یوں تو افغانستان ایک ویرانہ ہے لیکن اس ویرانے میں نجانے کون سی کشش ہے کہ امریکا اور روس کھنچے چلے آئے۔ اس پر زبردست بمباری کی، چپے چپے پر گڑھے اور غار بن گئے۔ افغانستان کرہ ارض کا بلیک ہول بن گیا… پانچویں اور ساتویں صدی ہجری میں اس بلیک ہول سے دو سورج نکلے… ایک سورج جانب مشرق چلا اور لاہور آکر اس نے جہاں کومنور کیا۔
اسے داتا گنج بخش کہتے ہیں۔ دوسرا سورج جانب مغرب چلا اور ترکی کے ایک قصبے قونیہ میں جامقیم ہوا اور جلال الدین رومی کے نام سے ایک جہاں کو منور کیا۔ ہمارے علامہ اقبالؒ رومی کو اپنا مرشد مانتے تھے انہوں نے افلاک کا ایک تصوراتی سفر کیا بڑے بڑا مشاہیر سے ملاقات کی اس سفر میں مولانا روم ان کے شریک سفر اور رہنما تھے … اس سفرنامے کا نام جاوید نامہ ہے۔
اقبالؒ جویائے اسرارِ ازل تھے اور رومی کاشف اسرار تھے۔ اقبالؒ کو اپنے وطن میں کبھی وہ توقیر و عظمت نصیب نہ ہوئی جو ان کا حق تھی۔ انہوں نے اس کا گلہ بھی کیا۔ اقبالؒ ا ور رومیؒ کے عاشقوں میں لاہور کے رہنے والے استاد خلیفہ عبدالحکیم بہت ممتاز تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب حکمت رومی میں تشنگان علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کی ہے۔ ذیل میں رومی کے افکارکو آسان زبان میں بیان کرنےکی سئی کی گئی ہے۔
رومی کی کتاب کا نام مثنوی ہے۔ مثنوی کا اہم ترین موضوع عشق ہے مولانا ہزار طرح اس کی تفسیر کرتے ہیں اور اکثر وجد و مستی کے عالم میں… وہ کہتے ہیں۔ عشق محبت کی شدت کا نام ہے، محبت خدا کےساتھ بھی ہوسکتی ہے اور مظاہر فطرت کےساتھ بھی۔ گو جذب و کشش کی کیفیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری زبان میں اس جذبے کے اظہار کے لئے زیادہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔
ماں اور بچے کی محبت اور مرد اور عورت کی محبت… دونوں میں فرق ہے لیکن زبان کا افلاس دونوں اقسام میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔ بعض لوگ اسفل اور ادنی عشق کو بیھ عشق سے تعبیر کرتے ہیں رومی اس کی مذمت کرتے ہیں۔مولانا کے نزدیک کائنات میں ارواح کے سوا کچھ نہیں۔خدا ان ارواح کا مصور ہے کسی ناقابل بیان حکمت سے یہ ارواح اپنے ماخذ سے جدا کردی گئیں۔ ہر روح بے تاب ہے اور اپنی اصل کی جانب کشش محسوس کرتی ہے اسی کشش کا نام عشق ہے۔ حیات و کائنات اسی جذب و کشش کا مظہر ہے… مولانا کے نزدیک کائنات میں ارواح کے سوا کچھ اور نہیں۔ خدا ان ارواح کا مصور ہے خدا کوان روحوں سے اتصظال بھی ہے اور انفضال بھی۔ یہ کیفیت عقل و ادراک کی گرفت سے باہر ہے۔ مولانا کہتے ہیں ان گتھیوں کو … استدلال سے حل کرنے کی کوشش نہ کرو…
حافظ شیرازی نے عالم جذب و سرور میں یہ بات کہی ہے… ’’میرا دل وہ جام جہاں نما ہے جس میں کون و مکان کے تمام اسرار منعکس ہوجاتے ہیں۔ یہ روح کب وجود میں آئی، جواب ہے کہ جس روز گنبد مینائی وجودمیں آیا… یعنی کائنات روح انسانی سے پہلے وجود میں نہیں آئی… روح اور کائنات میں تقدم و تاخر نہیں… ہر روح میں ازل سے غیر متناہی ملکات موجودہیں۔ اکثر شعرا اور صوفیانے سمندر کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی حقیقت (خدا) ایک سمندر ہے اور انسان ایک حباپ… روح کی حقیقت قلب مومن پر ہی فاش ہوسکتی ہے۔
یہاں مومن سے مراد ایک ایسا انسان ہے جو عقل و عرفان کےب ہت اعلی درجے پر فائز ہو۔ مولانا روم روح کی قدامت کے بہت قائل ہیں۔ قالب روح کا ایک آلہ ہے جو اس نےعالم زمان و مکان میں زیست کرنے کے لئے وضع کرلیا ہے۔ روحیں اگر کسی دوسرے عالم میں گئیں (جنت دوزخ) ہوسکتا ہےوہاں کوئی دوسرا آلہ وضع کرلیا جائے۔ قالب مجھ سے بنا ہے نہ میں قالب سےمیں شراب میں مستی…میری وجہ سے ہے نہ میں شراب سے مست ہوا ہوں ۔
ہمارے صوفیاکے نزدیک روح کو …خدا لم یزل سے بہت مناسبت حاصل ہے کائنات میں جو کچھ ہے وہ عشق کا مظہر ہے۔ خدا نے انسان کو بے تاب کر رکھا ہے کہ وہ اپنی اصل کی طرف رجوع کرے۔ محبت کی فراوانی… انسان کو رذائل سے پاک کردیتی ہے۔ اخلاق عالیہ اور تزکیہ نفس میں بھی عشق کارفرما ہے۔
اے دوائے جملہ علت ہائے ما تمام کائنات میں جو حرکت ہے وہ عشق کی ہی بدولت ہے ارسطاطالس عقل استدلال سے وحداینت تک پہنچا تھا کہتا تھا خدا مصدر خیر ہے کائنات میں جو سلسلہ ارتقا ہے… اس کا محرک خدا ہے۔ اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں… ارسطاطالس عقل و استدلال سے خدا تک پہنچا تھا قرآن میں جو عقیدہ توحید بیان ہوا ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ قرآن کے مطابق رحمت و ربوبیت خدا کی… صفت ہے۔ مومن کو حکم ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے خدا کو رحمان و رحیم کے نام سے پکارے تاکہ ان صفات کا پرتو… اس کی ذات پر بھی پڑے۔ محض خدا کا نام جپنا… اور سطحی شکل ہے… عبادت اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کے بغیر نہیں ہوسکتی… روح عبادت یہ ہے کہ معبود کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے۔ خدا ایسے عابدوں کے متعلق فرماتا ہے خدا ن سے محبت کرتا ہے اور وہ خدا سے محبت کرتے ہیں… محبت ہی جوہر عبادت اور غایت عبادت ہے۔ مومن کا خدا محب بھی ہے محبوب بھی جس قدر انسانی روح خدا سے واصل ہونے کی شائق ہے اسی قدر خدا بھی بندے کے قرب کا طالب ہےوہ کہتا ہے تم میری طرف ایک قدم آئو میں تمہاری طرف دس قدم بڑھائوں گا۔
اس عقیدے کو واضح کرنے کے لئے مولانا روم نے بہت کوشش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عشق کی ہمہ گیری ان ذرات میں بھی مو جود ہے جنہیں عام انسان جامد اور بے جان تصور کرتے ہیں… ارض و سما کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح میں مصروف ہے… مولانا کے زمانے میں ایٹم کو کریدا نہ گیا تھا… جب ذرے کا دل چیرا گیا تو حیرت ہوئی… کے بچے (الیکٹرون) ذرے کے دل کے اطراف گردش میں مصروف ہیں یہ گردش بہت بافائدہ اور منضبط ہے… ذرے زبان کی بجائے اعمال سے تسبیح کررہے ہیں۔ ذروں کی حرکت کی وجہ ذوق عشق ہے مولانا فرماتے ہیں عشق کے بغیر کائنات ہی نہ بن سکتی تھی کائنات میں جو اجسام اور اجرام ہیں و ہ باہمی کشش کی وجہ سے حرکت کررہے ہیں۔
سترہویں صدی عیسوی میں ایک بڑے عالم نیوٹن نے دعویٰ کیا کہ کائنات کے اجرام و اجسام باہمی کشش کی وجہ سے گردش میں ہیں اور یہ گردش ریاضی کے اصولوں کے تابع ہے… دنیا میں جو چیز بھی ہے وہ باہمی تجاذب و کشش سے قائم ہے۔ کائنات میں دو طرح کی قوتیں ہیں ایک ذرے کو مرکز کی طرف کھینچتی ہے دوسری مرکز سے دور کرتی ہے اگر کائنات میں ساری چیزیں ایک جیسی ہوجائیں تو کوئی حرکت اور زندگی، کوئی ارتقا نہ ہوسکے۔ مولانا روم کی چشم بصیرت نے وہ دیکھ لیا… جس کے ظہور میں کئی صدیاں باقی تھیں… ان باتوں کو مولانا کا کشف سمجھنا چاہئیے۔ مولانا نے کائنات میں تجاذب محسوس کرلیا تھا… مولانا کہتے ہیں کہ تمام اجرام فلکی کی حرکت بھی اسی تجاذب (عشق) کی بدولت ہے۔ اگر یہ تجاذب نہ ہوتا یہ جہاں ٹھٹھر کر رہ جاتا نہ اس میں حرکت ہوتی نہ آفر ینیش۔
مولانا روم کے مشکل افکار کو اس ناچیز نے آسان ترین زبان میں بیان کرنے کی جسارت کی ہے۔ آج کل مولانا روم کو مغربی دنیا میں بہت پذیرائی حاصل ہورہی ہے… افسوس ہے ہم لوگوں پر… چاند اور سورج ہماری مٹھی میں ہیں اور ہم جہالت اور رسوائی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ پاکستانیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے علمی ذخائر سے استفادہ کریں تاکہ حسن کا گنج گرانمایہ ان کے ہاتھ آجائے… زندگی کو کوئی مقصد اور غایت حاصل ہو۔ اگر انسان کو زندگی کا مقصد حاصل ہوجائے تو زندگی اسی طرح پرلطف ہوجائے جیسے جنت میں ہوگی۔