• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دنوں سے نسرین جلیل کی مجوزہ تعیناتی، احد چیمہ کا استعفیٰ اور حکومت پاکستان کی طرف سے بیوروکریٹس کی اسکریننگ کا نیا نظام خبروں میں ہے۔ اِسی حوالے، یادوں کے توشہ خانے سے کئی خیال ذہن میں اُمڈتے رہے۔ محترمہ نسرین جلیل بارے اتنا جانتا ہوں کہ وہ مرحوم ظفرالاحسن کی اولاد ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران، لُٹے پُٹے، بے یارومدد گار مہاجرین نے واہگہ کی سرحد عبور کی۔ لاکھوں جانیں گئیں اور اِس ابتلا کے دور میں یو پی سے تعلق رکھنے والے مرحوم ظفرالاحسن کو لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی اہم ذمہ داری سونپی گئی۔ دن رات کی محنت سے، اُنہوں نے مشکلات پر قابو پایا۔ وہ صرف دو سال لاہور میں تعینات رہے مگر اِس دوران دو اضافی بستیوں، ’’سمن آباد‘‘ اور ’’گلبرگ‘‘ کی شروعات کر گئے۔

ڈپٹی کمشنر لاہور کے مختصر دورانیے کے بعد اُنہیں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیاگیا۔ اِس حیثیت میں، پسماندہ اضلاع میں نئی زمینوں کو زیرِ کاشت لانا مقصود تھا۔ ترقیاتی منصوبے میں مظفر گڑھ، لیہ، میانوالی، بھکر اور خوشاب کے اضلاع شامل تھے۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر تحقیقی مقالوں میں اِس منصوبے کے اہداف حاصل کرنے اور مولانا محمد علی جوہر کے نام پر ایک نیا شہر ’’جوہر آباد‘‘ بسانے پر ظفرالاحسن کی بے پناہ تعریف کی گئی۔تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے منصوبے کی کامیابی، اُنہیں ایک نئی ذمہ داری کی طرف لے گئی۔ قائدِ اعظم کی تحریک پر مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی دائودکی مشترکہ کاوش سے 29اکتوبر 1946ء میں تین DC-3 جہازوں سے کلکتہ میں اورینٹ ایئر ویز (Orient Air Ways) کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ 1953ء تک اِس کمپنی کی حالت مخدوش ہو گئی۔ حکومتِ پاکستان کے سول ایوی ایشن ڈیپارٹمنٹ نے نئے جہاز خریدے۔ 1954ء میں دونوں اداروں کے انضمام سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن وجود میں آئی۔ ظفرالاحسن کو تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے تبدیل کر کے پی آئی اےکا اوّلین مینجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ ایک دفعہ پھر، ایک نیا ادارہ اور نئی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا مرحلہ۔قیام کے پہلے سال، ریکارڈ کے مطابق، پی آئی اے کی پسنجر ٹریفک میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔ BOAC کی اجارہ داری ختم کر کے پی آئی اے کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا۔ براستہ قاہرہ اور روم، لندن کی پروازیں شروع ہوئیں تو دُنیا کے نقشے پر پی آئی اے نے اپنے قدم جما لیے۔ ایک نئی ایئر لائن کے لیے سب سے مشکل مرحلہ، مختلف شعبوں کے لیے صحیح لوگوں کا چنائو، دُرست خطوط پر افرادی قوت کی تربیت اور قواعد و ضوابط کا نیا اور مؤثر ڈھانچہ اُستوار کرنا ہوتا ہے۔ 1954-59ء کے پانچ سالہ دور میں ظفرالاحسن نے پی آئی اے کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی۔کوئی اور ملک ہوتا تو ، ظفر الاحسن کی بے مثال پذیرائی ہوتی۔مگر جو ہوا وہ بالکل مختلف تھا۔ 1947ء سے 1958ء تک سرکاری ملازمین کو آئینی تحفظ حاصل تھا۔ اِسی بناپر وہ مقتدر حلقوں کی حکم عدولی سے باز نہ آتے۔ جب ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو بہت سے سرکاری افسران، مارشل لا کے ضابطوں کے تحت اسکریننگ (screening)کے عمل سے گزرے۔ کسی افسر یا عدالت کو اسکریننگ کا ریکارڈ فراہم نہ ہونے پر علم ہی نہ ہو سکا کہ کس زمانے کی کونسی حکم عدولی، اُن کے نامۂ اعمال کو تاریک کر چکی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں چھپی، جسٹس کارنیلیس پرلکھی گئی Ralph Braibanti) ) کی کتاب سے پتا چلتا ہے کہ صدر ایوب کے دفتر میں یکطرفہ اسکریننگ کا نتیجہ 27 جون 1959ء کو موصول ہوا اور اُسی روز 1662 سرکاری ملازمین کی برطرفی، سرکاری گزٹ کی زینت بنی۔ مرحوم ظفرالاحسن کو وجہ بتائے بغیر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اُنہوں نے یکطرفہ اسکریننگ کے خلاف اپیل دائر کی۔ اگر دلچسپی ہو تو (Zafar-ul-Ahsan v Republic of Pakistan, PLD 1959 Lah.879) کے فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ کی بے بسی ملاحظہ ہو سکتی ہے۔ ظفرالاحسن صرف 22 سال کی نوکری کے بعد، خاموشی سے رُخصت ہو گئے۔ تھل کے مکین آج بھی اُنہیں یاد کرتے ہیں۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہوئے قصے کے مطابق، ایوبی کابینہ کے ایک وزیر زمین کی الاٹمنٹ کے انکار پر اُن سے خفا تھے۔ ہمارے ایک سینئر افسر طارق محمود نے چند ہفتے پہلے ایک خود نوشت تحریر ’’دامن خیال‘‘ میں ضلع لیہ کے حوالے سے ظفرالاحسن کا ذکر سنہری لفظوں میں کیا ہے۔ دس سال بعد، یحییٰ خان کے دور میں 303 اعلیٰ افسران، ایک دفعہ پھر مارشل لا کی اسکریننگ سے برطرف ہوئے۔ جب مارشل لا کا ہتھیار ، ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ لگا تو بیک جنبشِ قلم 1300 سرکاری ملازم گھرسدھارے۔ احد چیمہ کی نوکری کا دورانیہ بھی تقریباً ظفرالاحسن کی مدت ملازمت جتنا ہے۔ نوکری کے دوران، میری احد چیمہ سے صرف ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ کبھی اکٹھے کام کرنے کا موقع نہ ملا۔ اُن کا مقدمہ شاید آج بھی زیر سماعت ہے۔ قانون کے مطابق، الزامات پر اظہار خیال نامناسب ہو گا۔ مگر اپنے استعفے میں وہ حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ ایک سرکاری ملازم کی ایمانداری اور کارکردگی کا جائزہ لینے کا مروجہ نظام اُن کے کام نہ آیا۔

سول ملازمین کی ریکروٹمنٹ، تربیت، معقول مشاہرہ ، ترقی اور قانونی تحفظ ایسے عوامل ہیں جو دُنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اپنائے گئے۔ انگریز نے نہ صرف برصغیر بلکہ مشرقی افریقہ اور دُوسری کالونیوں میں بھی ایک مخصوص انتظامی ڈھانچہ تعمیر کیا۔ بدقسمتی ہے کہ بجائے بہتری لانے کے، ہم نے بتدریج نئے تجربات سے، اِس انتظامی نظام کو کمزور کیا اور یہ عمل اب تک جاری ہے۔

تازہ ترین