• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف شفیق

مستقبل کے حسین خواب اپنی جگہ لیکن ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کا اپنا ایک الگ ہی رومانس ہوتا ہے آج ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہوں تو کتنے چہرے کتنی آوازیں میرے احساسات کی دنیا میں جگمگانے لگتی ہیں دعا ڈبائیوی جوگوالیار کے اہم شعراء میں شمار ہوتے تھے میرے خالو ضیائے عباس ہاشمی کے قریبی ساتھی بھی تھے اور میرے والد شفیق بریلوی کے دوستوں میں بھی شامل تھے۔ وہ 1955ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور تقریباً 81سال کی عمر میں 1982ء میں ان کا انتقال ہوا ان کے تین شعری مجموعے تاثیر دعا، تصویر دعا اور تنویر دعا شائع ہوئے اس وقت ان کے دو اشعار یاد آ رہے ہیں۔

بہ الفاظ وگر تقدیر اسی کو لوگ کہتے ہیں

جب اپنی کوششوں سے آدمی مجبور ہو جائے

سوتی رہی خدا کی خدائی تمام رات

اک ہم تھے ہم کو نیند نہ آئی تمام رات

دعا صاحب کا انداز گفتگو بڑا پراثر تھا میں نے ان سے گوالیا کے بڑے قصے سنے تھے میری والدہ کا تعلق بھی گوالیار سے رہا تھا ویسے تو میری والدہ کا آبائی وطن غازی پور تھا۔ اور دعا صاحب کا بھی آبائی وطن ڈبائی ضلع بلند شہر تھا دعا صاحب ایک استاد شاعر تھے اس شہر میں ان کے سب سے مشہور شاگرد امید ڈبائیوی تھے جو بعد میں امید فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے دعا صاحب تو میرے بزرگوں کی طرح تھے ان سے ایک خاص احترام کا رشتہ بھی تھا اس لئے شعر و ادب پر تو ان سے کبھی بات کرنے کی جرات نہیں ہوئی ویسے بھی میں احترام میں ان کے سمنے کم ہی بولتا تھا۔ 

بس ان سے گوالیار کے قصے اور ہجرت کے حوالے سےان کی گفتگو سنا کرتا تھا بعد میں جب وہ کافی بوڑھے ہوچکے تھے اور میں بھی ادبی دنیا میں اپنی ایک پہچان بنا چکا تھا جب ان سے شعر و ادب پر گفتگو کا سلسلہ رہا وہ میرے خالو اور اظہر عباس ہاشمی کے والد ضیائے عباس ہاشمی کے گوالیار کے مشاعروں کے بارے میں بتاتے کہ وہ کس طرح ہندو ذہنیت کی اس وقت عکاسی کر رہے تھے امید فاضلی میرے والد کے دوست بھی تھے اور لیاقت آباد 5 نمبر میں ہمارے پڑوسی بھی تھے۔ 

انہوں نے میرا بچپن بھی دیکھا تھا جوانی بھی میری شاعری کا آغاز ان کے سامنے ہی ہوا تھا وہ اکثر مشاعروں میں مجھے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے میرے والد شفیق بریلوی نے 1949ء میں قومی نغموں کی ایک کتاب رزم بزم شائع کی تھی اس میں امید فاضلی کی نظم امید ڈبائیوی کے نام سے شائع ہوئی تھی قیام پاکستان کے بعد جب میرے والد روزنامہ اردو ڈان سے وابستہ ہوئے تو پاکستان میں پہلی بار جو پاک و ہند مشاعرے منعقد ہوئے۔

وہ ڈان کے زیر اہتمام ہی منعقد ہوئے تھے ان مشاعروں کے انعقاد میں میرے والد شفیق بریلوی کا بھی اہم کردار تھا یہ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے لیکن میرے خالہ زاد بھائی اظہر عباس ہاشمی اس وقت سن شعور کو پہنچ چکے تھے ان کے ذہن میں وہ مشاعرے محفوظ تھے بعد میں انہوں نے ان ہی مشاعروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جامعہ کراچی کے اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ مل کر ساکنان شہر قائد کے پاک و ہند مشاعروں کی بنیاد رکھی۔ ہجرت کے حوالے سے یہ تو تذکرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ تقسیم کے وقت ہزاروں خاندان بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ 

دعا ڈبائیوی ہوں یا امید فاضلی دونوں اس دکھ سے گزر رہے تھے۔ دعا ڈبائیوی کے ایک صاحبزادے جو ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے ان کا نام تھا ندا فاضلی جو غزل اور نظم کے بھی اہم شاعر تھے اور فلمی گیت نگار بھی تھے۔ جب عالمی مشاعروں میں شرکت کے لئے وہ پاکستان آتے تو میری ان سے بھی ضرور ملاقات ہوتی ان سے میری آخری ملاقات مشہور ادب نواز شخصیت حفیظ باحلیم کے گھر کی خاص محفل میں ہوئی تھی جس میں میرے علاوہ جمال احسانی، جاوید صبا اور نوجوان مصور شاہد رسام بھی شریک تھے۔ ندا فاضلی ہمیں بمبئی کی فلمی دنیا اور ہندوستان کے مشاعروں کے حوالے سے تفصیلات بتا رہے تھے ان کی خواہش تھی کہ جمال احسانی، جاوید صبا اور میں بھی ضرور بمبئی آئیں اور ہم سب ان کے مہمان رہیں ۔آج ندا فاضلی بھی ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی شاعری ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہے گی خاص طور پر ان کا یہ شعر:

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

امید فاضلی کی آنکھوں میں مجھے جہاں ذہانت کی چمک نظر آتی تھی وہیں ایک گہری اداسی بھی دکھائی دیتی کیا عجیب اتفاق ہے کہ میں نے 1979 میں شادی کے بعد اپنی نئی زندگی کا آغاز جس مکان سے کیا وہ اسی گلی میں تھا جہاں میرے بچپن کے ابتدائی 6سال گزرے تھے۔ امید فاضلی جب بھی وہیں رہتے تھے میرے گھر کی شعری نشستوں کی صدارت بھی ہمیشہ وہ ہی کرتے تھے جب رائل اکیڈمی کے نعیم صاحب نے میرے ساتھ ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا تو اس کی صدارت بھی امید فاضلی نے کی تھی جس میں آذر حفیظ اور ایم اے راحت نے بھی اظہار خیال کیا تھا۔ 

جب میرا دوسرا شعری مجموعہ شائع ہوا تو میں نے وہ مجموعہ امید فاضلی کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ امید بھائی آپ نے مشاعرے بہت پڑھ لئے آپ مشاعروں کے کامیاب شاعر ہیں۔ اب ذرا اپنی کتاب کی اشاعت پر بھی توجہ دیں پھر جب بھی ان سے ملاقات ہوتی میں اپنی اسی بات کو دہراتا وہ کچھ سوچنے لگتے پھر چند ماہ بعد ہی ان کا شعری مجموعہ دریا آخر دریا ہے، شائع ہوا پھر اس کے بعد مراثی کا مجموعہ سرنینواء حمد و نعت کا مجموعہ میرے آقا، مراثی کا ایک اور مجموعہ تب و تاب جاوداں، قومی و ملی شاعری کا مجموعہ پاکستان زندہ باد شائع ہوئے۔ امید فاضلی سے میرے فیملی تعلقات تھے۔

وہ اپنے بیٹے شاہین سے بہت محبت کرتے تھے اس کی جواں مرگی نے انہیں بکھیر کر رکھ دیا تھا ان کے بیٹے تحسین اور داماد فیروز سے بھی میری دوستی تھی ان کا ایک چھوٹا بیٹا جس کا نام مجھے یاد نہیں وہ ان کی بہت خدمت کرتا تھا جب میں نے لیاقت آباد چھوڑا تو کچھ عرصہ بعد وہ بھی سمن آباد شفٹ ہوگئے تھے پھر میں اکثر ان کی عیادت کرنے جاتا کیونکہ وہ اکثر بیمار رہتے تھے ان سے میری آخری ملاقات ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے میں ہوئی تھی وہ بہت کمزور ہوگئے تھے انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر لایا گیا تھا۔ ستمبر 2005ء میں وہ ہم سے بچھڑ گئے ۔

امید فاضلی کے صرف چند اشعار ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے کیونکہ ماضی کی یادوں میں ایک الگ ہی رومانس ہوتا ہے۔

یہ سرد رات یہ آواگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

……

گھر تو ایسا کہاں کا تھا لیکن

دربدر ہیں تو یاد آتا ہے

……

آسمان سے فرشتے جو اتارے جائیں

وہ بھی اس عہد میں سچ بولیں تو مارے جائیں

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی