(عطیہ خون کے عالمی دن کی مناسبت سے خصوصی مضمون )
ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے اُن آٹھ دنوں میں سے ایک ہے جو ہر سال WHOکی طرف سے منائے جاتے ہیں ۔ ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے کا مقصد لوگوں میں خون دینے کی آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے ۔عطیہ کیے گئے خون سے ضرورت مند لوگوں کی جانیں بچائی جاتی ہیں ،یہ دن سب سے پہلے 2004میں منایا گیا ۔اس دن کو ہر سال 14جون کو نو بل انعام یافتہ سائنسدان( کارل لینڈ سیٹز) کی پیدائش (14جون 1868) کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جنہوں نے A,B,O بلڈ گروپنگ سسٹم کو دریافت کیا ،جس کے نتیجے میں 1907میں ریوبن اٹن برگ نے انتقال خون کاپہلا کامیاب تجربہ کیا ۔ہر صحت مند انسان تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے ،سائنسی تحقیق کے مطابق یہ قدرتی عمل ہے کہ 90سے 120دن کے اندر سرخ خلیے ختم یا ضائع ہو جاتے ہیں تو پھر کیوں نہ ہم یہ عطیہ کردیں تاکہ اس سے قیمتی انسانی زندگیوں کو بچایا جاسکے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال دُنیا میں 112.5ملین بیگ خون اکٹھا کیا جاتا ہے ۔اس میں سے 47%خون ترقی یا فتہ ممالک میں اکٹھا ہو تا ہے ۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں 57%ملکوں میں سو فیصدخون ،بلا معاوضہ خون عطیہ کرنے والے لوگوں سے لیا جاتا ہے ۔عطیہ کیے گئے خون کے ایک بیگ سے تین اجزا تیار کئے جاتے ہیں جوتھیلی سیمیا،ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر کے مریضوں کو لگائے جاتے ہیں اور یوں خون کا ایک بیگ عطیہ کر کے تین انسانی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں ۔اندازاً پاکستان میں روزانہ 8000خون کی بوتلوں کی ضرورت ہو تی ہے جبکہ کل آبادی کا صرف ایک فیصد لوگ خون کا عطیہ کرتے ہیں جو ناکافی ہے ، جبکہ عطیہ خون کردہ کا 60%تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے استعمال میں آتا ہے باقی عطیہ کر دہ خون بہت سی طبی پیچید گیوں ،قدرتی آفات اور عمل جراحی کے دوران استعمال ہو تا ہے ۔ڈونر ز کی تعدا د بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ بلڈ ڈونیشن کے رجحان میں اضافہ کرنے کیلئے پرنٹ ،الیکٹر ونک اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے ۔ میری رائے کے مطابق بلڈ ڈونیشن کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور بلڈڈونرز کی وفاقی و صوبائی سطح پر پذیرائی کی جائے ۔اسی سوچ کے تحت پنجاب کے وزیِراعلیٰ جناب حمزہ شہباز نے بلڈ ڈونرز کی طرف خاص توجہ دیتے ہوئے بلڈ ڈونرز اور بلڈ کیمپس کا اہتمام کرنے والے اداروں، کالجز اور یونیورسٹوں کے سربراہان کی حوصلہ افزائی کے لیے سر ٹیفکیٹ تقسیم کیےاور ان کے کر دار کو سراہا۔ گورنر پنجاب محمد بلیغْ الرحمن ریگولر بلڈ ڈونر ہیں اور تھیلیسیمیا کے مریضوں کیلئے خود متواتر خون کا عطیہ دیتے ہیں ۔ خون کے عطیہ آگاہی مہم میں سب سے پہلے انہوں نے اپنے خون کاعطیہ دیا اور خصوصاً نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ خون کا عطیہ دیں تاکہ تھیلیسمیا ،ہیمو فیلیا اور دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کی زندگیوں کا چراغ روشن رکھا جاسکے ۔گورنر ہائوس کے اسٹاف نے بھی خون کا عطیہ دیا اوراس بات کا اعادہ (عہد ) کیا کہ وہ خون کا عطیہ دیتے رہیں گے۔اس کےلیے وفاقی وصوبائی سطح پر گورنر ،وزرائے اعلیٰ ،پرائم منسٹر اور پر یز یڈنٹ آفسز/ہا ئو سز میں خون کا عطیہ دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ان اقدامات سے عوام میں خون عطیہ کرنے کا شعور پیدا ہو گا جس سے قیمتی انسانی زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی ۔ہر تندرست فرد جس کی عمر 18سے 60سال کے درمیان ہے ،وہ ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے ۔اس سے خون میں چکنائی کی مقدار پر قابو پانے میں مد دملتی ہے اور قوت مدافعت میں اضافہ ہو تا ہے تین مہینے کے اندر نیا خون بن کر جسم کے ذخیرے میں شامل ہو جاتاہے ۔ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مریض بھی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں ، بشرطیکہ ان کا مرض کنٹرول میں ہو ۔اس موقع پریہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کون سے افراد خون کا عطیہ نہیں دے سکتے ؟ تو سرطان اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا افراد یا جو اعصابی ،جنسی مرض کا شکار ہوں ،منشیات کے عادی افراد اور خصوصاً وہ جو انجکشن کے ذریعے نشہ آور اودیہ استعمال کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں خون کے مختلف امراض مثلاً ہیمو فیلیا اور تھیلیسیمیا میں مبتلا افراد ،جو گزشتہ دودن سے بخار اور نزلہ زکام کا شکار ہوں اور اینٹی بائیو ٹکس کا استعمال کر رہے ہوں ۔ تا ہم یہ مریضصحت یاب ہو نے کے 14دن بعد خون کا عطیہ دے سکتے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے فلا حی ادارے خون کی فراہمی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ان میں ایک سندس فائونڈیشن بھی ہے جو جدید طریقے سے خون کی ترسیل کیلئے اپنی مثال آپ ہے، سندس فائونڈیشن نہ صرف اپنے رجسٹرڈتھیلیسیمیا ،ہیمو فیلیا و بلڈ کینسر کے مریضوں کو بلکہ سرکاری و نجی اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو بھی صاف اور صحت مند خون مفت مہیا کرتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے سندس فائونڈیشن جیسے اداروں کو زیادہ سے زیادہ خون اور مالی عطیات دئیے جائیں تاکہ یہ ادارے احسن طریقے سے کام سر انجام دے سکیں۔