• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
حالیہ امریکی دستاویز نے پاکستانی سیاست اور ریاست کو جس حد تک پریشان کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے سیاست میں ابال بیٹھ نہیں رہا اور ایک ایسی صورتحال ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک پرانے حلیف اور دنیا کی مضبوط ترین ریاست سے روزانہ کی لڑائی نہ ہی ریاست اور نہ ہی سیاست کے مفاد میں ہے، پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے اندر سیاست کرنی ہے، موجودہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کو ہٹانے کیلئے اتحاد کا نتیجہ ہے جس میں درجن بھر جماعتیں ہیں اور انہوں نے ایک سال کے اختتام پر بکھر جانا ہے، شاید وزراء کی فوج ظفر موج آئندہ الیکشنز کے بعد دیکھنے کو نہ ملے جو بری بات نہ ہوگی، یہ معاملہ ایک سے زیادہ مرتبہ قومی سلامتی میں زیر بحث آیا اور اتفاق ہوا کہ یہ دستاویز پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، دھمکی دینے والا ملک امریکہ ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے ملک کو ایسی سنگین دھمکی نہیں دینی چاہئے، جیسا یہاں ہوا، عمران خان نے اس موضوع پر ملک بھر میں کم و بیش درجن بھر جلسے کئے اور اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے دیکھنے کی اپیل کی، وہ اس معاملہ کو قومی غیرت اور حمیت پر ایک حملہ تصور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو اس سازش کا حصہ بنے انہیں جواب دینے کا موقع ملے کہ انہوں نے جو کردار ادا کیا اس کی کیا وجوہات تھیں، مقصد تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنا تھا کیونکہ معیشت ٹھیک کام نہیں کر رہی تھی یا عمران خان کی دوسری ٹرم کا راستہ روکنا تھا، معیشت ایک بہانہ تھی تمام شہادتوں کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ حکومت اگر اس کے ہاتھ صاف ہیں تو اس معاملہ پر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے کمیشن بنوا دیتی مگر حکومت نے تاحال ایسا نہیں کیا ہے اور ان کا کمیشن بنوانے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا، بڑی طاقتوں کی ایسی برخورداری ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، اس نئی حکومت نے نہ ہی فارغ ہوتی حکومت کی قومی سلامتی کونسل کے متفقہ فیصلہ کی قدر کی اور نہ ہی بھرپور عوامی احتجاج کے جواب میں عدالتی کمیشن بنایا، قومی سطح کے ان دو معاملات پر حکومتی ردعمل تکبرانہ ہے، حالانکہ حکومت کرنے کیلئے ان کے پاس صرف 12 ماہ باقی ہیں ، کیا حکومت کمیشن اس لئے نہیں بنا رہی کہ اسے خوف ہے کہ اس کی کارکردگیوں کا پول کھل جائے گا، معاملہ زیادہ پرانا بھی نہیں اور اس کے اثرات نے ملک کو مزید تقسیم کر دیا ہے لہٰذا اس پر عدالتی کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب نہ ہوں، پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت بلاوجہ امریکہ سے تعلقات خراب نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ملک کئی سیاسی اور عسکری حوالوں سے امریکہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، پاکستان کو امریکہ سے مختلف چیپٹرز کے تحت مالی امداد ملتی ہے اور افواج پاکستان مختلف ٹریننگ پروگرامز کے تحت امریکی امداد سے مستفید ہوتی چلی آرہی ہے، دھمکی آمیز خط کی تہہ تک پہنچنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، خط جونیئر سطح کے کسی اہلکار کی سوچ بھی ہوسکتی ہے جسے شاید اوپر والوں کی حمایت حاصل نہ ہو تاہم اس مراسلہ میں جس طرح کی حکمرانہ زبان استعمال کی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کافی اونچی سطح کے لوگ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت سے خوش نہیں ہیں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اہم ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خود مختار ہیں اور وہ ہمیشہ ریاست کے مفاد میں کام کرتے ہیں، یہ سب کچھ درست مانتے ہوئے ان اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کا انصاف اس معاملہ میں بھی وہ کچھ ڈیلیور کرتا نظر آئے جس سے لوگ ان سے توقع کر رہے ہیں، سپریم کورٹ افواج پاکستان کے بعد دوسرا ادارہ ہے جس کی طرف عوام ہیجان اور تکلیف کے وقت دیکھتے ہیں، ایک ایسا عمل جس کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہو گئی جسے قومی سلامتی کونسل بھی نہایت معیوب کہہ چکی ہے اور ایک ایسا عمل جس نے ملک کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے، سے زیادہ کیا اہم واقعہ ہوگا جس پر سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے کر قوم کو ریلیف مہیا کرے گی، ایک سنجیدہ سوال ہے جس کا جواب آنا قومی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کئی بار حالیہ دنوں میں ملک کے اندر پائے جانے والے عدم استحکام کا ذکر کر چکے ہیں اورلگتا ہے کہ حکومت مخالف احتجاج ان کو بھی پریشان کئے ہوئے ہے جس کے حل کے لئے ان کو زیادہ دور دیکھنے کی ضرورت نہیں، تاہم ان کی کمیشن کے حوالہ سے خاموشی کئی سوال پیدا کر رہی ہے اور لوگوں کو زبان کھولنے کا موقع مل رہا ہے، کمیشن بن جانے کی صورت میں زخم سےکانٹا نکل جائے گا اور وکلاء اور متعلقہ جج صاحبان ایک پراسس کے ذریعہ معاملات سلجھانے کی طرف بڑھنا شروع ہو جائیں گے یہ معاملہ جس طرح لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے اس کا حل تلاش کئے بغیر اسے ختم کر دینا کسی کے بس میں نہیں۔ اگر سپریم کورٹ خاموش رہتی ہے تو لوگ اس ادارہ پر بھی انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں گے، انصاف کی فراہمی اس ادارہ کی ذمہ داری ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں کئی جلسے کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومت گرانے کے پرپیچ سوال پر عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے بیانیہ پر یقین رکھتی ہے اور جب تک عدالت عالیہ اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر لیتی کہ حکومت گرانے کی سازش کس طرح ہوئی اور اس پلان پر کس طرح عمل ہوا لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سوال سے پیچھے نہیں ہٹے گا، ماضی کے کئی میمو اسکینڈلز کی نسبت یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں امریکہ اور اندرون ملک کے کئی اہم کردار ملوث ہیں، ایک ایسا واقعہ ہے جس کو اسٹیبلشمنٹ کے اہم ترین سیکورٹی ادارے کی حمایت حاصل ہے۔ حکومت اور سپریم کورٹ کی عدالتی کمیشن پر خاموشی ان کی نیتوں پر سوال اٹھاتی ہے، یہ تمام حقائق متقاضی ہیں کہ اس معاملہ کی کھلی سماعت ہونی چاہئے تاکہ قوم سچ جان سکے۔
یورپ سے سے مزید