• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علّامہ قاضی احمد نورانی صدیقی اشرفی

ساتویں صدی ہجری کے آخری پچیس سالوں میں ساداتِ حسینی کی ایک مضبوط ریاست سلطنت خراسان میں قائم تھی۔ اس حکومت نے عادل اور مدبّر سلاطین کے ہاتھوں استحکام پایا تھا ۔670ھ میں حضرت سلطان سید محمد ابراہیم ا س کے سربراہ مقرر ہوئے جو بڑے عالم و فاضل، متقی و پرہیزگار تھے۔ سلطنت کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ انہوں نے دارالسلطنت میں شیخ رکن الدین علاء الدّولہ کے لئے خانقاہ بھی بنوائی۔ 

خانقاہ میں ہر وقت طالبان ِ حق کا ہجوم ہوتا تھا۔ تاریخ عالم میں شاید کسی حاکم کی علم دوستی کی ایسی مثال ملے کہ حکومت کا انصرام کے ساتھ ساتھ ہزاروں طلبہ کے کھانے پینے کا انتظام خزانہ شاہی سے کیا جاتا ہو۔ ایسی با برکت اور دینی فضا میں قدوۃ الکبریٰ، محبوبِ یزدانی، غوث العالم، سلطان اوحدالدین سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ پیدا ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ بھی بڑی عابدہ اور متقی خاتون تھیں۔ 

رواج کے مطابق رسم بسم اللہ کے بعد قابل علماء کی زیر نگرانی آپ کی تعلیم شروع ہوئی۔ دوسال آٹھ ماہ میں آپ نے قرآن مجید حفظ کرلیا۔ چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ پر عبور حاصل کرلیا۔ پندرہ سال کی عمر میں والد بزرگوار کا وصال ہوا اور دستورِ زمانے کے مطابق 733ھ میں سید اشرف جہانگیر سمنانی ؒ بادشاہ بنا دئیے گئے۔ امورسلطنت کی مصروفیت کے باوجود آپ کے دل میں عشق الٰہی کی آگ جلتی رہی۔ 

بالآخر وہ وقت آگیا ،جب یہ آگ شعلہ بن گئی، لگ بھگ آپ کی عمر پچیس سال تھی کہ ماہ ِرمضان کی ستائیسویں شب حضرت خضر تشریف لائے اور فرمایا، اشرف تمہارا کام پورا ہوگیا ہے، اگر وصال الٰہی اور مملکت لامتناہی چاہتے ہو تو بادشاہی چھوڑو اور ملک ہند کی طرف کوچ کرو۔وہاں ایک بزرگ شیخ علائوالدین گنج نبات ہیں جو تانبے کو کندن بنا دیتے ہیں۔ یہ کلمات بشارت ارشاد فرماکر حضرت خضر نظر سے اوجھل ہوئے اور صبح کی سفیدی نمودار ہوئی۔ 

حضرت نے ترک سلطنت کا عزم کیا۔ تخت شاہی پر اپنے چھوٹے بھائی محمد عراف کو بٹھایا۔ اجازت سفر کے لئے والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا، اے فرزند! تیری ولادت سے پہلے حضرت خواجہ احمد یسویؒ نے مجھے بشارت دی تھی کہ تجھے ایسا بیٹا نصیب ہوگا کہ آفاق اس کے خورشید ولایت سے منور ہو جائیں گے، میں تجھے خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ 

سید اشرف جہانگیر سمنانی ؒ طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے خطہ اُوچ پہنچے جو ملتان کی قریب ہے۔ وہاں مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاریؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ حضرت مخدوم جہانیاںؒ علم ظاہرو باطن اورفقرو استغنا میں یکتائے روزگار تھے۔ حضرت مخدوم جہانیاںؒ نے فرمایا: اے اشرف! تمہارا یہاں آنا مبارک ہو، مگر میرے بھائی علاؤ الدینؒ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔

حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ تین شب حضرت مخدوم جہانیاں کی خدمت خلوت میں رہے اور بے شمار انوار و تجلیات سے فیض یاب ہوکر وہاں سے رخصت ہوئے۔ اُوچ سے دہلی اور بہار ہوتے ہوئے بنگال پہنچے، اس وقت حضرت شیخ علاء الدین گنج نبات پنڈوی کے فیض سے پورا بنگال روشن تھا۔ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں کئی سال گزارے اور سلوک ومعرفت کی منزلیں طے کیں۔ مرشد کریم کے حکم پر آپ بنگال سے روانہ ہوئے۔

750ھ میں زیارت حرمین شریفین کے بعد دوبارہ مرشد کی بارگاہ میں پہنچے۔دوبارہ رخصتی کے وقت ہادی طریقت نے بشارت دی کہ تمہیں مرتبہ غوثیت عطا ہوگا۔ آپ کے مرشد نے کشف کے ذریعے وہ مقام بھی دکھایا، جہاں آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔ پنڈ وہ بنگال سے رخصت سے ہو کر جونپور پہنچے اور بالآخر ہندوستان کے سابقہ ضلع فیض آباد ، موجودہ امبیڈ کرنگر، یوپی میں کچھوچھ کے مقام پر پہنچے اور فرمایا: آئندہ اس جگہ بڑی رونق ہوگی، وہاں کے مشہور جوگی کو مسلمان کرکے خانقاہ تعمیر کی۔ عرصہ تین سال میں وہ علاقہ گل و گلزار ہوگیا اور اس کا نام آپ نے روح آباد رکھا۔ 

آپ کی حیات مبارکہ میں لاکھوں بندگان خدا نے آپ سے اکتساب فیض کیا اور وصال کے بعد سے آج تک ان گنت متلاشیان حق سلسلہ اشرفیہ سے وابستہ ہوئے۔ آپ نے 28محرمم الحرام808ھ کو وجد کی کیفیت میں وصال پایا۔ آپ کے رشحات قلم سے منصہ شہود پر جو کتابیں آئیں ان کی ایک مختصر فہرست یوں ہے۔ 

قرآن پاک کا فارسی ترجمہ۔ مختصر فی النحو۔ بشارۃ الذاکرین ۔ مختصر فی اصول الفقہ۔ حجۃ الذاکرین ۔ تعلیقات علیٰ ہدایۃ الفقہ والفصول۔ تفسیرالقرآن المسمیٰ بالنور بخشیہ۔شرح عوارف المعارف۔ مرآۃ الحقائق و کنز الدقائق۔ شرح فصوص الحکم۔ اشرف الانساب مختصر بحر الانساب۔ بشارۃ المریدین۔ قواعد العقائد۔ ملفوظات (لطائف اشرفی) جامع نظام یمنی۔بحرالاذکار۔ اوراد اشرفیہ۔فوائد الاشرف۔ رسالہ فی جواز سماع الغنا۔ تنبیہ الاخوان۔ارشاد الاخوان۔ فتاویٰ اشرفیہ۔ مکتوبات (جامع نظام یمنی)۔ تحقیقات عشق۔ رسالہ درتصوف و اخلاق۔

سلاسل تصوف میں سلسلہ اشرفیہ براہ راست محبوب سبحانی ، غوث صمدانی، سیدی حضرت عبدالقادر جیلانی ؒسے نسباً تعلق رکھتا ہے۔بڑے بڑے محدثین ، مفسرین اور مقتدر علمائے پاک و ہند اس سلسلے سے وابستہ رہے، جن میں استاد العلماء صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین اشرفی مراد آبادیؒ، مفسر قرآن علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی گجراتیؒ، مفسر قرآن علامہ ابو الحسنات سیداحمد اشرفی ؒ ، فقیہ اعظم مولانا نور اللہ اشرفی بصیر پوریؒ، قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کے والد گرامی مبلغ اسلام علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقیؒ ، قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنیؒ ، محدث پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد اشرفیؒ، علامہ غلام علی اوکاڑوی اشرفیؒ، علامہ محمد عمر نعیمی اشرفیؒ، محدث اعظم ہند مولانا کچھوچھوی، شارح بخاری علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی جیسے اکابرین شامل ہیں۔ الحمد اللہ ناچیز کو بھی سلسلۂ اشرفیہ کی خلافت و اجازت کا شرف حاصل ہے۔