں اپنے کلب کے کھلاڑیوں کو ٹیم میں کھلانے کی تحقیقات کرائی جائے۔ علی بہار نے جیکب آباد کے اپنے کلب شہید عبدالرحمان کے کھلاڑیوں کو لاڑکانہ کا ٹیم کا حصہ کیوں بنایا؟
علی بہار بروہی نے مکمل جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں آصف پنہور، سہراب کھوسو، نیاز اور کوچز کے ساتھ مل کر لاڑکانہ کے نام پر جو ٹیم تشکیل دی وہ سراسر فراڈ تھی۔ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ کے کھلاڑیوں کو سندھ کی بڑی لیگ میں شامل نہ کئے جانے پر ان پر سندھ میں فٹ بال کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائدکی جائے۔
واضح رہے کہ راقم الحروف نے سندھ پریمیئر لیگ فٹ بال کے حوالے سے گزشتہ مضمون میں سندھ اولمپک ایسو سی ایشن کے سیکرٹری احمد علی راجپوت کیلئے لکھا تھا کہ حکومت سندھ (اسپورٹس) کی جانب سے لیگ کیلئے کروڑوں روپے کا فنڈز سندھ اولمپک کو جاری کیا گیا اور وہی ذمہ دار ہیں۔
لیگ کی ابتداء سے کروڑوں روپے کے تمام اخراجات اور دس ٹیموں اور آفیشلز کو دیئے گئے چیکس پر ایس او کے سیکرٹری اور خازن کے دستخط تھے، لیکن اس کے بعدجب احمد علی راجپوت نے دیکھا کہ معاملات خراب ہورہے ہیں اور لیگ کے اخراجات کی مد میں گھپلا ہورہا ہے تو انہوں نے ایس او کے اکائونٹس سے تمام رقم لیگ میں خود کو محترک رکھنے والے ن ع کے اکاؤنٹ میں غیرقانونی طور پر ٹرانسفر کردی تاکہ جتنی بھی کرپشن ہو اس کے ذمہ دار وہ قرار دیئے جائیں۔ احمد علی راجپوت پہلے ہی اینٹی کرپشن اور دیگر حساس اداروں کی لسٹ پر ہیں۔
سندھ اولمپک ایسو سی ایش کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ احمد علی راجپوت کمیٹی کے دیگر اراکین کو اعتماد میں لئے بغیر کام کررہے ہیں، وہ سندھ حکومت کی جانب سے ملنے والے فنڈز کو ایس او کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرنے کی باضابطہ منظوری نہیں لیتے۔ تمام الزامات سے بچنے کیلئے سندھ اولمپک ایسو سی ایشن کو باضابطہ میٹنگ بلاکر تھر جیپ ریلی اور سندھ پریمیئر فٹ بال لیگ کے حوالے سے ملنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات کے حوالے سے پوری رپورٹ اس میں رکھنی چاہئے اور میڈیا کو بھی آڈٹ رپورٹ پیش کی جائے تاکہ سندھ اولمپک پر لگنے والے الزامات کا دفاع کیا جائے۔
ٹورنامنٹ آرگنائزر اور پاکستان فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان کلیم اللہ جو اس لیگ کے آرگنائزر تھے۔ وہ بھی لیگ کے دوران اپنا کردار صحیح طریقے سے نہیں ادا کرسکے اور اپنے معاملات نمٹانے کے بعد خاموشی سے لیگ کے اختتام پر غائب ہوگئے۔ امکان ہے کہ یہ لیگ ان کی پہلی اور آخری لیگ ہوگی۔