اس زمانہ میں بھی عید کے دنوں میں کراچی کے پرانے ہوٹل قائم و دائم ہیں اولڈ ایریا میں جاتی بگھی میں سوار خواتین اور بچے شور مچاتے عید کا استقبال کرتے ہیں۔ یہاں ماضی کے وہ یادگار ہوٹل اور دکانیں آج بھی قائم ہیں جہاں اچھے اور سستے کھانے ملا کر تے تھے۔ برنس روڈ، کلفٹن، کھارا در، لیاری، رنچھوڑ لائن، نانک واڑہ اور لی مارکیٹ کے قدیم علاقوں میں شہری ان جگہوں پر جاسکتے ہیں جن کے کھانوں کا ذائقہ اب بھی وہی ہے جو آج سے پچاس سال قبل تھا۔
برنس روڈ پر واقع کباب، ربڑی ہاؤس، فوڈ سینٹر ہو یا کھارا در کے کونے پر باکڑا ہوٹل کی رونقیں، رنچھوڑ لائن کی کلیجی والے کی تیز خوشبو اور کلفٹن کے بوٹ بیسن سے اٹھنے والی مہک عید کے دنوں میں خوب ہوتی ہیں ۔ لسبیلہ اور شیریں جناح کے گوشت کی لذت آج بھی وہی ہے جو برسوں پہلے تھی یہاں نوجوانو کی ٹولیاں اسکوٹروں پر آتی ہیں اور رات میں دن کا سماں کرلیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہوٹلوں کے نام بدل دیئے گئے مگر ان کا انداز مہمان نوازی جیسے پچاس سال قبل تھا آج بھی وہی ہے۔
برنس روڈ پر خاندان کے خاندان کرسیوں پر براجمان رہتے ہیں ۔ وہ لوگ، وہ وقت تو کب کا گیا جب سستے داموں سب کو پیٹ بھر کر مزے کا کھانا مل جاتا تھا اب تو ہر ایک بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ پرانے ہوٹل مالکان اسی برنس روڈ پر ایک چھوٹا سا ٹھیا لگا کر کباب بیچتے تھے ۔ سستا زمانہ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ یہ لوگ پہلے دلی میں بھی یہی کام کرتے تھے۔ جب کراچی آئے تو لوگوں کی خواہش تھی کہ یہاں بھی کام شروع کریں۔
اس کے بعد کام کو آگے بڑھایا۔ کباب کے ساتھ ساتھ نہاری بھی بنانے لگے۔ اللہ نے ہاتھ پکڑا اور لوگوں کو ذائقہ پسند آگیا۔ آج یہاں کراچی میں رہنے والوں کی تین نسلیں کھانے کیلئے آرہی ہیں۔ لوگ قطار میں لگ کر کھانا لیتے ہیں پہلے ان کے باپ داداآتے تھے۔ انہیں بھی کباب فرائی پسند تھے نوجوان آج بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ مالکان اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ کراچی کے لوگوں کا جو اعتماد برسوں پہلے تھا، آج بھی ہے۔
کراچی میں کئی دکانوں پر دہلی کی مشہور نہاری ملتی ہے مگر ذائقے اور خوشبو کی اصل نہاری رنچھوڑ لائن کے عقب میں اسلم روڈ پر واقع ایک چھوٹی سی دکان میں ملتی ہے،جو سورج طلوع ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ دلی کے اس نہاری والے کا آبائی پیشہ یہی ہے۔ یہاں عید کے دن صبح صبح رش لگ جاتا ہے ایک گاہک نے اس بات کی تصدیق کی کہ ادریس کی دکان، اسلم روڈ پریہی ایک نہاری کی دکان ہے جو ادریس بھائی کے نام سے مشہور ہے۔یہ لوگ بھی دلی سے آئے تھے۔ کراچی کے لوگ یہاں دور دور سے نہاری کھانے آتے ہیں۔ ہر ایک کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے۔ یہ نہاری بنانے کی ترکیبیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیںّ پہلے دادا، پھر والد اور آج بیٹے دکان چلا رہے ہیں۔
اہوٹل کے ایک پرانے گاہک افتخار نے بتایا کہ ہم یہاں چالیس سال سے نہاری کھانے آرہے ہیں۔ مجال ہے جو ذائقے میں فرق آیا ہو۔ پہلے اپنے دوستوں کی دعوتیں بھی یہیں کرتے تھے۔ نہاری خاص طور پر غریب کی خوراک تھی، مگر اب کلفٹن ، بہادر آباد وغیرہ میں اسے بہت مہنگا کردیا گیا ہے۔ ہم یہاں صبح سے لائن میں لگ کے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس زمانے میں شاپر وغیرہ نہیں تھے بلکہ اپنے گھر سے برتن لاتے تھے۔ دس روپے میں وہ بھرجاتا تھا۔ اہل خانہ مل کر کھاتے تھے۔ صبح کے وقت عید کیلئے نہاری لازمی ہوتی تھی۔ورنہ ہماری عید نہ ہوتی۔
برنس روڈ پر واقع ربڑی ہاؤس کے مالک کا کہنا تھا کہ میرے والد نے اسی برنس روڈ کے فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر کام شروع کیا۔ اللہ کا شکر ہے ان کی محنت رنگ لائی جن کی وجہ سے آج ہم اتنی بڑی دکان لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب ہم نے کام شروع کیا اس وقت پانچ روپے کلو ربڑی تھی۔ آج آٹھ سو روپے کلو ہے۔ مٹھائی میں استعمال ہونے والی ہر چیز اب کئی گنا مہنگی ہوگئی ہے۔ حکومتیں بدلنے سے بہت فرق آتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا جس زمانے میں چیزیں سستی تھیں ، اس وقت کم لوگ خریدتے تھے۔ آج مہنگی ہیں تو سینکڑوں خریدار ہیں۔ شاید اس کی وجہ ہے کہ لوگوں میں خوشحالی آگئی ہے۔ پہلے بس کا ٹکٹ ایک آنہ تھا مگر کوئی بیٹھتا نہیں تھا۔
آج مہنگی سے مہنگی سواری کرتا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں یہاں کھانے پینے کی اتنی دکانیں نہیں تھیں۔ ہماری ربڑی کے علاوہ بس ایک آدھ کھانے پینے کی دکانیں تھیں رمضان کے آخری عشرے میں رش بڑھ جاتا تھا میری پیدائش تو یہیں کی ہے مگر میرے والد صاحب دلی میں حوض قاضی پر ربڑی کا اسٹال لگاتے تھے۔47ء میں ہم یہاں آگئے۔ ہم ماشاءاللہ سات بھائی، تین بہنیں ہیں۔ سارے بھائی اسی دکان میں کام کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دود ھ دلاری، لب شیریں زیادہ چلتا ہے۔ لوگ آرڈر پر بھی لے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ عید، بقر عید کو کافی کام بڑھ جاتا ہے۔ آج کل نقصان ہورہا ہے۔ کاریگر پر بھی دباؤ رہتا ہے۔
ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل کے پاس کھیر ہاوس میں بیٹھے حسیب گزدر نامی شخص کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں یہ یہ کھیر ہاوس ہم مڈل کلاس شہریوں کے لئے خوش ذائقہ تھا سستے داموں پلیٹ بھر کر مل جاتی تھی بچوں کے لیے بھی ہم پارسل لے جاتے تھے۔ وکیل ، کلرک، اساتذہ یہاں آکر مناسب قیمت میں کھیر کھاتے۔ ہم یہاں گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ ایم اے جناح روڈ کے کارنر پر بنے ایرانی ہوٹلوں میں صاف ستھرا ماحول تھا۔ انہوں نے ہی کراچی میں دودھ اور چائے الگ الگ لانے کا طریقہ بتایا۔ ان کی آرام دہ کرسیاں اور فرنیچر پچاس سال گزرنے کے باوجود اب تک مضبوط ہیں۔
ایرانی ہوٹلوں میں اب جدید کھانوں کا رواج چل نکلا ہے۔ روایتی کھانوں کے علاوہ باربی کیو آئٹم بھی مل جاتے ہیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ کے کونے پر واقع ایرانی ہوٹل کے مالکان نے 1932ء میں ممبئی سے کراچی آکر کاروبار شروع کیا۔ یہیں پر ایک چھوٹی سی دکان لے کر چائے اور مسکہ بن بیچنے لگے۔ آبادی بڑھی تو قریبی دکانوں کو بھی خرید لیا۔ ہماری بچپن کی عیدیں یہیں پر گزرتی تھیں اس کا فرش دیواریں وہی ہیں جو نصف صدی سے قائم ہیں۔ ہماری تین نسلوں نے اس ہوٹل میں آکر کھانے کھائے۔ فن کار اور صحافی یہاں بہت آتے تھے۔ کسی زمانے میں کراچی میں دو سو ایرانی ہوٹل تھے۔ اب گنتی کے دس گیارہ رہ گئے ہیں۔
کراچی کے ایک معمر شہری امتیاز سلاؤٹ نے بتایا کہ کسٹم ہاؤس سے کھارا در کی طرف جانے والے روڈ پر ایک مشہور ہوٹل کچھی مسلم تھا۔ اس ہوٹل میں ہم یخنی پلاؤ اور قورمہ کھانے جاتے تھے۔ بھیڑ اتنی ہوتی کہ گاہک سر پر کھڑے رہتے ۔ قورمہ کی پلیٹ ڈیڑھ دو روپے میں مل جاتی ۔ بکرے کا گوشت ہوتا تھا۔ یہاں کا قیمہ بھی بہت مشہور تھا۔ یہ ہوٹل آج بھی قائم ہے۔ کراچی میں قائم ان ہوٹلوں کی الگ پہچان تھی۔ صدر میں کیفے جارج کے پیٹس مشہور تھے۔ اسی طرح صدر میں ہی الفاروق، الفا ہوٹل کا ایک دور تھا۔
پہلوی ریسٹورنٹ، بلوچ ہوٹل ملیر سٹی، بلوچ ہوٹل گولیمار، یاردگار ہوٹل ماری پور اب نہیں ہیں۔ بکرا پیڑی میں فرحت ہوٹل ، میراناکہ ہوٹل لیاری ، عثمان ہوٹل گبول پارک بھی موجود ہیں۔ صدر میں کیفے جہاں ریگل کے پاس کیفے ٹیرین، شیزان ریسٹورنٹ صدر، گارڈن ہوٹل، گاندھی گارڈن ختم ہوچکے ہیں۔ کیفے مبارک البتہ موجود ہے۔ اسی طرح کیفے تبارک گلزار ہوٹل صدر، علی ہوٹل، ایمپریس مارکیٹ، بومن ایرانی ہوٹل صدر، کیفے گلوریا صدر، گودھرا ہوٹل صدر نہیں رہے۔ البتہ کینٹ اسٹیشن کے پاس بمبئی ہوٹل موجود ہے۔ بھیم پورہ میں شیش محل ہوٹل ، جونا مارکیٹ کا سیاں ہوٹل ختم ہوچکے ہیں۔
مگر کھارا در میں باکڑا ہوٹل، فیاض پشاوری ہوٹل موجود ہیں۔ سندھ مدرسے کے پاس شیر دل ہوٹل اور نیو چالی میں گلشن ایرانی ہوٹل نہیں رہے مگر بولٹن مارکیٹ میں سندھ اسلامیہ ہوٹل اب بھی چل رہا ہے۔ کچھی مسلم ہوٹل، کسٹم ہاؤس، لی مارکیٹ کے پاس منگھو پیر ہوٹل بھی موجود ہیں۔ ڈینسو ہال کے پاس تاج سبزی ہوٹل کھلا ہوا ہے۔ لائٹ ہاؤس کے پاس قیصر بھی قائم ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کی عمارت کے سامنے جاگیر دار ہوٹل اور الشیراز ہوٹل بھی بند ہوچکے ہیں۔
سٹی کورٹ سے آگے کی سمت نگار سینما والی بلڈنگ کے نیچے موتی والا نامی ایک بوہری نے ملائی کھاجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ مٹھائی کو بیچتے ہمیں پچاس سال سے زائد ہوگئے یہاں دور دراز سے لوگ عید کی خوشیاں منانے آتے ہیں۔ یہ ملائی کھاجہ بنانا آسان نہیں۔ میدے، اصلی گھی، کھویا اور خشک میووں کے ساتھ اس کی تیاری ہوتی ہے۔ رمضان ، عید ، شادی منگنی کی تقریبات میں یہ کئی کلو لوگ لے جاتے ہیں۔ خاص طور پر رنچھوڑ لائن کی خواتین کی یہ من پسند مٹھائی ہے۔ وہ اپنی ہر تقریب میں اس کے آرڈر دیتی ہیں۔ لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ ہمرا جدی پشتی کام ہے۔ کراچی کے بزرگوں نے اس کا ذائقہ چکھ رکھا ہے۔
گزدر آباد کے ایک سابق میونسپلٹی فوٹوگرافر علی اکبر کاظمی نے بتایا کہ صابری ہوٹل ایم اے جناح روڈ بھی بہت قدیم ہے۔ اس زمانے میں اس کی نہاری کی شہرت دور دور تک تھی۔ فلمی اداکار محمد علی ان کی نہاری لاہور سے منگواتے تھے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کا ڈرئیور آزاد بھی اس ہوٹل کے ذائقوں سے خوب آشنا تھا۔ یہاں تاج محمد دلکش ہوٹل کی حلوہ پوری آج بھی اسی شان سے چل رہی ہے جیسے پچاس سال پہلے تھے۔ اس وقت کم آبادی تھی۔
لوگ حلوہ پوری کے ذائقے سے نئے نئے آشنا تھے۔ پورے کراچی سے لوگ ان کی حلوہ پوری کھانے آتے۔ ان کے مالک تاج محمد اور اسحاق سکھر کے مارواڑی ہیں۔ اب ان کی اولاد نے حلوہ پوری کے اس کام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ آج 2022 میں بھی عید کی صبح لوگوں کی اسی طرح قطار لگی رہتی ہے ہمارے لیے عید کھانے پینے کا نام ہے۔