• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ انصار علی

’’آٹھویں جماعت میں پہنچ گیا ہے، مگر اسکول سے شکایات آنا بند نہیں ہوئیں آخر یہ کرے گا کیا؟ دن بھر موبائل موبائل!‘‘ مڈٹرم ٹیسٹ میں انتہائی کم نمبر لینے اور کلاس میں عدم دلچسپی کے باعث ایک بار پھر بابا کو پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں عاشر کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اُس پر برس پڑے تھے۔

’’نہیں بابا! وہ… وہ میں!‘‘ اس نے صفائی پیش کرنا چاہی۔’’کیا وہ…!‘‘ اسی لمحے بابا کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ وہاں سے کھسک لیا۔

’’ہنہ…! اب کھانسیں رات بھر، اللہ جانے دن بھر کتنی سگریٹیں پھونکتے ہیں۔‘‘ جب اس کی ٹیچر نے سگریٹ نوشی کے نقصانات پر لیکچر دیا تو اس وقت سے ہی اسے بابا کی کھانسی مشکوک لگنے لگی تھی۔ وہ بھی اسی طرح کھانستے تھے جیسا ٹیچر نے بتایا تھا۔

رعب ایسے جھاڑتے ہیں جیسے خود بڑے قابل ہوں… بس پڑھو، پڑھو اور پڑھو۔ وہ بستر پر لیٹا مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔

٭…٭…٭

عاشر اور اس کی بہن شہر کے بڑے اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ بہن تو پڑھائی میں اچھی تھی، مگر عاشر پڑھنے سے بھاگتا تھا۔ یہی غم بابا کو گھائل کر ڈالتا تھا۔

عاشر کی کلاس کو مختلف اداروں کے تعلیمی دوروں پر لے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ صبح سے سہ پہر تک دو نامور صنعتوں کا دورہ کروانے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ ابھی وقت ہے کیوں نا ایک معروف کیمیکل انڈسٹری کا دورہ بھی کرلیا جائے، چونکہ اس کے مالک کے اسکول منتظمین سے روابط بھی تھے لہٰذا آسانی سے اجازت مل گئی۔ 

عاشر نے جب اس کیمیکل انڈسٹری کا نام سنا تو چونک گیا کہ اس کے بابا تو اسی کیمیکل انڈسٹری میں کام کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد تمام بچے انتہائی ٹھنڈے، خوبصورت اور آرام دہ فرنیچر سے مزین بڑے سے ہال میں موجود تھے۔اوہ…! تو یہاں مزے کرتے ہیں دن بھر… گھر آکر کیسے کہتے ہیں کہ تھک گیا ہوں… اے سی میں رہتے ہیں اور ماما ہمیں ایسے جتلاتی ہی جیسے بابا ہم پر بڑا احسان کررہے ہوں۔ نجانے مجھے کچھ عرصے سے اپنے بابا کےلئے اس کے دل میں کہاں سے اتنی عداوت آگئی تھی۔

تمام بچوں کو گروپ میں تقسیم کرکے فیکٹری کے مختلف حصوں سے متعارف کروانے کا عمل شروع ہوا۔

کئی ٹھنڈے کمروں، پرآسائش راہدریوں سے گزر کر جیسے ہی اصل مقام تک آئے، تمام بچوں نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا کہ کیمیکل کی بو ناقابل برداشت تھی۔ اگلے ہی لمحے تمام بچوں کو حفاظتی چشمے اور ماسک فراہم کئے گئے، مگر جیسے جیسے آگے بڑھتے جارہے تھے، گھٹن کا احساس بڑھتا جارہا تھا پھر ایک ایسا ہال آیا جہاں اندر جانا منع تھا حتیٰ کہ وہاں کے ورکر انتہائی حفاظتی وردی پہنے ہوئے تھے۔

یار عاشر! ہال کا دروازہ کھولنے پر کیسی آگ سی محسوس ہوئی ہے اور بدبو بھی! اوہو کیسے کام کرتے ہوں گے یہ لوگ یہاں پر…! جہنم ہے جہنم!

ہاں یار! واقعی میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ عاشر نے اپنے دوست کی تائید کی۔ ابھی یہ آگے ہی بڑھے تھے کہ بابا کی آواز پر عاشر چونکا۔ یہ میرا بیٹا عاشر ہے۔

بابا نے اس خطرناک ہال سے نکل کر وردی کا اوپری حصہ اتار دیا تھا اور اپنے دوست کو متعارف کروا رہے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ بابا کے لہجے میں کافی فخر تھا۔

بابا اتنی خوشی سے کیوں بتا رہے ہیں جبکہ میں تو…! اسے اپنے نکمے پن کا احساس تو تھا نا…!

سلام دعا کے بعد بابا اور ان کے دوست آگے بڑھ گئے، مگر وہ بابا سے تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ کیا وہ واقعی اس ’’جہنم‘‘ میں ڈیوٹی دیتے ہیں؟ تم اپنے بیٹے کو اتنے مہنگے اسکول میں پڑھوا رہے ہو۔ نہ جانے کیوں پیچھے آتے سوال کرتے عاشر کی زبان انکل کے سوال پر رک گئی۔

بس یار! میرا خواب ہے میں چاہتا ہوں میرا بچہ کل میری جگہ پر نہ ہو بلکہ ہمارے افسروں کی جگہ پر ہو۔ بابا کی آواز میں کتنی آرزوئیں پنہاں تھیں۔تو تم اس کی فیسوں کو پورا کرنے کے لئے یہاں اوور ٹائم کرتے ہو، جہاں ہمارا آٹھ گھنٹے کام کرنا مشکل ہے۔ یار! اتنی مشکل میں تو نہیں ڈالو اپنے آپ کو۔‘‘

’’نہیں میرے بچوں کا روشن مستقبل میری نظروں کے سامنے رہتا ہے نا تو میں تمام حبس، بو، اپنا دمہ سب کچھ بھول جاتا ہوں۔‘‘ بابا کسی جذبے سے سرشار کہے جارہے تھے۔

’’دمہ!‘‘ عاشر پر تو گویا آخری جملہ بجلی بن کر گرا۔ اف تو…! اس کے قدم وہیں جم گئے حتیٰ کہ بابا اور ان کے دوست نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

مجھ کو چھائوں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں

میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کے روپ میں

پیارے بابا! آپ ہمارے لئے اتنی محنت کرتے ہیں۔ میں بھی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آج سے پوری لگن سے پڑھوں گا اور آپ کے تمام خواب پورے کروں گا۔ میری پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کردیں۔ آپ کا عاشر۔ اس نے ایک کارڈ بنایا اور بابا کے تکیے کے نیچے رکھ دیا کیونکہ فی الحال بابا کے سامنے جانے کی ہمت نہ تھی۔

پیارے بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے والدین کی قدر کرنی چاہیے۔ دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ ہونا چاہیے کیوں کہ زندگی کے تپتے صحرا اور نفسانفسی کے دور میں ماں باپ ہی وہ ہستی ہیں جو اولاد کی معمولی سی تکلیف پر پریشان اور بے چین ہو جاتے ہیں۔ باپ جو زمانے کے سرد و گرم برداشت کرتے ہوئے مسلسل ایک مشین کی طرح کام کئے جاتا ہے تاکہ اس کے جگر گوشوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہے۔ جو اولاد کے سکھ، خوش حالی، تعلیم، صحت اور روشن مستقبل کی خاطر سخت محنت کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔ صبح سے شام تک رزق کی خاطر ہزار صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچوں کو دیکھتے ہی اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔ آپ کو بھی چاہیے کہ ان کی خواہش کا خیال رکھیں محنت سے پڑھیں ۔انکے آرام کا خیال رکھیں۔