• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے مالی سال کا بجٹ آگیا، جس کے مثبت اور منفی اثرات پر بحث جاری ہے۔ہم اس کے چند اہم نکات کا یہاں ذکر کر رہے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ مُلکی معیشت کس سمت جارہی ہے۔اگلے مالی سال کے لیے 9502ارب روپے کا کُل تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس میں قرضوں اور سود کی ادائی کے لیے سب سے زیادہ رقم رکھی گئی ہے یا رکھنی پڑی ہے، جو اِس بات کی علامت ہے کہ ہماری معیشت پر قرضوں کے دباؤ کا کیا عالَم ہے۔ قرضوں کی ادائی کے لیے مختص رقم 3950 ارب روپے ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا44 فی صد کے قریب سود اور قرضوں کی ادائی میں چلا جائے گا۔پاکستان80 ہزار ارب روپے کا مقروض ہوچُکا ہے۔ 

گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ریکارڈ قرضے لیے گئے، جب کہ کوئی ایسا ترقّیاتی منصوبہ نہیں لگایا جاسکا، جس سے آمدنی بڑھائی جاسکے۔ بجٹ میں جو ساٹھ فی صد رقم بچی ہے، اُس میں دفاع کے لیے1523 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔پھر گرانٹس کا نمبر ہے، جس کے لیے1244 ارب روپے مختص کیے گئے۔ترقّیاتی اخراجات کی مد میں 800 ارب روپے ہیں۔واضح رہے، اب صحت، تعلیم، مواصلات، ماحولیات غرض سب ہی صوبائی معاملات ہیں اور صوبے ہی انھیں تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔اگر وہ چاہیں، تو وفاق کی رضا مندی سے کسی مُلک یا ادارے سے براہِ راست سرمایہ کاری کروا سکتے ہیں اور بہت سے منصوبے اسی طرز پر چل بھی رہے ہیں۔

انتظامی معاملات کے لیے550 ارب روپے، جب کہ تن خواہوں اور پینشن کے لیے530 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاق نے سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں پندرہ فی صد اضافہ کیا ہے۔ ظاہر ہے، یہ منہگائی کے اثرات کم کرنے کی ایک کوشش ہے، جو پیٹرول اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بڑھنے سے پیدا ہوئی ہے۔مختلف اشیاء پر سبسڈی کے لیے688 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔یہ رقم اُن اداروں کو ادا کی جائے گی، جو نقصان میں چل رہے ہیں۔اس میں پی آئی اے جیسے ادارے سرِفہرست ہیں۔

بیش تر ماہرین کا خیال ہے کہ مشکل حالات میں یہ آسان بجٹ ہے، جب کہ پی ٹی آئی اسے معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس بجٹ میں گروتھ ریٹ کا ہدف پانچ رکھا گیا ہے، جب کہ گزشتہ سال یہ5.7 تھا، لیکن کرنٹ اکاونٹ خسارہ، جو اٹھارہ بلین ڈالرز ہے،مسلسل بے قابو ہو رہا ہے، اِس لیے ماہرین کے مطابق گروتھ ریٹ کو بڑھانا نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ وزیرِ خزانہ نے افراطِ زر کو11.3 پر رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

یہ بہت مشکل ہدف ہے، خاص طور پر تیل کی بڑھتی قیمتیں سامنے رکھی جائیں، تو ہدف کا حصول آسان نہیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مارچ کے آخر میں جاری بلیٹن کے مطابق اُس وقت پاکستان کے کل قرضے (بیرونی اور اندرونی ) 53.5 کھرب روپے تھے۔2018 ء میں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا، تو یہ قرضے29 کھرب روپے سے ذرا زیادہ تھے۔ ساڑھے تین سال میں 23.7کھرب روپے کا اضافہ ہوا، جو کل قرضوں کا80 فی صد ہے۔اِس وقت یہ رقم مُلک کی جی ڈی پی کا 82 فی صد بنتی ہے۔

لگتا یہی ہے کہ بجٹ میں عام لوگوں کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ آئی ایم ایف سخت ترین اقدامات کا مطالبہ کرتی رہی۔خاص طور پر وہ پیٹرول اور سبسٹدی کے معاملے میں تو کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ آئی ایم ایف کے معاہدے پر سابق وزیرِ خزانہ، شوکت ترین نے دست خط کیے تھے۔ اُنہوں نے تمام شرائط تسلیم کی تھیں اور شاید اُن کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں تھا۔ اب موجودہ حکومت کو ہر حال میں اس معاہدے پر عمل کرنا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے۔

نیز، اس سے بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی مالیاتی معاملات بھی جُڑے ہوئے ہیں۔اس پر کسی نوعیت کا ٹرن رائونڈ لینا ہو، تو وہ بھی اگلے مذاکرات ہی میں ممکن ہوگا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اِس حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال ہے اور اسے انتخابات میں بھی جانا ہے۔ اس لیے جو کچھ کرنا ہے، اسی عرصے میں کرنا ہوگا۔ کچھ بھی ہو، اسے معیشت میں بہتری لانی ہوگی وگرنہ اس کی قیمت الیکشن میں چُکانا پڑے گی۔ پنجاب میں17 جولائی کو20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔

ان انتخابات کے نتائج پر پنجاب حکومت کا دارومدار ہے، جو مُلک کا سب سے بڑا صوبہ اور فیصلہ کُن سیاسی قوّت کا حامل ہے۔عوام پر اِس بجٹ کے اثرات دیکھنے کے لیے کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، بڑھتی منہگائی کی صورت ہر مارکیٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی اِس بات سے انکاری ہو کہ منہگائی نہیں ہے، تو وہ یقیناً غلط بیانی سے کام لیتا ہے، کیوں کہ منہگائی کا اعتراف تو خود مُلک کے وزیرِ خزانہ ہر روز ہی کرتے ہیں۔ اِسی منہگائی کو دیکھ کرعمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنا بیانیہ بدل لیا ہے اور وہ اب امریکی سازش سے حکومت ہٹانے کی بجائے بڑھتی منہگائی کو ایشو بنا رہے ہیں۔

اپوزیشن کے طور پر یہ کردار اُن کا درست فیصلہ ہے،تاہم اِس معاملے وہ اور حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں۔ دونوں ہی منہگائی کا رونا رو رہے ہیں، یہ الگ بات کہ ایک دوسرے کو الزام بھی دے رہے ہیں۔ اب اپوزیشن کے پاس بیانات داغنے اور احتجاج کے علاوہ کچھ نہیں، جب کہ حکومت کے سامنے چیلنجز ہی چیلنجز ہیں۔ اسے اب ڈیلیور کرنا ہے۔خود حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے دیوالیہ معیشت کو اس لیے لیا کیوں کہ وہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانا چاہتے ہیں۔لیکن الفاظ کتنے ہی متاثر کُن کیوں نہ ہوں، عوام تو عمل دیکھتے ہیں۔یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ ساری دنیا منہگائی کی لپیٹ میں ہے۔

تیل، اجناس اور اشیائے صَرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔اوورسیز پاکستانیوں سے بات ہوتی ہے،تو وہ بھی اپنے اپنے ممالک میں منہگائی سے بُری طرح پریشان ہیں۔ یعنی یہاں بھی اور وہاں بھی سب ہی اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی منہگائی کے واضح جواز موجود ہیں۔پوسٹ کووِڈ دور اور روس کا یوکرین پر حملہ حالیہ منہگائی کی اہم وجوہ ہیں۔ایک نے عالمی معیشت کو سُست کیا، تو دوسرے نے تیل، گیس اور اجناس کی سپلائی کا بحران پیدا کردیا۔

ہم نے پہلے بھی لکھا کہ روس کی مغرب، خاص طور پر یورپ کو دبائو میں لانے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے جنگ میں مصروف ہیں، لیکن روس نے غریب ممالک کو کس بات کی سزا دی ہے؟بلاشبہ پیوٹن آئرن مین، اسٹرانگ مین ہیں، لیکن کیا اُن کی یہ ساری طاقت اُن پس ماندہ ممالک کی معیشت کو تباہ کرنے پر خرچ ہوگی؟ کاش وہ اپنے پڑوسی چین سے سبق لیتے کہ طاقت و دولت کو دوسرے ممالک کی ترقّی اور بھلائی کے لیے بھی استعمال کر کے بڑی طاقت بنا جاسکتا ہے، جنگ کرنا ہی ہر مسئلے کا حل نہیں۔یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان میں روسی سفیر نے ایک بیان میں بتایا کہ عمران حکومت سے تیل کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، مطلب کے سستے تیل کی باتیں محض سیاسی بیانات ہیں۔

عالمی منہگائی کے اثرات اپنی جگہ لیکن اسے جواز بنا کر عوام کی زندگی اجیرن کردی جائے، یہ کوئی مناسب بات نہیں اور اسے کسی بھی حکومت کے لیے بہتر حکمتِ عملی قرار نہیں دیا جاسکتا۔موجودہ حکومت کی جہاں بہت سی کم زوریاں گنوائی جاسکتی ہیں، وہیں اس کام یابی کا اعتراف نہ کرنا بھی ناانصافی ہے کہ صرف نو ہفتوں میں بائیس کروڑ افراد کے غریب مُلک کا قومی بجٹ پیش کردیا، جو اپنے مختلف مثبت اور منفی پہلوؤں کے باوجود ملک کو آسانی سے چلاسکتا ہے۔ پھر حالات وہ کہ معاشی خرابی کا ہر خاص وعام اعتراف کرتا ہے۔

صوبائی اسمبلیوں نے بھی اپنے اپنے بجٹ پیش کردیے ہیں، جس کا مطلب ہوا کہ مُلکی گاڑی اب چل پڑی ہے اور معاشی جمود ٹوٹ چُکا ہے۔یقیناً اِن حالات میں حکومت کو بڑی آزمائش کا سامنا ہے، لیکن جس نے حکومت سنبھالی ہے، اُسے اس عمل سے تو اب گزرنا ہی پڑے گا۔ عوام بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ہر حکومت اُن ہی سے صبر اور قربانی کا مطالبہ کیوں کرتی ہے۔ وہ اب اس طرح کے مطالبات سے نالاں ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہی قربانیاں دینے کے لیے رہ گئے ہیں، باقی امیر طبقہ تو امیر سے امیر ہوتا جا رہا ہے۔تاہم، اس معاملے کے دوسرے اور اہم ترین پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جو بویا تھا، وہ کاٹنا ہی پڑے گا۔

اسی سے یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیا ہم قرضوں ہی پر گزارا کرتے رہیں گے۔ اِس مرتبہ بجٹ کا سب سے بڑا حصّہ، جو تقریباً چار ہزار ارب روپے بنتا ہے، قرضوں اور سود کی ادائی میں جائے گا۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ان میں آمریتیں،جمہوری حکومتیں اور آج کے الفاظ میں ہائبڑد حکومتیں سب ہی شامل ہیں۔یہ ساری حکومتیں قرض لیتی رہیں۔ بار بار آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے آگے ہاتھ پھیلایا۔ یہ قرض آج ہزاروں ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں بتایا کہ یہ قرض مارچ تک53.5 کھرب روپے پر پہنچ چکا تھا،جس میں عمران حکومت نے 80 فی صد اضافہ کیا۔ 

ماہرین کے مطابق مُلک قرضوں میں بُری طرح جکڑ چکا ہے اور اس کے نتائج نسلیں بھگتیں گی۔جب کوئی بھی حکومت اسے اُتارنے پر آئے گی،تو ساری جذباتیت اور جوش دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ تقاریر اور جلسوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا ہوگا۔بہتر ہے اب صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے کمر کس لیں کہ دوست ممالک مزید قرض دینے سے گریزاں ہیں۔بلاشبہ، یہ تمام حکومتوں کی نا اہلی ہے،جو قوم کو اِس حالت تک پہنچایا کہ آج سری لنکا جیسے دیوالیہ ہونے کا خوف پھیل رہا ہے۔

لفظ ڈیفالٹ کا معاشی بحث مباحثوں میں عام استعمال ہو رہا ہے،لیکن اس سب کے باوجود معیشت حکم رانوں کا فوکس بنی اور نہ ہی عوام کو کبھی یہ خیال آیا کہ یہ قرض کی مے جو پی رہے ہیں، اس کا نشہ ایک دن سرچڑھ کر بولے گا۔ ہمارا ماضی یہ ہے کہ ہر فرد اپنی خوش حالی اور قومی ترقّی کے راگ الاپتا اور اس جھوٹی اور پُرفریب صُورتِ حال کوترقّی کہہ کر فخر کرتا رہا۔اگر کوئی دوسرے ممالک کی سادگی، معاشرتی کنٹرول اور معاشی جدوجہد کی جانب توجّہ دلاتا، تو اُسے احمق، لا علم، غدّار، مُلک دشمن جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔یہ رویّہ حکومت ہی نہیں، عام افراد اور اہلِ دانش کا بھی تھا، جنہوں نے قوم کو حالات سے آگاہ کرنے کے بجائے خوابوں اور سراب میں رکھا اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ سب ٹھیک ہی نہیں، بہت ٹھیک ہے۔ 

ہم ساری دنیا میں یکتا اور سب سے زیادہ قابل اور ترقّی یافتہ ہیں۔اپنی زبوں حالی پر کسی نے توجّہ دلائی، تو اسے کسی قابل نہ سمجھا گیا۔ جو جھوٹی آس، امیدیں بندھاتے اور خوش حالی کے نغمے سناتے رہے،اُنھیں اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ چھوٹی چھوٹی، عام سی کام یابیوں کو عالمی ریکارڈ کے طور پر پیش کرتے اور اسے مثبت اپروچ کہتے۔ایسے ہر دوسرے شخص کو لیجنڈ کا خطاب یہ جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے، عطا کیا گیا۔ قوم خواب دیکھتی رہی، اب مُلک کی 75 ویں سال گرہ پر اس کے خواب ٹوٹے ہیں،مگر اب بھی غنودگی کی سی کیفیت ہے، خواہش ہے کہ پھر آنکھیں بند ہوجائیں اور ہر طرف خوش حالی آجائے۔

یہ تو طے ہے کہ آج ہم غیرمعمولی معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔دبائو کبھی کبھی ناقابلِ برداشت محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر غریب طبقے کی حالت تو بہت ہی خراب ہوچکی ہے،لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مُلک دیوالیہ ہونے کے قریب نہیں ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آرام سے بیٹھ جائیں۔ سب سے اہم چیز، جس کا گزشتہ دور میں بار بار ذکر ہوا، گورنینس کا معاملہ ہے،جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی حکومت نے بجٹ تو دے دیا، تاہم اب اس پراس طرح عمل درآمد کرنا ہوگا کہ عوام کو کم سے کم تکلیف ہو۔ ایک اور بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ سیاست کچھ بھی ہو، لیکن مُلک کو معاشی گرداب سے نکالنے کی ذمّے داری سب کی ہے۔ حکومت، عوام، اپوزیشن اور تمام اداروں کو اس میں حصّہ ڈالنا ہے۔ملکی معیشت کو ٹرن راؤنڈ کرنا صرف عوام ہی کے تعاون سے ممکن ہوگا۔ نیز، تاجروں کا کردار بہت اہم اور بنیادی ہے، جنھیں بجٹ میں خاصے حوصلہ افزا پیغامات دیے گئے۔

سرکاری ملازمین کو صرف تن خواہوں کے بڑھانے کی خوشی ہی نہیں منانا چاہیے بلکہ اب پوری تن دہی سے کام بھی کرنا چاہیے،کیوں کہ وہی گورنینس کے ستون ہیں۔ اداروں اور ان کے کرتا دھرتائوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر معاشی مضبوطی نہیں آئی، تو خود اُن کو بھی لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کام تو دور کی بات، دفتر جانے کے لیے پیٹرول تک میّسر نہ ہوگا۔ پارلیمان سب سے اہم ہے لیکن انتظامیہ، الیکشن کمیشن، میڈیا، عدلیہ، فوج سب ایک ہی گاڑی کے پہیّے ہیں۔ اگرسب یہ احساس رکھتے ہوں کہ مُلک کو مشکل سے نکالنے میں ان کا تعاون اور جدوجہد ضروری ہے، تو قومی منزل آسان ہوجائے گی۔

اہلِ دانش اور میڈیا کی ذمّے داریاں بتانے کی ضرورت نہیں کہ اگر وہ اِس معاملے میں اپنے کردار کی اہمیت سے واقف نہیں، تو پھر مُلک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ مشکل ہی نہیں، بہت ہی مشکل فیصلوں کا وقت ہے۔ یہ فیصلے دو قسم کے ہیں۔اول، ٹھوس معاشی فیصلے۔ عوام کا کیا ذکر، خواص اور اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی یہ معاملہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج تو آئی ایم ایف کا ہے، جس نے قرض دینے کے لیے کڑی شرائط عاید کی ہیں۔آئی ایم ایف کے پاس جانا کوئی خوشی کی بات نہیں اور نہ ہی اس کا دیا گیا قرض ہماری ضروریات پورا کرسکتا ہے۔

جس کے قرض اور سود ہی اربوں ڈالزر میں ہوں، وہاں آئی ایم ایف کے ڈیڑھ، دو ارب ڈالر کی کیا وقعت، لیکن اس سے قرض ملنا دراصل ایک طرح کی گارنٹی ہے، جو بین الاقوامی مالی ساکھ کے لیے ضروری ہے۔ اس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اعتماد ملتا ہے کہ ہم لین دین کے قابل ہیں اور دنیا کی معیشت کا حصّہ ہیں۔ گو یہ چھوٹی سی بات لگتی ہے، مگر درحقیقت ہے بہت بڑی، لیکن اس کے لیے آئی ایم ایف کی وہ شرائط ماننا پڑتی ہیں، جو کسی بھی حکومت اور اس کے عوام کے لیے انتہائی ناگوار ہوتی ہیں، لیکن اس ناگواریت کے اظہار سے پہلے یہ تو سوچ لیا جائے کہ اس قوم نے اس مرحلے تک پہنچنے میں کیا کیا غلطیاں نہیں، بلنڈرز کیے۔ 

توانائی،خورو و نوش اور عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بہت مشکل فیصلہ ہے۔خاص طور پردرآمدی اشیاء کا معاملہ اہم ہے۔ اس فہرست میں تیل، کھانے کا تیل، بجلی، گیس، ایل این جی، گندم، چائے، سبزیاں، الیکڑانک کا سامان، موبائل فونز، گاڑیاں، موٹر سائیکلز، کاغذ وغیرہ شامل ہیں۔ایسی صورت میں مشکل فیصلہ یہی ہوگا کہ درآمدی اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم بڑی بڑی گاڑیوں،الیکٹرانک کے سامان، موبائل فونز، اسّی ارب ڈالر سالانہ کی چائے کم کرنے کو تیار ہیں؟دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ میں چینی کی کمی ہوگئی، تو وزیرِ اعظم چرچل نے اپیل کی کہ قوم چائے میں دو کے بجائے ایک چممچ چینی استعمال کرے۔

لوگوں نے چینی کا استعمال ہی بند کردیا۔ مہینے دو مہینے بعد چینی اتنی وافر مقدار میں جمع ہوگئی کہ چرچل کو کہنا پڑا کہ اب معمول کے مطابق چینی استعمال کی جاسکتی ہے۔ہم ایسے جذبات کا ذکر تو بہت کرتے ہیں، لیکن ان کا عملی مظاہرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔چینی انتہائی نقصان دہ ہے اور ہر پانچواں آدمی شوگر کا مریض ہے، لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی حکومت اس کے استعمال میں کمی کا مطالبہ کرے۔150 روپے کلو ہوگی، تب بھی خریدیں گے، چاہے بلیک یا غیرقانونی ذریعے ہی سے کیوں نہ ملے۔ حکم رانوں سے لے کر مِڈل گھرانوں تک میں بڑی گاڑی اسٹیٹس سیمبل بنا ہوا ہے۔

گاؤں تک میں بڑی گاڑی نظر آتی ہیں۔کینیڈا سے آنے والے ہمارے ایک دوست نے یہ صُورتِ حال دیکھ کرکہا’’ اگر تین سو روپے لیٹر پیٹرول ہوجائے، تب بھی یہ قوم اسی طرح کی گاڑیوں میں سیر کرے گی۔‘‘حکومت کے لیے پیٹرول کی قیمت بڑھانا مشکل فیصلہ تھا، لیکن لوگوں کا مشکل فیصلہ اس کے استعمال میں کمی لانا ہے۔ کوئی بھی حکومت آجائے، اگر اُسے عوام کا یہ تعاون نہ ملے، تو اچھی سے اچھی اقتصادی پالیسی بھی کام یاب نہیں ہوسکتی۔اس امر پر غور کی ضرورت ہے کہ مشکل حالات میں عوامی رائے کو کس طرح منظّم کیا جائے کہ وہ قومی معاملات میں بہتر کردار ادا کرے۔

اگلا سوال جو حکومت، ماہرین اور قوم کے ہر فرد کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم ہر چیز درآمد کیوں کرتے ہیں؟ گندم ،چینی،چائے،کھانے کا تیل، سبزیاں، ڈرائی فروٹ سب کچھ باہر سے آتا ہے۔ ہمارے مُلک کی بیش تر آبادی دیہات میں رہتی ہے، وہ خود اپنے لیے اور ہم وطنوں کے لیے گندم پوری نہیں کر پاتی،حالاں کہ زراعت پر ٹیکس بھی نہیں۔ یوکرین جیسا چھوٹا سا مُلک، جسے روس سے آزاد ہوئے بمشکل تیس سال ہوئے ہیں اور جس کی آبادی چار کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، دنیا میں گندم اور کھانے کا تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اِس سال وہاں اتنی گندم ہوئی کہ ذخیرہ اور برآمد کرنے کی گنجائش کم پڑ گئی۔ ہم بھی وہاں سے گندم لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹینک بھی خریدتے ہیں۔ وہاں جنگ بھی ہورہی ہے اورفصلیں بھی ہو رہی ہیں۔اِسی طرح کوریا، تائیوان، ویت نام،یہاں تک کہ بنگلا دیش کی برآمدات دو سو ارب ڈالرز کی ہیں، جب کہ وہ اپنی ضروریات بھی پوری کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، ہر چیز میں ریکارڈ توڑنے کا چرچا ہوتا ہے، مگر جب حساب لگائیں، تو ہر چیز قرض سے درآمد کر رہے ہیں۔شاید اِس بات کا احساس بھی ختم ہوچکا ہے کہ یہ ساری چیزیں قوم خود کو گروی رکھ کر حاصل کر رہی ہے۔

ہم دنیا بھر کے تنازعات کا ٹھیکا لیا ہوا ہے اور ان میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہیں، لیکن اپنے لیے گندم اور چینی تک پوری نہیں کرسکتے۔کبھی ہمیں غلامی سے آزادی چاہیے،کبھی کسی تنازعے کا مقدمہ لڑنا ہماری منزل ہے۔ ساری انرجی اسی میں صَرف ہوگئی۔ہم ایسی حکومت کیوں نہیں لاتے، جو ان مسائل کا حل تلاش کرے۔ قرضے وہ قومیں لیتی ہیں جن کے حکم ران نا اہل ہوں اور وہ یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ قوم اُن سے اپنے مسائل کے مداوے کا مطالبہ ہی نہیں کرتی۔ غربت، جہالت، صحت، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ترقّی کی کمی کا ذکر تو بہت ہے، لیکن مسائل حل کون کرے گا۔ 

کرپشن، کرپشن تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ناسور معاشرے میں ہر سطح پر موجود ہے۔ بس یہ کہہ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ فلاں فلاں نے قوم کو تباہ کردیا اور خود کا کیا کردار رہا، اس پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں۔تُرکیہ نے دس سال قبل آئی ایم ایف کے سارے قرضے چُکا دیے تھے۔ بنگلا دیش کا ٹکا آج 88 فی ڈالر پر ہے اور وہ ایشین ٹائیگر بننے کی طرف بڑھ رہا ہے،جب کہ ہم آئی ایم ایف کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

معاشی ماہرین، تجزیہ نگار، سیاسی گرو اور ریٹائرڈ افسران سال بھر تبصرے، تجزیے اور پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں، لیکن بجٹ وہ دستاویز ہے، جس سے واضح طور پر پتا چل جاتا ہے کہ مُلک نے سال بھر کس طرح چلنا ہے۔