• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھلاڑی، سیاست کو کھیل سمجھتا رہا۔ اپنی چالاکیوں سے سیاسی بال خراب کرتا رہا، جب پانسہ پلٹا تو اعتراضات شروع ہوگئے۔ قاضی عیسیٰ کو غلط نکالا، ٹی ٹی پی کو غلط تسلیم کیا۔سعودی شہزادے کی خفگی اور امریکہ کی دوغلی پالیسی کے علاوہ پاکستانی بابوئوں کی امریکہ پسندی کی وجہ بھی معلوم نہ ہوسکی۔ روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔ پھر بھی ضدی بچے کی طرح دورے چلے گئے، معصومیت کہوں کہ غیر سیاسی سوچ کہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ میں تو پوچھ کر گیا تھا۔ پاکستان کے گاڈ فادر بننے والے سے نوجوان نسل یہ تو پوچھے کہ بھوک مٹائو پروگرام میں ان سب کو شامل کرکے گلی گلی جائو۔ یوں جلسوں میں ان کو برباد مت کرو۔ غریبوں کی بھوک مٹائو۔ پناہ گاہوں کی خبر لو کہ وہاں کوئی برتن اور منجیاں بھی اٹھا کر تو نہیں لے گیا۔ آپ مڑ کر دیکھیں جب تک شوکت خانم اسپتال بناتے اور پاکستان کے بچے بچے سے خوشی سے پیسے اکٹھے کرتے تھے تو ساری دنیا میں عزت سے نام لیا جاتا تھا۔ وہعزت وہ احترام جو30 برس میں اکٹھا کیا وہ بس تین سال میں غارت کر دیا۔ ابھی تو تمہارے ساتھ کوئی سلوک بھی نہیں ہوا سوائے اس کے کہ جو جہاز آپ نے کسی دبئی والے سے مانگا اس نے اس کا کرایہ وصول کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اب شاید کوئی علیم خان کی طرح کچھ دنوں بعد بتا دے کہ ان جلسوں کے پیچھے میرا مال لگا ہوا تھا۔ آپ کو قصۂ پارینہ بنانے میں ان بقراطوں کا ہاتھ بہت زیادہ ہے جو پہلوان کی طرح بڑھکیں مار رہے ہیں۔

موجودہ زعم صاحب ساتھ میں یہ ہولناک خبر بھی سنا رہے ہیں کہ ملک میںنہ پانی ہے، نہ بجلی اور نہ گیس۔ اچھا ہوا، آپ کو آتے ہی علم ہوگیا۔ مناسب تو یہ ہے کہ ان ایمرجنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، خدا کا واسطہ کمیشن نہ بنائیں۔ اپنی طرح کے Doers کو ساتھ لائیں۔ انہیں ٹاسک دیں مگر پھر آپ توقیر شاہ کے بعد دوسرے سزا یافتہ ساتھیوں کے ہاتھوں میں زمامِ حکومت کو پکڑانے کے بجائے نئے اور ذہین نوجوانوں کو ساتھ ملائیں کہ بقول مولانا فضل الرحمان، آپ کے پاس ایک سال ہے اور بقول شاعر ’’کچھ کرلو نوجوانوں، اُٹھتی جوانیاں ہیں‘‘۔ آخر آپ کو یا جو بھی حکومت سازہیں ان کو مالداروں کے بجائے ذہین لوگ کیوں نظر نہیں آتے؟ جواباً آپ کہیں گے وہ معید یوسف کو لائے تھے۔ اس نے کونسا بھاڑ پھوڑ لیا۔ سب سے بڑی ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود جانے والے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہی نہ تھی اگر یہ سچ ہے تو پھر نصاب بنانے کے نام پر تین سال کیوں ضائع کئے۔ کورونا کے نام پر بچوں کے تین سال کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے گز ر گئے۔ اب وہ نصاب کس کام آئے گا۔ اور وہ جو ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا کام کم اور ڈیم کے لیے ججی کا زیادہ وقت گزارا اس کا حساب، میرے خیال میں اس طرح کھوہ کھاتے ڈال دیا جائے گا، جیسے کل کے چہیتوں کے کارناموں کا جائزہ یا پھر نیب! اپنے وجود کو قائم رکھنے کیلئے یہ جواز دیتی رہے گی اور آپ کیا چاہتے ہیں۔ جتنے دن ہم لوگوں کو جیل میں ڈال سکتے تھے وہ بھی کرلیا اور کیا ہم سے محبانِ وطن چاہتے کہ ہمارے سامنے تو اخبار کے تراشے ہی لائے گئے، بقیہ دستاویز تو ہم بھی مانگتے ہیں پھر فسانہ ختم ہوگیا۔ جنہیں فوری دبئی جانا تھا۔ وہ چلے گئے۔

موجودہ درماندہ حکومت کے سامنے قومی اور بین الاقوامی معاملات ہیں جو فوری توجہ کے طالب ہیں۔ بھٹو صاحب کے زمانے سے بلوچستان میں حالات کسی حکومت نے سنجیدگی سے ہی نہیں لیے، بلوچ سردار حکومت میں آئے، وہ اپنے مقدر کا حلوہ کھا کر چلے گئے۔ لاپتہ افرادکو رہا اور بلوچستان میں اب کسی ریکوڈک کو داخل نہ کریں۔ اس وقت ہمارے رپورٹر بھی ڈیڑھ کروڑ کے بیگ کی تفصیلات سے آگے نہیں بڑھتے۔ شاہ زین بگٹی کی گاڑی کل پرسوں دیکھی ان کی گاڑی کے پیچھے دو گاڑیوں میں مسلح گارڈ بیٹھے نظر آئے۔ انہیں یاد نہیں کہ بگٹی صاحب کے بھی جاں نثار ساتھ تھے۔ عظیم طارق کے جاں نثار، اسلحہ لے کر سول سیکرٹریٹ میں ساتھ چلا کرتے تھے۔ مگر غضب کرنے والے اور حکومتوں کے ساتھ ہاتھ کرنے والے غیبی ہاتھوں نے بینظیر بی بی کے قتل کی طرح اپنا کھیل کھیل لیا۔ اس لیے بقول اقبال، یہ گھڑی محشر کی ہے۔ قیامت کے لیے ایک دن مقرر نہیں ہے کہ اب کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ ممبران اسمبلی کے فلیٹوں پر چھاپے ہم نے دیکھ لیے۔ اختر مینگل کے چھ نکات پر توجہ دیں۔ اب تو محسن داوڑ اور علی وزیر آپ کی حمایت میں موجود ہیں۔ بلوچوں کو بھی اچھے دن دکھائیں۔ وزیرستان میں ہم نے کہا کہ دہشت گردی ختم ہوگئی۔ مگر روز شہیدوں کے جنازے،غضب خدا کا۔ ہنگو میں الیکشن میں خواتین کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا، ووٹ ڈالنے کے لیے۔ ندیم صاحب جو وہاں سے منتخب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ کچھ نہیں تو ایسے موقع پر آصفہ بی بی ہی کچھ بول دیتیں کہ اس ملک میں 43فیصد نوجوان ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ دفتروں میں اوقات کار بدلنے سے نہیں کام کرنے اور لینے سے نقشہ بدلتا ہے۔ اب بیوروکریسی ہی تعاون کرے۔ مگر کیسے اگر پھر آزمائے ہوئوں کو سامنے لانا ہے۔ تو پھر اس چار دن کی چاندنی سے نہ کچھ حاصل نہ وصول۔ شاہد خاقان کی ایئرلائن سے سیالکوٹ والوں کی ایئرلائنز خوب چل رہی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ عبوری حکومت پی آئی اےوالا انجام سامنےنہ لے آئے۔

تازہ ترین