• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی سیاسی رہنما سے یہ کیسی محبت ہے کہ اگر وہ سیاسی رہنما ٹھیک یا غلط یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اُس کے ووٹرز سپورٹرز پاکستانی پاسپورٹ جلا دیں، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی بے حرمتی کریں اور فوج اور فوج کے سربراہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائیں اور مطالبہ کریں کہ جو کچھ اُن کا رہنما مانگ رہا ہے وہ دیں ورنہ یہی کچھ ہو گا۔ 

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اُن کی حکومت کی رخصتی کے بعد جو حالت اُن کے ووٹرز، سپورٹرز کی ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پرامن احتجاج ضرور کریں، وہ جو کچھ غلط سمجھتے ہیں، اُس کے بارے میں تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات بھی ضرور کریں لیکن یہ کیسی سیاست اور سیاسی وابستگی ہے کہ غصہ پاکستان پر نکالا جا رہا ہے۔

پاسپورٹ اور قومی پرچم کی بے حرمتی جیسی حرکت بے شرمی اور بے غیرتی کے زمرے میں آتی ہے جس کی سب کو مذمت کرنی چاہیے۔ ایسی حرکتوں پر عمران خان کو خود اور اُن کے پارٹی رہنماؤں کو فوری اور سخت نوٹس لینا چاہیے تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی طرف سے فوج اور فوج کے سربراہ کے خلاف انتہائی غلیظ مہم اس لیے چلائی گئی کہ فوج نیوٹرل کیوں تھی؟ فوج نے عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کا ساتھ کیوں نہ دیا اور یہ بھی کہ افواج پاکستان کے سربراہان نے نئے وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کیوں کی؟ فوج اور جنرل باجوہ کے خلاف پی ٹی آئی کے مظاہروں میں نعرے بازی بھی کی گئی۔

یہ کھیل کتنا خطرناک ہے، اس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں عمران خان بھی جانتے ہیں اور تحریک انصاف کے دوسرے رہنما بھی۔ فوج نے گزشتہ روز اپنے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس فوج مخالف مہم کی مذمت کی۔ 

ایک اعلیٰ عسکری ذرائع نے مجھے بتایا کہ اُن کے پاس سب ثبوت موجود ہیں کہ یہ مہم کیسے شروع ہوئی کس کس نے کیا کردار ادا کیا لیکن اس موقع پر وہ اس بارے میں حقائق عوام کے سامنے نہیں لانا چاہتے۔

ان معاملات پر عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ ایسی سیاست پاکستان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ پہلے ہی سیاست میں بدزبانی، بدتمیزی اور بداخلاقی بہت زیادہ ہو چکی ہے، اب نئی حدیں پار کی جا رہی ہیں۔

سیاسی رہنما کوئی بھی ہو، عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری یا کوئی اور، سیاسی جماعت کوئی بھی ہو تحریک انصاف، ن لیگ، پی پی پی یا کوئی اور، اندھی تقلید بہت خطرناک ہوتی ہے۔ نہ تو یہ سیاسی جماعتیں ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور نہ ہی یہ سیاسی رہنما ایسے کردار کے مالک ہیں کہ اُن سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی یا اُن کا ہر کہا اُس پارٹی کے ووٹروں سپوٹروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

نجانے اس سیاست میں اتنی نفرت کیوں پیدا ہوگئی؟ اس کو کم کرنے کی بجائے اس کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے جو چند سیاسی رہنماؤں کے ذاتی مفاد اور اُن کی Ego کی تسکین کا سبب تو بن سکتی ہے لیکن پاکستان، ریاست، اداروں اور عوام کے حق میں نہیں بلکہ ان سب کے لیے بہت خطرناک ہے۔ 

نفرت کی اس سیاست کو کیسے ختم کیا جائے، یہ وہ معاملہ ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں کو اپنے ماضی اور اپنے حال پر غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پہل عمران خان اور تحریک انصاف کو کرنی چاہیے، ن لیگ اور پی پی پی بھی اپنے رویوں پر غور کریں۔ 

پی ٹی آئی اور ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیمیں گالم گلوچ، بدتمیزی، بدتہذیبی اور مخالفین یا تنقید کرنے والوں پر کیچڑ اچھالنے، جھوٹے الزامات لگانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو تواپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیمز کو معاشرہ کی بہتری اور تربیت کے لیے استعمال کرنا چاہیے لیکن یہ تو اخلاقیات کو تباہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا میں کچھ وجوہات کی وجہ سے مخالف تھا جس کی بنیاد پر ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم نے میرے خلاف قابلِ اعتراض مہم چلائی۔ جن اکاؤنٹس سے مجھے بُرا بھلا کہا گیا اُن میں سے بہت سوں کو مریم نواز صاحبہ خود فالو کرتی ہیں۔ جب میں نے واٹس ایپ، جے آئی ٹی اور رانا شمیم کے حلفیہ بیان پر خبریں دیں تو پی ٹی آئی سوشل میڈیا والے مجھے بُرا بھلا کہتے رہے۔ اگر یہ سیاست ہے تو ایسی سیاست عمران خان اور مریم صاحبہ کو ہی مبارک!

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین