کامیابی انسان کو سخت محنت، لگن اور جذبے سے ملتی ہے، کاروبار کرنے والا کوئی بھی شخص مہم جو طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔ اس کے اندر ہمیشہ کچھ نیا کر دکھانے کا جذبہ ہوتا ہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ ثابت قدمی، اعتماد اور لگن کے ساتھ اپنی کامیابی کی منزل حاصل کرلیتا ہے۔
HMR waterfront تعمیراتی صنعت میں ایک بڑا نام بن چکا ہے۔ اپنے عزم، تجربے اور لگن نے ایچ ایم آر کو ایک برانڈ بنادیا ہے۔ ایچ ایم آر کے منصوبے ان کے جذبے اور ایمانداری کے ساتھ ساتھ جوش کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ایچ ایم آر کی کامیابی میں کامل جذبہ شامل تھا جس نے ایک بڑے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں مدد دی۔
ایچ ایم آر گروپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر حسنین پردیسی معروف صنعتکار اور ایچ ایم آر گروپ کے چیئرمین حاجی رفیق پردیسی کے صاحبزادے ہیں، بہت محنتی اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔
محمد حسنین پردیسی نے 2010ء میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی سے بزنس مینجمنٹ میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انہوں نے تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ ڈویژن کی نگرانی کے لیے دبئی میں اپنے خاندانی کاروبار میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں وہ ڈائریکٹر آپریشن اینڈ پروڈکشن کے طور پر ٹیکسٹائل کے کاروبار کی نگرانی کے لیے تنزانیہ، افریقہ چلے گئے۔ انھوں نے اپنے وژن اور مارکیٹ کی دور اندیشی کے ذریعے افریقی مارکیٹ میں گروپ کو مضبوط کیا۔ حسنین پردیسی ایچ ایم آرگروپ کے رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ سے منسلک ہیں۔ وہ ایچ ایم آر ڈیویلپرز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ممبر بورڈ آف ڈائریکٹربھی ہیں۔
ان کے والد HMR گروپ کے بانی چیئرمین حاجی رفیق پردیسی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انھوں نے 1982ء میں 100 سال پرانے اپنے خاندانی کاروبار میں قدم رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایچ ایم آر کا مطلب ہےآپ کے خوابوں کی تکمیل۔ حاجی محمد رفیق پردیسی، بلڈرز اور ڈویلپرز کے شعبے میں معروف نام ہیں۔ وہ ایک سادہ مزاج کے نامور کاروباری شخصیت ہیں جو ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
وہ پاکستان یو اے ای بزنس کونسل اور پاکستان مراکش بزنس کونسل کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ سوئس بزنس کونسل، پاکستان چائنا بزنس کونسل میں بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ مختلف سماجی اور مذہبی اداروں کے سرپرست بھی ہیں۔
گروپ کے چیئرمین ہونے کے باوجود ان کے پاس کاروباری منصوبوں اور سماجی سرگرمیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بڑھایا اور نئے چیلنجز کو قبول کیا اور آج ان کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ حاجی رفیق پردیسی کو بےشمار قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔ دبئی میں یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کی طرف سے بھی انھیں ایوارڈ مل چکا ہے۔
حسنین پردیسی سے گزشتہ دنوں ہماری بات چیت ہوئی جو نذر قارئین ہے۔
سوال: اپنے پروجیکٹ ایچ ایم آر واٹر فرنٹ کے بارے میں بتائیں، کہا جارہا ہے کہ واٹر فرنٹ منصوبہ تاریخ رقم کردے گا؟
حسنین پردیسی: ہمارے ملک میں رہائشی منصوبوں میں وہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں جو بیرون ممالک جیسے دبئی، لندن، امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک کے رہائشی منصوبوں میں لوگوں کو دستیاب ہوتی ہیں۔ ایچ ایم آر نے اپنے الاٹیز کو جدید سہولیات سے آراستہ لگثری رہائش فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ساحل کے ساتھ ایک ایسی کالونی قائم کی جارہی ہے، جو یقیناً تعمیراتی صنعت میں ایک انقلاب برپا کردے گی ۔
سوال: آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایچ ایم آر کا یہ منصوبہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کی صنعت میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا؟
حسنین پردیسی: دنیا بھر میں ایسے پاکستانی بھی رہتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو ان کی حیثیت اور جدید دور کی ضروریات کے مطابق شہر میں رہائش کے لیے ایسی جگہ میسر ہو جہاں وہ پر سکون زندگی گزار سکیں اور اس سکون کی تلاش میں بہت سے پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
ہمارے منصوبے ایسے لوگوں کو اپنی جانب مائل کریں گے اور وہ لوگ جو دنیا کے دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور یہاں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیں گے، جس سے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو فروغ ملے گا۔
سوال: آپ کے پروجیکٹ ایچ ایم آر واٹر فرنٹ کو میگا پروجیکٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس پروجیکٹ میں کتنے ٹاورز ہیں اور آپ اپنے الاٹیز کو کون کون سی سہولتیں دے رہے ہیں؟
حسنین پردیسی: یہ ایک بہت ہی شاندار اور جامع منصوبہ ہے، جو کراچی کی اسکائی لائن کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ ڈی ایچ اے فیز 8 میں 33 ایکڑ بیچ فرنٹ اراضی پر یہ ایک جدید ترین رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ ہے جس میں 19بلند و بالا ٹاورز ہیں۔ ان میں 14 جدید رہائشی ٹاورز ہیں جہاں شاپنگ مال، مساجد، واکنگ ایریا اور کار پارکنگ جیسی تمام جدید سہولیات، آرام دہ اور پر آسائش زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے دستیاب ہوں گی۔
واٹر فرنٹ بزنس ڈسٹرکٹ میں پانچ ہائی رائز ٹاورز شامل ہیں، کاروبار کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی جدید ہائی ٹیک سہولیات سے آراستہ دفاتر، ریستوران، کافی شاپس، ہیلی پیڈ اور بڑی تعداد میں تیز رفتار لفٹس موجود ہوں گی۔
سوال: کاروباری دنیا میں پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے بینکوں سے قرض لئے جاتے ہیں۔ کیا یہ ایک بہترین حکمتِ عملی ہے؟
حسنین پردیسی: تعمیراتی صنعت سے وابستہ کاروباری افراد کی اکثریت کاروبار چلانے کے لئے بینکوں سے بھاری قرضے لیتی ہے۔ پھر کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مزید قرض لیا جاتا ہے، لیکن جیسے ہی کاروبار میں نقصان ہوتا ہے یا کاروباری شخص کو ناموافق حالات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ مشکل میں پھنس جاتا ہے ، اسے بینک کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے صنعتی یونٹس کو فروخت کرنا پڑتا ہے، ہم نے اللہ کا شکر ہے بینکوں سے قرض لیے بغیر اپنا کاروبار چلایا ہے جس کی وجہ سے اللہ کا کرم ہے کاروبار میں بہتری آئی ہے اورمزید بہتری کی توقع ہے۔
سوال: سابقہ اور موجودہ حکومت کی جانب سے تعمیراتی صنعت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
حسنین پردیسی: امریکی ڈالر کی قیمت میں انتہائی تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کا بھی رئیل اسٹیٹ کے کام میں سرمایہ کاری سے بھروسہ اٹھ گیا ہے، آج کل کی صورتحال میں کاروباری شخص پریشان ہے کہ کس طرح سے اپنا کام چلائے۔ گزشتہ ساڑھے تین چار سالوں میں حکومت نے عوام کے لیے جو کام کئے، وہ سب کے سامنے ہے، ڈالر آج 200 روپے سے بھی تجاوز کرچکا ہے، سابق حکومت نے تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے کر اچھا کام کیا تھا۔ حکومتیں اسی لیے بنتی ہیں کہ وہ عوام کو مراعات اور سہولیات فراہم کریں، اگر ہمارے ملک میں صورتحال بہتر ہوجائے تو لوگ دبئی چھوڑ کر پاکستان کی تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کریں گے۔
سوال: بے روزگاری کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے ، اپنے ملک میں بے روزگاری پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟
حسنین پردیسی: ہمارے پاکستانی بھائی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں جاتے ہیں تو ملک میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ درحقیقت پاکستان کو صنعت کاری کی ضرورت ہے۔ نئی صنعتوں کا جال ملک بھر میں پھیلانا ہو گا۔ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک پاکستان میں صنعتیں لگانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔ افغانستان سے لے کر وسطی ایشیاء اور یورپ تک کے ممالک ہمارے لیے بہترین مارکیٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہم اپنی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی میں لے جا کر اس کی بہت زیادہ مانگ پیدا کرسکتے ہیں۔ دبئی میں نظام بہت اچھا ہے۔ کوئی ادارہ سرمایہ کاروں اور تاجروں کے راستے میں نہیں آتا، جبکہ پاکستان میں ہر شعبے کے نام نہاد ماہرین اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں اور تاجروں کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ جب کسی تاجر کو محض الزام کی بنیاد پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جاتا ہے تو بعد میں وہ اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔