• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، برطانیہ، یورپ، ترکی، بنگلہ دیش اور بھارت میں مہنگائی کی شدید لہر

لاہور (صابر شاہ) مہنگائی، عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ، ترکی، بنگلادیش اور بھارت میں مہنگائی کی شدید لہر جاری ہے۔ بھارت میں 7.8 فیصد، امریکا میں 8.3 فیصد، بنگلادیش 6.29 فیصد، ترکی میں 73 فیصد یورپی ممالک میں 8.1 فیصد ہوچکی ہے۔ جب کہ برطانیہ میں مہنگائی رواں برس بڑھ کر 15 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق، پیٹرول، بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی ٹیرف میں بڑے اضافے سے پریشان پاکستانی عوام کو لگ رہا ہے کہ حکومت نے اس کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے اور مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے آگے جانے کے بعد یہ دبائو ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ لیکن یہ صورت حال پوری دنیا میں ہی ہےکیوں کہ کورونا کے وقت میں متاثر ہونے والی سپلائی چین اور روس۔یوکرین جنگ سے دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے۔ 

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں وسیع پیمانے پر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے ایک مقامی اشاعتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ریکارڈ مہنگائی کے باعث بھارتی صارفین کی قوت خرید 18 فیصد تک کم ہوگئی ہے۔ 

ایک اور معروف میڈیا ہائوس دی اکنامک ٹائمز کے مطابق ایک اور پریشان کن بات شرح سود میں اضافہ ہے۔ صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) اوسطاً 6.3 فیصد ہوجائے گی ، جب کہ گزشتہ مالی سال میں یہ 5.5 فیصڈ تھی۔ جس کی وجہ سے بھارت کے مرکزی بینک (آر بی آئی) کی جانب سے پالیسی ریٹ 75 سے 100 بیسز پوائنٹس بڑھایا جاسکتا ہے۔ دوحہ کے الجزیرہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ بھارت کی اقتصادی نمو 2022 کے ابتدائی تین ماہ میں سست روی کا شکار رہی۔ 

قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے۔ جب کہ خوردہ مہنگائی اپریل میں آٹھ سال کی بلند سطح 7.8 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ بنگلادیش کے مرکزی بینک نے بنیادی شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹس اضافہ کرکے 5 فیصد کردی ہے۔ بنگلادیش نیوز 24 ویب سائٹ کے مطابق، مرکزی بینک نے فیول آئل، غذائی اور غیر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ 

اپریل میں بنگلادیش میں مہنگائی بڑھ کر 6.29 فیصد ہوگئی تھی جو کہ 18 ماہ کی بلند ترین سطح تھی۔ ترکی میں مہنگائی 23 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی اور وہاں مہنگائی کی شرح 73 فیصد ہے۔ مئی میں ترکی کی شرح مہنگائی 73.5 فیصد ہوگئی تھی۔ غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھ کر 91.6 فیصد ہوگئی تھی۔ جب کہ اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی میں مہنگائی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔ 

یورپ کی شماریات ایجنسی کے مطابق، یورپ میں بھی مہنگائی 1999 کے بعد بلند ترین سطح پر دیکھی گئی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، یورو کرنسی استعمال کرنے والے 19 ممالک میں سالانہ مہنگائی مئی میں ریکارڈ 8.1 فیصد ہوئی، جب کہ اپریل میں یہ 7.4 فیصد تھی۔ 

امریکا میں اپریل میں مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ جرمنی میں مہنگائی 8.7 فیصد، فرانس میں 5.8 فیصد، اسپین میں 8.5 فیصد اور اٹلی میں 7.3 فیصد ہوگئی ہے۔ روس کے سرحدی علاقوں سے قریب ممالک سے متعلق امریکی کے معروف اخبار کا کہنا تھا کہ استونیا میں مہنگائی 20.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ جنوری میں یہ 11 فیصد تھی۔ 

لتھوانیا میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 18.5 فیصد اور لیٹویا میں یہ 16.4 فیصد ہوگئی ہے۔ برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ مہنگائی چند ماہ میں 10 فیصد تک پہنچ جائے گی کیوں کہ فیول اور غذائی اشیاء کی قیمتوں کا دبائو لوگوں پر بڑھ گیا ہے۔ 

بی بی سی نے اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک روٹی 1 پائونڈ کی ہو تو اگلے برس 1.09 پائونڈز کی ہوگی تو یہ 9 فیصد کی سالانہ شرح مہنگائی ہوگی۔ توانائی بلز مہنگائی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں کیوں کہ گیس اور تیل کی قیمتیں یوکرین جنگ کے تناظر میں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ 

برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ گھریلو اشیاء، خام مال، فرنیچر اور ریستوران اور ہوٹلز میں اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ حکومت نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی 20 فیصد کردیا ہے۔ 

اس کے علاوہ متعدد ٹیکس اور ڈیوٹیز عائد کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک غذائی صنعت کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ غذائی قیمتیں رواں برس بڑھ کر 15 فیصد ہوسکتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید