• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرسید کے حوالے سے عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستانی قومیت سے مسلم قومیت کے تصور کی طرف آئے۔ سرسید کی اپنی تحریروں اور تقریروں کا بغور جائز ہ لیں تو یہ دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک قوم کہنے کے بعد بھی بعض مواقع پر ہندوستان کے سب شہریوں بشمول مسلمانوں کے ، ایک قوم کے طور پر زیر بحث لارہے تھے۔اس کی چند ایک مثالیں ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں قوم اور قومیت کے مباحث جن مختلف اہلِ دانش کی تحریروں میں جگہ پانے لگے تھے ان میں راجہ رام موہن رائے اور سرسید احمد خان دونوں ہی پیش پیش تھے۔ یہ مباحث ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے تھے جبکہ ہندوستان میں قوم سازی کا وہ عمل اپنے تشکیلی دور سے گزر رہا تھا، جس نے یورپ میں قوم سازی کی تھی یعنی یورپ میں جس طرح جاگیرداری کے خاتمے اور تجارتی سرمایہ داری کے فروغ کے ساتھ قومی ریاستیں بننا شروع ہوئی تھیں اور جس طرح اس عمل کو صنعتی انقلاب نے غیر معمولی طور پر مہمیز کیا تھا وہ سماجی انقلاب ابھی ہندوستان میں وجود میں نہیں آیا تھا۔

یہ ضرور تھا کہ ہندوستان کے اندر داخلی طور پر اورہندوستان اوربیرونی دنیا کے درمیان خارجی طور پر تجارتی سرگرمیاں سولہویں اور سترہویں صدیوں میں قابلِ لحاظ حد تک وجود میں آچکی تھیں لیکن صنعتی انقلاب کی منزل فی الحال دور تھی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جاگیرداری یہاں موجود تھی جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد ازاں برطانوی استعمار نے نہ صرف استحکام فراہم کیا بلکہ استعماری معیشت کے تقاضوں کے پیش نظر جس حد تک ضروری تھا اور جن شعبوں میں ضروری تھا وہاں ہندوستان کی زرعی معیشتوں کو عالمی سرمائے کے ساتھ مربوط کیا اور یوں وہ طرزِ پیداوار جس کو معروف مفکر حمزہ علوی نے استعماری طریقۂ پیداوار Colonial Mode of Productionقرار دیا تھا ،وجود میں آئی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جب قوم اور قومیت کی مہم شروع ہوئی تو اس کے علمبرداروں میں زرعی اشرافیہ، تجارتی اور مالیاتی سرمایے سے بننے والی اشرافیہ اور متوسط طبقہ، سب پیش پیش تھے ۔ان طبقوں کے اقتصادی مفادات مختلف اور بعض اوقات متصادم بھی ہوسکتے تھے لیکن ان کی مشترک قدر یہ تھی کہ اپنے سیاسی اہداف کے حصول کی خاطر قوم کی اصطلاح ان سب کے لیے مفیدِ مطلب تھی۔

سرسید کے قوم اور قومیت کے حوالے سے خیالات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ سرسید اپنے زمانے کی رفتار کے ساتھ چل رہے تھے، وہ اپنے دور کے ترجمان تھے۔ اس دور میں جو کچھ ان کے گردو پیش میں ہورہا تھا وہ ان کی تحریروں میں موجود ہے۔ جو تضادات ان کے عہد کے تھے اُن کا عکس بھی ان کے ہاں نظر آتا ہے لیکن سرسید ان کے ساتھ ساتھ ایک مدبر بھی تھے۔وہ آنے والے کل کو دیکھنے کی استطاعت بھی رکھتے تھے اور اس حوالے سے انہوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔

سر سید احمد خان نے اپنی ابتدائی تحریروں میں مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک ہی قوم کا حصہ تصور کیا تھا اوریہ قوم ان کے خیال میں ہندوستان کی سرحدوں میں رہنے والے تمام باشندوں پر مشتمل تھی۔ان باشندوں کی اپنی جداگانہ خصوصیات ہوسکتی تھیں لیکن یہ ہندوستان کی حدود میں رہنے کی مناسبت سے سرسید کے خیال میں ایک قوم کہلانے کی مستحق تھی۔ 

 بعد ازاں سرسید نے ہندوستان کی اسی آبادی کے ایک حصے یعنی مسلمانوں کے لیے قوم کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا مثلاً ۱۸۷۲ء میں نواب محمد عبدالطیف کی کلکتہ میں قائم کردہ محمڈن لٹریری سوسائٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسلمان قوم کی محبت ہے جس نے ان کو مسلمانوں کے لیے ایک جامع پروگرام بنانے پر آمادہ کیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی، ثقافتی ، سماجی اور سیاسی ترقی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ اسلام ، ثقافت اور قوم کی تعمیر کے لیے اہم قوت کی حیثیت رکھتا ہے اور مذہب ، قومیت کے تصورکا بنیادی جزو ہے۔

یہ ۱۸۷۲ء کی تقریر ہے۔اس کے آس پاس کے زمانے میں بھی وہ مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیتے رہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۸۷۲ء کی مذکورہ بالا تقریر کے بارہ سال بعد یعنی ۱۸۸۴ء میں اپنے دورہ ٔ پنجاب کے موقع پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر ہندوئوں اور مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا ذکر ایک سے زائد بار کیا۔ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ قوم کے لفظ سے میری مراد ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔

میرے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کا مذہب کیا ہے۔ہم اُن کے عقائد کو نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ جو چیز ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی زمین پر رہتے ہیں۔ دونوں ایک ہی حکمران کے تحت رہتے ہیں۔ ان کے مفادات کے زرائع ایک ہی ہیں۔ وہ مشکلات اور قحط سالی کو یکساں طور پر بھگتتے ہیں۔ یہی وہ مختلف اسباب ہیں جن کی بنا پر میں دونوں قومیتوں کو، ہندو یعنی ایک ایسی قوم سے تعبیر کرتا ہوں جو ہندوستان میں رہتی ہے۔

سرسید کے لیے یکساں سرزمین پر رہنا اہمیت کا حامل تھا۔ایک موقع پر انہوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، کیا آپ دونوں ہندوستان سے باہر کہیں رہ رہے ہیں؟کیا آپ ایک ہی مٹی پر جلائے یااس میں دفن نہیں کیے جاتے؟اور اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں کہ ہندو اور مسلمان صرف مذہبی اصطلاحیں ہیں۔ہندو ، مسلمان یہاں تک کہ مسیحی بھی ایک قوم کا حصہ ہیں کیونکہ یہ ایک ہی ملک میں رہتے ہیں۔

اسی موقع پر سرسید نے اپنا وہ مشہورِ زمانہ جملہ کہا تھا کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی حیثیت رکھتا ہے جس کی دو دلکش آنکھیں ہیں یعنی ہندو اور مسلمان۔اگر وہ دشمنی اور نفاق کا رشتہ اپنے درمیان قائم کریں گے تو یہ دلہن ایک آنکھ سے محروم ہوجائے گی۔ انہوں نے اپنے سامعین سے پوچھا کہ ہندوستان کے رہنے والو، یہ آپ پر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔آپ اس دلہن کو بھینگا بنانا چاہتے ہیں یا آپ اس کی دونوں آنکھوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۸۸۴ء تک مسلمانوں کو ایک قوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سطح پر ایک ہندوستانی قوم کا حصہ قرار دینے والے سرسید نے بعد کے برسوں میں مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کہنے پر اصرار کیوں شروع کیا۔’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘ میں سید طفیل احمد منگلوری نے یہ رائے قائم کی ہے کہ سرسید کے خیالات میں تبدیلی کا موجب ان کے قائم کردہ ایم اے او کالج کے پرنسپل مسٹرتھیوڈور بیک(Theodore Beck) بنے جنہوں نے سرسید کو متحدہ قومیت کے تصور سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے ہم مجبور ہیں کہ اُس زمانے میں وقوع پذیر ہونے والے زیادہ اہم اور دور رس اثرات کے حامل حقائق پر اپنی رائے کی بنیاد رکھیں۔ہمارے خیال میں ۱۸۸۰ء کے عشرے میں کچھ چیزیں نمایاں ہوکر سامنے آچکی تھیں جن کے نتیجے میں سرسید کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی۔ فارسی کی جگہ انگریزی کے سرکاری زبان بننے کے نتیجے میں اردو نچلی سطح کے انتظامی اداروں میں سرکاری زبان کے طور پر مستعمل ہونے لگی تھی۔خاص طور سے پنجاب، شمال مغربی صوبوں اور بہار میں اردو انتظامیہ اور عدالتوں کی زبان کے طور پر استعمال ہورہی تھی۔

ہندو مسلم اتحاد کا ایک ذریعہ اردو بھی تھی اور ہندوستان میں کبھی متحدہ قومیت کو تقویت حاصل ہوتی تو اس میں اردو کا کردار لازماً موجود ہوتا۔اس امر کی گواہی اس حقیقت سے ملتی ہے کہ ۱۸۵۰ء کے عشرے سے اردو کو ہندوستانی اشرافیہ میں مقبولیت حاصل ہورہی تھی اور ۱۸۳۷ء میں لیتھوگراف پریس کے متعارف ہونے کے بعد اردو اخبارات اگلے دو عشروں میں بڑی تعداد میں شایع ہونا شروع ہوگئے تھے۔

محمد عتیق صدیقی اپنی تصنیف ’ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہد میں‘ میں انکشاف کرتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء سے قبل ہندوستان کے ایک تہائی اردو اخبارات ہندوئوں کی ملکیت تھے یاہندوئوں کی ادارت میں شایع ہورہے تھے۔اردو کا یہ ہندوستان گیر کردار اُس وقت متاثر ہونا شروع ہوا جب ۱۸۶۰ء کے عشرے کے وسط میں بنارس میں بعض ہندو عمائدین نے اردو کے مقابلے میں ہندی کو فوقیت دینے کی پالیسی بنائی اور اس پر عمل پیرا ہوئے۔یہ اردو اور ہندی کا تضاد خود سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی کے اندر بھی جاپہنچا اور بابو شیو پرشاد جو خود اردو کے ایک اچھے ادیب تھے، نے سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی میں یہ مہم شروع کروادی کہ سوسائٹی کی کاروائی اردو کے بجائے ہندی میں مرتب کی جائے۔

اس صورت حال نے سرسید کو سخت پریشان کیا اور انہوں نے ۲۹؍اپریل ۱۸۷۹ء کو لندن سے ایک خط میں محسن الملک کو لکھا کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی تقسیم اور کشمکش کا آغاز ثابت ہوگی، اس ناچاقی کا کبھی تدارک نہیں ہوسکے گا۔جو دوسرا اہم سبب سرسید کے خیالات میں تبدیلی کا بنا وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے سلطنت ِبرطانیہ کو ہندوستان کے اقتدار کی منتقلی کے بعد ہندوستان کی نوآبادی میں قائم کیے جانے والے نمائندہ ادارے تھے جن کے ارکان آغاز میں نامزدگی کے ذریعے مقرر ہونے تھے لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نامزدگی کی جگہ انتخاب کا اصول رائج ہوتا چلا جائے گا اور یوں مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت ان کو ایک مستقل سیاسی اقلیت بنانے کا سبب بن جائے گی۔ایک تیسری چیز جس نے یقیناً سرسید کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہوگی وہ ہندوستان کی نوآبادی بن جانے کے بعد یہاں ایک خاص وقفے کے ساتھ مردم شماری کے انعقاد کا سلسلہ تھا۔

جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو صاف ظاہر ہوگیا کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ ایک اقلیت ہیں بلکہ اکثریت اور اقلیت کے درمیان ایک بہت بڑا عددی فاصلہ موجود ہے۔ سو مستقبل کے سیاسی اداروں میں مسلمانوں کا ایک ثانوی حیثیت کا حامل بن جانا عین ممکن تھا۔ اس سلسلے میں چوتھا اہم سبب ۱۸۸۵ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام تھا جو متحدہ ہندوستانی قومیت کے پلیٹ فارم کے طور پر ابھری تھی لیکن سر سید کے حساب سے یہ پلیٹ فارم مسلمانوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بن سکتا تھا۔

یہ وہ اسباب تھے جن کی بنا پر سرسید اپنی زندگی کے آخری حصے میں مسلم قومیت کے علمبردار بنے اور انہوں نے مسلمان قوم کی فلاح کا جو نقشہ اپنے ذہن میں تیار کیا اُس کی تفصیلات وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بیان کرتے رہے۔ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو مستقبل میں جس سیاسی طاقت کی ضرورت ہوگی اور اپنے لیے سماجی و معاشرتی ترقی کا جو انتظام کرنا ہوگا اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ تعلیم بلکہ جدید تعلیم کو اپنا مقصدِ اولین بنالیں۔

یہ مقصد ہر چیز پر فائق ہونا چاہیے، یہاں تک کہ مسلمانوں کو کچھ عرصے کے لیے سیاست سے بھی دور رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز کرسکیں اور ساتھ ہی ان کی حکومت وقت کے ساتھ مبارز آرائی کی کوئی صورت بھی پیدا نہ ہو۔ ان کا خیال تھا کہ انگریز کے ساتھ لڑنا تو دور کی بات ہے ، مسلمانوں کو چاہیے کہ سلطنت برطانیہ کے وفادار شہری بن کر اور حکومت وقت کے لیے کوئی مشکل پیدا کیے بغیر صرف اور صرف تعلیم پر زور دیں تاکہ مستقبل میں وہ اس لائق ہوسکیں کہ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی کھڑے ہوسکیں۔

قوم اور قومیت کے حوالے سے سرسید کے خیالات ایک خاص سیاسی و سماجی تناظر کے حامل رہے ہیں۔ اس تناظر ہی نے ایک وقت میں ان کو متحدہ قومیت کا، دوسرے وقت میں متحدہ اور مسلم دونوں قومیت کا اور تیسرے تناظر میں جداگانہ مسلم قومیت کا علمبردار بنایا۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی