کراچی نے تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنی ایک الگ پہچان بنالی۔ دہلی لکھنئو کی تہذیب کے رنگ حیدرآباد دکن اور امروہہ کے رنگ غازی پور اور بریلی کے رنگوں کے ساتھ سب اردو بولنے والے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب کے جتنے رنگ تھے، کراچی ان تمام رنگوں کو اپنی ثقافت میں سمیٹے ہوئے تھا، گلیوں گلیوں میں مشاعرے، قوالیاں ہوا کرتی تھیں، میلاد شریف کی محفلیں سجائی جاتی تھیں، محرموں میں مجالس ہوا کرتی تھیں، شیعہ سنی تازیوں کے جلوس ساتھ نکالا کرتے تھے میں بھی بچپن میں ان جلوسوں میں شامل ہوا کرتا تھا ’’نیٹی جیٹی دور ہے جانا ضرور ہے۔‘‘
نیٹی جیٹی آج بھی موجود ہے لیکن مشترکہ نعرہ نیٹی جیٹی دور ہے جانا ضرور ہے، کہیں گم ہو گیا ہے میں آج کے کالم میں امروہہ سے ہجرت کرکے انے والے ایک ادبی گھرانے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے اپنی اعلیٰ تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے، یہ مشہور شاعر ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر شعیب احمد عباس المعروف شعیب حزیں کا خاندان ہے شعیب صاحب تقسیم سے پہلے دہلی ریڈیو سے وابستہ تھے ہجرت کے بعد لاہور ریڈیو اور کوئٹہ ریڈیو سے بھی وابستہ رہے آخر میں وہ اپنے شہر کراچی ریڈیو سے بھی وابستہ ہوگئے۔
1972ء میں شعیب حزیں ہم سے بچھڑ گئے لیکن اپنی تہذیبی ادبی اور ثقافتی اقدار اپنی اولاد میں منتقل کرگئے ان کے ایک بیٹے زبیر عباسی نے ابتداء میں شاعری بھی کی پھر وہ صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ ایک دور میں زبیر عباسی کبیر پیرزادہ اور میری صحافتی زندگی ایک ہی سمت سفر کر رہی تھی۔ کبیر پیرزادہ کے انتقال کے بعد زبیر عباسی ڈرامہ نگاری کی طرف چلے گئے اور ایک معتبر ڈرامہ نگار کی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔
کئی سال پہلے وہ بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ شعیب حزیں کی ایک صاحبزادی سیما غزل ہیں ان کا بنیادی حوالہ افسانہ نگاری ہے پھر وہ کافی عرصہ ایک ڈائجسٹ کی مدیرہ بھی رہیں۔ آج سیما غزل ملک کی اہم ڈرامہ نگار ہیں۔ چند سالوں سے وہ شاعری کی طرف بھی توجہ دے رہی ہیں۔ اکثر مشاعروں میں بھی ان سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن ان کی پہلی اور آخری پہچان ان کی ڈرامہ نگاری ہے۔
شعیب حزیں کی ایک اور صاحبزادی نسیم نظامی بھی ڈرامہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ شعیب حزیں کی ایک بیٹی حجاب عباسی بھی ہیں جنہوں نے افسانے بھی لکھے چند ڈرامے بھی لکھے لیکن ان کا پہلا اور آخری حوالہ ان کی شاعری ہے۔ حجاب عباسی کو میں نے ایک آدھ بار مشاعروں میں سنا تھا لیکن ان کی شاعری توجہ سے سننے کا موقع جب ملا جب کئی سال پہلے ملیر ٹائون نے آرٹس کونسل میں میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا تھا، میں کیونکہ تقریبات میں زیادہ شعر سننے کا عادی نہیں ہوں اس لئے میں نے کہا کہ کسی اور شاعر یا شاعرہ کوبھی شامل کریں میں اکیلا ڈیڑھ دو گھنٹے کلام نہیں سنا سکتا۔
میرے کہنے پر انہوں نے حجاب عباسی کواس شام میں شریک کیا میں نے حجاب عباسی سے کہا کہ آج آپ جی بھر کر کلام سنائیں گی کیونکہ میں زیادہ کلام سنانے کے موڈ میں نہیں ہوں وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگیں ان کی حیرت میں وہی اپنائیت تھی جو میں سیما غزل سے پہلی ملاقات میں دیکھ چکا تھا اس شام حجاب عباسی شی شاعری مجھ پر کھلی مجھے حجاب عباسی کی شاعری اور شخصیت مہاجر تہذیب کی آئینہ دار لگتی ہے۔ ان کی شاعری اعلیٰ شعری روایت سے جڑی ہوئی شاعری ہے۔
انہوں نے مشاعرہ باز شاعرات کی طرح مشاعروں کی ضرورت کے تحت شاعری نہیں کی نہ ترنم کا سہارا لیا وہ مشاعرہ لوٹ شاعرات سے الگ اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ بڑے پروقار انداز میں جب مشاعروں میں وہ اپنا سنجیدہ کام سناتی ہیں تو ہوٹنگ کرنے والے سامعین بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اب تک ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ادب کے فروغ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے وہ ایک بہت ہی خوبصورت جریدہ ادب عالیہ بھی باقاعدگی سے شائع کر رہی ہیں۔
شعیب حزیں کے خاندان کا ادب سفر اب تیسری نسل میں منتقل ہو گیا ہے۔ حجاب عباسی کی صاحبزادی ثمینہ اعجاز سترہ سال سے ٹی وی ڈرامے لکھ رہی ہیں ایک سیریل پر انہیں بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے اب تک تقریباً 80ڈرامے لکھ کر وہ اپنی ایک الگ پہچان بنا چکی ہیں۔