• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ اقبالؒ کو ملت اسلامیہ کے زوال کا بڑا دکھ تھا۔ انہوں نے اپنے نور بصیرت سے مسلمانوں کو جگانے کی بڑی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال اور غالب میں ایک بات مشترک ہے۔ گو دونوں کی وجہ شہرت ان کا اردو کلام ہے مگر دونوں کا فارسی کلام زیادہ ثروت مند اور پر تاثیر ہے۔ علامہ کے فارسی کلام میں جاوید نامہ ایک اہم کتاب ہے۔

بظاہر انہوں نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کو خطاب کیا ہے۔ لیکن انداز سارے مسلمان نوجوانوں کو خطاب کرنے کا ہے۔ افسوس یہ خوبصورت اور پرتاثیر کلام عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ جو لوگ فارسی بالکل نہیں جانتے لیکن حضرت علامہ کے کلام سے مستفیض ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے ایک آسان تلخیص پیش خدمت ہے علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں تو لوگوں کو اپنی شاعری میں نئی نئی باتیں بتاتا رہتا ہوں میرے دل کا خون ہوگیا لیکن کسی نے ذرا سا بھی التفات نہیں کیا۔

جاوید نامہ میں علامہ اقبال کا فن اپنی معراج کو پہنچ گیا ہے۔ علامہ اپنے تجمل کے زور پر افلاک کی سیر کرتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف آسمانوں پر اترتے ہیں جہاں کوئی نہ کوئی عظیم دانشور پہلے سے براجمان ہوتا ہے۔ علامہ اس سے بڑی دلچسپ اور پرمغز گفتگو فرماتے ہیں۔ ان کی وسعت قلب اور وسعت مطالعہ دیکھئے کہ وہ کسی دانشور سے فیض اٹھانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ 

قدیم ہند کے دو عظیم دانشوروں و شوامتر اور برتری ہری سے بھی مکالمہ کرتے ہیں خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور قارئین کو بھی اس پر لطف گفتگو میں شریک کرتے ہیں علامہ نے افلاک کی بڑی خوبصورت منظرکشی کی ہے۔ جاوید نامہ زماں و مکان کی تسخیر کی ایک خوبصورت کاوش ہے۔ ترجمہ کے متعلق چند باتیں قارئین کے گوش گزار کرتا ہوں۔

ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کرنا۔ زبان کا خون کرنے کے مترادف ہے ہر زبان کا اپنا ذائقہ اور اپنی خوشبو ہوتی ہے جن کے مترادفات اور متبادلات دوسری زبان میں تلاش کرنا دونوں زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ (یوسفی) اپنے عظیم شاعر کے ساتھ۔ بڑے بڑے انصاف نہیں کرسکے۔

……مناجات……

(1)اس رنگا رنگ دنیا میں انسان کبھی خاموش نہیں رہتا۔ یہ سمندر دریا پہاڑ سب ہی گونگے بہرے ہیں۔ میری فریاد کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اتنی بڑی کائنات میں وقت کے سوا اور کچھ نہیں رکھا۔ اے خدا میرا وقت کارآمد اور بامقصد بنا دے آسمان عظمت انسان کو دیکھ کر حیران ہے۔ 

کائنات کے رازوں کا محرم انسان (آدم) ہے۔ اے خدا اپنے دیدار کی لذت سے مجھے محروم نہ رکھ اے خدا اس کائنات کے راز میرے سینہ پر کھول دے۔ اے خدا میرے سینے میں عشق کا شعلہ روشن کردے اے خدا تو نئی نسلوں کے قلوب پر میرے کلام کے معنی روشن کردے۔

……تخلیق……

خدا نے یہ جہاں پیدا کیا۔ قدرت نے اس فضا میں ہزاروں چراغ روشن کردئیے سورج نے آسمان پر ایک خوبصورت خیمہ آراستہ کیا۔ جس کی رسیاں چاندی کی ہیں زمین اس وقت مٹی کا ایک ڈھیر تھی۔ صحرا تھے تو کارواں نہ تھے پہاڑ تھے تو ندیاں نہ تھیں درخت تھے تو پرندے نہ تھے۔ 

آسمان نے زمین کو طعنہ دیا اے زمین تو اپنے اندر دلیری کے اسباب پیدا کر یا ڈوب کر مر جا۔ زمین یہ طعنہ سن کر شرمسار ہوگئی۔ ایک غیبی ندا آئی۔ اے زمین غم نہ کر۔ تیرے اندر ایک عظیم خزانہ (انسان) پوشیدہ ہے۔ ایک دن تو زندگی کے نور سے معمور ہوگی انسان ایک دن اپنے عشق کی قوت سے کائنات کو تسخیر کرے گا۔

معراج کا راز:۔ عشق کو شہر اور آبادی پسند نہیں۔ یہاں اس کا شعلہ سرد پڑ جاتا ہے عشق کو دشت و کسار پسند ہیں یا سمندروں کے ساحل۔ میں سمندر کے کنارے دور تک چلا گیا۔ غروب آفتاب کا منظر اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اندھا بھی بینا ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ میرا دل چاہا… کہ آب حیات کا ایک پیالہ پی لوں۔

غزل:۔ اے محبوب مجھے گلستان دیکھنے کی آرزو ہے۔ اپنا چہرہ میری طرف کردے مجھے مٹھاس درکار ہے۔ اپنے ہونٹ میری طرف بڑھا دے میرے ایک ہاتھ میں جام شراب ہو۔ دوسرے میں تیری زلفیں اس حال میں ہی رقص کرتا رہوں۔

معنی آتش نفس:۔ موج مضطرپانی کے بستر پر لیٹ گئی سورج ڈوب گیا۔ جہاں تیرہ و تار ہوگیا۔ شام نے سورج کے خزانے سے ایک ہیرا چرالیا اور اسے بالائے پام رکھ دیا۔ اتنی دیر میں رومی کی روح نمودار ہوئی چہرہ آفتاب وجود ماہتاب ہونٹوں سے کائنات کے راز افشا ہورہے تھے۔ ایک راز میں نے دریافت کیا۔ موجود اور ناموجود کا کیا مطلب ہے؟

انہوں نے کہا، موجود اپنی نمود چاہتا ہے خود کو ظاہر کرنا وجود کا تقاضا ہے مرد مومن کی صفات الٰہی سے تسلی نہیں ہوتی۔ اسی لئے محمد مصطفے ﷺ نے دیدار الٰہی پر اصرار کیا۔ اے مومن تو صاحب وجود بن جا کہ صاحب وجود ہی محمود ہے ورنہ زندگی بس دھواں ہی دھواں ہے (پریشان اور بے مقصد)۔

میں نے پھر رومی سے پوچھا۔ خدا کے حضور کس طرح جایا جائے۔ ہم تو زماں و مکان کے قیدی ہیں مولانا رومی نے جواب دیا اگر تیرے ہاتھ سلطان آجائے تو زمان و مکان پر قابو پایا جاسکتا ہے اگر تو لالہ الاللہ کی حقیقت سمجھ لے تو سب رازوں پر سے پردے اٹھ جائیں گے۔ جب تو ماں کے پیٹ سے سے باہر آیا تو تیری پہلی پیدائش ہوئی۔ اگر خود کو کائنات کے پیٹ سے باہر نکال لے تو دوسری پیدائش ہوگی۔ 

پہلی پیدائش مجبوری ہے دوسری اختیاری۔ پہلی پیدائش کے بعد تو کائنات کا قیدی بنا۔ دوسری پیدائش کے بعد تو کائنات کے قوانین سے رہائی پالے گا۔ جب کبھی انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے تو ظلم کی دنیا میں زلزلہ آجاتا ہے ذات حق۔ ہر لمحہ ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ ایک شان جلوت میں ہوتی ہے۔ دوسری خلوت میں۔ غقل جلوت کی طرف اور عشق خلوت کی طرف کھینچتا ہے۔ عقل جب کائنات کے راز جاننا چاہتی ہے تو پانی اور بجلی، اینٹ اور پتھر اس پر راز کھول دیتے ہیں گو عقل ذوق نگاہ سے محروم نہیں لیکن اس میں عشق کی سی جرات رندانہ نہیں ہوتی۔ 

عقل چیونٹی کی رفتار سے چلتی ہے۔ اور عشق بجلی کی رفتار سے عشق ماہ و سال کو نہیں جانتا۔ نزدیک اور دور کو نہیں پہچانتا عشق کے سامنے پہاڑ تنکے کی مانند ہیں عشق لامکان سے گزر جاتا ہے۔ عشق کے آگے خیبر کا قلعہ مٹی کا ڈھیر ہے۔ عشق راکھ بھی ہے۔ انگارہ بھی عشق زماں و مکان سے بے نیاز ہے۔ عاشق خود کو خدا کے حوالے کردیتے ہیں عاقل تاویلیں گھڑتے رہ جاتے ہیں۔ اے انسان کائنات کے اسرار پر غور کر اپنی خود کو پہچان۔ زمین و آسمان کی وسعتوں سے نہ ڈر۔ آنکھیں کھول کے دیکھو۔ زمین و مکان اللہ کی نشانیوں میں ایک نشان ہیں۔ زمین و مکان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ حقیقی وجود صرف باری تعالیٰ کا ہے جو دانہ مٹی میں ہے اس کا جوہر کیا ہے۔ ذوق نمو۔

روح کیا ہے جذب و سرور اور سوز و درد کا نام ہے۔ جسم کیا ہے یہ دنیائے رنگ و بو میں رہنے کا نام ہے۔ شعور کیا ہے۔ یہ نزدیکی اور بعد میں امتیاز کرنے کا نام ہے۔ معراج کیا ہے، شعور کو جگانے کا نام ہے۔ حضورپاکﷺ انسان تھے لیکن جب شعور پوری طرح بیدار ہوگیا۔ تو کائنات کی کوئی طاقت آپ کو پرواز سے نہیں روک سکی۔ آپؐ اللہ کے پاس پہنچے۔ شرف ملاقات حاصل کیا۔ پھر زمین پر لوٹ آئے۔

علامہ کو ایک بادل کے ٹکڑے سے آواز سنائی دی۔ میں زروان ہوں۔ پورے عالم پر چھایا ہوا ہوں۔ شاخ پر غنچہ میری وجہ سے پھوٹتا ہے درخت پر طائر میری وجہ سے چہکتا ہے میں زندگی ہوں۔ میں ہی موت ہوں۔ قیامت ہوں۔ دوزخ ہوں۔ جنت ہوں۔ میں حور ہوں۔ میں ہی قصور (محلات) ہوں جس کسی نے لی مع اللہ کہا اس نے میرا طلسم توڑ دیا۔

پھر مجھے ستاروں کا نغمہ سنائی دیا۔ اے پیکر خاک تیری عقل زندگی کا حاصل ہے۔ تیرا عشق کائنات کا راز ہے۔ خدا کے رستے پر چل، نئے نئے جلوے دیکھ، مرد درویش آگ ہے۔ بادشاہ خس و خاشاک ہیں۔ بادشاہ دنیا کو سپاہ سے فتح کرتے ہیں۔ قلندر نگاہ سے۔ بادشاہ قاہری سے۔ درویش دلبری سے۔ یہ زمین و آسمان خدا کی ملکیت ہیں۔ یہ جب تو سارا سفر طے کرلے تو خدا سے مزید زماں و مکان طلب کر۔ اے مسافر قیام سے روح مرجاتی ہے اور سفر سے تازہ ہوجاتی ہے… اس سفر میں زمین دور ہوتی گئی اور چاند نزدیک تر۔ 

چاند کے پہاڑ نظر آنے لگے۔ ہم چاند پر اترے تو وہاں ایک ہولناک خموشی مسلط تھی چاروں طرف ویران پہاڑ تھے۔ نہ سبزہ تھا نہ کوئی پرندہ۔ بادل خشک تھے ہوا تیز تھی۔ زمین مردہ۔ نہ زندگی کے آثار تھے۔ نہ موت کے۔ رومی نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک غار میں داخل ہوگیا۔ اس غار میں ہندوستان کا ایک عارف وشوامتر گوشہ نشین تھا۔ غار کے اندر گھپ اندھیرا تھا وشوامتر کی آنکھیں روشن تھیں۔ بدن ننگا۔ سامنے سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا وشوامتر سے رومی نے میرا تعارف کروایا۔ یہ شخص حق کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ فراق میں خوش رہتا ہے۔ نہ وصال میں۔ وشوامتر نے کہا مادہ رنگوں کا محتاج ہے حق (خدا) بے رنگ ہے۔ اے اقبال بتا دنیا کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ خدا کیا ہے؟

رومی نے جواب دیا۔ انسان تلوار ہے۔ خدا تلوار باز۔ دنیا دھار تیز کرنے والا پتھر ہے مشرق نے حق کو تو دیکھا۔ مگر عالم کو نہ دیکھا۔ مغرب نے عالم کو دیکھا… مگر حق کو نہ دیکھا۔

حق کو دیکھنا بندگی ہے خود کو دیکھنا زندگی

وشوامتر نے کہا… مشرق وجود و عدم وجود کی بحث میں الجھا رہا اس نے فطرت کے راز سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں مشرق کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔ مجھے ایک فرشتے نے بتایا ہے۔ مشرق میں ایک نیا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ مشرق کے راستے لعل و گوہر اگلیں گے۔ اس کے یوسف کنوئوں سے باہر نکلیں گے۔

پھر پیر ہندی (وشوامتر) نے مجھ سے پوچھا۔

عقل کی موت کیا ہے؟ … میں نے کہا ترک فکر

دل کی موت کیا ہے؟ … میں نے کہا ترک ذکر

انسان کیا ہے؟ … میں نے کہا اللہ کا راز

میری باتوں میں پیر ہندی کو مزہ آیا۔

پھر اس نے مجھے نو نکتے سمجھائے۔ ذات حق کے لئے یہ کائنات پردہ نہیں ہے۔ پانی کی سطح غوطہ خور کے راستے میں حائل نہیں ہوتی۔ کسی دوسرے عالم میں پیدا ہونا بڑی خوش قسمتی ہے۔ وقت کیا ہے… یہ وہ مٹھائی ہے جس میں زہر ملا ہوا ہے۔ اے نوجوان کفر موت ہے۔ مردوں سے جہاد کرنا غازی کو زیب نہیں دیتا۔ وہ کافر جس کا دل نور شعور سے بیدار ہے۔ اس مرد مسلمان سے بہتر ہے جو حرم پاک میں سوتا ہے۔

میں نے پھول سے پوچھا۔ اے سینہ چاک ذرا یہ تو بتا تو مٹی سے کس طرح رنگ اور خوشبو حاصل کرلیتا ہے۔ پھول نے جواب دیا جس طرح تو برق خاموش سے آواز سن لیتا ہے۔ تیرا جذب ظاہر ہے۔ ہمارا جذب پوشیدہ اتنا کہہ کے عارف ہندی خاموش ہوگیا اور مراقبے میں چلا گیا اور عالم سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ جب وہ بولتا تھا ذرے طور کی مانند چمکتے تھے وہ خاموش ہوگیا تو طور رہا نہ نور۔

پھر اس جادو بھری فضا میں ایک نازنین نظر آئی۔ اس نے شب بے ستارہ کو منور کردیا۔ اس کی زلفیں اس کی کمر تک لٹکی ہوئی تھیں اس کے حسن سے پہاڑ اور وادیاں چمک اٹھے۔ وہ بے شراب پئے ہی مست تھی۔ اپنے جلوہ جاناں میں غرق تھی۔ اس کے سامنے فانوس خیال گردش کرتا تھا… رومی نے بتایا… یہ حسینہ خدا کے خیال کا پیکر ہے۔ ذوق نمو نے اسے جسم کے پیکر میں ڈھلنے پر مجبور کردیا ہے ہماری طرح یہ بھی غربت نصیب ہے۔ اس کا نام سروش ہے یہ ہوش اڑاتی بھی ہے اور ہوش میں لاتی بھی ہے۔