• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب کے لیے طویل زندگی کوئی وعدہ نہیں بلکہ ایک خواہش ہے۔ ہر کوئی ایک بھرپور زندگی کے موقع کا مستحق ہے، ایک ایسی زندگی جس میں ہم خوشی کے حصول کے لیے آزاد ہوں اور پیچھے مُڑکر یہ نہ سوچنا پڑے کہ ’’کاش اگر ایسا نہ ہوتا تو۔۔۔‘‘

حفاظتی ٹیکے1796ء سے بلا تفریق انسانی جانیں بچا رہے ہیں۔ حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے سب سے پہلی جنگ چیچک کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس نے متاثر ہونے والے ہر شخص کو زندگی گزارنے کا ایک اور موقع فراہم کیا۔ آج ڈھائی سو سال اور سیکڑوں نئے ٹیکوں کی ایجاد کے بعد اربوں لوگ طویل زندگی جینے کے قابل ہیں، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہورہے ہیں۔

حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت صرف یہ نہیں کہ اس کے کتنے ڈوز لگائے جاچکے ہیں، بلکہ ان کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے کس طرح اربوں لوگوں کی زندگیاں بچائی گئی ہیں اور یہ ہمیں زندگی کو زیادہ بھرپور طریقے سے جینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

حفاظتی ٹیکوں کا عالمی ہفتہ

اپریل کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ’’ٹیکوں کا عالمی ہفتہ‘‘ منانے کا مقصد ضروری اجتماعی اقدامات کو اجاگر کرنا اور ہر عمر کے لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ٹیکے لگوانے کو فروغ دینا ہے۔ عالمی ادارہ صحت، دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مل کر حفاظتی ٹیکوں اور انسانی جسم کی قوتِ مدافعت کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومتیں اعلیٰ معیار کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام نافذ کرنے کے لیے ضروری رہنمائی اور تکنیکی مدد حاصل کریں۔

حفاظتی ٹیکوں کے عالمی ہفتہ کا حتمی مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں اور ان کی کمیونٹیز کو ویکسین کے ذریعے قابو پائی جانے والی بیماریوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

حفاظتی ٹیکے کن بیماریوں سے بچاتے ہیں؟

یہ حفاظتی ٹیکے بچوں میں کئی مہلک بیماریوں سے لڑنے کے لیے قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ ان میں تپِ دق یا ٹی بی ، کالا یرقان یا ہیپاٹائٹس بی، کالی کھانسی ، تشنج ، خناق ، اسہال، گردن توڑ بخار، پولیو، خسرہ، نمونیا جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت

یہ حفاظتی ٹیکے بچے کی صحت مند اور کامیاب زندگی کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں جتنی کہ اچھی خوراک، تعلیم اور تربیت۔ حفاظتی ٹیکے بچوں کو ایسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ امیونائزیشن فی الحال خناق، تشنج، پرٹیوسس، انفلوئنزا، خسرہ اور روبیلا جیسی بیماریوں سے ہر سال20 تا 30لاکھ اموات کو روکتی ہے۔

امیونائزیشن بنیادی صحت کی دیکھ بھال کا ایک کلیدی جزو اور ایک ناقابل تردید انسانی حق ہے۔ اس زبردست پیش رفت کے باوجود، دنیا بھر میں بہت سے لوگ جن میں ہر سال تقریباً دو کروڑ شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کو ویکسین تک ناکافی رسائی حاصل ہے۔

سائیڈ افیکٹس

حفاظتی ٹیکہ لگنے کے بعد سنگین ضمنی اثرات، جیسے شدید الرجک ردعمل، بہت کم ہوتے ہیں۔ ویکسین لگوانے کے بیماری سے بچاؤ کے فوائد تقریباً تمام بچوں کے لیے ممکنہ مضر اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

حفاظتی ٹیکوں کا زندگیاں بچانا

طبی سائنس میں ترقی کی وجہ سے، آپ کا بچہ پہلے سے کہیں زیادہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کچھ بیماریاں جو کبھی ہزاروں بچوں کو معذور یا ہلاک کر دیتی تھیں، مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں اور دیگر معدوم ہونے کے قریب ہیں۔ سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کے طویل اور محتاط جائزے کے بعد ہی بچوں کو ویکسین دی جاتی ہیں۔ ویکسین لگنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے اور انجکشن کی جگہ پر درد، لالی، یا نرمی ہوسکتی ہے لیکن یہ ویکسین مندرجہ بالا بیماریوں کے درد، تکلیف اور صدمے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

مفت ٹیکے

بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے تحت، حفاظتی ٹیکے تمام سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریز سے بالکل مفت لگوائے جا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے مطابق پیناٹا ویلینٹ ویکسین میں پانچ بیماریوں کی حفاظتی ویکسین شامل ہیں۔

پاکستان میں صورتِ حال

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کو مختلف امراض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے سے سالانہ ساڑھے3 لاکھ بچے جاں بحق ہوجاتے ہیں، ملک میں40 فیصد بچے مختلف امراض سے محفوظ رکھنے والے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں، پاکستان میں 60 فیصد بچوں کوحفاظتی ویکسین لگائی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں 90فی صد بچوں کو حفاظتی ویکسین لگائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں بچوں میں اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔پاکستان میں بچوں میں نمونیہ کا مرض سرفہرست ہے ،ملک میں ایک سے 5سال کی عمر کے ساڑھے 3لاکھ بچے مختلف امراض میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ان کے بنیادی حق فراہم کریں اور انھیں ایک سے 5سال تک کے حفاظتی ٹیکے لگوائیں تاکہ یہ بچے کم عمری میں مختلف امراض سے محفوظ رہ سکیں۔ بصورت دیگر حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے سے بچے کم عمری میں ہی خطرناک امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں، جس کا ا ثر ان کی تعلیم پر بھی پڑتا ہے۔

صحت سے مزید