• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان اولمپکس اور پی ایس بی میں نیا تنازع کھیلوں کے مفاد میں نہیں

اگلے ماہ بر منگھم میں ہونےوالے کامن ویلتھ گیمز سے قبل پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن میں پی ایس بی کے نئے آئین کے حوالے سے نیا تنازع پیدا ہوگیا ہے جس سے ایک بار پھر ان مقابلوں میں پاکستان کی کارکردگی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، پی ایس بی اور پی او اے کے درمیان 2012 سے شروع ہونے والا تنازع آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے، ملک میں کھیلوں کی ترقی اور اچھے نتائج کے حصول کے لئے ان دونوں اہم کھیلوں کے اداروں کا ایک پیج پر آنا بہت ضروری ہے ورنہ ہم کھیل کے میدان میں مزید پیچھے چلے جائیں گے۔

پی ایس بی کے نئے آئین کو پی او اے نے اولمپکس چارٹرڈ سے متصادم قرار دیا ہے اور اسی لئے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے حکام نے24جون کو پی ایس بی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں شر کت سے انکار کیا، جس پر اجلاس ملتوی کر کے پی ایس بی نے اچھا اقدام کیا، پی او اے کے حکام کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان اسپورٹس بورڈ کے نئے آئین میں ترمیم نہیں کی جائے گی ہم پی ایس بی بورڈ کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔

پی او اے کے سکریٹری جنرل خالد محمود کا کہنا ہے کہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت کو بھی آئین کے حوالے سے اپنے تحفظات کے بارے میں آگاہ کردیا ہے، نئے آئین میں کی جانے والی ترامیم سابق وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے دور میں کی گئی تھی جس پر پی اواے اور کھیلوں کی دیگر فیڈریشنوں نے اعتراضات کئے ہیں۔ 

پی او اے کا موقف ہے کہ نواز شریف کی پچھلی حکومت کے دور میں پی او اے اور دیگر فیڈریشنوں کے بارے میں اولمپک چارٹرڈ کے مطابق اس وقت کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے آئی او سی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ہماری خواہش ہے کہ اس معاہدے کی پاسداری کی جائے، نیا آئین کو اولمپک مخالف چارٹر قرار دیا جارہا ہے، نئے آئین میں پانچ سے چھ شق پر اعتراضات ہیں جن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ 

جس پر عمل کرنے سے پی او اے سمیت کئی فیڈریشنوں کی معطلی کا بھی خطرہ ہے۔ دوسری جانب پی ایس بی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ پی او اے کے حکام اجلاس میں شرکت کریں اور نئے آئین کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں جس کی روشنی میں آئین میں تبدیلی لائی جاسکے۔ دوسری جانب ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظرحکومت نے کامن ویلتھ گیمز میں شر کت کرنے والے پاکستانی دستے کو مکمل سپوٹ اور ان کے اخراجات برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ایک اہم عہدے دار نے جنگ کو بتایا کہ مالی مسائل کی وجہ سے106رکنی دستے کے بجائے75 کھلاڑیوں اور آفیشلز کے اخراجات پی ایس بی برداشت کرے گا، ان کا کہنا ہے کہ ہم دستے میں شامل لوگوں کا جائزہ لیں گے ان کی دستے کے ساتھ موجودگی ضروری ہے یا وہ جوائے ٹرپ پر بر منگھم جارہے ہیں، پاکستان کر کٹ بورڈ نے اپنی خواتین ٹیم کے اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پی ایس بی کے حکام کا کہنا ہے کہ ہماری اولین ترجیح وہ کھلاڑی ہوں گے جن سے میڈلز کی امید ہے، اس کے علاوہ کھلاڑیوں کے ساتھ جانے والے کوچنگ اسٹاف کی اہلیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ 

ٹوکیو اولمپکس گیمز میں یہ شکایت تھی کہ بعض فیڈریشن کے عہدے دار کھلاڑی کے ساتھ کوچ بن کر گئے تھے جس سے کھلاڑیوں کو نقصان پہنچا،ان کا کہنا ہے کہ اگر فیڈریشن کے عہدے دار کوچز کے حوالے سے تسلی بخش جواب دے کر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، پی اسی بی کا کہنا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کو این او سی جاری کرنے سے نہیں روکا جائے گا اگر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن ان کے اخراجات ادا کرنے پر رضامند نظر آئی تو ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ 

دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ دستے میں شامل بعض فیڈریشن نے حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ سے کسی قسم کی مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کی شرکت کے لئے از خود انتظامات شروع کردئیے ہیں، دستے میں شامل بعض عہدے داروں نے اپنے خرچے پر بر منگھم جانے کی پیش کش بھی کی ہے۔ (نصر اقبال)

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید