• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برقی روشنیوں سے جگمگاتی، بقعہ نور بنی شہر کی رہائشگاہوں اور کوچہ بازاروں کے پس پشت تاریک راتوں کی ایک طویل تاریخ، انسانی ذہن کے ارتقاء کی داستان سنا رہی ہے۔

جو داستان شروع ہوتی ہے ان وقتوں سے، جب غروب آفتاب کے بعد چہار سو پھیلے گھپ اندھیرے میں نہ کوئی مصنوعی روشنی کی خواہش رکھتا تھا اور نہ ہی گذری ان گنت صدیوں میں کسی نے ایسا کچھ کرنے کی سعی کی۔بس ہر ماہ چڑھتے چاند کی کرنیں کچھ روز ان کے سائبانوں کے باہر اجالا بکھیر دیتیں، تو بعد میں اماوس کی سیاہ راتیں ہی ان کا نصیب ٹھرتیں۔

وقت یوں ہی گذرنے پر جب انسان پتھروں کی رگڑ سے پیدا ہونے والی آگ سے متعارف ہوا، تو اس نے جانا کہ یہ آگ روشنی کا منبع بھی ہے۔ مگر حاصل شدہ روشنی کے ذخیرے کو تادیر برقرار رکھنے کے جتن بڑے کٹھن تھے۔

آگ کی اس روشنی نے اس کے آشیانے کو منور تو کردیا، مگر اسِ اجالے کا اہتمام بھی تکلیف دہ عمل تھا۔

ناموافق حالات کو جہد مسلسل سے اپنے حق میں ڈھالنے کے جوہر سے گندھی انسانی فطرت نے اس کا حل جانوروں کی چربی اور نباتات کے روغن میں ڈھونڈ نکالا۔

تادیر روشن رہنے والی اس آگ نے اب چراغ کی صورت اس کے سائبانوں کو رات کے وقت روشن کردیا۔ صدیوں سے چراغوں کی ضیا پاشی جاری تھی کہ انیسویں صدی میں پٹرولیم کی دریافت نے چراغوں کی لو کو مدھم کردیا۔

پٹرولیم کی ذیل کے ایک سیال مادے کیروسن آئل (مٹی کا تیل) نے روغنی تیل کی جگہ لے لی۔ ارزاں اور بآسانی دستیاب یہ سیال تو روشنی کا سفیر ہی بن گیا۔ اب رہائش گاہیں اور کاروباری مراکز روشن ہوگئے۔

مٹی کے تیل سے روشن ہونے والے ان لیمپوں کے کھلے شعلے کو نہ صرف شیشے کے جار سے محفوظ کر دیا گیا، بلکہ ان کے نت نئے ڈیزائنوں نے اس لیمپ کو گھر اور کاروباری مراکز میں ایک شوپیس کا درجہ بھی دے دیا۔ روشنی کے اس طویل ترین سفر میں جلتے شعلے نے ہی اہم کردار ادا کیا۔ جلتی لکڑی سے اگلتے شعلے نے روغنی تیل تک سفر کیا۔ اور پھر اس شعلے نے کیروسن آئل کو گلے لگایا۔ لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ صدیوں کے سفر کے بعد اب شعلہ تھک رہا ہے، واپس اپنی صورت یعنی صرف تپش دینے کے ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے۔

وقت بھی اس شعلے سے روشنی کا مینڈیٹ واپس لے رہا تھا۔ اور اس عمل کا آغاز انیسویں صدی میں بجلی کی آمد نے کردیا۔ اب شیشے کی چھوٹی بوتل بلب کی صورت ایک بٹن دباتے ہی روشن ہوجاتی۔ کتنا آسان ہوگیا، روشنی کا حصول!

شاید تاریک راتوں کی طویل تاریخ، بتدریج انسانی ذہن کے ارتقاء کی بدولت اس عروج تک پہنچ گئی، مگر یہ داستان مکمل نہیں ہوئی، ارتقاء کا سفر جاری رہا۔

بجلی نے نہ صرف بلب کو روشن کیا، بلکہ دھاتی تاروں کے لچھے اور مقناطیس کے باہمی عمل سے برقی موٹر نام کی ایک شے کو بھی حرکت میں لے آئی۔

اس خود کار حرکت نے پوری دنیا میں ہلچل اور بے چینی پیدا کردی۔ ہاتھوں کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے ہر عمل پر برقی موٹر کی اجارہ داری چھانے لگی۔ یوں صدیوں کا سیٹ اپ ٹوٹ رہا تھا۔ صنعتی معاشروں میں بے چینی اور ہلچل کی ایک لہر ابھرنے لگی۔

موٹر کے غلبے نے یورپ میں بے روزگاری کا ایک طوفان برپا کردیا۔ جگہ جگہ بے روزگار ہنرمندوں کے مظاہرے ہونے لگے۔ حکومتیں بھی اس نئی افتاد سے پریشان تھیں۔ کوئی حل ان کے پاس بھی نہ تھا۔ اس عالم میں یہ مخاصمت چلتی رہی، پھر رفتہ رفتہ ہنرمندوں نے بجلی نام کے اس رقیب سے سمجھوتہ کرلیا۔ جس کے نتیجے میں یورپ کی معیشت مزید مضبوط ہو کر ابھرنے لگی۔

نت نئی ایجادات ہوں یا ان کا استعمال، بدقسمتی سے برِصغیر نے ہمیشہ ان "خرافات" سے فاصلہ رکھا۔ اس طرح ایک بڑے عرصے تک یہاں کے لوگ بلب کی روشنی اور برقی موٹروں کی خودکار حرکت سے ناآشنا ہی رہے۔

انیسویں صدی کے وسط تک مٹی کے تیل نے کراچی کے مکانات کو تو روشن کردیا، لیکن یہاں کی گلیاں، بڑی سڑکیں اور چوراہے رات ہوتے ہی گھپ اندھیرے کا چولا پہن لیتے۔ رات کے وقت جانوروں کی مدد سے کھینچے جانی والی بار بردار گاڑیوں پر حادثات سے بچنے کے لئے لالٹین لٹکانا لازمی قرار دیا گیا۔ چور اُچکے بھی اس تاریکی کا فائدہ اٹھا کر اپنا کام دکھا جاتے۔

1847ء میں گورنر سندھ چارلس نیپئر نے اس کے تدارک کے لئے اقدامات کئے، جس کے تحت کراچی کی سڑکوں کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پولز کی تنصیب کر کے ان پر لیمپ لگادیئے گئے، جنہیں کھوپرے کے تیل سے روشن کیا گیا۔ شہر کی 60 میل طویل سڑکوں پر اس وقت تک ایک ہزار لیمپ لگائے جا چکے تھے۔

شام ہوتے ہی کندھے پر ہلکی بانس کی سیڑھی رکھے حکومتی اہلکار آتا، ان کا شیشہ صاف کرتا، تیل ڈالتا اور روشن کرتا چلا جاتا۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا مگر کچھ عرصے بعد ان اہلکاروں نے کھوپرے کے تیل میں خرد برد شروع کی تو ان لیمپوں کو مٹی کے تیل سے روشن رکھا گیا۔

1878ء میں کراچی کی شہری انتظامیہ، کراچی میونسپل کمیشن سے کراچی میونسپلٹی کے درجے پر پہنچی تو اس کے چیف انجینیئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے بجلی کے استعمال کی تجویز کے ساتھ بجلی کمپنی کے قیام کا مشورہ دیا، مگر سرمائے کی کمی کی وجہ سے اسے موخر کر کے ان لیمپوں کو مٹی کے تیل سے جلنے والے گیس کے بڑے ہنڈوں (پیٹرو میکس) سے بدل دیا گیا۔

بیسویں صدی کی ابتداء میں انگریزی حکومت کی جانب سے شہر کو بجلی سے متعارف کرانے کے فیصلے سے کراچی کو روشنیوں کے شہر کی حیثیت سے دیکھنے کے جیمز اسٹریچن کے خواب کو تعبیر ملنے جا رہی تھی۔

1913ء میں اس خواب کو تعبیر اس طرح ملی کہ اس سال میسرز فاربس اینڈ فاربس کیمپ بیل کمپنی نے کراچی الیکٹرک کارپورشن قائم کی۔ مارکیٹ میں اس کے حصص فروخت ہونے کے کچھ عرصے بعد اس کارپوریشن کو یونائیٹڈ ایسٹرن ایجنسی نے خرید کر اس کا نام "کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن" (KESC) رکھا اور اسے مزید ترقی دی۔

مٹی کے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے لئے پہلا پاور پلانٹ آئی آئی چندریگر روڈ اور ڈاکٹر ضیا الدین روڈ کے سنگم پر قائم کیا گیا۔

الیکٹرک کمپنی نے شہر کے چند علاقوں میں بجلی کی لائنوں کی تنصیب کی اور بجلی کے کنکشن بھی فراہم کئے۔

کراچی میں بجلی کا پہلا کنکشن 1913ء میں جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ (ایم اے جناح روڈ) اور دوسرا کنکشن لیمارکیٹ کے علاقے میں پریس والا بلڈنگ (ریور روڈ) کو دیا گیا۔

مجموعی طور پر کراچی کے شہریوں نے کنکشن کے حصول میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ گو کہ گھریلو صارفین کے لئے تین پیسے فی یونٹ اور تجارتی مقاصد کے استعمال کے لئے چھ پیسے فی یونٹ چارج کیا جاتا تھا۔ عدم دلچسپی کی وجہ کرنٹ لگنے کا خطرہ تھا یا کئی نسلوں سے چراغ اور کیروسن لیمپوں کی روشنی سے پیار کرنے والے کراچی کے باسی اس قدر جلد اپنے رومان سے دست کش ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔

کسی طرح انیس سو تیس چالیس کے عرصے میں کراچی کی جاری صنعتی سرگرمیوں میں ایک دو فلور ملیں، آئل ملیں، آرا مشینیں اور دیگر چھوٹی فیکٹریاں بجلی کی مدد سے چلنے لگیں۔ شہر میں کسی چھوٹے کارخانے میں ایک ہی موٹر کو بیلٹ سے جوڑ کر تین چار مشینیں چلانے کا رواج پڑا۔

بہرحال انیس سو چالیس اور پچاس کے دوران گھروں اور کاروباری مراکز کو بجلی کی روشنی سے منور کرنے کا کچھ رجحان بڑھا۔

کچھ سڑکوں پر لگے پولز سے گیس کے ہنڈے اتار کر وہاں بجلی سے جلنے والے بلب لگا دیئے گئے۔

اب گھر، دکانیں اور سڑکیں روشنی میں نہانے لگیں، یوں کراچی روشنیوں کا شہر کہلانے کی جانب بڑھنے لگا۔

مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ اہل کراچی تو انیس سو چالیس پچاس تک برقی موٹر کی خودکار قوت پر اپنے دست بازو کو ہی اہمیت دینے پر تلے ہوئے تھے۔ لائن سے پانی کھینچنے اور اور اوپر چڑھانے کے لئے دستی پمپ پر مشقت کرتے، لوہار اپنی بھٹی کو دہکانے کے بڑی سی دھونکی کو اوپر نیچے کر کے اپنے بازو شل کرتے۔ 

شہر میں بیجوں سے تیل نکالنے والے کولہو کے دُرے کو برقی موٹر نہیں، بلکہ اونٹ یا بیل گھماتے رہے۔ آٹا پیسنے کی چکیوں کے پاٹوں کو اونٹ گھماتے رہے، اور انہیں اونٹ چکیوں کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ کراچی کے مضافات یعنی ملیر، لانڈھی اور میمن گوٹھ میں واقع زرعی زمینوں پر موجود کنؤوں سے پانی کھینچنے کے لئے بیل چلتے رہے۔ گھروں اور واشنگ کی دوکانوں پر استری کو کوئلوں سے گرم کیا جاتا رہا بجلی بس اجنبی اجنبی سی رہی۔

پھر اچانک سن ساٹھ ستر کے آس پاس یہ اجنبی سا مہمان، گھر کا فرد بننے لگا۔

ہوا یہ کہ ان عشروں میں کراچی کی قدیم عمارات کہیں خستہ ہو رہی تھیں، تو کہیں تین نسلوں کے ایک ساتھ رہنے کی قدریں بدل رہی تھیں۔ گھروں میں تو گنجائش تھی، مگر دلوں کی وسعت گھٹ رہی تھی۔ علحیدہ گھر بسانے کی خوش گمانی پرورش پا رہی تھی۔

طوعًا و کرہًا، گھر کے بڑے اپنے شادی شدہ بچوں کو الگ کرنے لگے، اب ان بدلتے حالات میں مزید گھروں کی ضرورت پڑی، تو ایسے میں نئی عمارتیں تعمیر ہونے لگیں اور ظاہر ہے یہ عمارتیں بجلی سے ہی روشن ہوئیں۔

اس طرح سرعت کے ساتھ بجلی نے کراچی کے باسیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یوں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں شہر کا کوئی گھر یا دوکان باقی نہ ہوگا، جہاں بجلی نہ پہنچی ہو۔

ان ہی آخری دو تین عشروں میں ملیں، فیکٹریاں اور کارخانوں کی بڑھتی تعداد نے جہاں بجلی کی کھپت میں اضافہ کیا وہاں گھروں کے اندر روشنی کے علاوہ بھی بجلی کا استعمال بڑھنے لگا۔ فرج، ٹی وی اور استری کے بڑھتے رجحان نے بجلی کی طلب میں اضافہ کیا۔ آہستہ آہستہ طلب اور رسد کا توازن بگڑنے لگا۔ 

بڑھتی طلب کا مقابلہ کرنے کے لئے خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا، نئے پاور ہاؤس قائم نہ کئے جا سکے۔ یوں آخری دہائی میں یہاں کے باسی "لوڈشیڈنگ" کی ایک نئی اصطلاح سے متعارف ہوئے۔ یہ انجانی اصطلاح وبال جان بنتی گئی۔ روشنیوں کا شہر اندھیرے میں ڈوبنے لگا۔ روشنیوں کے عادی شہر کے باسیوں کے پاس اس کا کوئی مستقل علاج یا متبادل نظر نہ آیا۔ لے دے کے "یو پی ایس" یا "جنریٹر میں اس کا عارضی حل ڈھونڈھا۔ مگر یہ ٹوٹکے ہر ایک کے بس میں نہیں۔

حالات کو معمول پر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہوئے ایک نسل سن بلوغت پر پہنچ گئی، اور ایک نسل تہ خاک سوگئی۔

امید اب بھی باقی ہے کہ روشنیوں کے شہر کی روٹھی روشنیاں واپس لوٹ آئیں۔