• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: مسجد کی تعمیر میں فنڈ کی کمی کے سبب ہم نے کچھ رقم یونین سے بطور قرض لی تھی اور مسجد کا فنڈ ہوتے ہی ہم نے یہ رقم یونین کو واپس بھی کردی تھی۔ یہاں کے رہائشی مینٹینینس کے ساتھ کچھ رقم مسجد کے فنڈ میں بھی جمع کراتے ہیں ۔ پچھلے ایک ماہ سے یونین کے صدر مسجد کی مد میں آنے والی رقم یونین کے کاموں میں بغیر اجازت استعمال کررہے ہیں، ہمارے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ہم نے بھی تو مسجد کو قرض دیا تھا، اب ہم نے رقم استعمال کرلی ہے، جب ہوں گے تو دے دیں گے، شرعی حکم کیا ہے ؟ (سید طارق احمد ہاشمی ، کراچی)

جواب: مسجد کے عطیات کا ایک بڑا حصہ صدقاتِ نافلہ سے ہوتا ہے، جبکہ بعض مساجد میں وقف سے حاصل ہونے والی آمدنی جیسے دکانوں یا مکانات کا کرایہ وغیرہ بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ مسجد کے عطیات خواہ صدقاتِ نافلہ سے جمع ہوئے ہوں یا اوقاف کی آمدنی سے حاصل ہوئے ہوں ، اُنہیں کسی دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں کیاجاسکتا ۔

امام احمد رضاقادریؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ وقف جس غرض کے لیے ہے ،اُس کی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل ہو،دوسری غرض میں صَرف کرنی حرام ہے۔ وقفِ مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی تو درکنار، دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی، نہ ایک مدرسہ کی آمدنی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں ،درمختار میں ہے: ترجمہ:’’جب واقف ایک ہو اور جہتِ وقف بھی ایک ہو اور آمدن کی تقسیم بعض موقوف علیہ حضرات پر کم پڑجائے توحاکم کو اختیار ہے کہ وہ دوسرے فاضل وقف سے ان پر خرچ کردے، کیونکہ یہ دونوں وقف ایک جیسے ہیں اور اگر واقف یا جِہتِ وقف دونوں کی مختلف ہو مثلاً :دو حضرات نے علیحدہ علیحدہ مسجد بنائی یا ایک نے مسجد اور دوسرے نے مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لیے علیحدہ وقف مقررکیے، تو پھر ایک کی آمدن سے دوسرے کے مصارف کے لیے خرچ کرنا جائز نہیں‘‘۔چندےکا جو روپیہ کام ختم ہوکر بچے، لازم ہے کہ چندہ دینے والوں کو حصۂ رسد واپس دیاجائے یا وہ جس کام کے لیے اب اجازت دیں، اس میں صرف ہو۔ان کی اجازت کے بغیرصرف کرنا حرا م ہے، ہاں! جب ان کا پتانہ چل سکے تواب یہ چاہیے کہ جس طرح کے کام کے لیے چندہ لیا تھا ،اسی طرح کے دوسرے کام میں اٹھائیں، مثلاً تعمیرِ مسجد کا چندہ تھا ،مسجد تعمیر ہوچکی تو باقی بھی کسی مسجد کی تعمیر میں اٹھائیں۔

غیر کام مثلاً تعمیرِ مدرسہ میں صرف نہ کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ پائیں تووہ باقی روپیہ فقیروں کو تقسیم کردیں، درمختار میں ہے: ( کفن کے چندے سے کچھ بچ جائے تو یہ چندہ دینے والا معلوم ہو تو اسے لوٹا دیا جائے، ورنہ اس سے ایسے ہی فقیر کو کفن پہنا دیا جائے ، یہ بھی نہ ہوسکے، تو کسی فقیر کو صدقہ کردیا جائے ،) اسی طرح فتاویٰ قاضی خان وعالمگیری و غیرہما میں ہے ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد16، ص:206، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)‘‘۔

علامہ امجد علی اعظمی ؒ لکھتے ہیں:’’ عموماً یہ چندے صدقۂ نافلہ ہوتے ہیں، ان کو وقف نہیں کیاجاسکتا کہ وقف کے لیے یہ ضرور ہے کہ اصل حبس کرکے اس کے منافع کام میں صرف کیے جائیں، جس کے لیے وقف ہو، نہ یہ کہ خود اصل ہی کو خرچ کردیاجائے، یہ چندے جس خاص غرض کے لیے کیے گئے ہیں، اس کے غیر میں صرف نہیں کیے جاسکتے ۔ اگر وہ غرض پوری ہوچکی ہو تو جس نے دیئے ہیں اسے واپس کیے جائیں یا اس کی اجازت سے دوسرے کام میں خرچ کریں، بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے ، (فتاویٰ امجدیہ، جلد سوم، ص: 39)‘‘۔

یونین کی انتظامیہ کے پاس لوگوں کا چندہ امانت تھی ، انہیں یہ رقم چوکیدار کی تنخواہ ، دیکھ بھال ،پانی کے انتظام اور اس سے متعلق اشیاء کی مرمت وغیرہ پر خرچ کرنے کی اجازت تھی ،امین کی ذمہ داری ہے کہ رقم جن مصارف کے لیے دی گئی ہے، اُنہی پر خرچ کرے۔ اس سے ہٹ کر کسی اور مصرف میں لگائیں گے یا مسجد یا کسی فرد کو قرض دیں گے ،تویہ اُن کی طرف سے تَعَدّی یعنی حد سے تجاوز ہوگا اورایسی صورت میں اگر وہ رقم ہلاک ہوجائے تو انتظامیہ کے افراد ذاتی طورپر اس کے ضامن ہوں گے۔

پس مسجد کو جو انہوں نے قرض دیا ،یہ بھی تعدّی تھی، لیکن مسجد انتظامیہ نے قرض کی یہ رقم واپس کردی تومسئلہ حل ہوگیا ۔ ان کے پاس مسجد فنڈ میں رہائشی لوگوں کا جو چندہ آتا ہے، اُسے انہیں کسی اورمَد میں خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ امانت میں تَعَدّی ہے اور حد سے تجاوز ہے، ان کا یہ استدلال بھی باطل ہے :’’ ہم نے بھی مسجد کوقرض دیاتھا اور جب ہوں گے تو دے دیں گے ‘‘، انہیں یہ رقم ہرصورت میں مسجد کی انتظامیہ کو اداکرنی چاہیے ، اُن کی یہ حُجّت اور استدلال شرعاً باطل ہے ، انہیں اس پر چندہ دینے والوں سے معافی مانگنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk