کراچی(رفیق مانگٹ) بھارتی بینکنگ تاریخ میں 9کھرب 30ارب66کروڑ روپے (34615کروڑ بھارتی روپے) کا اب تک سب سے بڑا فراڈ سامنے آیا ہے، یہ فراڈ سرکاری ملازمین اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر کیا گیا۔ہندوستان کے سب سے بڑے بینک فراڈ کیس میں، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے دیوان ہاؤسنگ فنانس کارپوریشن لمیٹڈ (ڈی ایچ ایف ایل)، اس کے سابق پروموٹرز کپل ودھاون اور دھیرج ودھاون کے خلاف تازہ مقدمہ درج کیا ہے، جو پہلے ہی عدالتی حراست میں ہیں،ان دونوں بھائیوں پرایک بینک کے ساتھ فراڈکا الزام نہیں بلکہ نوکھرب روپے سے زائڈ کا فراڈ17 بینکوں کے ایک گروپ کے ساتھ کیا گیا جس کی قیادت یونین بینک آف انڈیا کر رہا تھا۔ بھارت میں اس سے قبل کا سب سے بڑا فراڈ کیس اے بی جی شپ یارڈ کے خلاف چھ کھرب 14ارب روپے( 22842 کروڑ بھارتی روپے) کا ہے۔ بینک کا الزام ہے کہ کمپنی نے 2010 اور 2018کے درمیان کنسورشیم سے جو قرض لیا، وہ مئی 2019 کے بعد سے لوٹانا بند کردیا۔ سی بی آئی نے 11 فروری 2022 کو بینک سے موصولہ شکایت کی بنیاد پر کارروائی کی،کیس درج ہونے کے بعد ایجنسی کے 50 عہدیداروں نے ممبئی میں 12 مقامات پر تلاشی لی۔ ایجنسی نےڈی ایچ ایف ایل، اس وقت کے سی ایم ڈی کپل ودھاون، ڈائریکٹر دھیرج ودھاون اور 6 ریلٹی کمپنیوں کے خلاف کیس درج کیا ہے۔ بینک نے اپنی شکایت میں آڈٹ فرم کے پی ایم جی کی جانچ کے نتائج کا بھی ذکر کیا تھا۔ آڈٹ فرم نے اخذ کیا تھا کہ اس معاملے میں قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھا گیا، اکاؤنٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور غلط اعداد و شمار سامنے رکھے گئے۔ ڈی ایچ ایف ایل کے پروموٹرس کپل ودھاون اور دھیرج ودھاون پہلے سے ہی جیل میں ہیں۔ دونوں کو یَس بینک کے ساتھ فراڈ کے معاملے میں سی بی آئی اور ای ڈی کے کیس کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے یَس بینک کے شریک بانی رانا کپور کے ساتھ مل کر یَس بینک کے ساتھ فراڈ کیا۔ رپورٹ کے مطابق جب جنوری 2019 میں ڈی ایچ ایف ایل کو فنڈز کی خوردبرد کے الزامات پر میڈیا رپورٹس کے بعدتحقیقات کا سامنا کرنا پڑا، تو قرض دینے والے بینکوں نے یکم فروری 2019 کو ایک میٹنگ کی، اور کے پی ایم جی کو یکم اپریل 2015 سے 31 دسمبر 2018 تک کے خصوصی جائزہ آڈٹ کے لیے مقرر کیا۔سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ باندرہ بکس کے سلسلے میں منظوری اور فنڈ کی تقسیم کپل کی منظوری سے کی گئی تھی۔باندرہ بکس کے نام سے جانے والے قرضوں کو ایک الگ ڈیٹا بیس میں رکھا گیا تھا اور بعد میں دوسرے بڑے پروجیکٹ لون (OLPL) کے ساتھ ضم کیا گیا تھا۔ DHFL اکاؤنٹس کے آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی نے مبینہ طور پر مالی بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا، فنڈز کو موڑ دیا، من گھڑت کھاتے بنائے گئے ، دونوں بھائیوں کے اثاثے بنانےکے لیے عوامی پیسے کا استعمال کیا۔بینکوں نے 18 اکتوبر 2019 کو دونوں بھائیوں کے خلاف ایک لک آؤٹ سرکولر بھی جاری کیا تاکہ انہیں ملک چھوڑنے سے روکا جا سکے۔کھاتوں کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ ڈی ایچ ایف ایل کے پروموٹرز کے ساتھ اشتراک رکھنے والے 66 اداروں کو اربوں روپےتقسیم کیے گئے،اس طرح کے اداروں اور افراد کے زیادہ تر لین دین زمین اور جائیدادوں میں سرمایہ کاری کی نوعیت میں تھے، کروڑ روپے کی ادائیگی بینک اسٹیٹمنٹس میں ناقابل شناخت تھی ۔ ڈی ایچ ایف ایل، اس کے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹوز نے یہ بات برقرار رکھی کہ وہ مختلف ذرائع سے کمپنی پر دباؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہاؤسنگ لون کے پول کو سیکیورٹائزیشن، پروجیکٹ لون، کمپنی میں پروموٹرز کے حصص کی تقسیم۔ قرض دہندگان کوجھوٹی یقین دہانی کروانے کے بعد، DHFL نے مئی 2019 میں قرضوں پر سود کی ادائیگی میں تاخیر کی جو اس کے بعد جاری رہی۔