• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے شہروں کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد کرائے کے مکانات میں رہتی ہے، جب کہ اب قصبات میں بھی کرائے داروں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔یوں کرائے دار اور مکان دار کی صُورت دو طبقات وجود میں آئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہمیں ہی درپیش نہیں، بلکہ پوری دنیا میں یہی صُورتِ حال ہے۔کرائے داروں کے لیے ہر کچھ عرصے بعد کسی نئے مکان میں منتقل ہونا دردِ سر سے کم نہیں، تو مکان مالکان کی شکایات اور مسائل کا سلسلہ بھی خاصا طویل ہے۔ آئیے! اِس اہم عوامی معاملے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتے ہیں۔

بڑی تلاش سے’’ ملتا ہے مکان‘‘ اے دوست…

اچھے اور مناسب مکان کی تلاش ایک مسئلہ نہیں، بلکہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مکان کی تلاش کے دَوران کئی معاملات پیشِ نظر رہتے ہیں۔ نیا مکان، کاروبار یا ملازمت کے مقام سے قریب ہو کہ آنے جانے میں وقت، فیول یا بس کرائے کی مد میں بچت ہو سکے۔ کاروباری مراکز نزدیک ہوں تو اچھا ہے، اِس طرح سودا سلف خریدنے میں مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بچّوں کے اسکولز کا معاملہ بھی بہت پیچیدہ ہوتا ہے کہ اُنھیں زیادہ دُور نہیں بھیجا جاسکتا، اِس لیے مکان کے انتخاب میں اُن کے اسکول وغیرہ کی لوکیشن بھی مدّ ِنظر رکھی جاتی ہے۔ اگر اُسی شہر میں رشتے دار بھی رہتے ہوں، تو اُن کے آس پاس مکان لینے کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ میل ملاپ آسان رہے۔ پھر علاقے کے ماحول، باشندوں وغیرہ کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہاں ایڈجسٹ ہوا جا سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ وہاں کا ماحول ہمارے مزاج اور ضروریات سے کس قدر ہم آہنگ ہے؟

کرائے داروں کو ایسے مکان کی تلاش ہوتی ہے، جہاں پانی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ایشو ہو اور نہ ہی گیس کی بندش کا چکر ۔خاص طور پر کراچی میں پانی، بجلی کی فراہمی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اِسی لیے کسی بھی علاقے میں مکان تلاش کرتے ہوئے پہلا سوال یہی پوچھا جاتا ہے کہ’’ پانی کتنے دن بعد آتا ہے؟‘‘ اور ’’لوڈشیڈنگ کا کیا شیڈول ہے؟‘‘ اگر یہ دونوں معاملات تسلّی بخش ہوں، تو عموماً دیگر چھوٹے موٹے مسائل پر سمجھوتا کرلیا جاتا ہے۔ ایسا مکان چاہیے ہوتا ہے کہ مختلف مقامات سے وہاں تک رسائی آسان ہو۔ بس اسٹاپ، مارکیٹس، کھیل کے میدان، پارکس قریب ہوں، گٹر اُبلتے ہوں اور نہ ہی کچرے کے ڈھیر ہوں۔ گلیاں صاف اور کشادہ ہوں۔ مکان اور فلیٹ ہوا دار ہو، ویسٹ اوپن ہو تو کیا ہی بات ہے۔

بہت سے لوگ اپنی کمیونٹی ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں، تو وہ اُن علاقوں کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں اُن کی کمیونٹی بستی ہو۔ نیز، اِس ضمن میں سماجی حیثیت کو بھی کافی اہمیت دی جاتی ہے ۔ لوگ ایسے علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے سماجی حلقے میں اُنھیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اِس طرح کے جملے سُننے کو نہ ملیں کہ’’ ارے آپ کہاں رہ رہے ہیں یاررر …‘‘ بہت سے لوگ اِسی ناک کے چکر میں چادر سے زاید پاؤں پھیلا لیتے ہیں۔ وہ کسی درمیانے درجے کے علاقے میں بھی ’’ باعزّت‘‘ طریقے سے رہ سکتے ہیں، مگر اپنے نام نہاد سماجی مقام کے نام پر کسی منہگے علاقے میں مکان لے کر خود کو مالی مسائل میں جکڑ لیتے ہیں۔

ہر خواب کے حصّے میں کہاں تعبیر…

جب اِسی طرح کے خواب لیے مکان کی تلاش شروع ہوتی ہے، تو پتا چلتا ہے کہ کہیں پانی کا مسئلہ ہے، تو کہیں بجلی کی آنکھ مچولی استقبال کے لیے موجود ہے۔مکان تنگ گلیوں میں، بہت اندر جا کر ہے، ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اگر خواہشات کے مطابق ہے، تو رینج میں نہیں۔ یوں کرائے دار کی حالت اُس کنوارے کی طرح ہوجاتی ہے، جسے اپنے لیے ایک خُوب صُورت، کم عُمر، مال دار، تعلیم یافتہ، سگھڑ، سلیقہ شعار، گھریلو کام کاج کی ماہر لڑکی کی تلاش ہوتی ہے۔ 

اِسی تلاش میں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں اور پھر ہر سال شرائط بھی ایک ایک کرکے کم ہونے لگتی ہیں، یہاں تک کہ ایک روز جب کسی نے اُس سے رشتے کی شرائط کا پوچھا، تو جھنجھلا کر بولا،’’ بس اب ایک ہی شرط ہے کہ کوئی خاتون ہو۔‘‘ اسی طرح کرائے دار بھی سمجھوتے کرتے کرتے ’’ بس گزارے لائق مکان ہو‘‘تک آ ہی جاتے ہیں۔

گھومتے پِھرتے بروکرز، اسٹیٹ ایجنٹس کی چکنی چپڑی باتیں

سب سے پہلے تو دوست احباب اور محلّے والوں سے مکان کی تلاش میں مدد کی درخواست کی جاتی ہے، جب کام نہیں بنتا، تو پھر بروکرز اور اسٹیٹ ایجنٹس سے رابطے کا کڑوا گھونٹ بَھرنا پڑتا ہے۔ جب اُن کے پاس جائیں، تو وہ پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ’’ صاحب !آپ کی رینج کیا ہے؟‘‘ یہ سوال ضروری بھی ہے کہ اِس سے اُنھیں کلائنٹ کی مالی حیثیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کے مطابق کوئی مناسب مکان اُنھیں دِکھا دیا جاتا ہے۔ تاہم، تجربے کار لوگ کہتے ہیں کہ اِس سوال کا جواب بہت سوچ سمجھ کر دینا چاہیے۔

اگر رینج زیادہ بتا دی، تو وہ منہگے سودے ہی کروائیں گے کہ اِس طرح اُن کا کمیشن زیادہ بنے گا۔ ایجنٹ دونوں طرف سے ایک ماہ کے کرائے کے برابر فیس وصول کرتا ہے، تو جتنا کرایہ زیادہ، اُتنی فیس زیادہ۔ لیکن اگر آپ نے زیادہ ہوشیاری دِکھاتے ہوئے اپنی مالی گنجائش کچھ زیادہ ہی کم بتادی، تو اسٹیٹ ایجنٹ یہ سوچتے ہوئے آپ کو لفٹ نہیں کروائے گا کہ یہ کوئی ٹائم پاس شخص ہے۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی خاص علاقے میں مکان کی ضرورت ہو، تو پہلے کسی ذریعے سے وہاں کے کرائے معلوم کرلیں۔

ایجنٹ نے تو اپنا مال ٹھکانے لگانا ہے، اِس لیے وہ مکان یا فلیٹ کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دے گا، مگر آپ کو اُس کی باتوں میں آنے کی بجائے اپنی ضروریات اور بجٹ ہی کو مدّ ِنظر رکھنا چاہیے۔ یہ واقعہ تو سُنا ہی ہوگا کہ ایک بڑی بی نے کسی ضرورت کے تحت اپنا مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک اسٹیٹ ایجنٹ کو گاہک تلاش کرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔ چند روز بعد اخبار میں اُس مکان کا اشتہار یوں شایع ہوا’’شہر کی پرائم لوکیشن پر واقع مکان برائے فروخت، ویسٹ اوپن، اسکول، مارکیٹس، مالز، بس اسٹاپ چند قدم کے فاصلے پر۔ چوبیس گھنٹے پانی، لوڈ شیڈنگ نو ایشو، بہترین ماحول، پڑھی لکھی آبادی، اطراف میں تین پارکس، شہر کے بڑے اسپتال دو سے تین منٹ کی مسافت پر۔‘‘

بڑی بی اشتہار پڑھ کر اُس ایجنٹ کے پاس گئیں اور کہا،’’ بھائی! مجھے مکان نہیں بیچنا ۔مجھے تو آج ہی پتا چلا ہے کہ مَیں کس قدر اہم جگہ پر، کتنے شان دار مکان میں رہتی ہوں۔‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ سے مکانات یا فلیٹس دِکھانے کو کہیں، مگر جب وہ دِکھا رہا ہو، تو ہاتھ باندھ کر اُس کی باتوں پر گردن نہ ہلاتے رہیں، بلکہ خود بھی تمام کمروں، باورچی خانے، واش رومز، گیلریز وغیرہ میں جاکر اچھی طرح مکان کا معاینہ کریں اور وہاں دست یاب تمام سہولتوں جیسے پانی، بجلی، صفائی، مینٹی نینس وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح معلومات کریں۔ آس پڑوس پر بھی ضرور نظر ڈالیں۔

ہمارے ایک پڑوسی، ظفر انصاری گزشتہ بیس برسوں سے کرائے کے مکانات میں رہتے چلے آ رہے ہیں۔ اس عرصے میں پانچ چھے مکانات تبدیل کر چُکے ہیں، یوں اُنھیں اِس فیلڈ کا خاصا تجربہ ہے، اُن کا کہنا ہے کہ’’جب بروکر کوئی مکان دِکھا رہا ہو، تو اُس مکان کی زیادہ تعریف یا زیادہ برائی نہ کریں کہ اس کا ایجنٹ پر اچھا تاثر نہیں پڑتا، البتہ، کسی ایسی چیز کی نشان دہی ضرور کردیں، جو وہاں موجود نہ ہو اور آپ کے لیے اہم ہو۔ جیسے اگر وہاں کار پارکنگ کی سہولت نہ ہو، تو کہہ دیں کہ ہم گاڑی کہاں کھڑی کریں گے یہ تو مستقل مسئلہ ہوگا۔ گاڑی نہیں ہے، تب بھی کوئی بات نہیں، کہہ دیں کہ لینے کا ارادہ ہے۔ 

اِس سے ایجنٹ کچھ زمین پر آجائے گا اور بھاؤ تاؤ میں آسانی ہوگی۔ اگر آپ کی رینج بیس ہزار روپے ماہانہ ہے اور وہ کہے کہ اس کے پاس پندرہ اور اٹھارہ ہزار کے فلیٹ بھی ہیں، تو اُنھیں نظرانداز نہ کریں،بلکہ اُن کا بھی معاینہ کرلیں، ممکن ہے، وہ آپ کے کام کے نکل آئیں۔ اِسی طرح اگر وہ کچھ زیادہ کرائے کے فلیٹس دِکھانا چاہے، تو وہ بھی دیکھ لیں کہ بارگیننگ کی گنجائش تو بہرحال رہتی ہے۔‘‘اُن کا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ’’ مکان کے متلاشی افراد کو کسی ایک ایجنٹ پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ جانا چاہیے، بلکہ کئی بروکرز سے بات کرنی مفید رہتی ہے کہ اس سے زیادہ آپشنز سامنے آجاتے ہیں۔‘‘

کئی کرائے دار یہ شکوہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ بروکرز عام طور پر ڈنڈی مار جاتے ہیں اور پوری بات نہیں بتاتے۔ ایک ایسے ہی کرائے دار صادق شہزاد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ مجھے کراچی ائیرپورٹ کے سامنے کے علاقے، گولڈن ٹاؤن میں کرائے پر فلیٹ چاہیے تھا، اِس مقصد کے لیے وہاں کے ایک بروکر سے رابطہ کیا اور معاملات طے پاگئے، بروکر نے بتایا تھا کہ’’ پانی کا تو کوئی ایشو ہی نہیں ہے، جب نل کھولو گے، پانی آئے گا‘‘، نلوں سے پانی تو واقعی آ رہا ہے، مگر وہ بورنگ کا ہے اور ہے بھی ناقابلِ استعمال۔‘‘

نیز، اسٹیٹ ایجنٹس سے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ وہ کرائے داروں کی بجائے مکان مالکان کے مفادات کا تحفّظ کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مکانات خالی ہوتے رہتے ہیں، جس سے بروکرز کی دہاڑی بھی لگتی رہتی ہے، اِس لیے وہ مالکان سے بنا کر رکھتے ہیں تاکہ جب بھی مکان خالی ہو، وہ اُنھیں نیا کرائے دار ڈھونڈ دیں۔جب کہ کرائے دار کا کیا ہے، وہ آج اُن کے علاقے میں ہے، تو عین ممکن ہے کہ اگلے برس کسی اور علاقے میں جابسے، اِس لیے ایجنٹ کو اُس سے تعلقات کا کیا فائدہ؟

اِن کا مؤقف سُننا بھی ضروری ہے

اسٹیٹ ایجنٹس اور بروکرز پر بہت تنقید ہوتی ہے، جس کی ایک جھلک آپ کی نظر سے گزر بھی چُکی ہے، مگر اُنھیں بھی کرائے داروں سے بہت سے شکوے شکایات ہیں۔ناظم آباد، حیدری پرائڈ کے ایک اسٹیٹ ایجنٹ، عبدالوحید کا اِس ضمن میں کہنا ہے،’’ دیکھیں جی! ہم صبح سے شام تک یہاں اپنی روزی روٹی کے لیے بیٹھے ہیں، اِس لیے ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کلائنٹ کسی طرح واپس نہ جائے اور اُسے اُس کی پسند کا مکان یا فلیٹ دِلوا دیں، کیوں کہ اِس سے ہمیں بھی فیس ملتی ہے، مگر عام طور پر مکان کے متلاشی بھی زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اب ونڈو شاپنگ کی طرح بس مکان پر مکان دیکھتے اور اُنھیں مسترد کیے جاتے ہیں، حالاں کہ وہ اُن کے بجٹ اور ضروریات کے مطابق بھی ہوتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر ایک فیملی کو ایک ہفتے میں پانچ فلیٹس دِکھا چُکا ہوں، مگر انھیں کوئی بھی پسند نہیں آیا۔ کل شام جو فلیٹ دِکھایا، وہ صرف اِس بنیاد پر مسترد کردیا گیا کہ اُس کی کھڑکیوں کا سائز کچھ چھوٹا ہے۔‘‘ہمارے ایک جاننے والے، محسن نور ایف بی ایریا بلاک 14 (واٹر پمپ چورنگی کے قریب) ایک اسٹیٹ ایجنسی کے ساتھ مل کر بروکری کا کام کرتے ہیں۔ جب اُن سے کلائنٹ کے رویّے سے متعلق سوال کیا، تواُنھوں نے اپنی شکایات کچھ یوں بیان کیں،’’ جب کوئی مکان لینے آتا ہے، تو بتاتا ہے کہ چھوٹی فیملی کے لیے مکان درکار ہے، مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو بہت سے افراد رہ رہے ہیں۔ 

اِسی طرح بہت سی فیملیز صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے بلڈنگ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اگر بچّوں کو نہ سنبھالا جائے اور وہ شور کرتے پِھریں یا گندگی پھیلائیں، تو پڑوسیوں کی جانب سے شکایات آنے لگتی ہیں۔ عام طور پر بچّے مکان یا فلیٹ کو گندا بھی کر دیتے ہیں۔ کئی بار آنے جانے کے اوقات کا مسئلہ بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح بعض فیملیز پانی وغیرہ کے استعمال میں احتیاط نہیں برتیں، یہ بھی تنازعے کا ایک بڑا سبب ہے۔ وقت پر کرایہ نہ دینا بھی ’’تُو تُو، مَیں مَیں‘‘ کی ایک بڑی وجہ ہے، خاص طور پر ملازمت پیشہ افراد کی جانب سے اِس طرح کے مسائل کثرت سے سامنے آتے ہیں کہ اُنھیں تن خواہ وقت پر نہیں ملتی ،تو کرایہ بھی تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔‘‘

پیشگی بھاری رقم ، اضافی کرایہ

کم آمدنی والوں کے لیے کوئی اچھا مکان لینے میں ایک بڑی رکاوٹ’’ بڑا ایڈوانس‘‘ بھی ہے۔ مالکان ایڈوانس کی مد میں چھے ماہ تک کا کرایہ وصول کرتے ہیں، جس کے ساتھ ایک ماہ کا پیشگی کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔ یہ رقم لینے کا مقصد ایک تو کرائے دار کے اچانک غائب ہونے سے بچنا ہوتا ہے، تو دوسرا مکان کو نقصان سے بھی بچانا مقصود ہوتا ہے کہ اگر زیادہ ٹوٹ پُھوٹ ہو، تو کرائے دار کی جانب سے دی گئی رقم سے نقصان پورا کیا جاسکے۔ 

کرائے داری کے معاملات میں یہ ایک معمول کی بات ہے، تاہم بہت سے لوگ نہ صرف یہ کہ مکان کی چابی دینے سے قبل ایڈوانس رقم وصول کرتے ہیں، بلکہ اگر اُنھیں کبھی درمیان میں کوئی ضرورت پیش آجائے، تو بھی کرائے داروں سے ایڈوانس کی مد میں مزید رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے، جو اُن کے لیے مشکلات کا سبب ہوتا ہے اور ایسا نہ کرنے پر مکان خالی کرنے کی دھمکی تک دے دی جاتی ہے۔احمد حسن کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ 

مالک مکان کو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے رقم کی ضرورت تھی، جس پر اُس نے اپنے چھے کرائے داروں سے فوری طور پر پچاس، پچاس ہزار روپے ایڈوانس طلب کیے،حالاں کہ وہ پہلے ہی ایک، ایک لاکھ روپیا بطور ایڈونس لے چُکا تھا۔عام طور پر ایڈوانس کا معاملہ گفت و شنید سے حل ہوجاتا ہے، تاہم یہ رقم بہت سے خاندانوں کے لیے مشکلات کا سبب ضرور ہوتی ہے۔ بعض لوگ اِس شرط پر زیادہ ایڈوانس لیتے ہیں کہ وہ کرائے میں کمی کردیں گے۔ہمارے سامنے اِس وقت مُلک کے دو بڑے دینی مدارس، جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علّامہ بنوری ٹاؤن، کراچی اور جامعہ بنوریہ عالمیہ، کراچی کے فتوے موجود ہیں، جن کے مطابق اِس طرح کا معاہدہ دراصل سود ہی کی ایک شکل ہے، جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔

مالکِ مکان یا وائسرائے؟؟

مکان مالکان کا رویّہ کیسا ہوتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے کئی کرائے داروں سے ملاقات کی، جن کی اِس حوالے سے آرا منقسم نظر آئیں۔ بہت سے کرائے دار مکان مالکان کی تعریف کرتے نظر آئے، تو منفی رائے رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔حاجی توفیق احمد شُو مارکیٹ کی ایک دُکان پر ملازمت کرتے ہیں اور نانک واڑہ میں رہائش پذیر ہیں۔ اُن کا مالکِ مکان کے حوالے سے تجربہ اچھا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’’ ہم گزشتہ بیس برسوں سے ایک ہی مکان میں کرائے دار کے طور پر رہ رہے ہیں اور مالک مکان سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ وہ ہمارا اور ہم اُن کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘

تاہم، اِس ضمن میں بورڈ آفس کے ایک فلیٹ میں مقیم حمزہ کی یہ باتیں بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتیں کہ’’ اگر مالکِ مکان اُسی عمارت میں مقیم ہو، جس میں آپ کرائے دار کے طور پر رہ رہے ہیں، یا وہ قریب میں رہائش پذیر ہو، تب اِس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آپ کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرے گا۔ جس طرح کسی جانور کا مالک آتے جاتے اپنے جانور کا نظروں ہی نظروں میں معاینہ کرتا ہے، ایسے ہی وہ اپنے مکان پر نظریں جمائے رکھے گا۔ 

عام طور پر پانی کے استعمال، صفائی کے معاملات ، مہمانوں کی زیادہ آمد ورفت، بچّوں کے شور شرابے کی بنیاد پر اختلاف ہوتا ہے۔‘‘بہت سے کرائے داروں کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی کہ’’ مالکان کو کرایہ تو وقت پر چاہیے ، مگر مجال ہے، جو مکان پر ایک روپیا بھی خرچ کردیں۔ دیواریں رنگ، چُونے سے محروم، فرش ٹوٹ پھوٹ کا شکار، کھڑکیاں، دروازے اور پائپس گَل سڑ گئے،لیکن اُنھیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی، بلکہ بہت سے مالکان تو اِس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کرائے دار یہ کام بھی اپنی جیب سے کروالیں اوررقم کرائے میں بھی نہ کٹوائیں۔‘‘

کم تو کرائے دار بھی نہیں !!

یہ تاثر عام ہے کہ کرائے دار مکان کو اپنا نہیں سمجھتے، اِس لیے اُس کے استعمال میں وہ احتیاط نہیں برتتے، جو اپنے مکان میں کی جاتی ہے۔ عبدالمجید کی بھی یہی رائے ہے، جن کی عبّاسی شہید اسپتال کے سامنے روڈ پار چھے فلیٹس پر مشتمل ایک عمارت کرائے داروں کے زیرِ استعمال ہے۔وہ کہتے ہیں،’’اگر آپ کو کسی گاڑی یا رکشے میں سواری کا موقع ملے، تو آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈرائیور اس کا مالک ہے یا کمیشن پر چلا رہا ہے؟ کیوں کہ مالک بہت احتیاط اور بچا بچا کر گاڑی چلائے گا اور دوسرا اسے گڑھوں میں ہچکولے کِھلائے گا۔ پھر یہ کہ کرائے دار اِس بات کا بھی کم ہی دھیان رکھتے ہیں کہ بچّے مکان کی دیواریں وغیرہ خراب نہ کریں، حالاں کہ گھر لینے سے پہلے وہ نئے رنگ وروغن کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ہم کرائے دار کو پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ پانی کا شیڈول کیا ہوگا، مگر پھر بھی بہت سی فیملیز احتیاط نہیں کرتیں اور بار بار موٹر چلانے کے لیے تنگ کرتی ہیں۔مَیں نے چند ماہ قبل ایک فلیٹ خالی کروایا، کیوں کہ کرائے داروں کے گاؤں سے دس دس مہان آتے، جو کئی کئی ماہ وہیں پڑے رہتے، اِس سے پوری عمارت کا ماحول متاثر ہو رہا تھا۔‘‘ اُنھوں نے مزید بتایا کہ’’ ہم نے صفائی کے لیے ایک شخص کی خدمات لے رکھی ہیں، جو روزانہ ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر کچرا لے جاتا ہے اور اس کے عوض ماہانہ دو سو روپے لیتا ہے، لیکن اِس کے باوجود کئی کرائے دار باہر سیڑھیوں پر کچرا پھینک دیتے ہیں۔

ایک بڑا تنازع کرائے کی ادائی پر بھی سامنے آتا ہے۔ خاص طور پر ملازمت پیشہ افراد اِس آزمائش سے گزرتے رہتے ہیں۔ ہر ماہ کی پانچ یا دس تاریخ تک کرایہ دینا ہوتا ہے، مگر بہت سے دفاتر میں ملازمین کے آنے جانے کا وقت تو مقرّر ہے، مگر تن خواہ کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ ایسے ملازمین کو مکان مالکان کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے، جب کہ کئی کرائے دار اپنے بجٹ کو درست طور پر مینیج نہ کرنے کے سبب بھی وقت پر کرایہ نہیں دے پاتے۔

شہری اپنا سامان اِدھر اُدھر کیوں اُٹھائے پِھرتے ہیں؟

آمدنی محدود ہے، منہگائی میں عزّت سے گزارہ ہوجائے تو بڑی بات، بچت کیسی،پلاٹس اور تعمیراتی سامان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، تو ایسے میں متوسّط طبقے کے کسی فرد کے لیے اپنا مکان بنانا ناممکن نہیں، تو بے حد مشکل ضرور ہے۔یوں لاکھوں شہری کرائے کے مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں، مگر اُنھیں یہ مکانات بھی آسانی سے دست یاب نہیں کہ مختلف رپورٹس کے مطابق، پاکستان کو ایک کروڑ مکانات کی کمی کا سامنا ہے۔

حکومتی سطح پر اِس ذیل میں کچھ اقدامات سامنے آتے رہے ہیں، جن کے تحت نئی آبادیاں بسائی گئیں، تو عوام کو چھوٹے گھر بنا کر بھی دیے گئے، تاہم یہ اقدامات نمائشی ہی رہے اور مسائل جُوں کے تُوں برقرار ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ گو کہ اُس نے تعمیراتی شعبے کو مختلف پیکیجز دیے اور ’’ میرا پاکستان، میرا گھر‘‘ پروگرام کے تحت عوام کوبینکس سے رعایتی قرضوں کے حصول کی سہولت بھی دی،تاہم، اِس پروگرام کی جس سطح پر تشہیر کی گئی، اُس کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ 

اِس بات کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق، سستے گھروں کی تعمیر کے لیے 11اپریل 2022ء تک بینکس کو 409ارب روپے کے قرضوں کی درخواستیں موصول ہوئیں، 180ارب روپے کے قرضے منظور ہوئے، جن میں سے66 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔جن افراد کو قرضے جاری ہوئے وہ یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ ایک طرف مکان کی تعمیر یا خریداری کے لیے رقم دی گئی ہے، تو دوسری طرف، مکانات اور تعمیراتی اشیاء کی قیمتیں اِس قدر بڑھا دی گئیں کہ قرضے کے پیسوں سے عملاً مکان خریدنا یا بنانا ناممکن ہوگیا۔

گھٹتی آمدنی، بڑھتا کرایہ

بڑھتی منہگائی نے کرائے داروں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے کہ اُنھیں اپنی محدود آمدنی میں ایک طرف تو اپنے روز مرّہ کے اخراجات پورے کرنے ہیں، تو دوسری طرف، وقت پر کرایہ دینے کے ساتھ بڑھتے کرایوں کو بھی مینیج کرنا ہے۔ بہت سے مالکان منہگائی کا بوجھ خود اُٹھانے کی بجائے کرائے بڑھا کر دوسروں پر منتقل کر رہے ہیں۔ 

جن علاقوں میں کرائے داری کے معاہدوں کا رواج نہیں، وہاں تو مالکان کو مَن مانی کا کُھلا موقع مل گیا ہے اور وہ مسلسل کرایوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور جہاں وہ معاہدوں میں جکڑے ہوئے ہیں، وہاں معاہدے کی مدّت گزرتے ہی کرائے دار کو نئے کرائے پر مکان رکھنے پر مجبور کر رہے ہیں، دوسری صُورت میں مکان خالی کرنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔ اب کرائے دار کے پاس دو ہی صُورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ معاہدے میں طے کردہ شرح کی بجائے مالک کی مرضی کے مطابق اضافی کرایہ قبول کرے یا پھر سامان سمیٹ کر کہیں اور منتقل ہوجائے۔

کرائے داری کا معاہدہ

درمیانے علاقوں یا کچّی آبادیوں میں عام طور پر کرائے داری کے معاہدے نہیں کیے جاتے۔ وہاں جان پہچان یا کسی شخص کی ضمانت پر مکان دے دیا جاتا ہے، جب کہ باقی علاقوں میں باقاعدہ معاہدے کے بعد ہی مکان کی چابی دی جاتی ہے اور اِس معاہدے کی ایک کاپی قانون کے مطابق مقامی تھانے میں بھی جمع کروائی جاتی ہے۔ 

فیضان احمد ایڈووکیٹ، کراچی سٹی کورٹ میں قانون کی پریکٹس کرتے ہیں۔ کرائے داری معاہدے کی اہمیت اور ضرورت سے متعلق ایک سوال پر اُنھوں نے کہا،’’اِس طرح کا معاہدہ بہت ضروری ہے کہ اس سے فریقین کے،( یعنی مکان مالک اور کرائے دار)مفادات کا تحفّظ ہوتا ہے۔

معاہدے میں مکان کے استعمال کی شرائط، ادا کی گئی رقوم کی تفصیل، کرائے میں سالانہ اضافے اور خالی کرنے یا مکان خالی کروانے کی بھی پوری وضاحت ہوتی ہے، یوں سب کو اپنی قانونی پوزیشن کا علم ہوتا ہے اور وہ بہت سے تنازعات سے محفوظ رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ مالکِ مکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرائے دار کی تفصیل مقامی تھانے کو فراہم کرے تاکہ مکان کے غیر قانونی استعمال کا تدارک کیا جاسکے۔ تاہم، بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے علاقوں میں اب بھی پولیس کو کرائے داروں کی تفصیل فراہم نہیں کی جاتی اور خود پولیس بھی زیادہ دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی، حالاں کہ اس کی اہمیت سے ہر باشعور شہری اچھی طرح واقف ہے۔‘‘

مکان پر قبضے کا خطرہ

مالکان کسی کو اپنی جائیداد کرائے پر دیتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں کہ کہیں قبضہ نہ ہوجائے، خاص طور پر خواتین اور بیواؤں کی جائیدادوں کے ساتھ تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی مالکان محض اِسی خوف کے سبب کسی کو زیادہ عرصے تک اپنا مکان وغیرہ کرائے پر نہیں دیتے۔ ایک زمانے میں کرائے دار بن کر کسی کا مکان ہتھیانا عام بات تھی، مگر اب اِس طرح کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے۔ اس کا بنیادی سبب تو عدلیہ کی جانب سے اس طرح کے مقدمات میں یک طرفہ طور پر اسٹے آرڈر نہ دینا ہے۔ پہلے کوئی بھی شخص کسی کے مکان پر قبضہ کرکے عدالت سے اسٹے آرڈر لے لیتا اور پھر مالک بیس، بیس برس مکان واگزار کروانے کے لیے عدالتوں کے دھکّے کھاتا پِھرتا۔

پھر یہ کہ اب قانونی معاہدے کے بعد اور کسی اسٹیٹ ایجنٹ کی معرفت ہی مکان دیا جاتا ہے، جس سے قبضے کے خواہش مندوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ ایجنٹ مکان خالی کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ تاہم، اِن احتیاطی تدابیر کے باوجود اب بھی بہت سے علاقوں میں مکانات پر قبضے ہوجاتے ہیں، لیکن ان میں زیادہ تر وہ علاقے ہیں، جو غنڈہ گردی یا مخصوص جماعتوں یا گروہوں کے اڈّوں کے طور پر معروف ہیں، وگرنہ عام بستیوں میں اب اس طرح کی وارداتیں کم ہوتی ہیں۔  

’’کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے…‘‘

شعرا نے کرائے دار اور مالکِ مکان کے رشتے کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔کئی نے اِسے محبوب کی بے وفائی کے طور پر بھی لیا ہے،جیسے’’کرایہ دار بدلنا تو اُس کا شیوہ تھا…نکال کر وہ بہت خوش ہوا مکاں سے مجھے۔‘‘(علیم افسر)۔جب کہ بہت سے شعرا نے اس معاملے سے مشروط مسائل کی نشان دہی بھی کی ہے۔یہ اشعار دیکھیے،’’ وہ چاہتا ہے، مہینہ کَٹے نہ جلدی سے…کرایہ دار کے دُکھ بھی عجیب ہوتے ہیں‘‘( فخر عباس)۔’’اُن کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں…جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں۔‘‘(فوزیہ شیخ )۔’’ کما کے جو بھی لاتا ہے وہ، گھر پہ وار دیتا ہے…کرائے دار کو گھر کا کرایہ مار دیتا ہے‘‘(غضنفر غضنی)۔

بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے نام ور شاعر، راحت اندوری کے اِس شعر کو تو بہت مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں اُنھوں نے کرائے داری کو ایک خاص سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا۔ شعر یوں ہے’’جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے…کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے۔‘‘اِسی غزل کا ایک شعر اِس طرح ہے’’ دو گز سہی، مگر یہ مِری ملکیت تو ہے…اے موت تُو نے مجھ کو زمین دار کر دیا۔‘‘اپنا مکان بنانے اور اُسے سنوارنے سجانے کی سب ہی کو حسرت ہوتی ہے، تو اِسی تناظر میں سیّد جاوید اختر کی یہ نظم ملاحظہ فرمائیے۔’’ تمہیں اِک خُوب صُورت ننّھے سے…گھر کی تمنّا تھی…جسے تم اپنا کہہ سکتیں…سجا سکتیں جہاں کے بام و دَر کو…اپنی مرضی سے …مگر افسوس عُمر مختصر گزری…کرائے کے مکانوں میں…زمانہ کج ادا ہے…جیتے جی اِک قطعۂ اراضی نہیں دیتا…بجز دولت…مگر جب خاک ہو جائیں…تو مرقد کے لیے مل جائے…زمیں ہم کو بنا مانگے…چلو اچھا ہوا…تم جا بسیں…شہر خموشاں میں…بنا کے چھوٹا سا اِک گھر…تمنّا تو ہوئی پوری…سجا لو اب اسی کے بام و در کو…اپنی مرضی سے۔‘‘