تحریر: چودھری علی محمد خادم
مئی 1938 ء کا واقعہ ہے۔ مجھے بی اے پاس کئے دو سال بیت گئے تھے۔ اقتصادی بدحالی کا دور دورہ تھا۔ اور میں تلاش ملازمت کے بہانے عام طور پر لاہور ہی میں رہتا تھا۔ ہر وقت مایوس اور مضمحل۔
ایک شام اپنے مہربان اور بزرگ دوست سید یعقوب شاہ صاحب اکائونٹینٹ جنرل پنجاب سےملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا۔ وہ کہیں باہر جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے۔ چلو بھائی آج تمہیں ڈاکٹر اقبال سے ملا لائیں۔ میں نے بہت اچھا تو کہہ دیا مگر دل میں عجیب قسم کے جذبات موجزن ہو گئے۔ خوشی اور غم کی لہریں آپس میں خلط ملط ہو رہی تھیں۔ میری آنکھوں کے سامنے بانگ درا سے لے کر جاوید نامہ تک تمام کتابیں گھومنے لگیں۔ میں آج اس اقبال کے حضور میں حاضر ہونے کے لئے جا رہا تھا جو پیر روم کے ساتھ ساتوں افلاک کی سیر کر چکا تھا۔ جس کا فکر تسخیر فطرت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
احساس کمتری میرے اعصاب پر اس قدر طاری ہو گیا کہ میں پریشان سا ہو گیا۔ تاہم شاہ صاحب موصوف کی ذات کا سہارا لے کر میں در اقبال تک پہنچ گیا۔ وہ ان دنوں میکلوڈروڈ والی کوٹھی میں رہتے تھے۔ برآمد میں ایک چارپائی پر بیٹھے حق پی رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور آیئے شاہ صاحب! کہہ کر کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔ شاہ صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہیں میرے دوست خادم صاحب۔ ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے۔ آیئے خادم صاحب! کہا خیر میری تھوڑی سی پریشانی دور ہو گئی۔
دو تین گھنٹے کی نشست کے بعد جب ہم گھر لوٹ رہے تھے تو میں اپنے آپ میں ایک خاص تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ میری مایوسی امید میں اور اضمحال تازگی میں بدل گیا تھا۔ میں نے نے سوچنا شوع کیا کہ کسی طرح ان کی بارگاہ میں مستقل طور پر رسائی حاصل کی جائے۔ میں نہ تو کئی عالم دین تھا کہ کوئی فقہی نقطہ سلجھانے کے لئے وہاں پہنچ جاتا اور نہ کوئی سیاسی رہنما کہ مسلمانوں کی پس ماندگی کا رونا رو کر ان کے پاس دو تین گھنٹے بیٹھ لیتا۔ آخر مجھے ایک راہ سوجھی۔ میں نے قبلہ علی بخش کو گانتھ لیا۔ انہوں نے دو چار بار ہماری کوتاہی علمی کو سادگی وغیرہ کہہ کر جو ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا تو علامہ مرحوم چونکہ خود سادہ دل تھے ہماری سادگی میں آ گئے۔ اس کے بعد جب کبھی دل چاہتا ہم بڑی بے تکلفی سے ان کے ہاں پہنچ جاتے اور وہ بھی التفات فرمانے لگے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ چارپائی پر پڑے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا۔ کہنے لگے۔ ’’بھئی وہ لغات تو پکڑا دینا۔‘‘ میں لغات پکڑاتے ہوئے پوچھا۔ جناب! آپ کو لغات کی ضرورت پڑتی ہے؟ حضرت علامہ میری طرف دیکھ مسکرائے اور کہنے لگے بھئی تمہارا خیال ہے کہ میں دنیا کے تمام علوم پر حاوی ہوں۔ دیکھئے جوں جوں انسان کو اپنے جہل کا راز کھلتا ہے وہ عالم ہوتا جاتا ہے۔
غالباً اسی سال کے آخر میں ڈاکٹر صاحب اپنی نئی کوٹھی جاوید منزل میں اٹھ گئے۔ عقیدت مند بھی پیچھے پیچھے وہاں پہنچ گئے۔ ان کے ملنے والوں میں ہر نوع کے لوگ ہوتے تھے۔ ان میں سے پنجاب کے ایک بہت بڑے پیر بھی تھے جو کئی مربعوں کے مالک تھے۔ ایک دفعہ پیر صاحب ڈاکٹر صاحب کے ہاں کھانے پر مدعو تھے۔ چند اور احباب بھی جمع تھے۔ کھانے کے بعد بڑی رات تک باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں پیر صاحب کا ایک دیہاتی مرید پوچھتا پچھاتا وہاں پہنچ گیا۔
آتے ہی اس نے مریدانہ سلام کے بعد اپنے کھدر کے تہبندکی گرہ سے دو روپے نکال کر پیر صاحب کی نذر کئے اور عرض کی یا حضرت! دعا کریں کہ میرا سو روپیہ قرض اتر جائے۔ پیر صاحب ابھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے بھی نہ پائے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے پہل کر دی اور بڑے خلوص سے دعا مانگنا شروع کر دی کہ یا اللہ اپنے حبیب کے صدقہ اس غریب کا وہ قرضہ جو پہلے سو تھا اور اب پیر کی برکت سے ایک سو دو ہو گیا ہے بے باق کر دے۔ اس وقت علامہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور پیر صاحب کھسیانی ہنسی ہنس رہے تھے۔
حضرت علامہ اپنے مستحق دوستوں کی مدد فرمانے میں بھی کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ مولانا فضل کریم صاحب درانی ایڈیٹر ’’ٹروتھ‘‘ انگریزی زبان کے بلند پایہ ادیب اور صحافی تھے۔ مگر ہمیشہ مالی مشکلات سے دو چار رہے۔ انہوں نے انگریزی زبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر ایک کتاب ’’دی گریٹ پروفٹ کے نام سے لکھی اور پہلی کاپی لے کر حضرت علامہ خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے کتاب کی بہت تعریف فرمائی اور علامہ عبد اللہ یوسف علی صاحب کو دیباچہ لکھنے کے لئے کہا اور خود آپ نے دو سو جلدیں خرید کیں۔
آپ کبھی ملنے والوں کی دل شکنی نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ ان کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرتے تاکہ ان میں احساس کمتری پیدا ہونے نہ پائے۔
یورپ کے بڑے بڑے سیاست دان اور اہم لوگ جب کبھی کسی سلسلے میں لاہور آتے تو آپ سے بھی ملنے کی خواہش ظاہر کرتے۔ آپ کو ذرا بھر بھی اضطراب نہ ہوتا۔ بس کچھ عرصہ پہلے علی بخش سے کہتے۔ بھئی میز کے گرد چند کرسیاں بچھا دینا اور کافی بھی تیارا کرا لینا۔ آپ اپنے معمول میں کوئی فرق نہ آنے دیتے اور یہ ملاقاتیں بھی عام ملاقاتوں کی طرح گزر جاتیں۔ لیکن وہ لوگ آپ کے فہم و فراست کے قائل ہو کر جاتے۔
یوں تو لاہور کے ہر پڑھے لکھے آدمی کی آرزو ہوتی تھی کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل کرے مگر جو لوگ بڑی ہی عقیدت سے وہاں اکثر حاضر ہوتے رہتے تھے۔ ان میں راجہ حسن اختر، خواجہ عبدالرحیم، سید نذیر نیازی، م۔ س مہرو سالک، تاثیر مرحوم اور چوہدری محمد حسین صاحب کے نام قابل ذکر ہیں۔خان بہادرچوہدری محمد حسین صاحب ایم اے جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے پیام مشرق کے دیباچہ میں بھی کیا۔ علامہ مرحوم کی ذات سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے۔
35سال بلاناغہ وہ شام کے بعد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور رات کے دس گیارہ بجے تک وہیں رہتے۔ میرے خیال میں چوہدری صاحب مرحوم ہی ایک ایسے خوش نصیب بزرگ ہیں جن کے ساتھ ڈاکٹر صاحب اپنے دل کی بات کہہ لیتے تھے۔ چوہدری صاحب کوڈاکٹر صاحب کا تقریباً تمام کلام ازبر تھا۔ کئی بار بڑا ہی مزہ آتا۔ کسی تاریخ یا مذہبی گفتگو کے دوران ڈاکٹر صاحب فرماتے۔ ہاں اس بارے میں میں نے اپنی فلاں کتاب میں چند بدیہی اشارات کئے ہیں اور اسی وقت صاحب نے وہ اشعار پڑھنا شروع کر دیئے۔
اگرچہ اپنے صاحبزادے جاوید اقبال سے آپ کو بہت زیادہ محبت تھی مگر آپ کبھی اس کی غلط نازبرداری نہیں کرتے تھے۔ ایک بار جاوید نے کسی بات پر مشتعل ہو کر اپنے پرانے توکر رحمان برا بھلا کہا جب علامہ مرحوم کو اس حادثہ کی خبر ہوئی تو بہت ہی ناراض ہوئے اور اس وقت تک جاوید کو معاف نہیں کیا جب تک اس نے رحمان کو راضی نہیں کر لیا۔
یہ آپ کے حسن سلوک ہی کی وجہ تھی کہ ان کے ملازم علی بخش نے اپنی تمام زندگی ان کی خدمت میں گزار دی۔ بلکہ ابھی تک ان کے بچوں کی خدمت میں حاضر ہے۔ علی بخش کا کہنا تھا کہ اقبال کالج میں پڑھتے تھے کہ وہ ان کے پاس آیا۔ اس طویل مدت میں اسے کبھی علامہ مرحوم سے کوئی دکھ نہیں پہنچا اور اسے ان کی ذات سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی خاطر اس نے تمام عمر شادی نہیں کی تاکہ کہیں خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔