ادب جنگل میں بیٹھ کر تخلیق نہیں ہوتا، سماج میں ہوتا ہے۔ اس لیے وہ انسان اور اس کے جملہ متعلقات سے سروکار رکھتا ہے۔ وہ ادب جو انسان کو آدھا، تہائی جاننے ماننے اور خانوں میں بانٹ کر دیکھنے دکھانے کی روش اپناتا ہے، وقتی طور پر کیسی ہی دل کشی کیوں نہ پیدا کرلے، بالآخر بے معنی و بے مصرف ٹھہرتا ہے۔ ادب کا سروکار انسان کی کلیت سے ہے۔ اس اکائی سے ہے جو مادّی عناصر اور غیر مادّی حقائق کے باہمی ربط سے متشکل ہوتی ہے۔ وہ انسان کی مرئی اور غیر مرئی، وجودی اور روحانی جہات سے بہ یک وقت تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا صرف اسی صورت میں وہ زندہ تخلیقی تجربہ بنتا اور بامعنی رہتا ہے۔
یہاں اس سچائی کو دُہرا لینے میں بھی چنداں مضائقہ نہیں کہ ادب کی اپنی اقدار ہوتی ہیں جو وہ اپنے سماج میں موجود اخلاقی، سماجی، تہذیبی اور جمالیاتی تصورات سے اپنے ایک داخلی نظام کے تحت اخذ ہی نہیں، تشکیل بھی کرتا ہے۔ ان میں ایک سطح پر مذہبی تصورات بھی ازخود راہ پا جاتے ہیں۔ یہاں رومی، جامی، حافظ، سعدی اور خیام یا میر، سودا، غالب، مصحفی اور آتش کی مثالوں کی تفصیل میں بے شک نہ جائیے، بلکہ آئیے مغرب سے کچھ حوالے لیتے ہیں، وہی مغرب جس سے اب تک ہم لوگ بے وجہ اور جلد مرعوب ہو جاتے ہیں۔
اس سے عالمی درجے کے ادب کی چند ایک مثالیں لیجیے، مثلاً پیراڈائیز لوسٹ اور ڈیوائن کومیڈی کو تو رہنے دیجیے کہ ان میں تو سطح پر مذہبی حوالے مل جاتے ہیں۔ البتہ چوسر کی ٹیلز، شیکسپیئر کے ڈرامے سے لے کر بیس ویں صدی کے بہت بڑے مغربی ادیب و شاعر ایلیٹ تک کم و بیش ہر بڑے تخلیق کار اور ادیب کے یہاں کسی نہ کسی سطح پر مذہبی حوالہ مل جاتا ہے۔ ان میں بودلیئر، والیری، بالزاک اور گنترگراس ایسے تخلیق کار بھی شامل ہیں جو مذہب کا حوالہ تمسخر یا استرداد کے لیے لاتے ہیں، لیکن رد کرنے کی اس کوشش میں وہ مذہبی تصورات کا باندازِ دیگر اثبات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دراصل ہزاروں برس سے مذہب انسانی سماج میں ایک ایسی قوتِ فاعلہ کا درجہ رکھتا ہے جو انسانی مزاج اور سماجی نظام کی تشکیل میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی نفی ممکن نہیں ہے۔ آپ مذہب کے باقی سب تصورات کو چھوڑ بھی دیجیے تو اس نے روح کا جو تصور دیا ہے، اس سے بھلا ادب کیسے روگرداں ہوسکتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے آپ اس ادب کا تصور کیجیے جو ایسے انسانوں سے سروکار رکھتا ہے جو روح سے عاری ہیں، چلیے عاری نہیں ہیں، بلکہ روح کا کوئی شعور نہیں رکھتے۔
ان کے افعال و اعمال، ان کی شخصیت و کردار پر ان کی روح کے کسی مطالبے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اب سوچیے کہ ان کے بارے میں افسانہ، ناول یا کوئی قصہ پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس نہیں ہوگا کہ آپ بے جان کٹھ پتلیوں، لکڑی سے بنائے گئے بے روح جسموں یا مٹی کے بے شعور کھلونوں کا ماجرا پڑھ رہے ہیں۔ جی ہاں، بالکل ایسا ہی ہوگا۔ اس لیے کہ انسان کے ماجرے میں ساری جاذبیت اور ہمارے لیے دل چسپی کا سارا سامان احساس کے متنوع رنگوں کی وجہ سے ہوتا ہے— اور احساس کی تمام تر کیفیتیں انسانی اعمال میں روح کے سوال یا مطالبے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس بات کی وضاحت کے لیے ایک آدھ مثال دیکھ لیجیے۔ دوستوئیفسکی کے شاہکار ’’برادرز کراموزوف‘‘ کو ذہن میں لائیے۔ کلیسا کی ایک خاص فضا اور مذہبی گھرانے کی تربیت کے باوجود تینوں بھائیوں کے احوال و اعمال میں جو فرق ہے، ذرا اس پر غور کیجیے۔ جی ہاں، یہ فرق اُن کی روح کے الگ الگ مطالبات کا پیدا کردہ ہے، جو اُن کی زندگی کے ڈھرے ہی کو ایک دوسرے سے مختلف نہیں کرتا، بلکہ ان کی کیفیت، عقل، رویے حتیٰ کہ انجام تک کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اب وکٹر ہیوگو کے باکمال ناول ’’لامضراب‘‘ کو دیکھ لیجیے۔
اس کے مرکزی کردار کی جیل سے رہائی کے بعد کی ساری صورتِ حال جو پورے ایک معاشرے کی داخلی و خارجی کیفیات کا نقشہ سماجی رویے اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ہمارے سامنے لاتی ہے، کیا اُس کی روح کے مطالبات کے تحت متشکل نہیں ہوتی۔ وہ روح جو حسن، خیر اور سچائی کی دائمی اقدار کے اثبات کے لیے اسے کہیں متزلزل نہیں ہونے دیتی۔ اس کا یہی مطلب ہوا نا کہ ادب کا کام انسان کی روح کے بغیر چل ہی نہیں سکتا۔ ادب چوں کہ انسان کی مجموعی حیثیت سے معاملہ کرتا ہے، اس لیے اس کا سروکار انسان کی روح اور اس کے مطالبات سے بھی ناگزیر ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو خود کو یوں تو آزاد اور روشن خیال کہتا ہے، لیکن اُس کی روشن خیالی دوسروں کے بنیادی حقوق کی آزادی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ وہ روح اور روحانی مطالبات جیسے الفاظ سن کر ہی بدک جاتا ہے۔ اس طرح کے الفاظ سے اُسے غالباً یہ خیال گزرتا ہے کہ ادب بھی اہلِ مذہب کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اُس کے ذہن میں جو اہلِ مذہب کی ہیئت اور کردار ہے، اس کا مشاہدہ و تجربہ اہلِ مذہب سے براہِ راست نہیں بالواسطہ کیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس طبقے کی اکثریت اہلِ مذہب سے رابطے ہی میں نہیں آتی، اُن کا کوئی براہِ راست تجربہ نہیں رکھتی۔ یہ لوگ سیاسی مذہبی جماعتوں کے افراد کو اصل مذہبی کردار باور کرتے ہیں جو ظاہر ہے، درست نہیں ہے۔ سیاست میں فعال جماعتیں اور اُن کے افراد مذہب کا جھنڈا ضرور اٹھائے ہوتے ہیں، لیکن وہ بہرحال سیاسی لوگ ہیں۔ وہ مذہب سے تعلق تو رکھتے ہیں، لیکن ان کی شخصیت و کردار کا بنیادی سانچا سیاسی ہے۔ اُن سے مذہبی انسان کی ہیئت کا استناد کرنے کی وجہ سے یہ طبقہ غلط نتائج اخذ کرتا ہے، اور یہ بالکل ایسے ہی جیسے کسی میڈیکل لیب کے اٹینڈنٹ کو پیتھولوجیکل سائنٹسٹ سمجھ لیا جائے یا پھر کسی جہاز کے مسافروں کی خدمت کرنے والے میزبان کو جہاز اڑانے والا کپتان سمجھ لیا جائے۔ تصور کی اسی خرابی نے ہمارے یہاں ایک طبقے کو مذہب سے روگرداں اور بدظن کیا ہوا ہے۔
اب دوسری طرف دیکھ لیجیے۔ اہلِ مذہب کے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ان میں اب ایک گروہ ایسا ہے جس میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔ وقعہ یہ ہے کہ شدت پسندی اس سے پہلے بھی معاشروں میں پیدا ہوتی رہی ہے، لیکن ہمارے زمانے کی مشکل یہ ہے کہ اس دفعہ یہ لہر ایسے اٹھی ہے کہ انسانی معاشرے کے کم و بیش سارے ہی گروہ اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ہے۔ آپ امریکا، کینیڈا، جرمنی، فرانس جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں دیکھ لیجیے۔
آئے دن وہاں ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ انسانی دنیا میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے اس رجحان نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں رفتہ رفتہ زور پکڑا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی سماج اور ملک میں یہ انتہا پسند عناصر بڑی تعداد میں نہیں ہیں، بلکہ کچھ ہی لوگ ایسے کاموں میں مشغول ہیں، لیکن ان کی سرگرمیوں کا اثر ایسا ہوتا ہے کہ پورا سماج یا اُس کا ایک وقیع طبقہ گالی کی زد میں آجاتا ہے۔
ادھر ایک مسئلہ اور بھی توجہ طلب ہے اور اس کا تعلق خصوصاً ہمارے سماج سے ہے۔ پہلے ادوار میں ہمارے سماج کا ڈھانچا اس نہج کا تھا اور اہلِ مذہب اس کا کسی قدر اہتمام بھی سوا کرتے تھے کہ ان کے عوامی روابط کا دائرہ ٹوٹتا نہ تھا، بلکہ اس میں توسیع کی صورت پیدا ہوتی رہتی تھی۔ کم سے کم ہماری عمر کے لوگوں نے تو اپنے معاشرے کا وہ دور دیکھا ہے، جب اہلِ مذہب کا عام آدمی سے رابطہ اس نوعیت کا تھا کہ ہم جیسا دنیا دار بھی اصل اہلِ مذہب کی شناخت میں غلطی نہ کرتا تھا۔ شعائرِ دینی کی تبلیغ و تعلیم اپنی جگہ، لیکن ہم نے تو اہلِ مذہب کو اس دنیا کے کاموں، معاملات اور انسانی تعلقات کے پرچار کو خاص اہمیت دیتے دیکھا ہے۔
یہ کام تقریروں اور پندو نصائح، جنت کی ترغیب اور جہنم کے ڈراوے سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی دل نشینی سے کرتے ہوئے دیکھا ہے ہم نے لوگوں کو۔ ایک نہیں کتنی ہی مثالیں اس وقت جیسے آنکھوں میں پھرتی ہیں، لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں۔ بس یوں ہے کہ آج اصل اہلِ مذہب اور عام آدمی کے درمیان ایک خلیج ہے۔ اب چوں کہ معاشرے کے افراد اور طبقات کے مابین خلا قائم رہنا ممکن نہیں، بلکہ اس کا پُر ہونا فطری عمل ہے، سو ہمارے یہاں اس خلا کو سیاست کے مذہبی نمائندے پُر کیے ہوئے ہیں۔
مذہبی شدت پسندی اور اہلِ مذہب کے عام آدمی سے فاصلے میں سیاست نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، اور یہ عمل عالمی سطح پر ہوا ہے۔ ہمارے یہاں، یعنی جنوبی ایشیا میں اس کا آغاز دو عالمی طاقتوں کے مابین اس علاقے میں اثر و رسوخ کی رساکشی کی بنیاد پر ہوا تھا۔ بعدازاں سپرپاور ایک رہ گئی، لیکن اب جن بوتل سے باہر آچکا تھا اور اسے واپس بوتل میں بند کرنا ممکن نہ رہا۔ سو جنھوں نے یہ فصل بوئی تھی، کاٹنی انھیں بھی خوب پڑی۔ آج دنیا میں وہ ممالک جو بہت پُرامن اور انسان دوست سمجھے جاتے ہیں مثال کے طور پر کینیڈا اور نیوزی لینڈ، وہ بھی اس عفریت کے زخم خوردہ ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اب حالات پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہیں۔ سیاست کی کھلواڑ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی عنوان بار بار ان مظاہر کا راستہ کھولتی ہے جو انسانی سماج میں نفرت، اشتعال اور تفریق کا سبب بنتے ہیں۔
اس حقیقت کا بلاتأمل و تکلف اعتراف کیا جانا چاہیے کہ ہمارا ادب ہماری روح کے احوال سے کسی دور میں بھی غافل نہیں ہوا ہے، اور آج بھی نہیں ہے۔ اس کا سروکار ہماری روح سے اب بھی ہے، لیکن یہ سچ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ آج ہمارے ادیب روح کے تجربے کو پوری طرح جاننے، سمجھنے اور بیان کرنے میں اس طرح مستعد نہیں ہیں جیسے اگلے وقتوں کے لوگ رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب یقینا زمانے کی روش، رجحانات اور ان کے پیدا کردہ اثرات ہوں گے۔ خارجی دنیا کے رنگ بدلتے نو بہ نو قالب بھی اس کی وجہ ہوں گے۔
مادّی عناصر اور خارجی دنیا کو انسان کی زندگی کا مرکز بلکہ اُس کی ُکل حقیقت بنانے اور اس کی ساری توجہ اس پر مرکوز کرنے کے لیے سیاست، معیشت اور سائنس نے مل کر بہت کچھ کیا ہے اور اب بھی ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔ ان تینوں کا ایک مشترکہ ہدف ہے— خود کو صرف اور صرف مادّی حقیقت باور کرنے والا انسان، مشین کی طرح زندگی بسر کرنے والا اپنی داخل کی کیمیا سے غافل اور روح کے تقاضوں سے ناآشنا وجود۔ یعنی بس ایک روبوٹ۔
روبوٹ کی دنیا جیسی بھی ہو، یہ طے ہے کہ اسے کسی تہذیب کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کسی اخلاقی ضابطے کی۔ اسے کسی تصورِ جمال، کسی فکر و فلسفے سے بھی کوئی علاقہ نہ ہوگا۔ اس لیے کہ یہ سب مطالبات اور تقاضے تو انسان کی روح کرتی ہے، اپنی سیرابی کے لیے، شادابی کے لیے۔ اگر روح نہیں ہے یا ایک ایسا سماج ہے جس کے باشندوں کو روح سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے تو پھر ان میں سے کسی شے کا کوئی تقاضا بھی نہیں ہے۔ اس لیے آج کے ادیب کے لیے اس دنیا میں جو بنیادی سوالات غور طلب اور جواب دہ ہیں، اُن میں ایک بے حد اہم سوال ادب کے روح سے سروکار کا بھی ہے۔ اس لیے کہ روح کے بغیر ادب تو رہا ایک طرف، خود انسانی سماج بھی حقیقتاً زندہ انسانی سماج نہیں ہوسکتا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی