• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فصیح الملک مرزا خان داغ دہلوی صرف ایک زبان داں اور شاعر ہی نہ تھے بلکہ زبان و بیان، فکروفن، معنویت و داخلیت کا ایک ادارہ، ایک دبستاں اور ایک مکتبہ خیال تھے۔ انہیں اپنی زندگی ہی میں زباں دانی کے ذیل میں اپنی اہمیت کا احساس ہوگیا تھا اور غالباً اسی احساس نے ان سے یہ شعر لکھوایا؎

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے کہ ان کی زبان کی دھوم ان کی زندگی ہی میں برصغیر میں مچ گئی تھی اور اسی دھوم کے اعجاز نے کتنے ذہن خوش فکر اور طساع افراد کو ان کی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ ان کے ہزاروں شاگردوں میں سے کچھ شاگرد فکر وفن کی آبرو تسلیم کئے جاتے ہیں مثلاً میر محبوب علی خان نظام دکن، نسیم بھرت پوری، احسن مارہروی، نوح ناروی، نواب عزیز یار جنگ عزیز، میر حسن علی خان امیر، بیخود دہلوی، سائل دہلوی، بیخود بدایونی، ڈاکٹر سر محمد اقبال، جالب دہلوی، ثاقب بدایونی، وجاہت جھنجھانوی، سیماب اکبر آبادی، جوش ملسیانی، ناطق گلائوٹھی، مولانا محمد علی جوہر، جگر مرادآبادی، آغا شاعر دہلوی اور میر عثمان علی خان نظام دکنی وغیرہ جو لوگ انہیں صرف معاملہ بند سمجھتے ہیں، انہوں نے داغ کو صرف جستہ جستہ پڑھ کر، ان کے چند اشعار سن کر ان پر ’’معاملہ بند‘‘ کا حکم لگا دیا ہے۔ ان کی معاملہ بندی میں جو روزمرہ تیکھا پن، محادورے کی چاشنی، شوخی کی حلاوت اور نزاکت کی شگفتگی موجود ہے، اس پر ان کی نظر نہیں گئی۔ داغ اول و آخر ’’زباں داں‘‘ اور شاعر تھے۔ زباں دانی اور محاورہ ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ 

لوہارو کے رئیس شمس الدین خان کے بیٹے نواب مرزا خان داغ 25؍مئی 1831ء کو دلی کے محلے چاندنی چوک میں پیدا ہوئے تھے۔ غدر کے ہنگامے میں دلی میں گورنر جنرل کے ایجنٹ ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں جب نواب شمس الدین کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو داغ اپنے خالو نواب یوسف علی خان کے ساتھ رامپور میں قیام پذیر ہوگئے جہاں انہوں نے مولوی غیاث الدین سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ چند سال بعد جب ان کی والدہ بہادر شاہ کے ولی عہد مرزا فخرو سے وابستہ ہوگئیں تو داغ، والدہ کے ساتھ قلعہ معلیٰ میں منتقل ہوگئے۔ زبان دانی کا عطیہ انہیں قلعہ معلیٰ ہی کی دین ہے۔ قلعہ معلیٰ دلی کی ٹکسالی زبان محاورے اور ادائیگی کا مرکز و معیار تھا۔ اس فضا میں داغ کا ’’مزاج‘‘ بنا اور یہ مزاج اور طبیعت اردو غزل کا معیار قرار پایا؎

…اتنا تو بتا دے مجھے اے ناصحِ مشفق…

اتنا تو بتا دے مجھے اے ناصحِ مشفق

دیکھا ہے کہ اس ماہ لقا کو نہیں دیکھا

ایسی نظر شوخ میں تمکین نہیں دیکھی

اس طرح تغافل میں حیا کو نہیں دیکھا

یہ اس کو رہی خاک نشینوں سے کدورت

اپنے بھی تو نقشِ کف پا کو نہیں دیکھا

جب داغ کو ڈھونڈھا کسی بت خانے میں پایا

گھر میں کبھی اس مرد خدا کو نہیں دیکھا

……٭٭……٭٭……

…یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں…

یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں

وہ ایک ہی تو شخص ہے، تم جانتے نہیں

بد عہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں

کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں

وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم

کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں

چھوٹے گی حشر تک نہ یہ مہندی لگی ہوئی

تم ہاتھ میرے خوں میں کیوں سانتے نہیں

مہرو وفا کا کب اُنہیں آتا ہے اعتبار

جب تک اسے وہ خوب طرح چھانتے نہیں

سربازو جاں نثار محبت وہ ہیں دلیر

رستم بھی ہو تو کچھ اُسے گردانتے نہیں

اُنکا بھی مدعا تھا مرا مدعا نہ تھا

پر کیا کروں کہ وہ تو مری مانتے نہیں

تن جائیں گے جو سامنے آئے گا آئینہ

دیکھیں تو کس طرح وہ بھنویں تانتے نہیں

نکلا ہے جو زباں سے اُس کو نباہئے

ایسی وہ اپنے دل میں کبھی ٹھانتے نہیں

جب دیکھتے ہو مجھ کو چڑھاتے ہو آستیں

دامن عدو کی قتل پہ گردانتے نہیں

کیا داغ نے کہا تھا جو ایسے بگڑ گئے

عاشق کی بات کا تو بُرا مانتے نہیں

غزل کے اس معیار نے مکتبہ داغ کو جنم دیا۔ داغ نے ’’معاملہ بندی‘‘ کی فصیل کو توڑ کر بیشتر غزلوں میں انسانی نفسیات کے خوبصورت تجزیئے پیش کئے ہیں۔ حیدرآباد سے لے کر رامپور تک ان کی غزل نے شاہ و گدا کو مسحور رکھا۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ غزل کے کسی ’’گلوکار‘‘ سے داغ کی غزل سنانے کی فرمائش نہ کی جائے۔ داغ خوش گو، خوش فکر اور مرنجان مرنج انسان تھے۔ ان پر مصائب بھی آئے اور آلام نے بھی انہیں اپنی لپیٹ میں لیا لیکن وہ؎

ہر رنج کو غزل میں سموتے چلے گئے

ان کی غزل لطافت کا ایسا گلزار ہے جس کی خوشبو قاری کو اسیر کرلیتی ہے۔ انہوں نے طنزو تشنع کو ’’فن‘‘ بنا دیا ہے۔ غالب کے بقول داغ کا محبوب بھی؎

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

داغ حقیقت پسند تھے، حسن پرست بھی تھے اور عاشق بامراد بھی! ان پر جو کچھ بیتی، جیسی گزری، انہوں نے بے کم و کاست اسے غزل کا حصہ بنا دیا۔ اپنے عشق کو تصوف اور عشق حقیقی کا رنگ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ داغ کی غزلیں پڑھ کر ہم داغ کے ساتھ اس جہاں میں کھو جاتے ہیں جہاں زندگی اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ جلوہ فرما ہوتی ہے۔ مصلحتوں، نزاکتوں اور تصنع سے بے نیاز داغ کے فکروفن کی بے ساختگی کی اور راست گوئی کی جو دنیا بسائی تھی، اس میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی