• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرول سبسڈی جاری رکھنا غلط، ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں، سخت فیصلے کرنا ہونگے، معاشی ماہرین

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور سخت معاشی اقدامات کی ضرورت کے تناظر میں جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے چوٹی کے معاشی ماہرین ممتاز صنعتکار عارف حبیب، ماہرین معاشیات اکبر زیدی، یوسف نذر ، محمد سہیل، خاقان نجیب اور عابد سلہری نے حکومت کے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری رکھنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ پٹرول سبسڈی جاری رکھنا غلط ہے، ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ہے، سخت فیصلے کرنا ہوں گے، معیشت پر سیاست بند، گاڑیاں پٹرول اور بجلی کا استعمال کم کیا جائے اور درآمدات میں کمی لائیں۔ حکومت درست فیصلے کرے۔

 مسئلہ ڈالر کی کمی کا ہے اسے حل کرنا چاہئے، مسئلہ ایکسٹرنل اکاؤنٹ پر آرہا ہے، پہلا کام درآمدات میں کمی کرنی چاہئے، معیشت ٹھیک پرفارم کر رہی ہے، ایک آدھ سال بعد مہنگائی میں کمی آئے گی،حکومت کا پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ درست نہیں، حکومتی مالی وسائل پہلے ہی دباؤ میں ہیں، بجلی کی لوڈمینجمنٹ کرنی چاہئے.

 پاکستان کا مالی خسارہ8سے ساڑھے 8فیصد ہوگیا ہے،6ارب ڈالر ایف ای 25اکاؤنٹس میں رکھا ہے، ایک دن چھٹی کرنےسے 800میگاواٹ بجلی بچتی ہے، میرااندازہ ہےٹیکس چھوٹ 2ہزار ارب ہے، حکومت ہر 15دن میں قیمت بڑھاتی رہتی تو اثر سلسلہ وار منتقل ہوتا رہتا، سیاسی غیریقینی صورتحال ختم کرنے کی ضرورت ہے، مہنگائی مکائو مارچ سابق اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے گلے پڑگیا ہے.

 پیٹرول پمپ پر قیمت دو نہیں رکھ سکتے، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کی طرف جانا پڑے گا، حکومت ایک سال تک بیٹھے اور چیزیں بہتر کرنے کی کوشش کرے، حکومت کو الیکشن جیتنا ہے تو ایک ہی حل ہے ابھی سخت فیصلے لو، حکومت میں بڑے فیصلے کرنے کا دم نہیں تو گھر جاکر بیٹھ جائیں، فارن ایکسچینج ریزروز اگست 2021میں بلند ترین تھے.

پاکستان کی برآمدات بھارت اور بنگلادیش کے مقابلے میں بہت کم ہیں، پیٹرول کی درآمدات کا اضافہ13.2ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا55 فیصد تھا،رواں مالی سال پیٹرول کی درآمدات دوگنا ہوئی ہے، بہتر ہوگا پیٹرولیم کی قیمتیں ابھی بڑھا دی جائیں، پیٹرول کی قیمت نہ بڑھانے سے مہنگائی 20فیصد تک ہوسکتی ہے.

 ’’نیا پاکستان‘‘ کے خصوصی پروگرام میں ماہرین کا کہنا تھا کہ حکومت کو درست سمت میں اقتصادی فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی ہوگی لیکن یہ سبسڈی جاری رکھی گئی تو روپے پر دبائو آئے گا، مالی خسارہ بڑھے گا، جس کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی ہوگی۔

 پروگرام کے میزبان شہزاد اقبال کا پہلا سوال تھا کہ کیا موجودہ حکومت کا پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ درست ہے اور پٹرول پر سبسڈی کے خاتمے سے ہونیوالی مہنگائی کے اثرات سے بچنے کیلئے حکومت کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں، دوسرا سوال پاکستان میں ایکسٹرنل اکاونٹ پر پڑنے والے دبائو اور فارن ایکسچینج کے ذخائر میں کمی کو روکنے کے اقدمات سے متعلق تھا۔

 تیسرے سوال میں پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات حقیقی ہیں اور پاکستان کو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کیا تجاویز دیں گے۔

 ماہرین سے پہلا سوال پوچھا گیا کہ کیا حکومت کا پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ درست ہے؟ اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے جو مہنگائی کا طوفان آئے گا حکومت عوام کو اس کے اثرات سے کیسے بچا سکتی ہے؟ اس پر تمام ماہرین نے حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔ ممتاز کاروباری شخصیت اور صنعتکار عارف حبیب نے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا دبائو ہو یا نہیں، حکومت کے اپنے فنانسز کیلئے فیصلہ غلط ہے۔

یہ اصول اپنانا چاہئے کہ کم از کم پٹرول کی قیمت عوام پر منتقل کی جائے، حکومت اپنے ٹیکسز اور لیوی پر ایسے فیصلے کرسکتی ہے لیکن قیمت کا بوجھ منتقل ہونا چاہئے۔ یہ ضرور ہے کہ مہنگائی بڑھے گی جو ایک سال کے بعد ہی نیچے آنا شروع ہوگی اور اگر آپ ایکشن نہیں کریں گے تو یہ تو پھر ڈیزاسٹر ہوجائے گا اور پھر مسائل پیدا ہوں گے۔

 ہمیں آج اس پر بات کرنا چاہئے کہ ان ایشوزیا مسائل کا حل کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ جو ہماری انٹرنل اکانومی ہے وہ درست پرفارم کررہی ہے ہمارے ایکسپورٹ بڑھے ہیں ، ہمارے ریمیٹینس بڑھے ہیں صرف جو مسئلہ آرہا ہے وہ ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں آرہا ہے اور ایکسٹرنل اکاؤنٹ پر بھی جو ہماری کمٹمنٹ ہے اس پر مسئلہ آرہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ ہمارا فوکس اس بات پر ہونا چاہئے کہ ہم اس مسئلے کو کس طرح سے حل کرسکتے ہیں میری نظر میں پہلا کام جو ہم کرسکتے ہیں وہ امپورٹ کو تو کم کریں، آئندہ کے لئے جو نقصان ہوگیا ہے اس کو روکنا ضروری ہے.

 اگر حکومت اقدامات لیتی ہے تو اس سے عوام میں اعتماد آئے گا کہ حکومت جو ہے وہ فیصلے کررہی ہے اگر آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ سبسڈیز کو ختم کرنے کی ہے اور ان کے جو ریسورسز کہے گئے ہیں وہ تویہ ہیں کہ پی ایس ڈی پی کم کریں، اگر گروتھ پر اثر پڑتا ہے تو ہمارا جو ایکسٹرنل اکاؤنٹ ہے اس کو مینج کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دیں کہ وہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے فارن کرنسی ارینج کرے جو ریکوائرمنٹ ہے ۔ویسے بھی جب وہ ڈالرزدے رہے ہوتے ہیں تو وہ بورو کرکے دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات کرتے ہیں تو میرے خیال میں اس سے ریلیف آنا شروع ہوجائے گا۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے بھی پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کے فیصلے کو غلط اور اسے اقتصادی کی بجائے حکومت کا سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے یہ مسئلہ نہیں ہے کہ پیٹرول کی قیمت کتنی ہو، کیا ہو،میرے خیال سے سارے اقتصادی معاملات سیاسی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں۔

معاشی امور کے ماہر یوسف نذر نے بھی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سیاسی طور پر بھی غلط ہے اور معاشی طور پر بھی غلط ہے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے جس قدر مہنگائی ہونا تھی، پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے سے اس سے زیادہ مہنگائی ہوگی کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید گرے گی، جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔

 اگر آپ آج بھی عمران خان کو پی ٹی آئی کو لاکر بٹھادیں اگر ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو بہتر ہوگا کہ ان کے انڈر ہوں بجائے اس کے کہ کسی اور کے ہوں۔ محمد سہیل نے بھی حکومتی فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف اس حکومت کا سبسڈی برقرار رکھنے کا فیصلہ غلط تھا بلکہ سابقہ حکومت کا قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔

اسی طرح ماہر معاشیات خاقان نجیب نے بھی کہا کہ حکومت کا فیصلہ غلط ہے۔ موجودہ حکومت کو سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ15اپریل کو ہی کرلینا چاہئے تھا اور ٹارگٹڈ سبسڈی دیتے۔ جبکہ ماہر معاشیات عابد سلہری نے بھی فیصلے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مہنگائی مکائو کا نعرہ حکومت کو لے ڈوبا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت کو میں نے تفصیل سے ٹارگٹڈ سبسڈی کا فارمولا دیا تھا جو یہ تھا کہ موٹر سائیکل اور رکشے کا ملکیت کا جو ڈیٹا ہے وہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پر ہے این ایس سی آر کی جو خاقان صاحب بات کر رہے تھے وہاں پر آپ سی این آئی سی کو دیکھ لیں اس کا اسکور کارڈ کیا بنتا ہے اور جو لوگ مستحق ہیں ان کو کیش دے دیتے سب کے لیے پیٹرول کی قیمت ایک ہوگی.

 پیٹرول کی قیمتیں دو نہیں رکھ سکتے کیوں پیٹرول پمپ پر مس مینجمنٹ شروع ہوجائے گی لیکن آپ جو بھی ماہانہ آمدنی رکھتے ہیں وہ ڈیٹا موجود ہے ایکسائز اور دوسرے ڈیٹا کو ملا کر ان کو براہ راست مہینے کا دو ہزار تین ہزار روپیہ دیتے جاتے کہ جو ایکسٹرا کاسٹ پر رہی ہے یہ آپ کو ملتا جائے گا یہ بہت آسان ہے اس کو کیا جاسکتا ہے۔

 ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ سبسڈی ختم کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے سوال یہ ہے کہ سبسڈی کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا موجودہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب لے جاسکتا ہے؟

 ماہرین کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ عارف حبیب نے کہا کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سے پہلے ہم چار سو ملین ڈالر کے زرمبادلہ ہونے کے باوجود کم بیک کرچکے ہیں۔

 یوسف نذر کا کہنا تھا کہ صورتحال تشویشناک ہے، کیونکہ امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہیں اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہیں۔ جبکہ ڈاکٹر اکبر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان سری لنکا یا لبنان نہیں ہے۔ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ 1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد حالات زیادہ خراب ہوئے لیکن پاکستان نے کم بیک کیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات موجودہ حکومت طے کرے گی، نگراں حکومت کرے گی یا الیکشن جیت کر آنے والی حکومت کرے گی۔

 اس حوالے سے ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ مارکیٹ کو کلیئرٹی دے، ہوم ورک کرے اور آئی ایم ایف کے بورڈ ممبرز کے ساتھ سفارتکاری کرے۔

عابد سلہری کا کہنا بھی یہی تھی کہ دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان یا خطرہ نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ میکرو اکنامکس پر کام کرے۔ محمد سہیل نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فی الحال ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اگر اگلے آٹھ نو ماہ ایسے ہی رہے اور سخت فیصلے نہیں کئے گئے تو دیوالیہ ہوسکتا ہے۔

اس سوال پر کہ حکومت کو سبسڈی واپس لینے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ کے جواب میں ماہرین نے حکومت کو اپنی تجاویز سے بھی آگاہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نجیب ہارون نے حکومت کو ٹارگٹڈ سبسڈی کا مشورہ دیا اور اس کیلئے نیشنل سوشو اکنامک سروے اور نادرا کے ڈیٹا پر انحصار کرنے کا کہا ہے۔

 عابد سلہری نے بھی ٹارگٹڈ سبسڈی کی بات کی اور بتایا کہ اس کیلئے سابق حکومت کے دور میں ایک قابل عمل پلان بھی مرتب کرکے دیا تھا جس میں مستحقین کو گھروں میں رقوم فراہم کی جائیں کیوں کہ پٹرول پمپ پر دو الگ قیمتیں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

 شرکا سے جب اس معاملے میں رائے معلوم کی گئی کہ پاکستان کو فارن ایکسینچ ریزرو میں کمی اور ایکسٹرنل اکائونٹ میں بہتری کیلئے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟ اس کے جواب میں عارف حبیب نے کہا کہ پاکستان کو درآمدات کم اور آئی ایم ایف سے بہتر ڈیل کرنا ہوگی۔

 اس کے علاوہ انہوں نے تجویز کیا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ ایک سال کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر کو اپنی درآمدات کیلئے ڈالرز کا بندوبست خود کرنے دیا جائے۔ یوسف نذر کا موقف تھا کہ Invisible سبسڈیز کا خاتمہ کرے، انہوں نے شہزاد اقبال کے سوال پر بتایا کہ فرٹیلائزر سیکٹر کو 1٫3 کھرب کی سبسڈی دی جا رہی ہے جو کسان تک نہیں پہنچتی۔

 ایسی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ جس کے جواب میں عارف حبیب نے کہا کہ اس سبسڈی کا فائدہ کسان کو ہو رہا ہے، کھاد کی جو بوری عالمی مارکیٹ میں 7500روپے کی ہے، پاکستان میں کسان کو1900میں مل رہی ہے۔ اکبر زیدی نے مشورہ دیا کہ حکومت اکنامک ایمرجنسی ڈکلیئر اور پی ایس ڈی پی کم کر دے۔

 الیکشن جیتنا ہے تو ان کے پاس حل ایک ہی ہے ابھی سخت فیصلے لو ایک سال تک بیٹھو اور چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرو۔ ڈاکٹر خاقان نجیب کا موقف تھا کہ درآمدات کم کرنا ہوں گی۔ ایل این جی کی مہنگی درآمد کی بجائے سستے توانائی کے ذرائع پر کام کرنا ہوگا اور لوڈ مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ اور ٹیکس استثنی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

 محمد سہیل نے رائے دی کہ درآمدات کم کرنا ہوں گی اور فارن ایکسینچ اکائونٹس میں پڑے چھ ارب ڈالرز اسٹیٹ بینک کے ریزرو میں لانے کیلئے پرکشش اسکیمز اور اقدامات کئے جائیں، پاکستان میں ، پچھلے سالوں میں جو کرائسز آئے ہیں اس میں آئی ایم ایف کا فارمولا یہ ہے کہ لوگ ہر چیز میں اپنی کنزمپشن کو کم کریں۔

 عابد سلہری کا موقف تھا کہ سیاسی غیریقینی کا خاتمہ کرنا ہوگا اور بنیادی ایشوز پر کام کرنا ہوگا۔ خاقان نجیب نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے علاوہ 2٫3ارب ڈالر چین سے آنے ہیں جس سے صورتحال بہتر ہوگی لیکن اس کیلئے ہوم ورک کرنا ہوگا۔

محمد سہیل کی یہ رائے بھی تھی کہ حکومت ریزرو مزید گرنے سے روکے۔ اور عابد سلہری نے تجویز دی کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک کو پتہ ہونا چاہئے کہ حکومت کتنا عرصہ قائم رہے گی۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کی سربراہی میں بننے والی اتحادی حکومت سخت معاشی فیصلے لینے میں کمزوری دکھا رہی ہے۔

حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ وقتی طور پر مسترد کر دیا ہے اور عمران خان حکومت کی جانب سے پٹرول پر سبسڈی کو برقرار رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن عمران خان کی جانب سے سبسڈی کے فیصلے پر مسلسل تنقید کرتی رہی ہے لیکن سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ نہیں کر پا رہی۔

اہم خبریں سے مزید