پروفیسر خالد اقبال جیلانی
بحیثیت امتِ مسلمہ ہم رجب کے مہینے میں سنت نبوی ﷺ کی اتباع میں بار گاہِ الہٰی میں جو دعا کررہے تھے کہ اے اللہ رجب اور شعبان میں ہمارے اعمال میں وہ برکت عطا فرما کہ جس کے سہارے ہم رمضان میں داخل ہوسکیں۔ اللہ نے ہماری یہ دعا قبول کی اور ہم بحالتِ ایمان رمضان میں داخل ہو کر رحمت و برکت مغفرت و سعادت کے انعامات الہٰی سے مالا مال ہو ئے، لیکن ایک لمحے کو رک کر جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماہِ صیام جس کا گیارہ مہینے سے انتظار تھا، وہ آیا اور ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی مانند ہمیں ہر نعمتِ خداوندی سے سرفراز و سرشار اور مالا مال کر کے گزر گیا۔
رمضان میں اللہ تعالیٰ نے دین دنیا اور آخرت کے خزانوں کے منہ ہمارے لئے کھول دیئے ،ہم نے ذرہ مانگا، اس نے پہاڑ دے دیئے، ہم نے قطرہ مانگا، اس نے سمندر بہا دئیے اور بیش بہا انعامات سے مالا مال کر دیا۔ اس نے ہمیں دیتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کس کا رمضان اعمال کے اعتبار سے کتنا وزنی یا بھاری ہے، نہ اس نے نیک دیکھا ، نہ بد، نہ عابد وزاہد، نہ گناہ گار، بس وہ تو رمضان میں اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں برساتا رہا، مغفرتیں عطا کرتا رہا، نعمتوں سے نوازتا رہا، ہمیں دوزخ سے آزاد کرتا رہا، جنّت میں داخل کرتا رہا۔ بلاشبہ، رمضان کے اختتام پر ہمیں اللہ کی جانب سے گناہوں سے پاکی، نجات اور خلاصی کا پروانہ مغفرت کی شکل میں عطا ہوا۔
یاد رکھیے جس کے پاس جتنا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، وہ اس کی حفاظت کے لئے اتنا ہی فکر مند، چوکس اور ہوشیار ہوتاہے۔ کسی قیمتی شے کو پالینے سے زیادہ مشکل کام اس کی حفاظت ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کی حفاظت ہی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ بعینہ دنیا کی کسی بھی قیمتی شئے سے زیادہ قیمتی اور اہم ہماری وہ نیکیاں ہیں، جو ہم نے رمضان میں کیں اور انعام الہٰی کے طور پر پائیں۔
ہم نے بہ توفیقِ الہٰی رمضان کے روزے رکھے، نمازیں ادا کیں، تراویح پڑھی، تہجّد ادا کی، تلاوتِ قرآن کی، اعتکاف کیا، طاق راتوں میں شب قدر کے حصول کے لئے شب بیداری کی، نوافل ادا کیے، استغفار کی، کلمہ طیبہ کا ورد کیا، درود شریف پڑھا، اس سب کے ساتھ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہم دردی و غم گساری کا برتاؤ کیا، زکوٰۃ ادا کی، صدقہ و خیرات اور انفاق کیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہم نے رمضان اور روزے میں ہر اس چیز کو بدرجہ اولیٰ ترک کیا، جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ ہم نے ہر وہ کام چھوڑ دیا، جسے اللہ نے ناپسند کیا ہے۔
ہم نے رمضان اور روزے کی حالت میں جھوٹ، غیبت، بدنظری، رشوت، کم تولنا، ملاوٹ کرنا اور ذخیرہ اندوزی جسے تمام قبیح کاموں کو ترک کیا۔ ہم نے چھوٹے بڑے، کھلے اور چھپے ہر گناہ سے کنارہ کشی اختیار کی، مگر اس سب کے باوجود یاد رکھیے کہ ہمارا دشمن ہماری نیکیوں کو لوٹنے والا ڈاکو، لٹیرا یعنی شیطان ہم سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ وہ ہمیں رمضان میں نیکیوں سے روکنے پر تو قادر نہیں ہوسکا، لیکن وہ ہماری ان نیکیوں کو چاند رات کو آزاد ہوتے ہی ضائع کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف رہا، لہٰذا رمضان کی ان نیکیوں اور تقویٰ کو شیطان کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچانا اس وقت ہمارا اہم ترین ہدف ہونا چاہیے۔
رمضان کی اس تیس روزہ مشقّت و محنت اورری فریشر کورس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آئندہ گیارہ مہینوں میں حرام اشیاء اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منع کردہ تمام امور سے اسی طرح اجتناب کریں جیسے ہم نے روزے کی حالت میں اجتناب کیا تھا۔ اسی کا نام تقویٰ ہے، جو روزے کا اوّلین مقصدِ الہٰی ہے۔
عالمِ اسلام کے مشہور ومعروف اسکالر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے دو روزے کے خوب صورت عنوان اور چھوٹا روزہ، بڑا روزہ کے دل نشین استعارے میں گفتگو کی ہے۔ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:۔ ’’ روزے دو طرح کے ہیں، ایک چھوٹا اورایک بڑا۔ چھوٹا روزہ 12 گھنٹے یا 13گھنٹے کا ہوتا ہے، اس چھوٹے روزے کا قانونی ضابطہ یہ ہے کہ اس روزے میں آدمی کھا پی نہیں سکتا اور تعلقات کا لطف حاصل نہیں کر سکتا، جن کی دیگر دنوں میں اجازت ہے۔ اس چھوٹے روزے کی پابندیاں محدود ہیں۔
یہ رمضان کا روزہ ہے۔ یہ روزہ طلوع فجر سے شروع ہوکر غروبِ آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے۔ رمضان کے اس چھوٹے روزے کی افطاری لذیذ غذائیں اور عمدہ مشروب ہیں۔ یہ روزہ کھجور اور ٹھنڈے پانی سے کھلتا ہے۔ اس چھوٹے روزے کا حکم اس کی پابندیاں سب کو معلوم ہیں۔ سب روزے دار ان تمام چیزوں سے بچتے ہیں، جو ممنوع ہیں۔ یہ چھوٹا روزہ پانی پینے، کھانا کھانے سے ٹوٹ جاتاہے۔ رمضان کا یہ چھوٹا روزہ اگر غروب آفتاب سے ایک سیکنڈ پہلے بھی کھول لیا تو یہ ٹوٹ جائے گا اور سارے دن کی بھوک پیاس کی محنت مشقت بیکار چلی جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔
بڑا روزہ اسلام کا روزہ ہے۔ اسلام خود ایک روزہ ہے۔ یہ اس وقت شروع ہوتا ہے، جب کوئی بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کی سحری انسان کی پہلی سانس سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بڑا روزہ مومن کے آفتابِ عمر کے غروب ہونے پر ختم ہوگا۔ یہ بڑا روزہ ایمان والے کی پوری زندگی پر محیط ہے، اس کا دورانیہ 60سال، 70سال، 80سال اور 100سال تک یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ زندگی کا یہ طویل روزہ کس چیز سے کھلے گا؟ جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک سے جام کوثر سے کھلے گا۔ اگر وہ روزہ پکّا ہے اور آپ نے اس روزے کی شرائط پوری کردی ہیں۔ محض اللہ کی توفیق اور اس کے فضل و کرم سے ہم دنیا سے کلمہ پڑھتے ہوئے گئے۔ تو وہ بڑا روزہ اس وقت ختم ہوجاتا ہے اس کا افطار اس کی ضیافت یہی کلمہ طیبہ ہے۔
یہ بڑا روزہ ہر اس کام کے کرنے سے ٹوٹ جاتا ہے جس کے کرنے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ جیسے چھوٹے روزے میں غیبت منع ہے، ایسے ہی بڑے روزے میں بھی غیبت منع ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا، فحش بات کرنا، رشوت لینادینا، سود خوری، اسراف، فضول خرچی ممنوع ہے۔ اس چھوٹے روزے کے ختم ہونے کے بعد ہم آزاد ہرگز نہیں ہیں۔ وہ بڑا روزہ برابر چلتا رہے گا، وہ بڑا روزہ اس چھوٹے روزے پر بھی سایہ فگن ہے۔ یہ چھوٹا روزہ اس بڑے روزے کا جزو ہے۔ وہ بڑا روزہ چلتا رہے گا۔ رمضان ختم ہونے کے بعد یہ نہ سمجھیں کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اب ہم آزاد ہیں، ایسا ہرگز نہیں، ہم بالکل آزاد نہیں، ہمارے گلے میں اسلام کے بڑے کے روزے کاطوق پڑا ہے۔
ہمارے شناختی کارڈ پر لکھا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کے ہاں اس روزے کا حساب ہوگا اور اس کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جو چیز حرام ہے، قیامت تک حرام ہی رہے گی۔ کوشش یہ کیجیے کہ آپ کا یہ بڑا روزہ صحیح طریقے پر افطار ہو۔ جیسے کوئی روزے دار سورج ڈوبتے وقت کسی کے لاکھ کہنے پر بھی ایک سیکنڈ پہلے روزہ نہیں توڑتا۔ اسی طرح جب آفتاب عمر ڈوبنے کے قریب ہو تو اب کوئی جتنا کہے کہ یہ حرام چیز لے لو۔ یہ حرام دوا کھا لو، تو آپ کو زندگی کا بڑا روزہ زندگی کی آخری سانس تک نہیں کھولنا، پوری زندگی اللہ کے حکم کی اطاعت کرنی ہے، اس کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا ہے، جیسے ہم رمضان کے روزے میں آخروقت تک اجتناب کرتے رہے۔
ہم رمضان کو رخصت کرتے وقت اس تصور سے خوش ہیں کہ اللہ کا شکرکہ یہ روزہ تو ختم ہوگیا۔ اگر زندگی رہی تو پھر اگلا رمضان ہوگا، لیکن ہم اور ہماری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ البتہ وہ مسلسل و طویل روزہ رہے گا۔ وہ روزہ مبارک ہو،اس روزے کا خیال رکھیے گا۔ یہ روزہ نہ توڑیئے گا۔ یہ روزہ ٹوٹا، تو سب کچھ ٹوٹ جائے گا۔ دین ایمان، اسلام سب بگڑ جائے گا۔ بس یہی دو روزے ہیں۔ ایک روزہ قریب المیعاد ہے۔ وہ رمضان کا دن بھر کا روزہ ہے۔ ایک روزہ وہ ہے جو زندگی کے ساتھ رہے گا، جب تک مومن کی سانس اور جان میں جان ہے اس وقت تک ہے۔‘‘
رمضان کے بعد ہمیں خود کو شیطان سے محفوظ رکھتے ہوئے رمضان کی نیکیوں کی حفاظت بھی کرنی ہے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہدایت و تقویٰ یعنی قانون خداندی کی اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ زندگی کے اس روشن راستے پر چلنا ہے کہ جس پر ہم رمضان میں گامزن رہے۔
اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے رمضان کے روزے، نمازیں، تراویح، تہجد، ذکر، استغفار، مناجات، عبادات، زکوٰۃ، صدقات اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئے کہ نہیں، تو اس کا بہت آسان طریقہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’اگر جاننا چاہتے ہو کہ تمہارا حج قبول ہوا کہ نہیں، تو تم اگر حج کے بعد سیدھے راستے پر گامزن رہو تو تمہارا حج اللہ کے ہاں مقبول ہوا۔‘‘ پس اگر ہم رمضان کے بعد بھی اسی انداز میں تقویٰ و احکام الہٰی کی اطاعت میں زندگی بسر کریں، جیسے رمضان میں بسر کر رہے تھے، تو ہماری رمضان کی ساری عبادات بارگاہِ خداوندی میں قبول ہیں۔