تفہیم المسائل
سوال: بچوں میں جان لیوا امراض کی تشخیص کے لیے فوت شدہ بچوں کے جسم سے نمونے لیے جاتے ہیں، یہ نمونے سوئی اور روئی کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں سے لیے جائیں گے، جس میں خون پانی اور جسمانی بافتوں(Tissues) کے نمونے سوئی کے ناکے کے برابر لیے جاتے ہیں، جس سے جسم پر نقطہ جیسا نشان رہ جائے گا۔
اس کا مقصد ان امراض کے لیے مؤثر ادویات یا ویکسین تجویز کرنا ہے، جن کا ابھی تک مؤثر علاج دریافت نہیں ہوا، تشخیص کے ذریعے ہی مختلف بیماریوں کا علاج ممکن ہے، کیا فوت شدہ بچوں کے جسم سے یہ نمونے لینا جائز ہے، ( ڈاکٹر عبدالمومن قاضی ، کراچی)
جواب: مریض کے علاج کے لیے اُس کے مرض کی تشخیص بہت ضروری ہے، ایسے امراض جن کے بارے میں معلومات میسر نہ ہوں یا اُن کا علاج دریافت نہ کیا گیا ہو، اُن کے لیے تشخیص اور تحقیق ضروری عمل ہے، حیوانات پر میڈیکل ریسرچ اور اُن پر مختلف تجربات کا مقصد وسیع پیمانے پر زندہ انسانوں کو مہلک اور جان لیوا بیماریوں سے بچانا ہوتا ہے، ڈاکٹر حسام الدین بن موسیٰ عفا نہ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ شریعت ِ مُطہرہ نے بیماریوں سے بچنے اور کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان کے علاج معالجہ پر ابھارا ہے، اس میں اُمّت کی مصلحت، اس کی سلامتی اور (ممکنہ طور پر ) جن بیماریوں کے لاحق ہونے کا اندیشہ ہو، اُن سے سُنّت الٰہیہ کے مطابق شرعاً وتقدیراً تحفظ مقصود ہوتا ہے ‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس باب میں ڈاکٹروں نے بہت سی مصلحتیں ذکر کی ہیں، جو عام طورپر اُمّت پر خیرکا باعث ہیں، پس جب میّت کے احترام کی مصلحت اور (زندہ لوگوں کی) بقا وحفظِ جان کی مصلحت باہم متعارض ہوں تو پھر علماء نے غور کیا کہ اُن میں سے کون سی مصلحت راجح ہے، جس پر ممانعت یا جواز کے حکم کی بنیاد رکھی جائے، پس کہا جاتا ہے: ہمیں درپیش صورتِ مسئلہ میں اُمّت کی بقا وحفظِ جان کی مصلحت راجح ہے کیونکہ عام مُسلمہ اصول ہے اور (ظنِّ غالب کے درجے میں) قطعی ہے، جیسا کہ اس پر امرِ واقع اور تجربہ دلالت کرتا ہے اور یہ مصلحت انسانی جان کی حفاظت کی طرف راجع ہے اورجان کی حفاظت ان ضروریاتِ دینیہ میں سے ہے ،جن کی رعایت اور حفاظت تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں ملحوظ رکھی گئی ہے، (فَتَاوٰی یَسْأَلُوْنَکَ، جلد6،ص:546)‘‘۔
پوسٹ مارٹم کے جواز کے اسباب میں سے بھی ایک سبب موت کا سبب معلوم کرنا ہے، تاکہ قاتل تک رسائی حاصل کی جاسکے، اسی لیے علماء نے قانونی اغراض کے لیے پوسٹ مارٹم کی اجازت دی ہے، طبّ کے مختلف شعبوں کی تعلیم اورطبی تحقیقات کی ترقی کے لیے اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایک حدتک قانون بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں موت کے سبب کا تعین کیا جاسکے۔
آپ نے سوال میں لکھا: ’’یہ نمونے سوئی اور روئی کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں سے لیے جائیں گے، جس میں خون پانی اور جسمانی بافتے (Tissues) کے نمونے سوئی کے ناکے کے برابر لیے جاتے ہیں، جس سے جسم پر نقطہ جیسا نشان رہ جائے گا ‘‘، اگر محض اتنا ہی ہے، تو مرض کی تشخیص، اس کے علاج کے لیے ویکسین بنانے اور مزید انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس کی اجازت ہے، کیونکہ شریعت کا قاعدہ یہ ہے: ترجمہ:’’ ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے، (مجلّۃ الاحکام العدلیہ ، مادّہ:21)‘‘۔ مگر دوسرے ضابطے کے ساتھ ملاکر اس پر عمل کیا جائے: ترجمہ: ’’ ضرورت کو اس کی حد تک محدود رکھاجائے ‘‘، نہ کہ اس سے اباحتِ کلی مرادلی جائے ۔(واللہ اعلم بالصواب)