مریم شہزاد
امی نے سب بچوں کی طرف دیکھا ،پھر ان کے ابو کو، سب اپنے اپنے موبائل میں مگن تھے۔ گھر میں ایک خاموشی سی تھی ۔اُن کا دل گھبرا گیا۔ انھوں نے بھی اخبار اُٹھایا ،مگر چند ہی لمحے میں بے زاری سے رکھ دیا اور ایک رسالہ اُٹھا لیا، مگر چند سطریں پڑھ کر اسے بھی ایک جانب رکھ دیا ۔ان کا دل چاہ رہا تھا کہ سب آپس میں بات چیت کریں ،مگر ایسی کیا بات ہو کہ ہر ایک دل چسپی لے کر اس میں شامل ہو جائے، سوچتے سوچتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں اور کچن میں جا کر چائے کے ساتھ کچھ پاپ کورن اور فرنچ فرائز بنا لیے۔ اچانک ہی ان کو کچھ خیال آیا ۔وہ کچن سے باہر آئیں اور ایسی جگہ آکر بیٹھ گئیں کہ کسی نہ کسی زاویے سے سب ان کو دیکھ سکتے تھے ۔انھوں نے ایمن کو آواز دی۔ ایمن گھر میں سب سے چھوٹی اور نویں جماعت کی طلبہ تھی ۔
”ایمن ! یہاں آؤ۔ امی نے آواز دی۔
جی امی !“ایمن نے امی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”ایمن ! ایک پہیلی پوچھوں ؟“
”پہیلی ؟“ایمن نے چند لمحے سوچا اور کہا :”چلیں ،پوچھیں ۔“
”سمو سا کیوں نہ کھایا ؟ جوتا کیوں نہ پہنا ؟“
اس نے حیرانی سے پوچھا :”ہائیں ،یہ کیسی پہیلی ہے ؟“
” دونوں کا جواب ایک ہی ہے اور دوسری پہیلی بھی ایسی ہی ہے، اس میں بھی دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہو گا ۔”کُرتا کیوں نہ پہنا، گوشت کیوں نہ کھایا؟“
ایمن بولی :”عجیب سے سوال ہیں ،اچھا چلیں ،کچھ اَتا پتا تو دیں۔“
”اس میں اتے پتے کی ضرورت ہی نہیں ،سادہ سا سوال ،سادہ سا جواب ہے ۔
ایمن نے پوچھا :”امی کیا ،بھیا ،اپیا وغیرہ کوبھی بلا لوں۔“
امی نے کہا :”بلالاؤ ان سے بھی ،پوچھ لیتے ہیں ۔“
ایمن جلدی سے ان کو بلالائی۔ امی نے دوبارہ پہیلیاں پوچھیں تو اپیانے سوچتے ہوئے کہا: ”آپ ہم سے پوچھ چکی ہیں ،جب ہم چھوٹے تھے ،مگر جواب یاد نہیں آرہا۔
”چلو تو دوبارہ سوچ لو ،مگر ابھی یاد آجائے تو بتانا نہیں۔‘‘ اتنے میں ابو بھی موبائل رکھ کر آگئے کہ دیکھیں تو آخر کیا مسئلہ درپیش ہے ،جو سب سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے دل چسپی لی تو ان کو بھی صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا۔
”بھئی پہیلی، ہے تو دل چسپ۔“ ابو نے کہا۔
”کرتا کیوں نہیں پہنا ،گوشت کیوں نہیں کھایا؟“
”سموسا کیوں نہ کھایا ،جو تا کیوں نہ پہنا؟“
انھوں نے پہیلیاں دہرائیں ،پھر بولے :”بھئی ،کرتا اور جوتا سائز کا نہیں ہو گا اور سموسا باسی ہو گیا ہو گا ۔
’’نہیں ابو! “ایمن بولی :”امی نے کہا ہے ،دونوں کا ایک ہی جواب ہے ۔“
بھیا بولے ،”بھائی ! میں نے تو ہارمان لی،آپ ہی بتا دیں ۔“
ایمن نے پوچھا ،”اتنی جلدی ،امی میں فیس بک پر اپنی دوستوں سے پوچھ لوں ۔
امی نے کہا ،”پوچھ لو ،مگر پہلے خود سو چو ،موبائل بعد میں دیکھنا ۔“
اتنے میں اپیابول اٹھیں ،”ایک کا تو جواب یا د آگیا۔“
امی نے کہا: ”بس ابھی خاموش رہو اور سب کو سوچنے دو۔“
”بھئی بیگم ! مجھ کو بتا د و ! مجھے تو بے چینی سی ہورہی ہے ۔
’’ابو نے کہا تو امی نے اپیا سے کہا،”تم چائے بناؤ اور وہاں پاپ کورن رکھے ہیں، وہ لیتی آؤ اور آپ پہلے چائے پی لیں اور بچوں کو دماغ لڑانے دیں ۔“
پھر سب بچے ، ابو کے ساتھ مل کر سموسا ،جوتے اور کرتا ،گوشت میں مماثلت تلاش کرتے رہے ،مگر آخر سب نے ہار مان لی ۔
بھیا نے کہا،”اچھا ایمن ! تم اب موبائل بھی دیکھ لو ! شاید کسی نے جواب دیا ہو۔“ایمن نے موبائل دیکھا اور نفی میں گردن ہلادی ۔”نہیں ،کسی کو بھی جواب نہیں آرہا ،امی ! آپ بتائیں نا !“
اتنے میں اپیا چائے اور پاپ کارن وغیرہ لے آئیں اور چائے درمیان میں رکھتے ہوئے کہا،”بھئی ،اچھی طرح سوچ لیں ۔’’اگر کسی کو جواب نہیں معلوم تو ہار مان لے۔ امی جواب بتادیں گی۔“
سب نے ہارمان کر چائے پینی شروع کر دی تو امی نے کہا،”کُرتا اس لیے نہیں پہنا کہ گلا نہیں تھا اور گوشت بھی اس لیے نہیں کھایا کہ گلا نہیں تھا۔
”اُف، کی ازبردست پہیلی ہے اور دوسری ،جلد ی بتائیں !“
امی نے کہا: ”نہیں ،اب اس جواب کو ذہن میں رکھ کر سوچو ،دوسری کا جواب کیا ہو سکتا ہے !“
”سموسا اور جوتا “ ایمن نے سوچا ،پھر بولی :”سموسا تو تلا ہوا نہیں تھا ،مگر جوتا ؟سمجھ میں نہیں آیا۔
’’امی نے کہا: ”نہیں ،تم ٹھیک پہنچی ہو۔ سموسا تلا ہوا نہیں تھا اورجوتے کے نیچے والے حصے کو بھی تلا کہتے ہیں تو جوتے میں تلا نہیں تھا۔“
ایمن نے کہا:”بہت خوب ،مزہ آیا،اب میں اپنی سب دوستوں سے پوچھوں گی۔“
ابو نے کہا: ”ہاں بھئی ،لگ رہا ہے کہ دماغ تازہ دم ہو گیا۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہیں ابو ! “بھیا نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
امی مطمئن ہوگئیں اور کہا :”تم لوگوں کے موبائل فون نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ تم سب کچھ دیر پہلے اس میں مصروف تھے اور میں تنہا بیٹھی تم سب کو دیکھ رہی تھی میرے ذہن میں یہی ایک ترکیب آئی کہ ہم سب کسی طرح ایک دوسرے سے مل کر باتیں کریں ،تا کہ اس مشینی زندگی میں کچھ محبت بھی شامل ہو جائے۔“
یہ سن کر سب نے امی کی تائید کی ۔ سب نے اپنے اپنے موبائل رکھ دیے۔ابو اخبار پڑھنے لگے ۔ اپیانے رسالے میں جو کہانی ادھوری چھوڑ دی تھی ،وہ پڑھنے لگیں ۔بھیا سے جو سودا منگوایا تھا ،وہ لینے چلے گئے۔ایمن ،امی کے ساتھ بیٹھ کر خاندان کے پرانے بزرگوں کی باتیں سننے لگی ۔سب کے چہروں پر بہار آگئی تھی ۔