• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

دنیا کے تمام معاشروں میں گھر اور اجتماعیت، اخلاق، رہن سہن، حیا، لباس اور انداز و گفتار کے ضابطے وضع اور متعین کئے جاتے ہیں۔ اسلام چونکہ خود مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ ضابطہ اسلام کی بنیادی تعلیمات عقائد، عبادات اور اخلاقی نظام ہی میں موجود ہیں۔ اسلام کا نظام ِاخلاق نہ صرف انفرادی طور پر میزانِ اعمال میں ایک مسلمان کی خوش بختی کا ذریعہ ہے، بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاس داری پر مبنی ایک پُر امن معاشرے کے قیام کا بھی ضامن ہے۔ 

اتنا ہی نہیں، اسلام کا نظامِ شرم و حیا اور نظام عفّت و عصمت بھی درحقیقت اسلام کے مجموعی نظام اخلاق ہی کا حصہ ہے۔ معاشرے کی عفّت و عصمت اور شرم و حیاء کی حفاظت اور ستر پوشی کے احکامات محض چند کپڑوں کے استعمال کا نام نہیں، بلکہ اس کی بنیاد ’’حیا‘‘ کے وصف پر قائم کی گئی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے حیا کو ایک اخلاقی قدرکے طور پر متعارف کرایا، یہاں تک کہ اسے ایمان کا ایک لازمی جزو قرار دیا، آپ ﷺ نے فرمایا ’’حیا ایمان کا ثمرہ ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بد کاری دوزخ میں لے جانے والی ہے ‘‘(ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ) ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ایمان اور حیا کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے فرمایا ’’حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔ ‘‘ (مستدرک حاکم)

یعنی جہاں ایمان ہوگا وہاں حیا بھی ہوگی اور جب حیا اٹھ جائے گی تو ایمان خود بخود جاتا رہے گا۔ حیا اور ایمان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ درحقیقت حیا کا تصور و فلسفہ بہت زیادہ وسعت اور جامعیت رکھتا ہے، جس میں نا صرف خواہشات و منکرات سے اجتناب برتنا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و منشا کے خلاف ہر بات اور ہر کام سے رک جانا مقصود و مطلوب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا ’’ اللہ سے حیا کرو، جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ، ہم تواللہ سے حیا کرتے ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو، بلکہ جو شخص اللہ سے حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہیے کہ سر اور جو سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے، پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہیے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتا ہے، پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیا کی ، جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔ ‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)

اسلام میں عفّت و عصمت کے وسیع تصور کو راسخ کرنے کے لئے حیا کے ہمہ گیر پہلوؤں کی مختلف انداز میں احادیث کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’لوگوں کے پاس کلامِ نبوت سے جو بات پہنچی ہے ان میں یہ بھی ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘۔ (صحیح بخاری) یعنی بے حیا شخص اور حیوان برابر ہیں کہ جانور کو کسی کام میں کوئی روک ٹوک ہوتی ہے نہ عار۔

رسول اللہ ﷺ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’ ایمان کی ستّر سے زیادہ شاخیں ہیں ،ان میں سب سے افضل لا الہٰ الاّ اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے میں پڑی ہوئی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم) اسی طرح حیا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بے حیائی جس چیز میں بھی ہو، وہ اسے بد نما بنا دیتی ہے اور حیاجس چیز میں بھی ہو، اسے زینت عطا کرتی ہے‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی و مسند احمد) 

آپ ﷺ نے اسلام کی خصوصی قدر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’ہر دین کا ایک خاص وصف ہوتا ہے اور اسلام کا خاص وصف حیا ہے‘‘ (مشکوٰۃ) دیگر مذاہب کے مقابلے میں حیاکو اسلام کا خاص وصف یا امتیازی خوبی قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسلام کی نظر میں اخلاقیات کی کیا اہمیت اور وقعت ہے۔ 

حیاانسان کو پاک باز و با وقار بناتی ہے۔ حیا کی ضد بے حیائی ہے جو قول و فعل میں برائی کا نام ہے، جو انسان کی سوچ سے شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ فرد ، اس کے خاندان، دوست احباب سے سوسائٹی تک، ایک سے دیگر تک پھیلتی چلی جاتی ہے اور اسی سے ہر شر اور برائی کا آغاز ہوتا ہے، اسی لئے قرآن و حدیث میں جہاں باحیا ہونے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، وہیں بے حیائی اور بے حیائی کے کاموں سے دور رہنے کی سخت تاکید بھی کی گئی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ’’ اور بے حیائی اور بے شرمی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہوئی عام (بے حیائی ہو) یا چھپی ہوئی (پوشیدہ بے شرمی کی بات) ہو۔ (سورۂ انعام ) یاد رکھیے! بے حیائی شیطان کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اللہ کے بندوں کو برائی کا لالچ دیتا اور بے حیائی کے سبز باغ دکھاتا ہے، لہٰذا وہ بندے جن کا ایمان کمزور ہوتا ہے بہ آسانی شیطان کے مکرو فریب کا شکار ہو کر جہنم کے راستے پر قدم رکھ دیتے ہیں، در حقیقت نوجوان طبقہ ہی شیطان کا مخصوص ہدف ہوتا ہے۔

شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے۔ جانوروں اور انسانوں کے درمیان شرم و حیا وجہِ امتیاز ہے اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے ، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہوجائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و کردار بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب خواتین میں یہ برائی پھیل جائے تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

حیا کا اہم ترین جزو یا حصہ ستر پوشی ہے اور ستر پوشی کا بہترین ذریعہ لباس ہے۔ ستر پوشی اور لباس کا موضوع اسلامی ثقافت اور اخلاقیات میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لباس صرف جسم کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ یہ ایک فرد کی شناخت، ثقافت اور دینی عقائد کی عکاسی بھی کرتاہے۔ 

اسلام میں ستر پوشی کا حکم بھی دیا گیا اور ساتھ ہی ستر کی کم از کم حدود کا تعین بھی کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے مخصوص حصوں کو ڈھانپنا اور لباس کا انتخاب کرتے وقت حیا و شرم کے ساتھ ساتھ شائستگی اور وقار انسانیت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، لہٰذا حکم دیا گیا یا تعین کیا گیا کہ مردوں کے لئے کم از کم یا لازمی طور پر ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے اس حصے کو ڈھانپنا یا چھپانا ضروری اور لازمی ہے، جبکہ عورتوں کے لئے مکمل جسم کو ستر قرار دیا گیا ہے۔ 

اسی لئے لباس کے بارے میں معیارِ انسانیت یہی ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہئے جو شائستہ اور باوقار ہو، تنگ اور چُست لباس سے احتراز برتا جائے، لباس ایسا ہو جو حیا کا مظاہرہ کرے اور جسم کو بے پردہ نہ کرے، مردوں اور خواتین کو الگ الگ مخصوص لباس کا انتخاب کرنا چاہیے جو ان کی جنس کے مطابق ہو۔ لباس کا انتخاب روحانیت اور تقویٰ کی عکاسی کرتا ہے۔ 

اسی لئے فرمایا گیا ’’اے آدم کی اولاد بے شک، ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا، جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے اور پرہیز گاری کا لباس سب سے بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ‘‘۔ (سورۂ اعراف)

لباس معاشرے میں اخلاقی اور سماجی اقدار کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ لباس فرد کی شناخت اور ثقافتی پس منظر کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جسم کو موسمی اثرات اور دیگر خطرات سے بچاتا ہے، لہٰذا لباس کا انتخاب کرتے وقت ان امور کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔

آج کل ہمارے نوجوانوں میں ایک لباس بہت زیادہ پسندیدہ ہوگیا ہے اور وہ نیکر یا شارٹ ہے۔ شروع شروع میں جب یہ معاشرے میں متعارف ہوا تھا تو یہ پنڈلیوں سے اوپر اور گھٹنوں سے خاصا نیچے ہوا کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ کم ہو کر گھنٹوں سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ شریعت کے مطابق سترِ عورت سے مراد انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جس کا ظاہرکرنا شرعاً حرام ہے، مرد کے لئے ناف سے لے کر گھٹنے تک چُھپانا فرض ہے (گھٹنا بھی سترعورت ہے یعنی اس کا چھپانا بھی فرض ہے۔) اور خواتین کے لئے منہ، ہاتھ اور دونوں قدموں کے سوا سارے بدن کا چھپانا فرض ہے۔ ستر عورت کا مطلب ہے جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن کا چھپانا فرض ہے۔

اب ہمارے نوجوان گھٹنوں سے اوپر جو شارٹ یا نیکر پہن کر گھروں میں، گلی محلے بازاروں میں سرِ عام دھڑلے سے بے محابا گھوم پھر رہے ہیں، یہ قطعا ًحرام ہے اور بے حیائی و برہنگی ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان کا یہ عمل صرف بے حیائی ہی نہیں بلکہ صریحاً حرام اور گناہ ہے۔ انہیں اس لباس سے سخت اجتناب برتنا چاہئے۔