مفتی رفیق احمد بالاکوٹی
آپ ﷺکے بعد آپﷺ کے خلفائے راشدینؓ نے بھی اس سنتِ حسنہ کو زندہ رکھا اور اپنے ادوار کی فتوحات میں غیر مسلم مخالفین کے معاملے میں نرم خوئی، عدل وانصاف، رعایت وحفاظت کے خصوصی احکامات دیے جاتے تھے، یہاں تک کہ نئے مفتوحہ لوگوں کے حیوانات، ان کی فصلوں اور باغات کے تحفظ کے لیے بھی خصوصی تاکیدات کی جاتی تھیں، جب کہ بچے، بوڑھے، عورتیں اور خالص مذہبی سرگرمی تک محدود افراد کو ہر قسم کا تحفظ دینے کا حکم ہر دور میں زندہ و تابندہ چلا آرہا ہے اور اب بھی ہماری فقہی کتب میں کتاب الجہاد والسیر کے ضمن میں أحکام أہل الذمۃ کے عنوان سے واضح انداز میں موجود ہے۔
اس ساری تفصیل کا نتیجہ اور حاصل یہ ہے کہ الحمدللہ! ہماری اسلامی تعلیمات غیر مسلم اقلیتوں کے مذہبی، معاشرتی اور مالی و انتظامی حقوق کے حوالے سے بالکل واضح ہیں۔ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اہلِ اسلام کا رویہ ہمیشہ ان تعلیمات سے ہم آہنگ رہا ہے اور رہنا چاہیے اور یہ کہ مذہب کے نام پر کبھی کسی غیرمذہب والے کے ساتھ امتیازی سلوک کی اسلام میں کہیں بھی گنجائش نہیں ہے۔
اب ہمارے اہلِ علم اور اربابِ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی رعایا کے غیر مسلموں کے ہر نوع، مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کا تحفظ کریں اور ہم وطن غیرمسلموں کی صلاحیتوں کوملکی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کریں۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور وحدتِ ادیان کا فرق
۱- مذاہب و مسالک کے درمیان ہم آہنگی کا یہ سفر باہمی عزت و احترام، خیال داری، رواداری اور قومی ایشوز پر باہمی تعاون واتفاق پر مبنی ہونا چاہیے، یہ شرعی اصطلاح میں ’’مدارات‘‘ ہے، یہاں تک ہمارا ہر قسم کا تعاون حاضر ہے، جب کہ دوسری طرف بعض سیاسی یا مذہبی حلقے تمام تر مذہبی و مسلکی شناختوں کے امتیازات کے خاتمے کے ساتھ اتحادِ امت کی دعوت دیتے ہیں جوکہ درحقیقت مذہبیت سے لا مذہبیت کی طرف سفر کا آغاز ہے، ہم ایسے افکارو اقدامات کو نہ صرف یہ کہ رد کرتے ہیں، بلکہ اسے ’’مدارات‘‘ کی بجائے ’’مداہنت‘‘ تصور کرتے ہیں جو کہ شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہے: ’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے (منصبی کام یعنی تبلیغ میں) ڈھیلے ہوجائیں تو یہ لوگ بھی ڈھیلے ہوجائیں۔‘‘ (سورۃالقلم: ۹)’’میں نہیں پوجتا جس کو تم پوجتے ہو۔‘‘ (سورۃالکافرون: ۲)
۲- اس وقت مذہبی ہم آہنگی کامثبت تصور ہمارے سامنے پیش ہوا ہے اور اسے عام کرنے کے لیے ہم سب دل وجان سےحاضر باش ہیں۔ اس کے برعکس مذہبی ہم آہنگی (Religious Harmony) کا جو مغربی تصور ہے، اس کے تحت ’’وحدت ِادیان‘‘ کی عالمی تحریک اور ایک برادر اسلامی ملک میں ’’بیتِ ابراہیمی‘‘ کے نام سے تمام ادیان و مذاہب کے امتیازات کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک مذہبی ملغوبہ تیار کرنے کا جو پروگرام ہے، وہ ہمیں کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
ہم مذہبی ہم آہنگی کے ایسے افکار کو اسلام کی بالادستی و برتری سے متصادم سمجھتے ہیں اور حق و باطل کے التباس واجتماع کا جرم تصور کرتے ہیں، نیز دینِ اسلام کے تبلیغی و ترویجی اہداف کے منافی بھی قرار دیتے ہیں: ’’بلاشبہ دین(حق اور مقبول) اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ ‘‘(سورۂ آل عمران: ۱۹)’’اور مخلوط مت کرو حق کو ناحق کے ساتھ۔‘‘ (سورۃالبقرۃ: ۴۲)’’
(چنانچہ)وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اس کو تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کردے۔‘‘ (سورۃ التوبۃ: ۳۳)’’کیا کہیں تاریکی اور روشنی برابر ہوسکتی ہے؟‘‘ (سورۃ الرعد: ۱۶)’’اسلام برتر رہے گا، اس پر برتری نہیں ہوگی۔‘‘(صحيح البخاری:۱/۴۵۴، ط:دار ابن کثير، دمشق)
الحمدللہ! وطنِ عزیز کی حد تک ہمیں اس قسم کے خدشات سے تو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے، یہاں تو مذہبی رواداری کے التزام کے ساتھ قرآن و سنت کو آئینی بالادستی حاصل ہے اور پارلیمنٹ میں موجود ہمارے علمائے کرام اور مذہب پسند وزراء، مسلم قوم کے جذبات کے نہ صرف یہ کہ ترجمان ہیں، بلکہ محافظ بھی ہیں۔
ہماری اس مؤخرالذکر گزارش کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے ان جذبات کو یہاں کی طرح مذہبی ہم آہنگی کے عالمی تصورات کے سامنے بھی تحفظ حاصل رہے۔ ہماری دعائیں اور توقعات سردار صاحب جیسے لوگوں سے وابستہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)