• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک جوائنٹ فیملی سسٹم میں گھر کے سربراہ کی حیثیت سے ایک شخص تمام ذمے داریاں اٹھاتا ہے، تمام شادی شدہ بیٹوں اور ان کی اولاد کو ساتھ رکھا ہوا ہے، دو بیٹے ایک دکان میں مشترکہ کماتے ہیں اور جو کماتے ہیں، وہ اپنے والد کو دیتے ہیں اور والد دونوں بیٹوں کو اس میں سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اخراجات کے لیے دیتے ہیں، دونوں بیٹوں کے نام ایک مکان ہے، جس کے دو فلور میں دونوں بیٹے اپنی فیملیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ 

بڑے بیٹے کا بیٹا سافٹ ویر انجینئر ہے، اپنی تنخواہ میں سے اپنے والد کو ہر ماہ پچیس ہزار روپے دیتا ہے۔ چھوٹا بیٹا یہ اعتراض کرتا ہے کہ یہ رقم دادا کو دینی چاہیے، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ (ایک سائل، اسلام آباد)

جواب: مشترکہ خاندانی نظام (Joint Family System) میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں، وہیں اس نظام کی کچھ خرابیاں اور نقائص بھی ہیں، عموماً کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اختلافات سامنے آتے ہیں اور اُس وقت صرف خرابیاں ہی مدنظر رہتی ہیں، فوائد اور خوبیاں نظرانداز ہوجاتی ہیں۔

تاہم تمام معاملات میں اعتدال رکھاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کو کم یا ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں سربراہ کی ذمے داری ہے کہ اعلیٰ ظرف، صبروتحمل اور حکمت اختیار کرے۔

مشترکہ خاندان کی ایک خوبی رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان فرمائی: ترجمہ: ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: عہدِ نبوت میں ایک گھر میں دو بھائی رہتے تھے۔ ایک نے نبی ﷺ کی بارگاہ میں آکر اپنے بھائی کی شکایت کی (دن بھر روزی روٹی کے لیے میں محنت کرتا ہوں جبکہ میرا بھائی مسجد میں آپ کی صحبت میں وقت گزارتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہیں جو رزق ملتا ہے، شاید وہ اسی کی نیکیوں کی بدولت ہے، (سُنن ترمذی:2345)‘‘۔

ہر شخص کو اپنی کمائی پر تصرُّف کا مکمل اختیار حاصل ہے، والدین محتاج اور ضرورت مندہوں تو اُن کا نفقہ بیٹے پر لازم ہے، تاہم سعادت مندی کے طور پر والدین کی ضرورت کا خیال رکھنے والی اولاد اللہ کی بارگاہ سے اجر کی مستحق ہے۔ 

کسی رشتے دار (خواہ چچا ہو یا دادا)کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کی کمائی سے جبراً حصہ وصول کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’سنو! ظلم نہ کرو، سنو! کسی مسلمان کا مال اُس کی خوش دلی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے، (شُعَبُ الایمان للبیہقی :5105)‘‘۔

پس جب مکان کی ایک منزل ایک شخص کے نام ہے تو اس میں اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ ٹھہرا سکتا ہے اور دوسرے بھائی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اسی طرح باپ بیٹے کے معاملات میں بھی چچا کو دخل دینے کا حق نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب )