ایک مشہور قول ہے ’’غلط العام فصیح ‘‘ یعنی غلط العام فصیح ہے۔
غلط العام کیا ہے؟ غلط العام سے مراد ہے وہ لفظ یا ترکیب جو غلط ہونے کے باوجود مستعمل ہو اور پڑھے لکھے لوگ اور زبان کے معاملے میں معتبر سمجھے جانے والے لوگ بھی دانستہ اور شعوری طور پر اسے استعمال کریں ۔ ایسا لفظ یا ترکیب درست اور فصیح ہے ، چاہے وہ زبان کے اصول یا قواعد کی رو سے غلط ہی کیوں نہ ہو۔ دراصل ایسے الفاظ اور مرکبات زبان کا حصہ بن جاتے ہیں اور درست مانے جاتے ہیں ، خواہ وہ اصلاً غلط یا بے تکے ہوں ۔ اہل علم اور اہل قلم بھی انھیں دانستہ اور شعوری طور پر استعمال کرتے ہیں ، گو جانتے ہیں کہ اصل زبان (مثلاًفارسی یا عربی ) کے لحاظ سے یہ درست نہیں ہیں۔ ایسے ہی الفاظ کو ’’غلط العام‘‘ کہا جاتا ہے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر غلطی کو’’ غلط العام ‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر اپنی غلطی کا جواز پیش کرنا بھی صحیح رویہ نہیں ہے ۔ کچھ غلطیاں عوام کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں اورپڑھے لکھے لوگ ایسی غلطیوں سے شعوری طور پر اجتناب کرتے ہیں ۔ ایسی اغلاط کو’’غلط العوام‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یعنی زبان کی وہ غلطی جو عام طو پر باشعور اور تعلیم یافتہ افراد نہیں کرتے مگر عوام الناس اپنی نادانی یا کم علمی کی وجہ سے اسے روا سمجھتے ہیں۔ غلط العام اور غلط العوام کے فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
اس ضمن میں چند الفاظ و مرکبات بطور مثال پیش ِ خدمت ہیں:
٭…اندازاً
غلط العام فصیح کے ذیل میں آنے والے الفاظ میں ’’اندازاً ‘‘ بھی شامل ہے جو بظاہر غلط ہے لیکن کثرت ِ استعمال کی وجہ سے درست مانا گیا ہے۔
اندازاً ’’بظاہر غلط ‘‘اس لیے ہے کہ اس میں لفظ ’’انداز‘‘ پرتنوین کا اضافہ کیا گیا ہے۔ طالب علموں کے لیے لفظ تنوین کی وضاحت پیش ہے: تنوین کا لفظ نون (ن) سے بنا ہے۔ جب کسی حرف پر دو زبر یا دو زیر یا دو پیش لگا کر نون کی آواز پیدا کی جائے تو اس عمل کو تنوین کہتے ہیں۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کے آخر میں الف کا اضافہ کیا جاتا ہے اور اس الف پر دو زبر( یا دو زیر یا دو پیش) لکھے جاتے ہیں اور یہ الف نون کی آواز دیتا ہے۔ لیکن اس کی جگہ نون نہیں لکھ سکتے ، جیسے فوراً کو فورن نہیں لکھاجاسکتا۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے اور فارسی اور اردو میں بھی رائج اور جاری ہے۔ اسی طرح تعظیم سے تعظیماً، اتفاق سے اتفاقاً، احتجاج سے احتجاجاً ، وغیرہ بنائے گئے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ’’اندازہ‘‘ فارسی کا لفظ ہے اور فارسی کے مصدر ’’انداختن ‘‘سے بنا ہے اور تنوین صرف عربی الفاظ پر آسکتی ہے(مثلاً فوراً، احتیاطاً وغیرہ میں ، کیونکہ فور اور احتیاط عربی کے الفاظ ہیں )۔ لہٰذا فارسی لفظ ’’اندازہ ‘‘پر تنوین لگا کر اسے ’’اندازے کے مطابق‘‘کے مفہوم میں اندازاً بولنا اور لکھنا غیر فصیح ہے۔ ایسے لوگوں کی رائے ہے کہ ’’اندازے سے ، قیاس کے مطابق، تخمینے سے ‘‘ کے مفہوم میں ’’تخمیناً ‘‘کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔
لیکن اہل علم جو اردو زبان کے مزاج کو سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ چونکہ یہ اردو والوں کا تصرف ہے اور اردو میں بہت عرصے سے رائج ہے اور اسے اہل علم نے بھی یہ سمجھتے ہوئے استعمال کیا ہے کہ یہ فارسی لفظ ہے اور تنوین کے ساتھ ہے ، لہٰذا ’’اندازاً‘‘ اردو کی حد تک تو بالکل درست ، جائز اور فصیح ہے۔
یہاں ضمنی طور پر یہ بھی عرض کیا جائے کہ جن عربی الفاظ کے آخر میں تائے مدوّرہ ہے (یعنی’’ ۃ‘‘، جسے گول ت بھی کہتے ہیں) اور اصولاً تنوین اسی’’ ۃ ‘‘ پر دو زبر لگا کر بنائی جانی چاہیے اور اس پر الف کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے، جیسے عادت سے عادۃً، حکمت سے حکمۃً، نسبت سے نسبۃً، کلیۃ (کلیہ) سے کلیۃً۔ لیکن اردو والوں نے ایسے الفاظ کا املا الف پر تنوین لگا کر بھی روا رکھا ہے اور مثلاً عادتاً، نسبتاً، حکمتاً بھی لکھاجاتا ہے۔ اس لیے اب ان الفاظ کو دونوں طرح سے لکھنا جائز ہے، بلکہ بعض لوگوں مثلاً رشید حسن خان کا خیال ہے کہ انھیں الف کے ساتھ ہی لکھا جائے۔ مثلاً عادتاً، وقتاً فوقتاً، عاریتاً، کلیتاً، وغیرہ۔
٭…اداکارہ
اگر اردو میں عربی اور فارسی کے قواعد کی سختی سے پابندی کی جائے تو ہماری زبان اردو تو اردو رہے گی ہی نہیں بلکہ بقول سید سلیمان ندوی صاحب، اگر ان بدیسی الفاظ کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو ’’خود ہمارے ملک سے ہماری زبان کی حکومت اٹھ جائے گی‘‘۔ اورشان الحق حقی صاحب کے بقول اردو بولنا صرف ان لوگوں کا حق نہیں ہے جو عربی اور فارسی کے ماہر ہیں۔
اردو والوں نے بدیسی الفاظ کو اردو کے لسانی رنگ میں ڈھالنے کے لیے جو تصرفات کیے ہیں اہل علم نے انھیں اردو کے مزاج سے ہم آہنگ پا کر ان پر اعتراض نہیں کیا بلکہ خود بھی انھیں استعمال کیا ہے ۔ اس لیے ان الفاظ کو بلا وجہ فارسی اور عربی قواعد کی رو سے جانچنا اردو کے دامن کو تنگ کرنے کے مترادف ہوگا۔
ایسے ہی الفاظ میں لفظ ’’اداکارہ ‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ اداکار یعنی ایکٹر (actor) کی تانیث ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ الفاظ کے آخر میں ’’ۃ‘‘ کا اضافہ کرکے مؤنث بنانا عربی کا طریقہ ہے، اور اس ’’ۃ‘‘ کو اردو اور فارسی والوں نے ’’ہ‘‘ بنادیا ہے ، مثلاً اردو میں شاعر کی مؤنث شاعرہ ہے ۔معلم کی معلمہ، مسلم کی مسلمہ، مومن کی تانیث مومنہ ہے۔
لیکن ’’اداکار‘‘ عربی نہیں ہے بلکہ اردو میں مستعمل فارسی ترکیب ہے۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اداکار کی تانیث ’’ہ‘‘ کا اضافہ کرکے نہیں بنائی جاسکتی ۔ یہ خلاف ِ قاعدہ ہے۔ اس کا جواب ہے کہ ہم اسے اردو میں استعمال کررہے ہیں اور یہ اردو میں بالکل جائز ہے۔
کیونکہ اداکار کا متبادل لفظ مُمَثّل ہے اور اس کی تانیث مُمَثّلہ ہے ۔ لیکن یہ اتنے معرب اور ثقیل الفاظ ہیں کہ اردو میں ادبی متون میں بھی شاذ و نادر استعمال ہوئے ہیں اور عام زندگی میں ان الفاظ کے استعمال کا کیا سوال ہے۔ پس اداکارہ بالکل درست اور جائز ہے بلکہ فصیح ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی