آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی
مسجد اقصیٰ ،القدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حیثیت حاصل ہے ۔قرآن مجید ، احادیث نبوی ؐ اقوال اہل بیت اطہارؓ و صحابہ کرامؓ کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلّم ہے ۔قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے ،وہ (ذات) پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں ، بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ (سورۂ بنی اسرائیل)
اس آیت میں نبی کریمﷺ کے واقعۂ معراج کا ذکر کرتے ہوئے بیت المقدس کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے گرد اللہ نے برکتیں رکھی ہیں، وہ زمین کس قدر عظمت و رفعت کی مالک ہے ،جس کی برکتوں کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔مسجد اقصیٰ کے گرد وپیش یعنی ارض فلسطین کو مادی اور روحانی دونوں ہی طرح کی نعمتوں سے بطور خاص نوازا گیا ہے، چنانچہ اس کی مادی اور ظاہری خیرات وبرکات کی عظمت شان کا حال یہ ہے کہ قدیم صحیفوں میں اسے شہد اور دودھ کی سر زمین کہا گیا ہے۔ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ اس کی روحانی خیرات وبرکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیائے کرامؑ کا مولد ومدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سر زمین کو حاصل ہوا ہے۔ وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعۂ ارضی کو حاصل نہیں ہوا۔
احادیث نبوی میں بھی مسجد اقصیٰ کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے ۔ زوجۂ رسولﷺ ام ّالمؤمنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے حج یا عمرہ کی نیت سے مسجد اقصیٰ سے مسجدِ حرام تک کا احرام باندھا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔(سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1737 )
ہارون بن سعید، ابن وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان، حضرت ابوہریرہ ؓ خبر دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف کعبہ کی مسجد اور میری مسجد، مسجد نبوی اورمسجد اقصیٰ۔(صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 893 )
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہےکہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (مکہ کی) مسجد حرام ،میں نے عرض کیا ،پھر کون سی؟ آپ ﷺنے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجداقصیٰ۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 601 )
خانہ کعبہ کو روئے زمین پر خدا کے پہلا گھر ہونے کا شرف حاصل ہے جبکہ بیت المقدس اس کے بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔جسے بیت الحرم سے 40منزل دور کہا گیا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی ۔معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے ،پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں: دنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں، جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔(سفینۃ البحار)
آج یہ امر باعث شرم ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ ہے، مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے ۔ سامراج کے زیر سرپرستی جنگ عظیم اول کے بعدسلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کردینے سے شروع ہونے والی سازش دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت پایہ تکمیل تک پہنچی جب 1948میں مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح اسرائیل کو پیوست کردیا گیا۔ منصوبہ بندی کے بغیر اور ہتھیاروں سے لیس ہوئے بغیر کی جانے والی جھڑپیں اور ہلکے پھلکےاحتجاج سے صیہونیت کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔
مسلمانوں کے جرم ضعیفی اور انا پرستی کی وجہ سے اسرائیل نے انہیں 1967کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں عبرتناک شکست سے دوچار کردیااور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ تو ایک طرف لینے کے دینے پڑ گئے ۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا گیا اور مشرقی یروشلم بیت المقدس کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں آ گیا۔
فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا نتیجہ اس حد تک برآمد ہو گیاکہ مغربی کنارے و غزہ کا محدود علاقہ آزاد تو ہوا لیکن یہ ایک محصور ریاست کی شکل اختیار کرگئے ۔جنہیں جب چاہے اسرائیل روند ڈالتا ہے ۔غزہ ایک قیدخانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج بھی مسلمانوں کا قبلہ اول پکار پکار کر مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن افسوس کہ مسلم حکمرانوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں ۔اقتدارکا دوام ان کی پہلی و آخری ترجیح ہے ۔القدس کی آزادی کےلیے جو رسمی آواز پہلے اٹھا کرتی تھی، آج وہ رسم بھی ختم ہو چکی ہے۔
اس وقت صیہونی و استعماری سازشوں کے طفیل اور تنگ نظری کی وجہ سے جو حالات پید اہوئے ہیں، اس سے فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے، کیونکہ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔بعض ریاستوں کے خفیہ تعلقات ہیں ۔آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ ہرمسلم ملک دوسرے میں مداخلت کررہا ہے۔جب تک مسلمان خود اپنے اعمال درست نہیں کریں گے، یہودو ہنود کے خلا ف ان کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا،نہ اس کا کوئی فائدہ ہو گا۔
ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلم حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے ،تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے۔ دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے ایمانی و دینی فریضے کو اجاگر کرسکے۔
اتحاد و یکجہتی ہی وہ ہتھیار ہے، جس کے ذریعے مسلمانان عالم قبلہ اول کو یہود کے پنجے سے چھڑا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اول عالم اسلام کی وحدت و یک جہتی کے لئے فریاد کررہا ہے ۔سرخروئی انہی کا مقدر بنے گی ،جو اس پکار پر لبیک کہیں گے۔