* تمہارا لیڈر چور ہے، ڈاکو ہے، جھوٹا اور فراڈ یا ہے۔
٭ وُہ کیسے ؟
* اس نے اور اس کے حواریوں نے قومی خزانہ لوٹا ہے، کرپشن کی ہے۔
٭ میرے لیڈر پر کچھ ثابت نہیں ہوا لیکن کرپشن تو تمہارے لیڈر اور اس کے حواریوں نے بھی کی ہے، یہ چینی مافیا، آٹا مافیا، پٹرول مافیا وغیرہ کون تھے، چنانچہ چور ڈاکو تو تمہارا لیڈر بھی ہے۔
* تمہارے لیڈر نے آف شور کمپنیاں بنائیں ٹیکس بچانے کے لیے۔
٭ یہ کام تو تمہارے لیڈر نے بھی کیا اور پھر تسلیم بھی کیا، چنانچہ تمہارا لیڈر بھی دروغ گوئی سے مُبرا نہیں ہے۔
* تمہارے لیڈر کے بچے باہر ہیں۔
٭ بچے تو تمہارے لیڈر کے بھی باہر ہیں۔
* تمہارا لیڈر تو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے، لیکن فوج، عدلیہ اور احتساب کے اداروں پر تنقید بھی کرتا ہے۔
٭ تمہارا لیڈر بھی تو 2018میں اسی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آیا تھا اور آج اُسی فوج، عدلیہ اور احتساب کے اداروں پر تنقید کر رہا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ججوں پر دشنام طرازی کر رہا ہے، آئین توڑ اور قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
* تمہارے لیڈر نے سیاسی لیڈروں کے خلاف عوام کو اکسایا، گریبان میں ہاتھ ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی، خاتون لیڈر کیخلاف اخلاق باختہ تصاویر چلائیں۔
٭ تمہارا لیڈر بھی تو یہی کچھ کر رہا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف عوام کو اکسا رہا ہے کہ لوگ انہیں گلی محلوں میں نکلنے نہیں دیں گے، ان کے بچوں کی شادیاں نہیں ہوں گی، لوگ انہیں انڈے اور ٹماٹر ماریں گے، خواتین لیڈروں کے لیے غیراخلاقی عامیانہ زُبان درازی وغیرہ وغیرہ۔ تمہارے لیڈر کے ’’افکار عالیہ‘‘ کے مطابق اس کے پیروکاروں نے تازہ ترین مثال مسجد نبویؐ میں دھما چوکڑی مچا کر دی ہے۔
* تمہارا لیڈر کئی کیسز میں سزا یافتہ ہے، اسٹے آرڈرز کے پیچھے چھپتا ہے۔
٭ تمہارا لیڈر بھی تو یہی کرتا ہے، گزشتہ کوئی سات سال سے فارن فنڈنگ کیس میں اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپ رہا ہے اور کیس کا فیصلہ ہونے نہیں دے رہا۔ توشہ خانہ کیس کو بھی جسٹیفائی کر رہا ہے، فرح گوگی کی ایڈووکیسی اور اس کی نیک نامی کی قسمیں کھا رہا ہے۔
* تمہارا لیڈر بھی کوئی ایسا پاکباز نہیں ہے، ماضی میں شوبز کی کئی خواتین کا نام لے کر اور دیگر کئی ایسے الزامات اس پر لگتے رہے ہیں۔
٭ تمہارے لیڈر کے پاس کونسا ایسا پاکدامنی و پاکیزگی کا سر ٹیفکیٹ موجود ہے۔ بتاتے کیوں نہیں سیتا وائٹ کون تھی اور ٹیرین سے تمہارے لیڈر کا رشتہ کیا ہے؟ اس سے قبل لندن میں وہ کیا کیا کرتا رہا، یہ بھی سامنے لاؤ۔ ابھی تو ’’آخری خانہ آبادی‘‘ کا سچ سامنے آنا باقی ہے۔
* تمہارا لیڈر لندن بھاگا ہوا ہے، ہمت ہے تو پاکستان آئے اور عدالتوں کا سامنا کرے۔
٭ تمہارا لیڈر تو پاکستان میں رہتے ہوئے بھی عدالتوں سے بھاگ رہا ہے، وُہ تو پہلی بار اقتدار میں آیا تھا اس لیے بچتا رہا اب اس پر بھی مقدمات ہیں، کچھ ریڈی ہو رہے ہیں اور یہ کیسز وہی ادارے بنائیں گے اور وہی عدالتیں سنیں گی جن پر تمہارے لیڈر کو اندھا اعتماد تھا اور وہ میرے لیڈر کو انکا سامنا کرنے کی دُہائی دیا کرتا تھا۔
* تمہارا لیڈر تو اوّل درجے کا دروغ گو ہے، ججوں کو مینج کرتا ہے، کبھی کیلبری فاؤنٹ اور کبھی قطری خط، آج تک یہ ایون فیلڈ لندن کے فلیٹس کی منی ٹریل تو دے نہیںسکا۔
٭ لیکن تمہارا لیڈر تو صدا سے جھوٹا ہے، یہ ساڑھے تین سال پاکستان کے عوام سے جھوٹ بولتا اور یوٹرن لیتا رہا، اور اب ’’امریکی خط‘‘ کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے اپنے معصوم و اندھے مقلدین کو گمراہ کر رہا ہے حالانکہ امریکہ سمیت ملک کے مقتدر ادارے اس پروپیگنڈے کو سرے سے غلط قرار دے چکے ہیں۔ میرا لیڈر تو لندن کی عدالتوں سے سرخرو ہو رہا ہے، کاوے موسوی ٹیلی ویژن پر آ کر اُس سے غیرمشروط معافی کا طلبگار ہے، کئی ججوں نے علانیہ کہا ہے کہ میرے لیڈر کے خلاف مصنوعی بیانیہ تشکیل دیا گیا اور کیسز پولیٹکل موٹی ویٹڈ تھے۔
* تمہارا لیڈر ’’قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘ کی رقم کا حساب دے۔
٭ اور تمہارا لیڈر ’’ڈیم فنڈ‘‘، اسپتال کے چیریٹی فنڈ اور دیگر کئی فنڈز کا حساب دے۔
* تمہارے لیڈروں کی امپورٹڈ حکومت ہے، یہ امریکہ کے ایما پر ’’لوٹوں‘‘ کی مدد سے بنائی گئی ہے۔
٭ تو تمہارے لیڈر کونسے قطب اور نیکو کار تھے، تمہارے لیڈر کی حکومت بھی تو ایک خاص انتظام کے تحت ادھر اُدھر کے ’’لوٹوں‘‘ کے طفیل ہی بنوائی گئی تھی، عوام کے ووٹوں سے نہیں۔
* تمہارا لیڈر یہ ہے اور وُہ ہے۔
٭ تمہارا لیڈر بھی یہ ہے اور وُہ ہے۔
پچھلے 74برس میں ہم جس چیز میں خود کفیل ہو سکے وُہ وطنیت اور مذہب کے نام پر غداری و کُفر کے فتوے بانٹنے میں ہوئے، نتیجتاً عوام کی بڑی تعداد مزاجاً تساہل پسند اور علم و تحقیق کے بجائے سُنی سُنائی باتوں پر رائے قائم کرنے کے عادی ہوتے جا رہی ہے چنانچہ ایسے ہم وطنوں کو کسی بھی نعرے پر اُکسانا اور کوئی بھی مفاد حاصل کرنا کسی بھی گروہ و جماعت کے لیے چٹکی کا کھیل ہے اور پاکستان کے بعض ناہنجار گروہ اور کج روش سیاستدان اپنے لوگوں کے اس رویے کا فائدہ اُٹھا کر اپنا ’’اُلو‘‘ سیدھا کر رہے ہیں اور بخالت مجموعی عوام مرزا غالبؔ کی نظر میں یوں ہیں کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں!